استاذ عبداللہ الاندلسی کے بارے میں
(’’البلاغ اکیڈمی‘‘ کی ویب سائیٹ سے حاصل کردہ استاذ عبد اللہ الاندلسی کے تعارف کا ترجمہ)
استاذ عبداللہ الاندلسی ایک نمایاں بین الاقوامی مقرر، مفکر، اور فکری رہنما ہیں جو اسلامی فکر کو فروغ دینے اور مسلمانوں معاملات پر گفتگو کے حوالے سے وسیع پیمانے پر پہچانے جاتے ہیں۔ ان کا کام ایسے عقلی دلائل پیش کرنے پر مرکوز ہے جو اسلامی نظامِ عقیدہ کی فکری بنیادوں کو ظاہر کرتے ہیں، جبکہ وہ اسلامی طرزِ زندگی اور موجودہ معاشرتی مسائل کے لیے اسلامی حل کی ضرورت پر بھی زور دیتے ہیں۔ استاذ عبداللہ کے نقطۂ نظر کی بنیادیں روایتی اہل سنت والجماعت کے فکری مکاتب میں پیوست نظر آتی ہیں، اور وہ اپنے عوامی خطابات، تحریروں، اور مباحثوں میں روایتی اسلامی علمی ورثے سے وسیع استفادہ کرتے ہیں۔
پرتگالی اور فرانسیسی نوآبادیات کے شمالی افریقی نسل سے تعلق رکھنے والے استاذ عبداللہ نے 14 سال کی عمر میں اسلام قبول کیا، جبکہ انہوں نے 10 سال کی عمر سے ہی سنجیدگی مطالعہ شروع کر دیا تھا۔ سابقہ عیسائی ہونے کی حیثیت سے ان کا اسلام کا سفر الٰہیات اور فلسفے کی متجسس تلاش سے ہوا جس کی وجہ سے انہوں نے اپنی پوری زندگی اسلامی فکر، فلسفہ، اور سماجی علوم کی تعلیم جاری رکھی۔
اہم شعبہ جات میں مہارت
استاذ عبداللہ الاندلسی نے مختلف موضوعات پر بات کی ہے، جن میں شامل ہیں:
- اسلامی الٰہیات اور زندگی کا مقصد
- خدا کا وجود اور عقیدے کے لیے عقلی دلائل
- قرآن کی معجزاتی نوعیت
- سماجی اور سیاسی نظام کے طور پر شریعت کی برتری
- اسلامی اقتصادیات اور اس کی جدید دور کے مسائل سے مطابقت
- سیکولرازم، لبرلزم، اور مادیت پسندی پر تنقید (جس میں الحاد اور سیکولر ہیومنزم بھی شامل ہیں)
ان کی فکری سرگرمیاں صرف الٰہیاتی مباحثوں تک محدود نہیں ہیں بلکہ وہ سیاسی فلسفہ، نفسیات، بشریات اور طبعی علوم سے متعلق کلیدی مسائل کو بھی حل کرتے ہیں۔ وہ اکثر اس بات پر گفتگو کرتے ہیں کہ اسلام کس طرح جدید دور کے معاشرتی چیلنجز کے حل پیش کرتا ہے اور اس کی تعلیمات کس طرح ایک متوازن اور منصفانہ معاشرے کی طرف لے جا سکتی ہیں۔
عوامی تقریریں اور مباحثے
ایک بین الاقوامی مقرر کی حیثیت سے استاذ عبداللہ الاندلسی نے دنیا بھر کے متعدد کمیونٹی سینٹرز، یونیورسٹیوں، اور کالجوں میں لیکچرز اور تقاریر دی ہیں۔ وہ بڑے ٹی وی چینلز پر بھی نمودار ہوئے ہیں، جن میں شامل ہیں: بی بی سی، آئی ٹی وی، بی بی سی عربی، بی بی سی ریڈیو 4، الجزیرہ، پریس ٹی وی، اسلام چینل، اقرا ٹی وی۔ وہ سرکردہ ملحدین، سیکولرسٹ، ایگناسٹکس، لبرلز، اور عیسائیوں کے ساتھ اپنے مباحثوں کے لیے بھی جانے جاتے ہیں۔ یہ مباحثے الہیات سے لے کر سیاسی فلسفہ تک مختلف موضوعات پر محیط ہوتے ہیں، جو کلیدی فکری مسائل پر مسلم نقطۂ نظر پیش کرتے ہیں۔
مسلم ڈیبیٹ انیشی ایٹو
2009 میں استاذ عبداللہ نے مسلم ڈیبیٹ انیشی ایٹو (MDI) کی مشترکہ بنیاد رکھی، جو ایک عوامی فورم ہے جو متنوع پس منظر کے لوگوں کے درمیان کھلے مکالمے اور تنقیدی بحث کو فروغ دینے کے لیے وقف ہے۔ جس میں مفکرین، ماہرینِ تعلیم، سیاست دان، اور عوامی مقررین شامل ہیں۔ ایم ڈی آئی اسلامی فکری سوچ کے لیے ایک پلیٹ فارم پیش کرتا ہے تاکہ وہ وسیع پیمانے پر نظریاتی رجحانات کے ساتھ شریک ہو، جو باہمی احترام کے ماحول میں عقلی گفتگو کے ذریعے افہام و تفہیم کو فروغ دیتا ہے۔
اسلامی فکر میں شراکت
اسلامی فکر میں استاذ عبداللہ کی شراکت ان کی عوامی تقریروں سے آگے بڑھ کر ہے۔ وہ تحقیق، تحریر، اور کمیونٹی آؤٹ ریچ میں شامل ہیں، جو اسلامی تہذیب کی فکری اَحیا (نہضہ) پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ ان کا کام سیکولرازم اور لبرل جمہوریت جیسی مغربی نظریات پر ایک عقلی تنقید فراہم کرنے کی سعی ہے، اور جدید دور کے چیلنجز کو حل کرنے میں اسلامی فلسفہ کی مسلسل مطابقت کو ظاہر کرتا ہے۔ وہ اکثر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مسلمانوں کو مغربی فکر پر تنقیدی نقطۂ نظر سے اس طور کام کرنے کی ضرورت ہے کہ ساتھ ہی اسلامی علمی ورثے کو بھی برقرار رکھا جائے۔
اشاعتیں اور میڈیا میں شمولیت
استاذ عبداللہ نے متعدد مضامین اور مقالے لکھے ہیں جن میں شامل ہیں:
- خدا کے وجود کے لیے عقلی دلائل
- قرآن کا معجزہ
- سیکولرازم اور مادیت پر تنقید
- شریعت کی فکری اور روحانی جہتیں
میڈیا پر اپنی سرگرمیوں کے ذریعے وہ وسیع تر سامعین تک پہنچتے ہیں، اور موجودہ عالمی مسائل، فلسفہ، اور معاشرتی ڈھانچوں پر ہونے والی گفتگو میں اسلامی نقطۂ نظر پیش کرتے ہیں۔
ذاتی فلسفہ اور اثر و رسوخ
ایک ذاتی نوٹ پر، استاذ عبداللہ اپنے اسلامی نظریات کلاسیکی اہل سنت والجماعت کے فکری مکاتب سے لیتے ہیں، جو اسلامی قانون، اخلاقیات، اور الٰہیات کے حوالے سے ان کے نقطۂ نظر کو تشکیل دیتا ہے۔ وہ اسلام کی عقلی بنیاد کو فروغ دینے کے لیے پرعزم ہیں، اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اسلام کا عالمی نقطۂ نظر جدید دنیا کے فکری اور روحانی چیلنجز کو پورا کر سکتا ہے۔ ان کا کام ایسے مسلمانوں کے لیے بہت اہمیت رکھا ہے جو اپنے عقیدہ میں فکری مضبوطی اور اعتماد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
albalaghacademy.org
بلاگنگ تھیالوجی کا انٹرویو
(یوٹیوب چینل ’’بلاگنگ تھیالوجی‘‘ کے پال ولیمز کی طرف سے لیے گئے استاذ عبد اللہ کے ایک انٹرویو کی روئیداد)
عبداللہ، جنہیں بہت سے لوگ نہیں جانتے، ایک بین الاقوامی مقرر، مفکر اور اسلام اور مسلمانوں کے معاملات کے فکری وکالت کرنے والے ہیں۔ وہ قرآن انسٹیٹیوٹ میں ایک انسٹرکٹر اور شعبہ ’’آکسیڈنٹالوجی‘‘ کے سربراہ ہیں۔ اس کے علاوہ وہ مسلم ڈیبیٹ انیشی ایٹو کے شریک بانی بھی ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں سے وہ اسلام کے فکری اساسیات کو واضح کرنے اور ان کا دفاع کرنے، اسلامی طرزِ زندگی کو جدید چیلنجز کا حل ثابت کرنے، اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے حقوق کی وکالت کرنے میں مصروف ہیں۔ انہوں نے دنیا کی مختلف یونیورسٹیوں اور کالجوں میں تدریس کی ہے اور لیکچرز دیے ہیں، لیکن انہیں زیادہ شہرت ان کے متعدد ٹی وی پروگرامز اور نمایاں عوامی مباحثوں سے ملی ہے جو یوٹیوب پر بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
