اس وقت دنیا میں سب سے بڑی جنگ "انسانی حقوق" اور اس سے وابستہ ان تمام مسائل کی ہے جن کی تار کہیں نہ کہیں سے انسانی حقوق سے جڑی ہوئی ہے۔ انسانی حقوق کے ذیلی شعبہ جات پر اگر طائرانہ نظر ڈالی جائے تو سوسائٹی خود مختاری، آزادی اظہار رائے، حقوق نسواں، جان و مال کا تحفظ، تہذیب و تمدن کی بقاء، حق ملکیت، عدل و انصاف، معیشت و تجارت، سیاست و حکومت، مذہبی آزادی، خاندانی نظام، اقلیتوں کا لحاظ، باہمی قرابت و دوستانہ تعلقات وغیرہ اس موضوع کے جزو لاینفک ہیں۔ اسلام نے انسانی حقوق کا جس قدر لحاظ رکھا اور "حق دو" کا درس دیا اس جیسی مثال تاریخ عالم کے کسی بھی مذہب یا شریعت میں نہیں ملتی۔ اس کا عملی و آفاقی نمونہ خطبہ حجۃ الوداع ہے جو ۹ ذوالحجہ ۱۰ھ بمطابق 6 مارچ 632ء بروز جمعہ کو محسن انسانیت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات کے مقام پر ایک عالم گیر خطبہ کی شکل میں ارشاد فرمایا تھا جسے قیامت تک آنے والی نسل انسانی کے حقیقت پسندانہ فکر رکھنے والے مفکرین انسانی حقوق کا بنیادی اور پہلا عالمی منشور مانتے رہیں گے۔
مغرب میں انسانی حقوق کا تصور ارتقاء و تنزل کے کئی منازل طے کر چکا ہے۔ اس کی تاریخی حیثیت سے قطع نظر اس تصور کی بنیادوں کے حوالے سے بات کی جائے تو مغربی دنیا انسانی حقوق کے حوالے سے تین ادوار کو بطور اتھارٹی و سند کے تسلیم کرتے ہیں۔
- پہلا دور تیرہویں صدی عیسوی کا ہے جب 1215ء میں برطانیہ کے وزیر اعظم کنگ جان کے رو برو میگنا کارٹا کے نام سے انسانی حقوق کے متعلق دستاویز پیش کی گئی اور اسے 82 سال بعد تقریبا 1297ء میں کنگ ایڈورڈ اول کے دور میں نفاذی حیثیت ملی۔ مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ کئی اور اس قسم کے چارٹرز تاریخ کا حصہ بنے لیکن اگر یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ اسی میں کئی ترامیم ہوئیں اور دوسرے کئی مغربی ممالک نے مختلف ترامیم کے ساتھ اسے اپنے ملک میں دستوری و قانونی حیثیت دی۔ مثلاً 1628ء petition of rights (حقوق کی عرضداشت) 1689ء میں بل آف رائٹس کے نام سے انسانی حقوق کے حوالے سے قانون سازی ہوئی۔
- دوسرا دور اٹھارہویں صدی کے اواخر کا ہے جب فرانس سے جمہوری انقلاب اٹھا جو عوام کی جانب سے مذہبی شخصیات، بادشاہ اور جاگیر داروں کے خلاف اپنے حقوق طلبی کے لیے نمودار ہوا تھا۔
- جبکہ تیسرا دور 1945ء سے 1948ء تک کا ہے جس میں اقوام متحدہ کی طرف سے "انٹرنیشنل ہیومن رائیٹس چارٹر" متعارف کرایا گیا اور اس پر دنیا کے تقریبا سبھی ممالک نے دستخط کیے۔ جبکہ اسلام میں انسانی حقوق کو "حقوق العباد" کی اصطلاح سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس کی بنیاد وحی ہے، حوالہ کے طور پر قرآن کریم کی سورۃ النساء کی آیت نمبر 36 اور احادیث نبویہ کے ذخیرہ میں سے خطبہ حجۃ الوداع اور حضرت سلمان فارسی اور ابوالدرداء رضی اللہ عنھما کی مواخات کے موقع پر پیش آنے والی صورتحال جسے بخاری شریف، کتاب الصیام حدیث نمبر 1968 کے طور پر امام بخاری نے درج کیا ہے جبکہ ترمذی وغیرہ میں بھی الگ سند کے ساتھ موجود ہے، کو پیش کیا جاتا ہے۔
اگر حقیقت پسندانہ نگاہوں سے غور کیا جائے تو مغربی فکر و معاشرہ انسانی حقوق کے حوالے سے جن تین ادوار کو بطور سند کے پیش کرتا ہے ان کی بنیاد بھی یہی مذکورہ آیت و احادیث بالخصوص خطبہ حجۃ الوداع ہے۔ مغرب نے خطبہ حجۃ الوداع کی شقوں میں کئی تبدیلیاں کرنے کے بعد "انسانی حقوق کا منشور" کے نام سے مختلف ادوار میں نئی دستاویزات تیار کر کے دنیا کے سامنے پیش کیں۔ یہاں اس بات سے قطع نظر کہ انسانی حقوق کے درج بالا تمام ذیلی شعبہ جات اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کن اہمیتوں کے حامل ہیں اور اسلام نے انسانی حقوق کا کتنا پاس رکھا، فقط یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ خود مغربی مفکرین خطبہ حجۃ الوداع کو اپنے عالمی منشور کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔
