غزہ پر اسرائیل کا نیا حملہ: فلسطین کا مستقبل کیا ہو گا؟

اگست کے دوسرے عشرے میں قطر اور مصر کی کوششوں سے ایک اور ڈرافٹ سیز فائر کا تیار کیا گیا جو معمولی تبدیلیوں کے ساتھ وہی ڈرافٹ تھے جسے اسیٹووٹکوف نے جولائی میں پیش کیا تھا اور جس میں حماس نے تھوڑی ترمیم کا مطالبہ کیا تھا۔ اب کی بار حماس نے بغیر کسی شرط و ترمیم کے اس کو مان لیا مگر اسرائیل نے یہ کہتے ہوئے اس کو مسترد کر دیا کہ اب ہم حماس کو ختم کر دینے کے بالکل قریب ہیں۔ چنانچہ اس نے اس سیز فائر کو مسترد کر کے غزہ پر مکمل قبضہ کا اعلان کر دیا۔

غزہ میں یہ مذاکرات بار بار صرف نتن یاہو کی ضد کی وجہ سے ناکام ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے دو ملین (بیس لاکھ سے زائد) فلسطینی بھوک اور پیاس سے تڑپ رہے ہیں۔ غزہ میں وحشت ناک حد تک بھک مری، دواؤں کی قلت اور خوراک کی کمی ہو چکی ہے، جس کی وجہ سے بچے اور بوڑھے اور مریض بلک بلک کر جان دے رہے ہیں۔ اقوام متحدہ نے اب باضابطہ غزہ میں بھک مری کا اعلان کر دیا ہے۔ چاروں طرف سے اسرائیل کا محاصرہ ہے۔ چھ ہزار امدادی ٹرک مختلف کراسنگس (رفح بارڈر، معبر کرم ابو سالم، فلاڈلفیا کاریڈور وغیرہ) پر مہینوں سے امدادی سامان لیے اسرائیلی اجازت کے انتظار میں کھڑے ہیں۔ ان پر جو غذائی سامان لدا ہوا ہے وہ اب خراب ہونے لگا ہے۔

یو این او کی امدادی ایجنسی اونروا کا کہنا ہے کہ اس کے پاس کم از کم دو ملین لوگوں کی غذائی ضرورت دو مہینے تک پوری کرنے کا سامان موجود ہے مگر اس کو امریکہ اور اسرائیل امدادی خدمات انجام ہی دینے نہیں دیتے اس بہانہ سے کہ اس کے ذریعہ حماس کے لوگوں تک یہ سامان پہنچ جائے گا۔ اونروا پر حماس کا ساتھ دینے کا یہ الزام سراسر بے بنیاد ہے۔ یہاں تک کہ 26 جولائی کو خود امریکہ کی متعین کردہ تفتیشی ایجنسی نے اونروا کو کلین چٹ دی اور کہا کہ اسے کوئی شواہد نہیں ملے کہ حماس نے بین الاقوامی امدادی سامان کی چوری کی ہو یا اونروا کسی غلط مقصد کے لیے استعمال ہوئی ہو۔ اس کے مقابلہ میں غزہ ہیومینٹیرین ایڈ (GHA) نامی جس ادارے کو امریکہ اور اسرائیل نے سیٹ کیا ہے، وہ غزہ کے لیے لوگوں کے لیے ایک ڈراونا خواب بن چکا ہے۔ وہ وہاں امداد لینے جاتے ہیں اور ان پر اسرائیلی فوجی فائر کھول دیتے ہیں۔ اب تک ایک ہزار لوگوں کو اس طرح سے شہید کیا جا چکا ہے۔ مصر کی شقاوت اور جنرل سیسی کی بدبختی کہ اُس نے اسرائیلی کنٹرول سے باہر واحد کراسنگ رفح بارڈر کو بھی بند کر رکھا تھا۔ اور شیخ الازہر نے اسرائیل کے خلاف اور غزہ کے حق میں جو فتویٰ جاری کیا تھا اُس کو بھی سیسی کے دباو میں واپس لینا پڑا۔