دورۂ پاکستان کا تعارف
حالیہ دنوں میں وہ ایک طویل دورے کے بعد پاکستان سے واپس آئے ہیں جہاں انہوں نے ملک بھر کے مسلمانوں سے ملاقات کی اور کئی دلچسپ تجربات حاصل کیے جنہیں وہ سامعین کے ساتھ شیئر کر رہے ہیں۔ ان سے پوچھا گیا کہ پاکستان آنے کی بنیادی وجہ کیا تھی کیونکہ وہ خود لندن سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ کئی مسلم ممالک جا چکے ہیں، جہاں عام طور پر انہیں لیکچرز اور دوروں کے لیے بلایا جاتا رہا ہے، جیسا کہ لبنان یا مراکش میں، لیکن ان دوروں کا دورانیہ زیادہ نہیں ہوتا تھا اور زیادہ تر وہ ایک سیاح کی حیثیت سے آتے جاتے رہے۔ ان کے خیال میں یہ مسلم دنیا کا صرف سطحی تجربہ تھا، اس لیے وہ چاہتے تھے کہ کہیں جا کر مقامی زندگی کو گہرائی سے دیکھیں اور اس کا حصہ بنیں، نہ کہ صرف مہمان یا سیاح کی حیثیت سے۔ اس کا موقع تب ملا جب پاکستان کے کئی پوڈکاسٹرز نے ان سے رابطہ کیا اور انہیں مدعو کیا۔ اسی دوران ان کے ایک شاگرد، جو کینیڈا سے تعلق رکھتے تھے، لاہور میں شادی کر رہے تھے اور انہوں نے بھی دعوت دی۔ اکثر دوست فاصلوں کی وجہ سے شرکت نہ کر سکے لیکن انہوں نے سوچا کہ یہ اچھا موقع ہے۔ چنانچہ پاکستان میں موجود خاندانوں نے انہیں اپنے ہاں قیام کی دعوت دی اور ساتھ گھومنے پھرنے کی پیشکش کی۔ انہوں نے ایک مہینے کے لیے جانے کا فیصلہ کیا تاکہ زندگی کو قریب سے دیکھ سکیں۔
ابتدا میں ان کا ارادہ صرف ایک مہینے کے قیام کا تھا لیکن وہ ڈھائی ماہ تک پاکستان میں رہے۔ اگرچہ کچھ مواقع پر انہیں پوڈکاسٹ کے لیے لاہور بلایا گیا اور وہاں ہوٹل میں قیام بھی ہوا لیکن مجموعی طور پر وہ اپنے ذاتی اخراجات پر پاکستان آئے اور قیام کیا۔ وہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی آمد کسی پر بوجھ بنے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں انہوں نے یہ بھی سیکھا کہ لوگ خاص طور پر غیرملکیوں کو بھرپور مہمان نوازی دیتے ہیں، اور اکثر مہمانوں کو اپنے اخراجات خود نہیں اٹھانے دیتے، لیکن انہوں نے اصرار کر کے مجموعی طور پر اپنا خرچ خود کیا تاکہ کسی کو تکلیف نہ ہو۔
ڈھائی مہینے کے دوران وہ شادی اور چند پوڈکاسٹس کے علاوہ مختلف سرگرمیوں میں مصروف رہے۔ انہوں نے پاکستان کی قدرتی خوبصورتی کا مشاہدہ کیا جسے دیکھ کر انہیں یورپ کے خوبصورت مقامات یاد آئے۔ خاص طور پر شمالی علاقے اور پہاڑوں کی دلکش وادیوں نے انہیں جنت کی مثال جیسا منظر فراہم کیا۔ دریاؤں، سبزہ زاروں اور کھیتوں کی فراوانی نے ان پر گہرا اثر ڈالا۔ پنجاب کے پانچ دریاؤں نے زمین کو زرخیز بنایا ہے اور یہ علاقہ ملک کے لیے خوراک کا خزانہ ہے۔
انہوں نے مختلف تنظیموں کے افراد سے بھی ملاقاتیں کیں جو اسلامی اَحیا اور تجدیدی کاموں میں مصروف ہیں، اگرچہ یہ زیادہ تر چھوٹے پیمانے پر سرگرم ہیں۔ ان میں ’’تنظیمِ اسلامی‘‘ کا ذکر بھی آیا جسے انہوں نے ایک نمایاں اصلاحی و احیائی گروہ قرار دیا۔ ان کا مقصد یہ جاننا تھا کہ مسلم دنیا میں مسلمانوں کا ذہنی رویہ اور فکری نقطۂ نظر کیا ہے۔ اسی مقصد کے لیے انہوں نے پاکستان کا انتخاب کیا، کیونکہ یہ ایک بڑی مسلم آبادی والا ملک ہے، ایٹمی طاقت ہے اور اس کی فوج بھی ایک ملین سے زیادہ سپاہیوں پر مشتمل ہے۔
پاکستان کی مسلم دنیا میں حیثیت
عبداللہ کا کہنا ہے کہ پاکستان ایک نہایت دلچسپ ملک ہے، خاص طور پر اس کی تاریخ اور اس کے وجود میں آنے کا سبب، جب برصغیر کی تقسیم کے بعد یہ تشکیل پایا۔ یہ ایک ایسی جگہ تھی جہاں جا کر میں مسلمانوں کے ذہنی رویوں کا مطالعہ کرنا چاہتا تھا۔ تاہم میرا خیال ہے کہ یہ صرف ایک پہلو تھا، کیونکہ مسلم دنیا میں دیگر ممالک بھی ہیں جیسے ترکی، ملائشیا، انڈونیشیا، بنگلہ دیش، وسطی ایشیائی ریاستیں اور دیگر غیر عرب مسلم ممالک۔ میں پہلے عرب دنیا کے کئی ممالک جا چکا تھا، لیکن یہ پہلا غیر عرب مسلم ملک تھا جہاں میں نے اس طرح کا قیام کیا۔
بہت سے لوگ پاکستان کے بارے میں یہ رائے رکھتے ہیں کہ مستقبل میں یہ مسلم دنیا کے نمایاں ممالک میں شمار ہو سکتا ہے، کیونکہ یہاں مقامی صنعتی ڈھانچہ، ٹیکنالوجی اور دفاعی صلاحیتیں موجود ہیں۔ اس پہلو سے یہ ملک میرے لیے بہت پرکشش تھا۔ میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ یہاں اسلامی احیا کی تحریک کی کیفیت کیا ہے؟ اور ساتھ ہی اس چیز کا بھی مطالعہ کرنا چاہتا تھا جسے اسلامی اصطلاح میں ’’جہالت‘‘ کہا جاتا ہے، یعنی مسلمانوں کی تہذیبی زوال پذیری کی حالت۔ میرا مقصد یہ دیکھنا تھا کہ وہ کون سے فکری رکاوٹیں ہیں جو مسلمانوں کو براہِ راست قرآن و سنت سے رہنمائی لے کر ایک متحرک، طاقتور اور مکمل اسلامی تہذیب قائم کرنے سے روک رہی ہیں، حالانکہ قرآن و سنت تو ان میں موجود ہیں۔
میری نظر میں سب سے بڑا سوال یہی تھا کہ صحابہ کرامؓ نے قرآن و سنت کی تعلیمات کو لے کر آگے بڑھایا، لیکن آج کے مسلمان پیچھے کیوں ہٹ گئے ہیں؟ میں اس سوال کا جواب براہِ راست مشاہدے اور عملی تجربے کے ذریعے حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اسلامی احیا سے مراد صرف چند عبادات یا اخلاقی اصلاح نہیں بلکہ مکمل اسلامی طرزِ زندگی اور تہذیب کو دوبارہ قائم کرنا ہے۔ اس ضمن میں پاکستان کا تجربہ میرے لیے نہایت اہم تھا تاکہ میں جان سکوں کہ یہاں کے مسلمان کس طرح اسلام کو سمجھتے اور اپناتے ہیں اور یہ کیفیت مغرب یا ترکی جیسے ممالک سے کس طرح مختلف ہے۔
پاکستان کا خطہ اور عوام
