اعلامیہ
الحمد اللہ رب العالمین، والعاقبۃ للمتقین، والصلاۃ والسلام علیٰ خاتم الانبیاء والمرسلین، وعلیٰ آلہ واصحابہ اجمعین، اما بعد:
آج بتاریخ 3 اگست 2025، بروز اتوار، بمقام: مرکز قرآن و سنہ (53 لارنس روڈ) لاہور، پاکستان ’’رسول کریم ﷺ، صحابہ کرام و اہلِ بیت عظام اور شعائر اسلامیہ کی توہین، تنقیص اور تعریض کی شرعی و قانونی حیثیت‘‘ کے عنوان پر تمام مکاتب فکر کے علماء و مشائخ اور تمام جماعتوں کے قائدین کا یہ متفقہ اعلامیہ پیشِ خدمت ہے:
اسلام کتاب و سنت کا نام ہے۔ کتاب و سنت پر عمل پیرا ہونا، اس کی نشر و اشاعت اور غالب کرنے کی کوشش کرنا ہر مسلمان کا بنیادی دینی فریضہ ہے۔ فروغِ اسلام اور حفاظتِ دین کے لیے کتاب و سنت کی روشنی میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر ملتِ اسلامیہ کا منہاج ہے۔ حفاظتِ دین کے پیشِ نظر تحفظِ ناموسِ رسالت ﷺ، دفاعِ صحابہ و اہلِ بیت رضی اللہ عنہم اور تعظیمِ شعائرِ اسلام کی جدوجہد واجباتِ شرعیہ میں سے ہے۔
1- ناموسِ رسالت ﷺ اور منصبِ نبوت کا تحفظ
(۱) خاتم الرسل والانبیاء ﷺ کو ہر قسم کے نظریات و شخصیات پر مقدم رکھنے اور غیر مشروط محبوب و مطاع ماننے اور ثابت کرنے کی جدوجہد؛ ناموسِ رسالت و منصبِ رسالت پر ایمان کا بنیادی تقاضا ہے۔
(۲) حدیثِ نبوی کی حجیت کا واضح انکار کرنا، کلی انحراف یا استہزا، توہینِ نبوت کے مترادف اور منصبِ نبوت پر ڈاکہ زنی ہے۔ ایسا کرنے والا ملتِ اسلامیہ سے خارج ہے۔ اسی طرح کتاب و سنت کے مسلّمات اور اجماعِ امت کے خلاف محاذ آرائی سراسر گمراہی ہے۔ اس کے بالمقابل کنایۃ جزوی طور پر انکار کرنے والا گمراہ ہے۔
(۳) شانِ رسالت میں صراحۃً و اِرادۃً توہین، تنقیص اور تعریض1 کرنا کفر، ارتداد، عہد شکنی اور دین دشمنی ہے جس کا مرتکب شرعی اعتبار سے سزائے موت2 کا حق دار ہے، البتہ اس سزا کا اختیار عدالت اور حکومت کو حاصل3 ہے۔
2- توہینِ رسالت کے مجرموں کی فوری سزا
(۱) حالیہ بلاسفیمی سازش کا سدباب کرنا، پاکستان مسلم حکومت کی ذمہ داری ہے۔
(۲) توہینِ ناموسِ رسالت ﷺ کو روکنے اور عالمی سطح پر اسے جرم تسلیم کروانے کے لئے حکومت کو اپنا کر دار ادا کرنا چاہیے۔
(۳) جن مجرموں کو سزا سنائی جا چکی ہے، اس پر فوری عمل کیا جائے۔
(۴) توہینِ مقدسات سے متعلقہ زیر سماعت مقدمات کا فوری فیصلہ کیا جائے۔
(۵) قانون توہینِ رسالت کو غیر مؤثر بنانے اور ترمیم کرنیوالے پروٹیکشن گروپ کی اندرونی و بیرونی فنڈنگ کو بند کیا جائے اور سوشل میڈیا وغیرہ پر ایسے توہین آمیز مواد اور اس کو پھیلانے والے عناصر پر فوری پابندی لگائی اور قرار واقعی سزا دی جائے۔
(۶) اس مسئلے کی غیر معمولی اہمیت کے پیشِ نظر بین المسالک تحفظِ شعائر اللہ فورم قائم کر کے متحرک کیا جائے۔
3- مقامِ صحابہؓ و اہلِ بیتؓ
(۱) انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد جملہ صحابہ کرام و اہل بیت عظام رضی اللہ عنہم واجب الاحترام اور افضل ترین4 نفوسِ قدسیہ ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے سید المرسلین ﷺ کی رفاقت5، تبلیغ اور اقامتِ دین کے لیے چنا۔
(۲) وہ رسول اللہ ﷺ کی تربیت کا بہترین ثمر، اللہ کی جماعت6 اور معیارِ ایمان7 ہیں۔