مصریوں کی اس بے حسی و بے غیرتی پر شدید دکھ کا اظہار عرب سوشل میڈیا پر جب شروع ہوا تو سیسی کے خلاف ہیش ٹیگ مہم چلی، نیز مظاہرین نے نعرے لگائے: حکومات عربیۃ یا للعار باعوا غزۃ بالدولار (عرب حکومتیں ہائے ہائے، انہوں نے غزہ کو ڈالر کے لیے بیچ ڈالا) تو شاید مصریوں کو کچھ غیرت آئی اور انہوں نے رفح بارڈر سے 167 امدادی ٹرک غزہ کے اندر بھجوائے جو اونٹ کے منہ میں زیرہ کی مصداق تھے۔ بعض لوگوں نے سمندر میں کچھ اشیاء خورد و نوش پھینکیں۔

دنیا بھر میں، یورپ و امریکہ میں، افریقہ کے عرب مسلم ملکوں تیونس، الجزائر وغیرہ میں لوگ اب بھی بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکل کر آ رہے ہیں، اگر کہیں سکوت طاری ہے تو وہ ہیں ترکی، پاکستان، سعودی عرب، امارات، اردن، بحرین، انڈونیشیا اور ملیشیا وغیرہ۔ قطر اور مصر ثالثی کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

مزاحمت کی قوتوں نے پوری شدت سے اسرائیل کا راستہ روکنے کا اعلان کیا ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ اسرائیل کو پہلے ہی گرین سگنل دے چکا ہے۔ اسرائیل کے اندر جو شدید ردعمل غزہ پر قبضہ کے اعلان کے خلاف نظر آیا وہ کامیاب ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے کیونکہ اس میں بائیں بازو کے اسرائیلی ہیں یا اسرائیلی یرغمالیوں کے کنبے والے۔ اسرائیل کسی پریشر میں نہیں آ رہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ عرب ممالک میں حالات نارمل ہیں بقیہ مسلم دنیا میں سب عیش کی کاٹ رہے ہیں عوام کے دل بس غزہ والوں کے لیے دھڑکتے ہیں مگر وہ کچھ کر نہیں رہے ہیں۔ آذربائیجان (جو مسلم ملک ہے) سے براہ ترکی اسرائیل کو گیس کی سپلائی پورے طور پر جاری ہے۔ یورپی ممالک (جرمنی فرانس، یوکے اور کینیڈا وغیرہ آنے والے ستمبر میں آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی بات کر رہے ہیں) مگر جب کسی ریاست کے مکینوں کا ہی خاتمہ کر دیا جائے گا تو اس کا تسلیم کر لینا چہ معنی دارد؟ اسی کو کہتے ہیں کہ ؏ ’’بہت دیر کر دی مہرباں آتے آتے‘‘۔

اگر یہی ممالک اب سے ایک سال پہلے فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیتے تو اسرائیل پر یقیناً اس کا بڑا پریشر پڑتا۔ اب اس قدم سے اسرائیل کو بہت زیادہ فرق اس لیے نہیں پڑے گا کہ شرق اوسط میں اسرائیل اب خود ایک امپیریل پاور بن چکا ہے۔ نتن یاہو کے حوصلے بڑھے ہوئے ہیں۔ وہ تو اب گریٹر اسرائیل کے اپنے منصوبہ کی طرف قدم بڑھا رہا ہے۔ اب وہ اور اس کے دائیں بازو والے وزیر تورات کے حوالہ سے بات کرتے ہیں۔ نتن یاہو خود کو یہود کا ایک تاریخ ہیرو سمجھتا ہے جس کا ’’روحانی و اخلاقی فرض ہے کہ وہ اسرائیل عظمیٰ قائم کرے‘‘۔ حماس اس کے راستہ کی آخری چٹان ہے۔ جسے خود عرب ممالک اپنی پھسپھسی اور غلامانہ خارجہ پالیسی کے تحت برباد کر چکے ہیں۔ حالانکہ حماس کی اب تک کی تاریخ رہی ہے کہ اُس نے کبھی عرب ممالک کی اندرونی پالیسیوں میں کوئی مداخلت نہیں کی نہ ان کے خلاف کبھی کوئی بیان دیا۔ الٹے سعودی اور اماراتی پیرول پر رہنے والے سلفی مدخلیوں نے زہریلا پروپیگنڈا اس کے خلاف جاری رکھا ہوا ہے۔ شروع میں بعض ایسے بھی شقی، بے شرم اور بے حس تھے کہ حماس کے قائدین کی شہادت پر خوشیاں مناتے تھے! اب لہجہ میں تو تبدیلی آئی ہے، اب بھی غزہ میں جو قتل عام عورتوں بچوں بوڑھوں کا ہو رہا ہے اس کا ذمہ دار یہ بے خبر اور فریب خوردہ لوگ اسرائیل کے بجائے حماس کو بتا رہے ہیں!