پاکستان کئی خطوں پر مشتمل ہے جن کی اپنی جداگانہ لسانی اور نسلی شناخت ہے۔ پنجاب سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ ہے، خیبر پختونخوا جہاں پشتون رہتے ہیں، بلوچستان جو نسبتاً کم آبادی والا ہے، جبکہ کراچی جیسے بڑے شہر کے مالک سندھ کے علاوہ آزاد کشمیر بھی ملک کا حصہ ہے۔ میں نے زیادہ وقت پنجاب میں گزارا لیکن خیبر پختونخوا اور شمالی پہاڑی علاقوں کا بھی دورہ کیا۔ سیالکوٹ، لاہور، اسلام آباد اور پشاور میرے سفر کا حصہ رہے۔ اسلام آباد ایک منصوبہ بند شہر ہے جو باقی پاکستان سے بالکل الگ سا محسوس ہوتا ہے، جیسے ایک جدید اور منظم علاقہ۔ مغربی میڈیا پاکستان کو زیادہ تر منفی انداز میں پیش کرتا ہے، جس کی وجہ سے میرے ذہن میں ابتدا میں جھگیاں اور غربت کا تصور تھا، جیسا کہ بھارت کے شہروں میں دیکھا جاتا ہے، لیکن یہاں حقیقت اس سے مختلف نکلی۔
پاکستان کے عوام نہایت عاجزی اور انکساری کے حامل ہیں۔ اگرچہ میں غیر ملکی تھا لیکن جب میں شلوار قمیض پہنتا تو لوگ مجھے پختون سمجھ لیتے اور یہ میرے لیے اچھی بات تھی کیونکہ میں نہیں چاہتا تھا کہ الگ تھلگ لگوں۔ خاص طور پر شمالی علاقوں میں مجھے حیرت ہوئی کہ کئی پشتون نیلے اور سبز آنکھوں والے تھے، کچھ کے سرخ بال تھے جو بالکل قدرتی تھے، اور یہ دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔ کیونکہ پہلے میں نے سوچا کہ شاید یہ لوگ مہندی لگاتے ہیں۔ اس سب سے یہ ظاہر ہوا کہ پاکستان واقعی مختلف نسلوں اور ثقافتوں کا مجموعہ ہے۔
اسلام سے محبت: مقتدرہ اور عوام کا تضاد
پاکستانیوں کی عاجزی کے ساتھ ساتھ میں نے یہ بھی دیکھا کہ ان میں اسلام سے بے پناہ محبت پائی جاتی ہے۔ یہ کیفیت اتنی مضبوط ہے کہ سیکولر اور لبرل حکمران طبقے کو بھی عوامی سطح پر اسلام کے خلاف بات کرنے سے احتراز کرنا پڑتا ہے۔ اسلام آباد اور بڑے شہروں کے ریستورانوں میں مجھے موقع ملا اور میں نے بالائی طبقے کے لوگوں کو قریب سے دیکھا۔ یہ لوگ زیادہ تر مغربی انداز میں رہتے ہیں، بعض اسلام کے حوالے سے شکوک رکھتے ہیں یا پوشیدہ طور پر ملحد ہوتے ہیں، لیکن کھلے عام اسلام کے خلاف بولنے کی جرأت نہیں کرتے۔ اپنی محفلوں میں یہ شراب نوشی اور مغربی انداز کی محفلیں کرتے ہیں، حالانکہ پاکستان میں شراب پر پابندی ہے۔
پاکستان میں شراب کھلے عام کہیں نہیں بکتی، یہ ایک ایسی چیز ہے جو عام دکانوں یا ہوٹلوں پر دستیاب نہیں۔ یہ میرے لیے کافی حیران کن اور خوشگوار بات تھی کہ عام سطح پر ایسا کوئی منظر نظر نہیں آتا۔ لیکن اس کے باوجود اشرافیہ اور بااختیار طبقے کو معلوم ہوتا ہے کہ کہاں سے اور کیسے اسے حاصل کیا جا سکتا ہے، اور وہ اپنی محفلوں میں اس کا انتظام کرتے ہیں۔ مجھے اس حقیقت کا اندازہ اس وقت ہوا جب میں اسلام آباد میں ایک دوست کے ساتھ رات گئے گاڑی میں گھوم رہا تھا۔ ہم نے فجر کی نماز پڑھ لی تھی اور شہر کی سڑکیں تقریباً سنسان تھیں۔ پولیس نے ہمیں روکا اور گاڑی کی تلاشی لی، حالانکہ ہمارے پاس صرف کھجوروں کا ایک تھیلا تھا۔ پولیس اہلکار نے کہا کہ کچھ نوجوان ایسے بھی ہوتے ہیں جو گاڑیوں میں گھومتے ہیں اور ان کے پاس منشیات یا شراب ہوتی ہے، اس لیے وہ شک کی بنیاد پر چیک کر رہے تھے۔ بعد میں میرے دوست نے بتایا کہ اسلام آباد چونکہ سیاستدانوں، بڑے کاروباری خاندانوں اور ان کے بچوں کا مرکز ہے، اس لیے پولیس خاص طور پر اس طبقے کو نظر میں رکھتی ہے، کیونکہ ان کے نوجوان اکثر نشہ آور اشیا اور شراب کے ساتھ دیکھے جاتے ہیں۔
میرے لیے سب سے دلچسپ انکشاف یہ تھا کہ پاکستان کا حکمران طبقہ مجموعی طور پر اسلامی نہیں ہے۔ اگرچہ عوام کے سامنے انہیں مذہب کا تاثر دینا پڑتا ہے، خاص طور پر سیاست میں، لیکن ذاتی طور پر ان میں سے بہت سے لوگ اسلام سے دور یا اس کے بارے میں شکوک و شبہات رکھتے ہیں۔ میں نے خود دیکھا کہ کچھ لوگ قرآن کی ایک چھوٹی سی سورہ بھی صحیح طور پر نہیں پڑھ سکتے تھے۔ یہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ حکمران طبقے کا بڑا حصہ مذہب سے نابلد ہے، بلکہ کچھ تو اپنے ملک اور اسلام کے بارے میں تحقیر آمیز رویہ رکھتے ہیں۔ وہ پاکستان کو کمتر، پسماندہ اور تیسرے درجے کا ملک سمجھتے ہیں، جبکہ مغرب کے ممالک کو معیار بناتے ہیں۔ میرے لیے یہ تضاد نہایت حیران کن تھا کہ ایک ملک جس کا سرکاری مذہب اسلام ہے، وہاں حکمران طبقے کا بڑا حصہ سیکولر یا لامذہب سوچ کا حامل ہے، لیکن عوامی دباؤ کے باعث اسلام کے خلاف کھل کر نہیں بول سکتا۔
یہ صورتِ حال نئی نہیں بلکہ نوآبادیاتی دور کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ جیسے مصر اور برصغیر میں یورپی تعلیم کے ذریعے ایسے افراد تیار کیے گئے جو شکل و صورت میں مقامی تھے مگر سوچ اور اقدار میں مغربی تھے۔ یہ وہی طبقہ ہے جو آگے چل کر حکمران بنا۔ پاکستان میں بھی یہی کیفیت نظر آئی کہ حکمران طبقے کا بڑا حصہ اسلام اور اپنی تہذیب سے دور ہے اور مغرب کو بہتر سمجھتا ہے۔ البتہ عوامی سطح پر صورتحال اس کے برعکس ہے۔ عام لوگوں میں اسلام سے محبت اور وابستگی بہت گہری ہے، بلکہ کئی عرب ممالک کی نسبت زیادہ نمایاں ہے۔ جمعے کے خطبات اور اسلامی تنظیموں کی سرگرمیوں میں بار بار امتِ واحدہ کا ذکر سننے کو ملا اور یہ بات بہت کھل کر بیان کی جاتی ہے کہ مسلمان صرف روحانی طور پر نہیں بلکہ عملی طور پر بھی ایک ہونا چاہتے ہیں۔
پاکستانی عوام میں ترکی سے خاص محبت بھی دیکھنے کو ملی۔ یہ محبت خلافتِ عثمانیہ کے زمانے سے جڑی ہوئی ہے جب برصغیر کے مسلمانوں نے خلافت کے تحفظ کے لیے خلافت تحریک چلائی تھی، حالانکہ وہ براہِ راست عثمانیوں کے زیرِ اقتدار نہیں تھے۔ یہ تاریخی تعلق آج بھی پاکستانیوں کے دلوں میں موجود ہے، اور اسی لیے ترک پرچم اکثر پاکستانی پرچم کے ساتھ لہراتا نظر آتا ہے۔ سیاسی اور عسکری سطح پر بھی پاکستان اور ترکی کے تعلقات مضبوط ہیں، دونوں ممالک باہمی تعاون کرتے ہیں اور دفاعی ٹیکنالوجی کا تبادلہ کرتے ہیں۔
بھارت کے ساتھ حالیہ جنگی تصادم