(۳) ان کو مغفرتِ ذنوب8 اور جنت کی حتمی بشارتیں، الفائزون، المفلحون، رضی اللہ عنہم، وکلا وعد اللہ الحسنیٰ9 کی سندیں حاصل ہیں۔
(۴) اگرچہ ان کے ایمانی اور اُخروی درجات میں تفاوت ہے، جیسا کہ خلفائے راشدین10، عشرہ مبشرہ11، اہلِ بیت12، اصحابِ بدر اور اصحابِ شجرہ رضوان اللہ علیہم اجمعین وغیرہ۔ یہ سب کے سب اللہ تعالیٰ سے راضی اور اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہے۔
(۵) وہ تفسیر، حدیث، فقہ، اور علم و عمل کے ہر شعبہ میں سب سے بڑے اور اولین امام13 ہیں۔
(۶) صحابہ کرام و اہلِ بیت رضی اللہ عنہم نبوت کے عینی گواہ اور سفیر ہیں، نزولِ قرآن کے اولین مخاطب، حاضرینِ مجلس اور براہ راست دین سمجھنے والے اور عدالت و امانت کے ساتھ اسے آگے نقل کرنے والے ہیں۔
(۷) ملتِ اسلامیہ کو انہی کی بیان کردہ روایاتِ دین کے ذریعے اسلام اور اس کے جملہ احکام و اعمال کی نعمت ملی۔ لہٰذا ان کے بعد ہونے والی تمام نیکیوں کا اجر ان کو ملتا14 ہے۔
(۸) صحابہ کرام و اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کی اتباع کرنے والے محدثین، مفسرین، فقہاء، زہاد؛ اہل السنہ والجماعہ اور ملتِ اسلامیہ کے مقتدیٰ اور رہنما ہیں۔
(۹) صحابہ کرام و اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کا روایتِ دین اور فکر و عمل میں منہج اختیار کرنا اسلام کی اساس ہے۔
(۱۰) جنتی گروہ صرف وہی ہے جو صحابہ کرام و اہلِ بیت عظام رضی اللہ عنہم کے راستے15 پر رہے۔
4- صحابہؓ و اہلِ بیتؓ کے متعلق اہل السنہ والجماعہ کا اجماعی عقیدہ
(۱) تمام صحابہ کرام اور اہلِ بیت رضی اللہ عنہم عادل16 اور امین ہیں۔
(۲) ان سے محبت کرنا دین17، ایمان، احسان18 اور شرعی فریضہ ہے۔
(۳) وہ رسول کریم ﷺ کو سب سے زیادہ محبوب19 ہیں، ان سے بغض رکھنا اللہ کے غیظ و غضب اور قہر و عذاب کا موجب ہے۔
(۴) سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر، سیدنا عثمان، سیدنا علی، سیدنا طلحہ، سیدنا زبیر، سیدنا حسن، سیدنا حسین، سیدنا ابو سفیان، سیدنا معاویہ، سیدنا عمرو بن عاص، سیدنا مغیرہ بن شعبہ، سیدنا عمار بن یاسر، سیدنا ابو موسیٰ اشعری، سیدہ عائشہ و دیگر اُمہات المومنین اور جمیع صحابہ کرام و اہلِ بیت عظام رضی اللہ عنہم میں سے کسی کی شان میں کسی بھی پلیٹ فارم پر صراحۃً یا اشارۃً توہین، تنقیص اور تعریض کرنا کفر، نفاق، طغیان اور اسلام میں طعنہ زنی و دین دشمنی ہے۔
(۵) ان پر تبرا کرنا، تہمت لگانا20، تکفیر کرنا، اعتراضات اٹھانا اور ان کی عدالت و ثقاہت کی بابت شبہات21 پیدا کرنا؛ ایمان کے منافی، امتِ مسلمہ کے اجماعی عقیدہ سے انحراف، موجبِ فسق و نفاق اور بدعت و ضلال ہے۔
(۶) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اختلافات کو بنیاد بنا کر ان میں سے کسی کی توہین و تنقیص اور تعریض کرنا سراسر باطل عمل اور واضح گمراہی22 ہے اور اپنے اختلافات میں ہر دو طرف کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم علم، اخلاص اور خیر خواہی کی بنیاد پر مجتہد ہونے کے ناطے سے اکہرے یا دوہرے اجر سے کبھی محروم23 نہیں رہے۔
5- صحابہ کرامؓ و اہلِ بیتؓ کی توہین و تنقیص کرنے والا سنگین سزا کا مستحق ہے!