اب اسرائیل نے ایک لاکھ ساٹھ ہزار فوجیوں کے ساتھ غزہ پر مکمل قبضہ کے لیے حملہ کر دیا ہے جس کو اس نے Gidion Chariot 2 کا نام دیا ہے۔ جواب میں مزاحمتی فورسز نے حجارۃ داؤد کے ذریعہ ان کا مقابلہ شروع کیا ہے اور انہوں نے گوریلا اور استشہادی سرگرمیاں بھی تیز کر دی ہیں۔ جن میں صہیونیوں کو بھی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے، گو جانی نقصان ابھی کم ہے۔ مگر اسرائیلی بڑے بزدل لوگ ہیں اس لیے ایک فوجی بھی مرتا ہے تو اس کا ماتم ساری قوم مناتی ہے۔ اسرائیل اپنے نقصانات چھپاتا بھی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ دو سال میں اس کے صرف 90 فوجی مارے گئے ہیں۔ لیکن امور فلسطین کے ماہر اور سابق سفیر پروفیسر آفتاب عالم پاشا میڈیا اسٹار ورلڈ کے محمد احمد کاظمی کو بتاتے ہیں کہ انہوں نے جو گنتی کی ہے اس کے حساب سے اسرائیل کے 2500 فوجی اب تک واصل جہنم ہوئے ہیں جبکہ شدید زخمیوں کی تعداد بھی 22 ہزار تک پہنچتی ہے۔ ان میں بہت سے لوگ اپاہج ہیں اور بہت سے نفسیاتی مریض۔ اسرائیلی سماج Introvert (اپنے آپ میں بند اور گم) سماج ہے۔ اس نقصان کا بڑا اثر پڑ رہا ہے۔

نتن یاہو کی سب سے بڑی حمایت امریکہ کے وہ صہیونی عیسائی کرتے ہیں جنہوں نے ٹرمپ کو حصار میں لیا ہوا ہے اور ان کی مرضی کے بغیر وہ ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتا۔ جہاں تک غزہ میں اسرائیل کی نئی فوجی کارروائی کی بات ہے تو پہلے ہی سے 75 فیصد غزہ پر قابض ہے اور اس کو برباد کر چکا ہے۔ اب وہ زیادہ سے زیادہ کیا کرے گا؟ جو باقی ماندہ غزہ بچا ہے اس کو بھی تباہ کر دے گا۔ ٹرمپ اور نتن یاہو کا اصل پلان یہی ہے کہ غزہ کو پوری طرح برباد اور خالی کرا کر قتل عام سے بچے ہوئے لوگوں کو دوسرے ملکوں میں منتقل کر دیا جائے جن میں انڈونیشیا، لیبیا، سوڈان اور صومالی لینڈ وغیرہ سے بات چیت چل رہی ہے۔ اس کے بعد فلسطینی مسئلہ سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا پا لیا جائے گا۔