میری آمد کے دوران بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی عروج پر تھی، پلوامہ حملے کے بعد میزائلوں کا تبادلہ ہوا لیکن عام زندگی میں کچھ زیادہ تبدیلی نظر نہیں آئی۔ اگر میڈیا کو دیکھنا چھوڑ دیا جائے تو یوں لگتا تھا جیسے سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا ہے۔ البتہ فوجی نقل و حرکت ضرور نظر آتی تھی، جو کہ پاکستان کے شہروں میں فوجی چھاؤنیوں کے اردگرد عام بات ہے۔ فوجی چھاؤنیوں میں داخل ہونے یا نکلنے کے لیے ہر وقت چیک پوسٹوں پر فوجی کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ سب کی شناختی دستاویزات دیکھتے ہیں اور کندھوں پر بندوقیں لٹکائے ہوتے ہیں۔ گرمی کی وجہ سے عام دنوں میں وہ ہلکے کپڑوں میں ہوتے ہیں، لیکن اس دوران انہوں نے ہیلمٹ اور بکتر پہننا شروع کر دیا تھا۔ رات کے وقت پورے علاقے کی لائٹیں بند کر دی جاتیں، گویا دوسری جنگِ عظیم کی کوئی پرانی حکمتِ عملی اپنائی گئی ہو۔ یہ واحد اشارہ تھا کہ کوئی مسلح کشمکش یا جنگ جاری ہے، ورنہ عام لوگ ایسے ہی اپنی زندگی گزار رہے تھے جیسے کوئی عام دن ہو۔ میں عین اسی وقت وہاں موجود تھا۔ میں نے سنا کہ پچھلے پچاس برسوں سے زیادہ عرصے سے بھارت اور پاکستان کے درمیان بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ سرحدوں کے اندر براہِ راست جنگ نہیں ہوئی تھی۔ زیادہ تر جھڑپیں کشمیر یا سمندر میں ہوتی رہیں۔ میرے قیام کے دوران خبر ملی کہ سیالکوٹ کے قریب ایک چھوٹے سے فوجی ہوائی اڈے پر حملہ ہوا ہے، لیکن مجھے کوئی دھماکہ سنائی نہیں دیا۔
اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات اور مغربی تاریخ
میں شروع میں چار ہفتوں کے لیے آیا تھا لیکن ساڑھے دو ماہ تک رک گیا۔ وجہ یہ تھی کہ میں نے دیکھا یہاں سیکھنے کے بے شمار مواقع ہیں اور ایک مہینے میں سب کچھ ممکن نہیں۔ اس کے علاوہ، یہاں آ کر مجھے اندازہ ہوا کہ کئی لوگ میرا کام پہلے سے دیکھتے رہے ہیں اور مجھے مختلف پوڈکاسٹس پر بلانے لگے۔ میں نے سوچا کہ اگر زیادہ رکوں تو شاید کچھ مثبت کام کر سکوں۔ مجھے ایسے افراد سے بھی ملایا گیا جنہیں اسلام کے بارے میں شکوک تھے اور وہ علماء یا مقامی اسکالرز سے مطمئن جواب نہیں پا سکے تھے۔ ان میں چند مشہور شخصیات بھی شامل تھیں جنہوں نے مجھ سے اپنے سوالات پر بات کی۔
ان کے شبہات زیادہ تر یوٹیوب پر موجود اسلام مخالف مواد اور لادینی و الحادی دلائل سے پیدا ہوئے تھے۔ سب سے بڑا مسئلہ تقدیر اور اللہ کی مشیت کا تھا۔ سوال یہ تھا کہ اگر سب کچھ پہلے سے اللہ نے طے کر رکھا ہے تو پھر انسان کے اعمال پر سزا اور جزا کی منطق کیا ہے؟ اگر کوئی برائی واقع ہوتی ہے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے اسے پسند کیا؟ اس طرح کے سوالات صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ کئی مسلم ممالک میں پائے جاتے ہیں۔ عام طور پر یہ ایک تقدیر پرستی کے تصور سے جڑتا ہے کہ کچھ بھی انسان کے ہاتھ میں نہیں، سب کچھ ویسے ہی ہونا ہے جیسا اللہ چاہے، لہٰذا کوشش بے فائدہ ہے۔
اس سوچ نے مجھے مغرب کی تاریخ کی یاد دلائی، جہاں گیارہویں صدی تک عیسائی دنیا بھی اسی طرح کے عقیدے پر تھی کہ دنیا شیطان کے قبضے میں ہے اور اس میں بہتری کی کوئی گنجائش نہیں، بس کلیسا کے احکام پر چلتے رہو یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ واپس آ کر سب کچھ درست کر دیں۔ لیکن جب یورپ نے مسلمانوں سے نیا علم، یونانی فلسفے کے تراجم، اور سائنس و ٹیکنالوجی کا سامنا کیا تو ان میں ترقی کا تصور پیدا ہوا۔ انہیں احساس ہوا کہ دنیا کو بہتر بنایا جا سکتا ہے اور انسانی کردار کو نکھارا جا سکتا ہے۔ اسی لیے مسلمانوں کی امانت داری، رحم دلی، اور جنگ میں بھی اصولوں کی پابندی نے عیسائیوں کو حیران کیا۔
مغربی معاشرے میں اس تبدیلی کے پیچھے پروٹسٹنٹ اصلاحات نے بھی بڑا کردار ادا کیا۔ مارٹن لوتھر اور جان کیلون جیسے مصلحین نے یہ تصور پھیلایا کہ ہر پیشہ عبادت بن سکتا ہے اگر نیک نیتی سے کیا جائے۔ اس سوچ سے ’’پروٹسٹنٹ ورک ایتھک‘‘ پیدا ہوا جس میں محنت، روزی اور دولت کو تقدس مل گیا۔ یہی رویہ آگے چل کر سرمایہ داری، ٹیکنالوجی اور سیاسی طاقت کا محرک بنا۔ کیلون کی تقدیر پر ایمان رکھنے کے باوجود، اس کے ماننے والوں نے محنت اور دنیاوی ترقی کو مذہبی رنگ دیا۔ پھر ایسٹ انڈیا کمپنی جیسی تجارتی کمپنیاں وجود میں آئیں جنہوں نے دولت اور طاقت کے لالچ میں پورے خطوں کو غلام بنا لیا، جن میں برصغیر بھی شامل تھا۔ اس نے دکھایا کہ مغرب میں انسانی حرص کو بڑے پیمانے پر آزاد چھوڑ دیا گیا تھا، جس نے ان کی معیشت اور سلطنت کو طاقتور بنایا۔
اس کے برعکس مسلم دنیا میں ایک ایسا عقیدہ عام ہے کہ دنیاوی حالات امام مہدی کے آنے سے پہلے نہیں بدلیں گے، اس لیے کوئی سنجیدہ کوشش کرنا بے فائدہ ہے۔ یہی سوچ کئی مسلم معاشروں کو جمود اور تقدیر پرستی کی طرف لے جاتی ہے۔
یورپ جب مسلمانوں سے ٹیکنالوجی، نئی تحریریں، دریافتیں، کیمیا، فلکیات اور دیگر علوم سے متعارف ہوا تو ان کی سوچ میں بنیادی تبدیلی آئی۔ انہیں پہلی بار یہ احساس ہوا کہ دنیا کو بہتر بنایا جا سکتا ہے، حالات میں بہتری ممکن ہے اور اس کا اثر انسان کے اخلاق و آداب پر بھی پڑتا ہے۔ ان کا مشاہدہ تھا کہ مالدار لوگ زیادہ مہذب نظر آتے ہیں جبکہ غریبوں میں یہ بات کم پائی جاتی ہے۔ خیال یہ تھا کہ مفلسی انسان کو بدتہذیبی کی طرف دھکیلتی ہے اور جب معاشرے کے مادی حالات بہتر ہوں تو لوگ زیادہ بااخلاق اور شائستہ ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ مایوسی یا مجبوری کی وجہ سے غلط رویے کے مرتکب نہیں ہوتے۔
جہالت کی علامات اور رویے
یہ سوچ میرے اپنے مشاہدات سے ملتی ہے جنہیں میں نے ’’جہالت کی علامات‘‘ کہا ہے۔ میں نے ایسے رویے دیکھے جو عام طور پر مسلم دنیا کے باہر دیکھے جاتے ہیں، لیکن یہاں مسلمانوں کے اندر ہی نظر آئے۔ ان میں بھائی چارے، محبت اور باہمی رحم دلی کی وہ کیفیت کم نظر آتی ہے جس کا قرآن ہمیں حکم دیتا ہے۔ بعض اوقات مسلمان ہی ایک دوسرے کو نقصان پہنچاتے دکھائی دیتے ہیں۔
قطار توڑنے کا رجحان