چنانچہ مشہور مغربی مفکر "لارڈ ایکٹن" خطبہ حجۃ الوداع کے متعلق لکھتے ہیں کہ
"اگر یہ کہا جائے کہ آسمان نے روز و شب کی ہزاروں کروٹیں بدلیں، لیکن انسانیت اور حقوق انسانی کے لیے اس سے زیادہ پُردرد اور پُر خلوص آواز نہیں سنی تو یقیناً اس میں کوئی مبالغہ نہ ہو گا" (بحوالہ محسن انسانیت اور انسانی حقوق ص 115)
لارڈ ایکٹن کا یہ اعتراف اس بات کا کھلم کھلا ثبوت ہے کہ مغرب میں انسانی حقوق کا تصور اسلام بالخصوص خطبہ حجۃ الوداع سے ہی لیا گیا ہے۔ "رابرٹ بری فالٹ" نے اقوامِ مغرب کی تہذیب و ثقافت کے تاریک دور کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے حقائق کے دریچوں سے مزید پردہ سرکا دیا، رابرٹ بری فالٹ لکھتے ہے کہ
"پانچویں صدی سے دسویں صدی تک یورپ میں گھٹا ٹوپ اندھیرے چھائے ہوئے تھے، اور مغربی تہذیب مثل لاش تھی جو متعفن ہو کر گل سڑ چکی تھی، بعد میں مغرب کو نشأۃ ثانیہ کا احیاء مسلمانوں کے اندلس علمی مراکز سے ملا کہ اس سے قبل تو مغرب کے مقتدر ممالک فرانس، اٹلی اور جرمنی میں طوائف الملوکی اور ویرانی کا دور تھا"
رابرٹ کے اس اعتراف سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نشأۃ ثانیہ سے قبل مغرب میں مقتدر ممالک کی تہذیب و ثقافت کا حال بھی ابتر تھا، اور انہوں نے اندلس میں موجود مسلمانوں کے علمی مراکز سے اپنی تہذیب و ثقافت کی بہتری کے گر سیکھے اور اندلس کی تہذیبی شناخت یا مراکز کی علمیت کی بنیاد پیغمبر علیہ السلام سے منسوب وحی ہی تھی۔
مزید اس حوالے سے غیر مسلم سیرت نگار جان بیگٹ المعروف "جنرل گلب پاشا" اپنی کتاب "دی لائف اینڈ ٹائم آف محمد" میں لکھتے ہیں کہ
"مؤرخین نے حضور کے اس تاریخی خطبہ کو محفوظ کر لیا ہے، آپ کا یہ آخری حج اپنی نوعیت میں ایک امتیازی شان لیے ہوئے ہے، آپ نے جو کچھ بھی اس تاریخی موقع پر کہا اس کی پیروی ہمیشہ ہوتی رہے گی" ( دی لائف اینڈ ٹائم آف محمد، مترجم ص 582)
جان بیگٹ کا یہ اعتراف بھی اس حقیقت پر مہر تصدیق ہے کہ مغربی دنیا میں انسانی حقوق کا پیش کردہ عالمی منشور خطبہ حجۃ الوداع سے ہی ماخوذ ہے۔
مغرب اگر خطبہ حجۃ الوداع کو بغیر تبدیل کیے "عمر لاء" کی طرح من و عن نافذ کرتا اور دنیا کے سامنے بے شک اپنے تجربات کی روشنی میں پیش کرتا تو بعید نہیں تھا کہ عالم اسلام بھی اس سے مستفید ہوتا اور دنیائے مغرب سے جڑے ممالک بھی بلا اختلاف و تنقید اس سے وابستہ رہتے۔ اور مغربی دنیا کو 1215ء کے بعد دسیوں بار اس میں ترامیم کی ضرورت بھی پیش نہ آتی۔ لیکن مغرب نے خطبہ حجۃ الوداع کو سامنے رکھ کر اس سے نکات ماخوذ کیے اور انہیں اپنی خواہشات کے مطابق نئے سانچے میں ڈھال کر جب دنیا کے سامنے متعارف کروایا تو خود کئی مغربی ممالک ایک مدت کے بعد اس نئے منشور سے متنفر ہو چکے ہیں۔ اور مغربی مفکرین کے اس چارٹر کے حوالے سے تاریخ کا ریکارڈ بننے والے تجزیے اور تبصرے دلچسپی سے خالی نہیں ہیں۔ چنانچہ ماہر مغربی قانون دان "ہنز کیلسن" لکھتے ہیں کہ
"خالص قانونی نظر سے دیکھا جائے تو منشور کی دفعات کسی بھی ملک پر انہیں تسلیم کرنے اور منشور کے مسودہ یا اس کے ابتدائیہ میں صراحت کردہ انسانی حقوق اور آزادیوں کو تحفظ دینے کی پابندی عائد نہیں کرتی" (the low of united nations London 1950 P. 29 بحوالہ محسن انسانیت اور انسانی حقوق ص 159)
ڈاکٹر رافیل (Raphael) کا بے لاگ تبصرہ بھی ملاحظہ ہو، ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ
"یہ نام نہاد معاشی اور سماجی حقوق کوئی بین الاقوامی فرض عائد نہیں کرتے" (political theory and the righs of man P. 96 بحوالہ محسن انسانیت اور انسانی حقوق ص 160)
مغربی دنیا نے خطبہ حجۃ الوداع سے سرقہ تو کیا لیکن اب وہ سر چڑھ کر بول رہا ہے۔