ایسے میں یہ دیکھنا ہو گا کہ مزاحمتی قوتیں کس طرح مقابلہ کرتی ہیں اور اگر وہ 'عربات جدعون اول' کی طرح اسرائیل کے اس حملے کو بھی ناکام کر دیتی ہیں تو پھر نتن یاہو اپنے منصوبوں میں ناکام ہو جائے گا۔ خدانخواستہ اگر حماس ناکام ہوتی ہے تو پھر لبنان اور شام کی طرح مصر اور اردن کو جان لینا چاہیے کہ اسرائیل کا اگلا ہدف وہی ہوں گے۔ اور اگر اسرائیل ان پر حملہ آور ہوتا ہے تو ان میں اتنا دم خم نہیں کہ اس کا مقابلہ کر سکیں۔ اقوام متحدہ کچھ نہیں کرے گا۔ عرب لیگ مذمت کے بیانات جاری کرے گی، سعودی عرب اور امارات ٹرمپ کی بارگاہ میں فریاد کریں گے اور جواب میں وہ تانا شاہ ان سے مزید دولت بٹورے گا اور ان سے کہے گا کہ اسرائیل نے مغربی کنارے اردن، شام اور لبنان و مصر کے جتنے علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے سیکورٹی کے لحاظ سے وہ اسرائیل کے لیے اہم ہیں لہٰذا ان کو ان علاقوں سے دستبردار ہو جانا چاہیے۔ جیسا کہ وہ Territory for Peace کے بے ہودہ نام سے یوکرین کو مجبور کر رہا ہے کہ اس کے جتنے علاقہ پر روس نے قبضہ کر لیا ہے اب وہ ان پر کمپرومائز کر لے۔

اسی مہینے نیویارک میں ہونے والی سعودی عرب اور فرانس کی مشترکہ ’’فلسطین کانفرنس‘‘ امریکہ کی شدید مخالفت کی وجہ سے اعلامیہ جاری کرنے اور کمیٹیاں تشکیل دینے کے علاوہ کچھ نہ کر سکی اور ٹائیں ٹائیں فش ہو کر رہ گئی۔ کیونکہ دکتور محسن ابو صالح کہتے ہیں کہ ’’اس کے مقاصد اچھے تھے مگر نظامِ عمل کا فقدان تھا‘‘۔

اقبال نے کہا تھا: ؏ ’’ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات‘‘۔ اس دنیا میں طاقت ہی فیصلہ کن قوت ہوتی ہے۔ اہل ایمان کو: ’’واعدوا لھم ما استطعتم من قوۃ‘‘ (انفال: 60) کا حکم اسی لیے دیا گیا تھا۔ موجودہ زمانہ کی مزعومہ روشن خیالی، جدتِ فکر، ترقی اور ریسرچ و ٹیکنالوجی کی تمام تر بلندیوں کے باوجود دنیا جیسی کل تھی ویسے ہی آج بھی ہے۔ بس طاقت کے سورسز اور رسورسز بدل گئے ہیں۔ جو قوم طاقت ور ہے اور طاقت کے سورسز پر قابض ہے اُسی کی حکمرانی ہے۔ یہودیوں نے اس حقیقت کو سمجھا اور تعداد میں بہت تھوڑے ہوتے ہوئے بھی وہ آج بائی پراکسی پوری دنیا پر رول کر رہے ہیں۔ ان کے آگے کھڑے ہونے کے لیے مزاحمتی قوتوں کو بھی اپنے اندر وہی طاقت پیدا کرنی ہو گی۔

بظاہر عرب ملکوں میں کسی بدلاؤ اور انقلاب کی امید بہت کم ہے۔ عرب اسپرنگ کو خلیج کے ثروت مند حکمرانوں نے اپنی مداخلت سے جس طرح سبوتاژ کیا تھا اُس سے عوام میں فرسٹریشن ہے۔ دوسرے یہ کہ یہ ممالک زیادہ تر پولیس اسٹیٹ ہیں۔ البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے اور تاریخ اس پر شاہد ہے کہ انقلاب کبھی بتا کر نہیں آتا، اُس کے لیے بسا اوقات ایک ہی چنگاری کافی ہو جاتی ہے۔ غزہ میں معصوموں کا اتنا خون بہہ گیا ہے کہ عرب عوام اب بھی نہ اٹھے تو پھر ان کو بس امریکہ اور اسرائیل کی بدترین غلامی کے لیے تیار رہنا چاہیے!