ایک نمایاں چیز جو میں نے پاکستان اور بعض عرب ممالک میں دیکھی، وہ قطار (queue) کا معاملہ تھا۔ انگلینڈ اور جاپان جیسے ممالک میں لوگ منظم انداز میں اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں۔ لیکن کئی مسلم ممالک میں لوگ دھکم پیل کرتے ہیں، اور جو زیادہ دھکا دے یا کاٹ کر آگے بڑھ جائے، وہ پہلے اپنا کام کروا لیتا ہے۔ میں خود ایک پیزا بوفے پر گیا تو دیکھا کہ جیسے ہی پیزا رکھا جاتا، لوگ ٹوٹ پڑتے، جیسے کوئی اپنی بھوک مٹانے کے لیے جنگ کر رہا ہو۔ اور صرف ایک ٹکڑا نہیں لیا جاتا بلکہ جتنا ممکن ہو پلیٹ بھر لی جاتی ہے، اس خوف سے کہ شاید دوبارہ موقع نہ ملے، کیونکہ باقی سب بھی یہی کر رہے ہیں۔ یہ دراصل اعتماد کی کمی ہے، ہر کوئی سمجھتا ہے کہ اگر میں نے سب نہ لیا تو دوسرا سب کچھ لے جائے گا۔
یہ رویہ صرف کھانے تک محدود نہیں بلکہ عمومی رویوں میں بھی نظر آتا ہے۔ لوگ قطار میں آپ کے بالکل قریب کھڑے ہو جاتے ہیں تاکہ کوئی بیچ میں گھس نہ سکے۔ ورنہ اکثر لوگ آہستہ آہستہ سامنے آنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ رویہ میں نے ہر ملک میں نہیں دیکھا۔ مثلاً ترکی، قطر یا مصر میں مجھے ایسی صورتحال کچھ زیادہ نظر نہیں آئی۔ لیکن پاکستان، لبنان، الجزائر اور مراکش جیسے ملکوں میں یہ عام ہے۔
اس کے برعکس کچھ معاشرے انتہا کی دوسری طرف ہیں، جیسے جرمنی۔ وہاں لوگ سڑک پار کرنے کے لیے ٹریفک سگنل پر سبز بتی کا انتظار کرتے ہیں، چاہے میلوں تک کوئی گاڑی نہ آ رہی ہو۔ سب قطار میں کھڑے رہتے ہیں اور قانون توڑنے کا تصور ہی نہیں کرتے۔ ایک ’’انگریز‘‘ کے طور پر مجھے یہ حد سے زیادہ لگتا ہے، جہاں کوئی خطرہ ہی نہیں وہاں بھی منٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔
میرے خیال میں بہترین راستہ اعتدال ہے، نہ تو ایسا کہ سب دھکم پیل کر کے ایک دوسرے کو نقصان پہنچائیں، اور نہ ہی ایسا کہ عقل کے استعمال کے بغیر سخت قوانین کے پیچھے اندھا دھند کھڑے رہیں۔
ٹریفک میں جنگل کا قانون
بدقسمتی سے کئی مسلم معاشروں میں ’’جنگل کا قانون‘‘ زیادہ نظر آتا ہے، خواہ قطار میں کھڑے ہونے کا معاملہ ہو یا سڑک عبور کرنے کا۔ بعض شہروں میں تو واقعی یوں لگتا ہے جیسے سڑک پار کرنے سے پہلے وصیت لکھ لینی چاہیے، کیونکہ ٹریفک میں قانون اور نظم کا فقدان کسی کی جان بھی لے سکتا ہے۔ زیبرا کراسنگ نظر ہی نہیں آتی، اور اگر ٹریفک لائٹس موجود بھی ہوں، جیسے قاہرہ میں ہیں، تو وہ زیادہ کارآمد نہیں لگتیں کیونکہ سب لوگ اپنی مرضی سے چلتے ہیں۔ منظر کچھ ایسا ہوتا ہے جیسے کسی تباہ کن یا ہنگامی فلم کا حصہ ہو۔ میرا مشاہدہ یہ ہے کہ زیادہ تر مسلم دنیا میں ڈرائیونگ کا حال ایسا ہے کہ اگر ’’میڈ میکس‘‘ فلموں کو ڈرائیونگ کی تربیت کے لیے تعلیمی فلمیں بنا دیا جائے تو شاید کچھ بہتری آ جائے۔ میں جانتا ہوں اس بات پر بہت سے لوگ ناراض ہوں گے، مگر یہ تجربہ میں نے بار بار مختلف مسلم ممالک میں دیکھا ہے۔
پاکستان میں طویل عرصہ سڑکوں پر وقت گزارنے کے بعد جب میں نے انگلینڈ سے اس کا موازنہ کیا تو فرق بہت نمایاں لگا۔ انگلینڈ میں لوگ لین کی پابندی کرتے ہیں۔ اگر کوئی مخالف سمت والی لین پر چلا بھی جائے تو وہ محض اوور ٹیک کرنے کے لیے، اور وہ بھی چند لمحوں کے لیے۔ ہارن بھی صرف ضرورت کے وقت استعمال ہوتا ہے، مثلاً کوئی شخص ٹریفک سگنل گرین ہونے کے باوجود فون پر مصروف ہو تو پیچھے والا ہارن بجا کر اسے متوجہ کرتا ہے۔ لیکن پاکستان، الجزائر اور مراکش جیسے ممالک میں ہارن کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ میں بجانے کے لیے ہوں۔ لوگ اکثر ایک ساتھ دو لینوں پر گاڑی چلا رہے ہوتے ہیں اور پیچھے سے آنے والے کو ہارن دے کر یاد دلانا پڑتا ہے کہ براہِ کرم اپنی لین میں آ جاؤ تاکہ میں گزر سکوں۔
موٹر سائیکل سوار تو بعض اوقات بغیر شیشوں کے چلتے ہیں، اس لیے پیچھے سے آنے والے کو بار بار ہارن بجا کر اپنی موجودگی ظاہر کرنی پڑتی ہے تاکہ وہ اچانک سائیڈ نہ مار دیں۔ عمومی اصول یہی ہوتا ہے کہ جیسے بھی ہو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاؤ۔ اس رویے کے باعث بعض اوقات ناقابلِ یقین حد تک عجیب حالات پیدا ہو جاتے ہیں۔ مثلاً ایک بار میں شمالی پاکستان کے پہاڑی علاقے نان جا رہا تھا۔ راستہ عام طور پر ڈیڑھ گھنٹے کا ہے مگر ہم پانچ گھنٹے ایک ہی جگہ پھنسے رہے۔ حادثہ نہیں ہوا تھا، بلکہ لوگوں نے جلد بازی میں مخالف سمت کی لین پر گاڑیاں چلا دیں اور پھر دونوں طرف سے آنے والی گاڑیاں آمنے سامنے آ کر پھنس گئیں۔ یوں مکمل جام ہو گیا، جسے صاف کرنے میں کئی گھنٹے لگ گئے۔ یہ سب اس لیے ہوا کہ ہر ڈرائیور نے صرف اپنی فوری سہولت کو ترجیح دی اور اجتماعی حکمتِ عملی کا خیال نہیں رکھا۔
معیاری خدمات کا فقدان
میں نے یہ بھی دیکھا کہ مسلم دنیا کے کئی ممالک میں خدمات فراہم کرنے کا معیار یہی ہے کہ کم سے کم کام کیا جائے، یا اتنا کیا جائے جتنا گاہک کو ٹالنے کے لیے کافی ہو۔ اس کی ایک مثال پشاور میں مجھے پیش آئی۔ وہاں میں رات گئے اے ٹی ایم سے رقم نکالنے گیا تو مشین نے کارڈ واپس کر دیا مگر رقم نہیں دی۔ پھر دوسرے دن ایک اور اے ٹی ایم پر کارڈ اندر ہی پھنس گیا اور مشین رک گئی۔ بینک کا عملہ یہی کہتا رہا کہ کارڈ تو اندر ہے ہی نہیں شاید آپ کے بٹوے میں ہے۔ حالانکہ سی سی ٹی وی فوٹیج صاف دکھا رہی تھی کہ کارڈ مشین میں گیا اور واپس نہیں نکلا۔ بالآخر جب میں نے سختی کی اور پولیس کی بات کی تو انہوں نے دوبارہ مشین چیک کی اور کارڈ مل گیا۔ ان کا رویہ ایسا تھا جیسے کوئی بڑا مسئلہ ہوا ہی نہیں۔
نرمی دکھانا، کمزوری کی علامت
ایسے تجربات سے یہ بات واضح ہوئی کہ بہت سی جگہوں پر لوگوں کو نرم لہجے میں بات سمجھانا کارگر نہیں ہوتا۔ مقامی لوگوں نے بھی مجھے کہا کہ اگر آپ نرمی دکھائیں تو لوگ اسے کمزوری سمجھ کر فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس سب نے مجھے سوچنے پر مجبور کیا کہ ایک طرف وہ معاشرے ہیں جہاں دین کو مانا نہیں جاتا، پھر بھی وہ زیادہ منظم اور مؤثر ہیں۔ دوسری طرف مسلمان ہیں جن کے پاس قرآن اور حکمت ہے، مگر ان چھوٹی چھوٹی باتوں میں بدانتظامی اور بدنظمی نمایاں ہے۔ یہ تضاد نہ صرف روزمرہ زندگی میں مشکلات پیدا کرتا ہے بلکہ اسلام کی شبیہ پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔
یہ رویہ پایا جاتا ہے کہ اگر آپ نرمی دکھائیں یا دوستانہ انداز اختیار کریں تو لوگ اسے کمزوری سمجھتے ہیں۔ اس لیے وہاں اکثر یہ ضروری ہوتا ہے کہ سخت اور مطالبہ کرنے والے لہجے میں بات کی جائے تاکہ سامنے والے کو لگے کہ اگر اس نے صحیح خدمت نہ دی تو اس کی زندگی مشکل بن سکتی ہے۔ ورنہ وہ یہ تاثر لیتے ہیں کہ آپ آسانی سے نظر انداز کیے جا سکتے ہیں۔ میں نے محسوس کیا کہ انسانی فطرت یہی ہے کہ کوئی بھی ضرورت سے زیادہ کام نہیں کرتا، لیکن فرق یہ ہے کہ مختلف معاشروں میں ’’ضرورت‘‘ کی تعریف مختلف ہے۔ مثال کے طور پر مسلم دنیا میں وقت کی پابندی کو زیادہ ضروری نہیں سمجھا جاتا، وہاں کسی ملاقات میں دیر سے آنا بڑا مسئلہ نہیں ہوتا، سوائے ترکی کے جہاں لوگ وقت کے پابند ہیں۔ یورپ میں، خاص طور پر جرمنی میں، ایک منٹ کی تاخیر کو بھی سماجی گناہ سمجھا جاتا ہے۔
ملازمین کے ساتھ رویہ
پاکستان میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ درمیانے طبقے کے لوگ بھی گھریلو ملازم، ڈرائیور یا خادم رکھ سکتے ہیں۔ انگلینڈ میں یہ صرف اشرافیہ یا امیر طبقے کے لیے ممکن ہے۔ لیکن پاکستان میں معاشی تفاوت کے باعث یہ عام ہے۔ جب میں نے وہاں دیکھا کہ لوگ اپنے ملازموں یا مزدوروں سے سختی سے بات کرتے ہیں تو مجھے یہ برا لگا اور میں نے کہا کہ یہ بھی ہمارے بھائی بہن ہیں، ان سے اس طرح نہیں بولنا چاہیے۔ مگر مقامی لوگوں نے کہا کہ اگر آپ نرمی سے بات کریں گے تو وہ آپ کا فائدہ اٹھائیں گے، کام میں لاپرواہی کریں گے، یا چوری بھی کر سکتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ ایک عمومی الزام لگتا ہے، لیکن ان کے خیال میں یہ حقیقت تھی۔ البتہ میرے اپنے تجربے میں اس طبقے کے کئی لوگ نہایت مخلص، عاجز اور نیک نیت تھے۔
ریسٹورنٹس میں بھی یہی رویہ نظر آیا کہ گاہک سخت لہجے میں حکم دیتے ہیں تاکہ ویٹر پوری توجہ دے، ورنہ وہ سروس میں کوتاہی کر سکتا ہے۔ جبکہ امریکہ جیسے ممالک میں معاملہ الٹ ہے۔ وہاں گاہک پر اتنی توجہ دی جاتی ہے کہ بار بار پوچھا جاتا ہے کہ سب ٹھیک ہے یا نہیں؟ یہاں تک کہ یہ بھی جھنجھلاہٹ کا باعث بنتا ہے۔ یعنی ایک طرف خدمت میں کمی کا مسئلہ ہے تو دوسری طرف ضرورت سے زیادہ خدمت کا۔
یہ بات میں نے صرف ایک ملک میں نہیں بلکہ کئی مسلم ممالک میں دیکھی ہے، البتہ ترکی اور ملیشیا اس سے مختلف لگے۔ مزید یہ کہ غیر عرب مسلم ممالک میں جمہوری یا جمہوریت سے ملتے جلتے نظام زیادہ ہیں، جبکہ زیادہ تر عرب ممالک میں قبائلی یا آمرانہ طرزِ حکومت غالب ہے۔ پاکستان میں ایک خاص بات یہ ہے کہ وہاں اسلام اور سیاست پر کھل کر گفتگو ہو سکتی ہے، حتیٰ کہ حکمرانوں کی کرپشن پر بھی، جبکہ سعودی عرب جیسے ممالک میں یہ ممکن نہیں۔ پاکستان میں سیاسی عمل میں عوامی شمولیت ایک سطح پر ضرور موجود ہے، چاہے نظام کرپٹ ہی کیوں نہ ہو۔ حکومت کو بھی بعض اوقات گرفتاری کے لیے کسی باضابطہ الزام کا سہارا لینا پڑتا ہے، جیسا کہ عمران خان کے معاملے میں ہوا۔ عرب دنیا میں اس کے برعکس براہِ راست گرفتاری اور تشدد کیا جا سکتا ہے بغیر کسی قانونی جواز کے۔
ملکی ترقی کے امکانات
پاکستان کی ایک اور انوکھی خصوصیت یہ ہے کہ وہاں ایسا لگتا ہے جیسے ملک فوج کے پاس ہے، نہ کہ فوج ملک کے پاس۔ ہر شہر میں چھاؤنیاں اور فوجی علاقے ہیں اور فوج کو وہاں عوام کی طرف سے محبت اور نفرت کا ملا جلا رویہ ملتا ہے، لیکن بھارت کے مقابلے میں ملک کے دفاع کی وجہ سے فوج کے لیے عزت بھی ہے۔ پاکستانی فضائیہ کے پائلٹ نہ صرف بھارت کے خلاف بلکہ اسرائیل کے خلاف عرب جنگوں میں بھی کامیاب رہے ہیں، ان کی مہارت پر عوام فخر کرتے ہیں۔
پاکستان میں بڑی آبادی، زراعتی وسائل، فوجی صنعت اور ایٹمی صلاحیت اسے طاقتور امکانات والا ملک بناتے ہیں۔ اسلام کے ساتھ محبت اور جوش بھی نمایاں ہے۔ میں نے مختلف شہروں کا دورہ کیا، لاہور کی ٹریفک بے حد پریشان کن تھی، اسلام آباد جدید اور منظم لگا، جبکہ پہاڑی علاقے خوبصورت اور پرسکون تھے۔ ہر جگہ کچھ نہ کچھ مسائل ہیں، جیسے بجلی کے بار بار جانے کا، لیکن مجموعی طور پر پاکستان میں بڑی صلاحیت اور امکانات نظر آتے ہیں۔
شلوار قمیص کا لباس
میں دراصل سال کے سب سے زیادہ گرم حصے میں گیا تھا۔ اُس وقت درجہ حرارت 42 ڈگری تک تھا اور کئی جگہوں پر نمی پچاس فیصد یا اس سے بھی زیادہ تھی۔ یہ گرمی کی ایک بالکل الگ سطح تھی، ایسی کہ جیسے ہی باہر نکلیں تو ایک منٹ میں پسینہ آنے لگے۔ لیکن سبحان اللہ، میں نے محسوس کہ شلوار قمیص اس موسم کے لیے بہترین لباس ہے۔ عربی جبہ بھی ڈھیلا ڈھالا ہوتا ہے مگر شلوار قمیص نہ صرف آرام دہ ہے بلکہ اس کے شگاف اور پائجامہ چلنے، دوڑنے اور نماز کے لیے آسانی پیدا کرتے ہیں۔ یہ اتنا آرام دہ ہے کہ لوگ اسے سوتے وقت بھی پہن لیتے ہیں۔ میں نے خود بھی کم از کم ایک بار اسے پاجامہ کے طور پر پہنا اور یہ انتہائی موزوں لگا۔ گرم علاقوں کے لیے شلوار قمیص واقعی بہترین انتخاب ہے۔
مسلم دنیا میں بدعنوانی اور دنیا داری
اب ذرا ایک اور اہم پہلو کی طرف آتا ہوں، کہ آخر مسلم دنیا میں کرپٹ سیاستدانوں کی کثرت کیوں ہے؟ یہ صرف بدقسمتی نہیں ہے، اور نہ ہی یہ صرف مغرب کی سازش ہے کہ ہر خرابی کا ذمہ دار انہیں ٹھہرا دیا جائے۔ دراصل ایک ذہنی کیفیت ہے جو مسلم دنیا کو بیرونی اثرات کے لیے زیادہ کمزور بنا دیتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ مغرب یا مشرقِ بعید کے لوگ جو قرآن، سنت یا آخرت پر یقین نہیں رکھتے، پھر بھی اُن کی سوسائٹیاں زیادہ منظم اور خوشحال کیوں ہیں؟ جبکہ ہمارے پاس قرآن ہے جو ہدایت دینے والا ہے۔ اس کا بنیادی جواب یہ ہے کہ مسلم دنیا نے اپنا مقصد کھو دیا ہے۔
مغرب نے اپنے لیے ایک مقصد تلاش کیا۔ اگرچہ وہ مقصد جھوٹا ہے، مگر مقصد ہونے کی وجہ سے ان کی سوسائٹی کو سمت مل گئی۔ نشاۃ ثانیہ اور روشن خیالی کے بعد انہوں نے یہ نظریہ اپنایا کہ انسانی خواہشات اور خوشی کو زیادہ سے زیادہ بڑھانا ہے، دکھ درد کو کم کرنا ہے، اور انسانی ترقی کو بہتر بنانا ہے۔ چاہے وہ فلسفے کے مختلف مکاتبِ فکر ہوں، سب نے اس مقصد کو اپنا لیا۔ اسی لیے وہاں سب ایک مشترکہ ضابطے پر متفق ہیں۔ جیسے ٹریفک قوانین، لوگ جانتے ہیں کہ اگرچہ تھوڑی دیر رکنا پڑے گا، لیکن نتیجتاً سب کے لیے یہ زیادہ مفید ہے۔