غزہ میں جنگ بندی کیوں نہیں ہو رہی؟ — ایک نظر میں

1۔ اسرائیلی سیاسی قیادت کے اہداف

اسرائیل کی موجودہ حکومت، بالخصوص وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو، اپنے سیاسی مستقبل اور اندرونی دباؤ سے نمٹنے کے لیے جنگ کو طول دے رہا ہے۔ نتن یاہو پر بدعنوانی کے الزامات ہیں اور اسے عوامی احتجاجات کا سامنا ہے، اور جنگ کی موجودگی اس کے لیے "قومی سلامتی" کے نام پر سیاسی بقا کا ایک ذریعہ بن گئی ہے۔

2۔ مکمل ہدف کا حصول (حماس کا خاتمہ)

اسرائیل کا سرکاری موقف یہ ہے کہ جنگ کا مقصد حماس کو مکمل طور پر ختم کرنا ہے۔ جب تک یہ ہدف پورا نہیں ہوتا، اسرائیل جنگ بندی کو ایک "ادھورا کام" تصور کرتا ہے۔ تاہم، ماہرین کا ماننا ہے کہ حماس جیسی تنظیم کو مکمل طور پر ختم کرنا زمینی حقائق کے برعکس ایک خواب ہے۔

3۔ امریکی حمایت اور بین الاقوامی دوہرا معیار

اگرچہ دنیا کے کئی ممالک جنگ بندی کا مطالبہ کر رہے ہیں، لیکن امریکہ اب تک اسرائیل کو فوجی امداد بھی فراہم کر رہا ہے اور سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قراردادوں کو ویٹو بھی کرتا رہا ہے۔ یہ عملی حمایت اسرائیل کو جنگ جاری رکھنے کا حوصلہ دیتی ہے۔ اس کو معلوم ہے کہ وہ کتنا ہی انسانیت کے خلاف جرائم کرے فوری طور پر کوئی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔

4۔ حماس کے مطالبات اور اسرائیلی انکار

حماس کی طرف سے مستقل جنگ بندی کے لیے شرائط رکھی گئی ہیں — مثلاً غزہ سے فوجی انخلا، معاشی محاصرہ ختم کرنا اور اسرائیلی جیلوں میں بند فلسطینی قیدیوں کی رہائی — جنہیں اسرائیل فوری طور پر ماننے کو تیار نہیں۔ جبکہ موجودہ سیز فائر مسودہ میں یہ شرطیں بھی حماس نے حذف کر دی تھیں مگر اسرائیل نے پھر بھی اس کو تسلیم نہیں کیا۔

ان وجہوں سے جنگ بندی کی کوششیں بار بار ناکام ہو رہی ہیں۔ اسرائیل اور امریکہ دونوں کی نیت کسی اچھے ارادہ پر مبنی نہیں ہے بلکہ وہ دونوں بس اسرائیلی یرغمالیوں کو حماس کی قید سے رہا کروانا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد لاکھ امریکی وعدوں اور ضمانتوں کے باوجود سب جانتے ہیں کہ اسرائیل فوراً غزہ پر دوبارہ حملے کرے گا اور اپنے اہداف یعنی حماس کا خاتمہ اور یوں فلسطینی جدوجہد آزادی سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔

5۔ خطے میں بڑی طاقتوں کا مفاد

امریکہ، روس اور چین سب ہی اس خطہ میں اپنے مفادات کا حصول چاہتے ہیں مگر ابھی امریکہ کو سب پر اَپرہینڈ ملا ہوا ہے کیونکہ خطہ کی تمام بڑی عرب حکومتیں امریکی چھتری کے نیچے ہیں۔ وہ اگرچہ روس اور چین کے ساتھ بھی تعلقات استوار کر رہی ہیں تاہم امریکہ اپنی فوجی قوت کے ذریعہ بالکل ان کے سروں پر بیٹھا ہوا ہے۔ اس لیے وہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ کسی طور پر امریکہ یا اسرائیل دونوں کے لیے کچھ خطرہ بن سکیں یا ان کی مخالفت ہی کر سکیں۔

امریکہ تو بہت کھل کر اسرائیل کے ساتھ ہمیشہ ہی رہتا ہے مگر روس اور چین دونوں کی پالیسی گومگو کی ہے، وہ نہ کھل کر اس کی حمایت کرتے ہیں اور نہ کھل کر مخالفت۔ مخالفت کرتے بھی ہیں تو بس بیان بازی کی حد تک۔ ورنہ چین سے اسرائیل کو اسلحہ کی سپلائی بڑے پیمانہ پر ہوتی ہے، اور روس کی حمایت بھی اس کو حاصل ہے کیونکہ اسرائیل میں روسی نژاد یہودی بیس فیصد سے بھی زیادہ ہیں۔ ان کے علاوہ خطہ کی دو بڑی معیشتیں سعودی عرب اور امارات میں سے امارات تو کھل کر اسرائیل کے پا لے میں جا چکا ہے۔

سعودی عرب ابھی پس و پیش میں ہے مگر یہ سب جانتے ہیں کہ خفیہ طور پر اس کے تعلقات اسرائیل سے کب کے قائم ہو چکے ہیں، وہ تو عوامی ردعمل کا اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے ردعمل کا خوف ہے جو ابھی سعودی عرب کو اس کا باضابطہ اعلان کرنے سے روکے ہوئے ہے۔ باقی خطہ کے دوسرے چھوٹے ممالک یا تو سعودی کیمپ میں ہیں یا امارات کے دست نگر۔ قطر ان دونوں سے آزاد ہے مگر امریکہ کی بیڑیوں میں کسا ہوا ہے اور ویسے بھی اس کا رقبہ چھوٹا، دفاعی صلاحیت نہ کے برابر لہٰذا اس کی بہت زیادہ تزویراتی اہمیت نہیں ہے۔ البتہ یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ عرب ممالک میں صرف وہی ہے جو کھل کر فلسطینیوں کے حقوق کی بات کرتا ہے اور غزہ پر مسلط اس جنگ کو رکوانے کی مسلسل کوششیں کر رہا ہے۔

6۔ انسانی بحران کو نظر انداز کرنا

غزہ میں بدترین انسانی بحران پیدا ہو چکا ہے، لیکن چونکہ فلسطینیوں کو عالمی سیاست میں انسان نہیں بلکہ صرف "سیکورٹی مسئلہ" سمجھا جاتا ہے، اس لیے انسانی ہمدردی کے تقاضے پس پشت ڈال دیے گئے ہیں۔ بڑی عرب معیشتیں سعودی عرب اور امارات امریکہ پر (اس سے مہنگے معاشی سودے کرنے کی وجہ سے) کچھ دباؤ بنا سکتی تھیں مگر انہوں نے خاموشی کو ہی ترجیح دی ہے۔ سعودی عرب کو غزہ کے انسانوں کی نہیں اپنے منصوبہ ویژن 2030ء کی کامیابی کی فکر ستا رہی ہے اور امارات کو اپنے ملک میں AI (مصنوعی ذہانت) کے منصوبہ کی تکمیل کی فکر ہے!

7۔ ثالثی کی کوششوں میں سنجیدگی کا فقدان

مصری، قطری اور امریکی ثالثی کے باوجود اب تک کوئی پائیدار حل سامنے نہیں آ سکا۔ ہر فریق اپنے مفادات کے مطابق ثالثی کرتا ہے، نہ کہ فلسطینی عوام کی زندگی بچانے کی نیت سے۔ قطر ایک بہت چھوٹا اور کمزور کھلاڑی ہے جو اپنی حفاظت کے لیے بھی امریکہ پر ہی منحصر ہے۔ مصر امریکہ سے زبردست معاشی امداد سالانہ وصول کرتا ہے جو اس کی فوج کی جیب میں جاتی ہے اور فوج ہی ملک پر قابض ہے۔ لہٰذا مصر امریکی خواہشات کے برخلاف نہیں جا سکتا ہے، اور امریکہ خود جانبدار ثالث ہے۔