میں اکثر کہتا ہوں کہ مغرب کے پاس وحی کی اصل تعلیم نہیں مگر انہوں نے حکمت سیکھ لی۔ جبکہ مسلمانوں کے پاس اصل وحی موجود ہے لیکن حکمت کا فقدان ہے۔ حکمت یہ جاننا ہے کہ کیا کرنا ہے اور کیوں کرنا ہے۔ چونکہ مقصد واضح نہیں اس لیے مسلم معاشرے اپنی پوری صلاحیت کے مطابق منظم نہیں ہوتے۔ مغرب میں ہر چیز خوشی بڑھانے اور تکلیف کم کرنے کے مقصد کے تحت ہوتی نظر آتی ہے۔ حتیٰ کہ کاروبار میں مقابلہ بھی اسی اصول پر ہوتا ہے کہ کون بہتر سہولت فراہم کرتا ہے۔ قرآن ہمیں نیکی میں مقابلہ کرنے کا حکم دیتا ہے، جبکہ مغرب میں لوگ ذاتی مفاد میں مقابلہ کرتے ہیں۔
مسلم دنیا میں مسئلہ یہ ہے کہ اسلام کو زندگی کا ایک جزو سمجھا جاتا ہے، نہ کہ زندگی کا مقصد۔ ایک مسلمان بچے کو بتایا جاتا ہے کہ اچھی نوکری لو، خاندان کی عزت رکھو، والدین کی اطاعت کرو، اچھا گھر بناؤ، شادی ایسی کرو کہ شرمندگی نہ ہو، اور ساتھ ہی یہ بھی کہ نماز پڑھنا نہ بھولو، روزہ رکھو، حج کر لو، زکوٰۃ دے دو۔ یعنی اسلام زندگی کے اصل مقصد کے طور پر نہیں بلکہ ایک فہرست کے چھوٹے حصے کے طور پر سکھایا جاتا ہے۔ اگر کہیں جھوٹ بولنا پڑے یا دھوکہ دینا پڑے تاکہ خاندان کا مالی فائدہ ہو، یا عزت برقرار رہے، تو یہ قابلِ قبول سمجھا جاتا ہے۔ اسی سوچ نے معاشرتی مسائل پیدا کیے۔
مثال کے طور پر رشوت لینا اور دینا اسلام میں حرام ہے، لیکن لوگ اسے معمولی بات سمجھتے ہیں۔ ایک واقعہ ایسا ہوا کہ ایک نیک نظر آنے والا ٹیکسی ڈرائیور ہمیں مانسہرہ سے پشاور لے کر گیا۔ ہم نے اس کے لیے ہوٹل کا انتظام بھی کیا کیونکہ رات بہت دیر ہو گئی تھی۔ لیکن وہ واپس نہیں آیا۔ بعد میں پتا چلا کہ پولیس نے رات کے وقت اس پر جھوٹا الزام لگا کر پکڑ لیا تھا۔ یہ واقعہ اس بات کی جھلک ہے کہ کرپشن اور بے انصافی کتنی عام ہیں۔ ایک واقعہ ایسا ہوا کہ ایک بہت دیندار ٹیکسی ڈرائیور کو پولیس نے جھوٹے الزام میں پکڑ لیا کیونکہ اس نے رشوت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ پولیس والا چاہتا تھا کہ وہ تھوڑا سا پیسہ دے دے تاکہ معاملہ ختم ہو جائے، لیکن ڈرائیور نے اصولی موقف اختیار کیا اور نتیجتاً اسے رات جیل میں گزارنی پڑی۔ اس واقعے کو لوگ یہ کہہ کر جواز فراہم کرتے ہیں کہ چلو تھوڑے پیسے دے دو، پولیس سے پنگا لینے کا کوئی فائدہ نہیں، اللہ دیکھ لے گا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب سب لوگ رشوت دینے لگیں تو رشوت خوروں کے لیے یہ عمل اور بھی جائز اور عام ہو جاتا ہے۔ یہی رویہ مسلم معاشروں میں عام ہے جہاں اسلام کو بس ایک ’’فہرست‘‘ سمجھا گیا ہے: یہ کرو، یہ نہ کرو۔ لیکن اگر کبھی ان اصولوں پر عمل کرنے سے دنیاوی فائدہ یا عزتِ نفس متاثر ہو تو لوگ ان اصولوں کو چھوڑ دیتے ہیں۔
میں نے یہ بھی دیکھا کہ لوگ اچھے اخلاق اور سچائی کو ایک کمزوری سمجھتے ہیں۔ اگر کوئی ان اصولوں پر ڈٹ جائے تو اُسے کمزور، بے وقوف یا آسانی سے استحصال کا شکار سمجھا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ مجھے کسی نے یہ بھی کہا کہ اگر آپ اردو میں ’’برائے مہربانی‘‘ کہیں تو لوگ آپ کو بے وقوف سمجھ کر آپ کے ساتھ زیادتی کریں گے۔ اس سے مجھے یہ احساس ہوا کہ ایک فرد اکیلا اخلاقی نہیں رہ سکتا، کیونکہ پورا معاشرہ انسان پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اسی لیے کرپٹ سیاستدان اپنے عوام کو کمتر سمجھتے ہیں اور ملک کے مستقبل پر اعتماد نہیں رکھتے۔ ان کے نزدیک اصل مقصد صرف اپنے خاندان کے آرام اور مستقبل کو محفوظ بنانا ہے، چاہے اس کے لیے ملک کے وسائل بیچنے پڑیں، بیرونی طاقتوں کے ہاتھوں کھیلنا پڑے، یا عوام کو اندھیروں میں چھوڑ دینا پڑے۔ پاکستان میں بجلی کی بندش کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ وسائل طاقتور خاندانوں کے حوالے کر دیے گئے ہیں لیکن ان کے پاس کارکردگی بہتر بنانے کا کوئی محرک نہیں، کیونکہ انہیں ویسے ہی حکومت سے پیسہ مل جاتا ہے۔
ایسے معاشرے میں کوئی بلند مقصد باقی نہیں رہتا۔ لوگ صرف عزتِ نفس، شہرت، یا خاندان کی ’’عزت‘‘ کے لیے جیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات عزت کے نام پر خاندان کے اپنے افراد کو قتل کر دیا جاتا ہے کیونکہ اگر شہرت گئی تو معاشرہ آپ کو ختم سمجھ لیتا ہے۔ اس صورتحال کو ایک طرح کی انارکی کہا جا سکتا ہے جہاں کوئی اعلیٰ اصول باقی نہیں رہتے بلکہ صرف طاقت ہی قانون بن جاتی ہے۔ حالانکہ اسلام کا مقصد یہ ہے کہ زندگی کا واحد مطلب اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہے۔ باقی سب چیزوں کی کوئی اصل حیثیت نہیں، بلکہ بعض صورتوں میں وہ نقصان دہ بھی ہو سکتی ہیں اگر وہ انسان کو اللہ کی رضا سے دور لے جائیں۔
اسلام کیا سکھاتا ہے؟
اسلام انسان کو یہ سکھاتا ہے کہ کائنات میں اصل صرف خالق ہے اور اس کی رضا ہے۔ نہ جھنڈے، نہ بت، نہ خاندان کی جھوٹی عزت، نہ دنیاوی شہرت، کسی چیز کی اصل میں کوئی حیثیت نہیں۔ اگر مسلمان یہ سمجھ لیں کہ زندگی کا مقصد صرف اللہ کی رضا ہے تو ان کی ریاستیں بھی اسی بنیاد پر چلیں گی۔ لیکن آج مسلم دنیا میں ریاستوں کا کوئی واضح مقصد نہیں۔ لوگ بس اس سوچ کے ساتھ جیتے ہیں کہ کسی طرح زندگی گزر جائے اور عزت بچی رہے۔ اس کے برعکس مغرب یا جاپان جیسے ملکوں نے اپنے لیے مقصد بنا لیا ہے، چاہے وہ غلط ہی کیوں نہ ہو۔ وہ اپنی خوشی، اپنی ترقی اور اپنی صلاحیت کے کمال تک پہنچنے کے لیے محنت کرتے ہیں۔ مسلمان دنیا میں عمومی رویہ یہ ہے کہ بس اتنا کام کرو کہ زندہ رہ سکو، خاندان چل جائے اور بدنامی نہ ہو۔
اسلام کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان بہترین کارکردگی دکھائیں تاکہ اللہ کی رضا حاصل ہو۔ اسی جذبے سے ماضی میں مسلمان سائنس، طب اور علم میں نئی نئی دریافتیں کرتے تھے، تاکہ ہر فائدہ اٹھانے والا ان کے لیے صدقہ جاریہ بنے۔ دراصل ایک مومن کی اصل تجارت یہ ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کمائے، اللہ کے قریب ہو، اور دنیا کو بھی فائدہ پہنچائے۔ لیکن جب سے یہ جذبہ کم ہوا، مسلمان زوال کا شکار ہو گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی فرمایا تھا کہ مجھے اپنی امت کے لیے سب سے زیادہ خوف دولت اور آسائش کا ہے کیونکہ یہی انسان کو مقصد سے غافل کر دیتی ہے۔