نتیجہ

عرب اور اسلامی ممالک کی اسرائیل کی مخالفت صرف زبانی جمع خرچ ہے اور عملاً وہ کچھ نہیں کرتے نہ غالباً کرنا چاہتے ہیں۔ اور اس حقیقت کو اسرائیل اور امریکہ دونوں اچھی طرح جانتے ہیں۔ خود اسرائیل کے اندر جنگ کے خلاف جو آوازیں اٹھ رہی ہیں وہ بہت کمزور ہیں اور زیادہ تر بائیں بازو سے تعلق رکھتی ہیں، جبکہ اسرائیلی سماج پوری طرح دائیں بازو کے جنونی صہیونیوں کے زیر اثر ہے جو حقیقتاً تمام فلسطینیوں کو ختم کرنے اور مغربی کنارہ اور غزہ پر اسرائیل کے مکمل قبضہ کی حمایت کرتا ہے۔ اور اس کے دباؤ میں ہی 25 جولائی 2025ء کو اسرائیلی کنیست نے یہ قانون پاس کر دیا ہے کہ مغربی کنارہ کو اسرائیل میں ضم کر لیا جائے۔ اس کوشش کو امریکی صدر ٹرمپ کی پہلے ہی سے حمایت حاصل ہے۔ غزہ میں جنگ بندی نہ ہونے کی بنیادی وجہ صرف "جنگ" نہیں، بلکہ عالمی سیاست، مفادات کی جنگ، اور انسانی جان کی بے توقیری ہے۔ جب تک اس طرز فکر میں تبدیلی نہیں آتی، جنگ بندی کی تمام کوششیں عارضی اور ناکام ہی رہیں گی۔ اب بظاہر جنگ بندی کا زیادہ امکان اس چیز میں دکھائی دیتا ہے کہ حماس اور دوسری مزاحمتی تنظیمیں گوریلا حملوں سے اسرائیلی فوج اور اہداف کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچائیں۔ ایک یہی چیز ہے جو اسرائیلی سماج کو جنگ بندی کے لیے تیار کر سکتی ہے۔

ایک دوسرا امکان یہ ہو سکتا تھا کہ فرانس، انگلینڈ اور دوسرے مغربی ممالک فلسطینی ریاست کو فوراً اور غیر مشروط طور پر تسلیم کر لیں جس سے اسرائیل مزید پریشر میں آئے۔ اور امریکہ خود کسی اور علاقہ میں زیادہ شدت کے ساتھ انوالو ہو جائے۔ بظاہر اب یہ امکان دم توڑتا نظر آ رہا ہے۔ بہرحال مسلم دنیا پر ایسا ہی موت کا سکوت طاری ہے جیسے کبھی

  • حسینؓ کے قافلہ کو تمام مسلمانوں نے کربلا میں بے یارو مددگار چھوڑ دیا تھا،
  • اور جیسے 1492ء میں خلافتِ عثمانیہ جیسی سپر پاور اور مصر کے سلطانوں نے اندلس میں اسلام کی ٹمٹماتی شمع غرناطہ کو بچانے کے لیے کچھ نہیں کیا تھا، جس کو صلیبی بھیڑیوں نے ہر طرف سے گھیر لیا تھا اور اقتصادی ناکہ بندی کر کے ویسے ہی بھک مری کے حالات پیدا کر دیے تھے، جن حالات سے آج اہلِ غزہ دوچار ہیں۔
  • نوے کی دہائی میں بوسنیا میں بھی یہی المیہ پیش آیا تھا جب اس کے دارالحکومت سرائیوو کو مسیحی سربوں نے تین سال تک محاصرہ میں لیے رکھا اور وہاں بھی زندگی بہت مشکل بنا دی تھی۔ بوسنیا کے قائد علی عزت بیگووچؒ خود ایک خندق میں اپنے مجاہدین کے ساتھ ڈٹے ہوئے تھے۔ اس وقت سوشل میڈیا نہیں تھا جب سربرینیکا میں سربوں کے ذریعہ دس ہزار مسلمان نہتے مرد و زن کے بہیمانہ قتل کی واردات بعض بہادر صحافیوں کے ذریعہ دنیا کے سامنے آئی تو نیٹو کو شرم آئی اور پھر انہوں نے سربوں پر بمباری کر کے ان کو مجبور کیا کہ ساراجیوو کا محاصرہ ختم کریں۔

افسوس کہ غزہ کے مسلمان تو یورپ میں بھی نہیں بلکہ عین اسلامی دنیا کے قلب میں ہیں۔ اگر وہ یورپ میں ہوتے تو شاید ناٹو ان کو بچا لیتا مگر وہ عربوں اور مسلمانوں سے گھرے ہوئے ہیں۔ جن کی، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ، اخلاقی صورت حال بالکل وہی ہو گئی ہے جس کا اقبال نے ماتم کیا تھا یہ کہہ کر ؎

قافلہ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں
گرچہ ہے تاب دار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات


(الشریعہ — ستمبر ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — ستمبر ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۹

مدنی مسجد اسلام آباد کا معاملہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ادارہ الشریعہ

مسجد گرانے کے متعلق چند اہم اصولی سوالات
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

اکیسویں صدی میں تصوف کی معنویت اور امکانات
مولانا شاہ اجمل فاروق ندوی

خطبہ حجۃ الوداع اغیار کی نظر میں
مولانا حافظ واجد معاویہ

شہیدِ کربلا حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مظلومانہ شہادت
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

خادمۂ رسول ؐحضرت امِ رافع سلمٰیؓ
مولانا جمیل اختر جلیلی ندوی

سوشل میڈیا کے منفی استعمال کے نتائج
مولانا مفتی عبد الرحیم

خواتین کا مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنا
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

خطبہ، تقریر اور نمازِ جمعہ میں لاؤڈ اسپیکر کا غلط استعمال
مفتی سید انور شاہ

کُل جماعتی دفاعِ شعائر اللہ سیمینار: اعلامیہ، سفارشات، قراردادیں
قرآن و سنہ موومنٹ پاکستان

غزہ پر اسرائیل کا نیا حملہ: فلسطین کا مستقبل کیا ہو گا؟
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

East and West: Different Futures for Different Pasts
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’خطباتِ فتحیہ: احکام القرآن اور عصرِ حاضر‘‘ (۳)
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا ڈاکٹر محمد سعید عاطف

حدیث میں بیان کی گئی علاماتِ قیامت کی تاریخی واقعات سے ہم آہنگی، بائیبل اور قرآن کی روشنی میں (۴)
ڈاکٹر محمد سعد سلیم

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۷)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
ڈاکٹر ثمینہ کوثر

ماہانہ بلاگ

بونیر میں امدادی سرگرمیاں اور مدارس کے طلباء
مولانا مفتی فضل غفور
مولانا عبد الرؤف محمدی

اسلام ایک عالمی مذہب کیسے بنا؟
ایپک ہسٹری

پاکستان اور عالمِ اسلام: فکری و عملی رکاوٹیں کیا ہیں؟
عبد اللہ الاندلسی
پال ولیمز

ردِ عمل پر قابو پانے کی ضرورت
محسن نواز

غزہ کو بھوکا مارنے کے اسرائیلی اقدامات کو کیسے روکا جائے؟
الجزیرہ

گلوبل صمود فلوٹیلا: غزہ کی جانب انسانی ہمدردی کا سمندری سفر
ادارہ الشریعہ

صمود (استقامت) فلوٹیلا میں پاکستان کی نمائندگی
مولانا عبد الرؤف محمدی

فلسطینی ریاست کی ممکنہ تسلیم کا برطانوی فیصلہ اور اس کی مخالفت
ادارہ الشریعہ

فلسطین کے متعلق آسٹریلیا اور دیگر مغربی ممالک کا بدلتا ہوا رجحان: ایک مذاکرہ کی روئیداد
اے بی سی نیوز آسٹریلیا

’’سیرتِ مصطفیٰ ﷺ (۱)‘‘
حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ
مولانا ڈاکٹر حافظ ملک محمد سلیم عثمانی

’’مطالعۂ سیرتِ طیبہ ﷺ : تاریخی ترتیب سے‘‘
ڈاکٹر حافظ سید عزیز الرحمٰن

’’اکبر بنام اقبال: ایک صدی کے بعد 133 غیرمطبوعہ خطوط کی دریافت‘‘
ڈاکٹر زاہد منیر عامر

’’فہمِ اقبال — کلامِ اقبال کا موضوعاتی انتخاب‘‘
رانا محمد اعظم

مطبوعات

شماریات

Flag Counter