آج مسئلہ یہ ہے کہ چاہے مسلمان خود کو مذہبی کہیں یا سیکولر، دونوں اسلام کو سیاست اور اجتماعی زندگی سے الگ کر چکے ہیں۔ سیکولر طبقہ کہتا ہے کہ یہ پرانی باتیں ہیں اور ہمیں مغرب کی نقالی کرنی چاہیے تاکہ شرمندگی نہ ہو۔ جبکہ بعض مذہبی طبقے سمجھتے ہیں کہ سیاست چونکہ گندی اور کرپٹ ہے اس لیے دین کو اس سے دور رکھنا چاہیے اور بس لوگوں کو نماز، روزے اور چند عقائد پر قائم رکھنا کافی ہے۔ یوں دونوں طبقے مل کر دین کو اجتماعی زندگی سے الگ کر رہے ہیں۔ یہی اصل المیہ ہے۔
کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دین داری کا مطلب ہے دنیا کے معاملات اور سہولتوں سے الگ رہنا، اور آسائش یا عیش و عشرت کو برا سمجھنا۔ مثال کے طور پر کسی نے مجھے کہا کہ تم یہاں علم حاصل کرنے اور تحقیق کرنے آئے ہو لیکن تم تو ایک اچھے ہوٹل میں ٹھہرے ہو، کیا صحابہ کرام ایسے ہوٹلوں میں رہتے تھے؟ میں نے جواب دیا کہ یہ میرا ذاتی پیسہ ہے، کسی نے مجھے اس کے لیے کچھ نہیں دیا، بلکہ اس سفر میں میرا اپنا بہت خرچ ہوا۔ پھر میں نے کہا کہ آخر آرام یا کسی حد تک آسائش میں کیا برائی ہے؟ یہ کہاں حرام ہے؟ لیکن مذہبی طبقے میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ زیادہ سہولت یا آسائش لینا اسلام کے خلاف ہے اور انسان کو بس معمولی زندگی پر راضی رہنا چاہیے۔ اس کی دلیل وہ صحابہ کرامؓ کی زندگیوں سے دیتے ہیں کہ وہ جہاد کے موقع پر کم وسائل کے ساتھ نکلتے تھے۔ لیکن آج اگر کوئی یہ کہے کہ مسلمان ٹینک یا جہاز استعمال نہ کریں کیونکہ صحابہؓ کے پاس یہ نہیں تھے، تو یہ عجیب بات ہوگی۔
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ غربت میں صبر کرنا اور اسی پر راضی رہنا ہی تقویٰ ہے، چاہے انسان حلال ذرائع سے اپنی حالت بہتر بنانے کی کوشش کر بھی سکتا ہو۔ اس سوچ کو ایک طرح کی تقدیر پرستی کے ذریعے مضبوط کیا گیا ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے اللہ کی مرضی ہے اور ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ یوں دنیا بھر میں مسلمانوں پر ظلم ہوتا ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کا فیصلہ ہے، ہم کچھ نہیں کر سکتے، زیادہ سے زیادہ دعا کر لیں یا تھوڑا سا صدقہ دے دیں تاکہ مظلوموں کو کھانے یا کپڑے مل جائیں، لیکن اصل صورتحال نہ بدلے۔ یہ رویہ دراصل دین کی غلط تعبیر ہے۔
میں نے خود ایک موقع پر دیکھا کہ صرف تین گھنٹے رابطے میں نہ رہنے پر ایک پوڈکاسٹ کو یہ کہہ کر منسوخ کیا گیا کہ یہ اللہ کی تقدیر ہے۔ حالانکہ اصل وجہ انسانی فیصلہ تھا، تقدیر کا بہانہ بنا کر اس کو جواز دے دیا گیا۔ یہ مجھے اس واقعے کی یاد دلاتا ہے جب سیدنا عمرؓ نے شام کا سفر اس لیے منسوخ کیا کہ وہاں طاعون پھیل چکا تھا۔ کسی نے کہا کہ کیا آپ اللہ کی تقدیر سے بھاگ رہے ہیں؟ تو عمرؓ نے فرمایا کہ میں اللہ کی ایک تقدیر سے دوسری تقدیر کی طرف جا رہا ہوں۔ مطلب یہ کہ انسان کے پاس انتخاب ہے، اگر ہم کاہلی اور سستی کو ’’تقدیر‘‘ کہہ کر جواز دیں گے تو یہ ہماری اپنی کوتاہی ہوگی، اور اللہ نے چاہا کہ ہم اپنی کاہلی کی وجہ سے پسماندہ رہیں۔
مسلمان دنیا میں تقدیر کے اس غلط تصور نے سستی، بے عملی اور بے حسی کو عام کر دیا ہے۔ یہاں تک کہ لوگ اکثر یہ جملہ استعمال کرتے ہیں: ’’ان شاء اللہ کل ہو جائے گا‘‘، جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اصل میں وہ کام کرنے کا ارادہ ہی نہیں رکھتے۔ اس رویے نے مسلمانوں کو اس حال میں پہنچا دیا ہے کہ زندگی کو بس پیدائش سے موت تک کا سفر سمجھ لیا گیا ہے، جس میں کم سے کم محنت اور دقت ہو۔ دعاؤں میں بھی اکثر یہی کہا جاتا ہے کہ ’’اللہ آسانی کرے‘‘، حالانکہ اصل دعا یہ ہونی چاہیے کہ اللہ ہمارے حالات کو بہتر کرے اور ہمیں اپنی رضا کے مطابق مقاصد پورے کرنے کی توفیق دے۔
حقیقت یہ ہے کہ مسلمان اپنی زندگی کے اصل مقصد کو بھول چکے ہیں۔ اَحیا اور بیداری کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو اسلام کو محض وراثت یا والدین کی روایت کے طور پر نہیں بلکہ دلیل اور یقین کی بنیاد پر دوبارہ پہنچوایا جائے۔ جیسے کہ قرآن میں کفار کے بارے میں آیا ہے کہ وہ کہتے تھے ہم تو وہی کرتے ہیں جو اپنے باپ دادا سے پایا۔ حالانکہ اسلام ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ ہم خود سوچیں کہ انسان کا مقصد کائنات میں کیا ہے؟ اسلام سچا کیوں ہے؟ اور جب یقین حاصل ہو جائے تو پھر زندگی کو اللہ کی بندگی کے مطابق ترتیب دیا جائے۔
پاکستان میں، میں نے بہت سے ایسے نوجوان اور بھائی دیکھے جو بیداری کی جدوجہد کر رہے ہیں، علمی و فکری محنت کر رہے ہیں، اجتماعات اور مطالعہ کے حلقے منعقد کرتے ہیں، اور کچھ نے اور منصوبے شروع کیے تاکہ امت کو مضبوط بنایا جا سکے۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ اسلام ہمیں بہترین کارکردگی، محنت اور خیر میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی تعلیم دیتا ہے۔ یہ سبقت دشمنی یا مقابلے بازی نہیں بلکہ نیکی میں آگے بڑھنے کی صحتمندانہ مسابقت ہے تاکہ سب ایک دوسرے کو مزید بہتر کام پر ابھاریں اور یوں پورا معاشرہ بلند ہو۔
میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ اگر صحیح معنوں میں بیداری آئے تو پاکستان ان ممالک میں سے ایک ہے جو پوری امتِ مسلمہ کی قیادت کر سکتا ہے اور ایک نئی اسلامی تہذیب کی بنیاد بن سکتا ہے۔ پاکستان میں بڑا امکان ہے کہ یہ امت کو دوبارہ متحد کرنے میں مرکزی کردار ادا کرے۔ اسی لیے میرا دل چاہتا ہے کہ یہاں زیادہ وقت گزاروں اور مختلف اسلامی ممالک میں بھی یہی تجربہ حاصل کروں تاکہ مزید گہرائی سے اس حقیقت کو سمجھا جا سکے۔