(۱) صحابہ کرام و اہلِ بیت عظام رضی اللہ عنہم کی صراحۃً و کنایۃً توہین و تنقیص؛ شرعی24 قانونی سزا کی موجب ہے۔
(۲) تاریخِ اسلامیہ میں ایسے بدبختوں کو ہمیشہ سنگین سزاؤں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
(۳) اکثر بلادِ اسلامیہ میں نافذ العمل قوانین کی طرح پاکستان میں قانونی عمل کو مکمل کیا جائے۔
(۴) پاکستانی اسمبلیوں میں ناموسِ صحابہؓ و اہلِ بیتؓ بل 1993، تحفظِ بنیادِ اسلام بل 2020 پیش ہوئے ہیں۔ تحفظِ ناموسِ صحابہؓ و اہلِ بیتؓ ایکٹ 2023 وغیرہ منظوری کے بعد ایوانِ صدر میں دستخط نہ ہونے کی بنا پر دو سالوں سے التوا کا شکار ہے، جس کو مکمل کر کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے گستاخوں پر شرعی اور قانونی سزا فوری نافذ کی جائے۔
6- صحابہؓ و اہلِ بیتؓ کی توہین، تنقیص اور تعریض کرنے والا
(۱) صحابہؓ و اہلِ بیتؓ کی توہین، تنقیص اور تعریض کرنے والا؛ اہل السنہ کے منہج، مسلّمات، اجماعی عقائد سے منحرف ہے اور گمراہ ہے، اس کا اہلِ سنت سے کوئی تعلق نہیں! خواہ وہ کوئی عام آدمی ہو یا کوئی خطیب و واعظ اور ذمہ دار ہو، یا کسی ادارے، تنظیم اور جماعت کا فرد ہو۔
(۲) ایسے ہر شخص کی تمام سُنی مکاتبِ فکر ہر مجلس میں خوب سرزنش اور مکمل بائیکاٹ کریں۔
(۳) نصیحت کے لوازمات مکمل کر کے توبہ پر آمادہ کیا جائے، بصورت دیگر شرعی و قانونی سزا کے اقدامات کریں۔
7- اہل السنہ و الجماعہ کا منہاج افراط و تفریط سے پاک ہے!
(۱) ہم رافضیوں (شیخینؓ یا کسی بھی صحابیؓ سے بغض و عداوت رکھنے والوں) اور ناصبیوں (اہلِ بیت سے بغض اور دشمنی رکھنے والوں) اور ان کے ہم نواؤں کے فکر و عمل سے کھلا اظہارِ براءت25 کرتے ہیں اور ان کی مجلسوں میں شرکت کی سختی سے نفی کرتے ہیں۔
(۲) نواسۂ رسول اور نوجوانانِ جنت کے سردار سیدنا حسین رضی اللہ عنہ پر ظلم و بربریت ڈھانے والوں کے بارے میں ہمارا وہی موقف ہے جو اہلِ سنت کے سرخیل شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے فرمایا ہے:
’’واما من قتل الحسین او اعان علیٰ قتلہ او رضی بذٰلک فعلیہ لعنۃ اللہ و الملائکۃ والناس اجمعین، لا یقبل اللہ منہ صرفاً ولا عدلًا۔ (مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ: 487/4)
’’جس نے بھی سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کیا، یا ان کی شہادت میں کسی طرح کی کوئی مدد کی، یا ان کی شہادت پر وہ کسی درجے میں خوش ہوا؛ تو اس پر اللہ، ملائکہ اور تمام لوگوں کی لعنت ہو۔ اللہ تعالیٰ اس کی کوئی فرضی اور نفلی عبادت قبول نہ فرمائے۔‘‘
8- تحفظِ شعائرِ اسلام
(۱) شعائر اللہ اسلام کے ستون اور نظریاتی سرحدیں ہیں۔ قرآن، حرمین شریفین، مساجد، ارکانِ اسلام، قربانی، داڑھی اور حجاب و پردہ وغیرہ؛ دینِ اسلام کی پہچان اور امتیازی علامتیں ہیں، جن کی تعظیم تقویٰ کا تقاضا26 اور ان کی بے حرمتی صریحاً گمراہی اور بہت بڑی نافرمانی ہے۔
(۲) شعائرِ اسلام میں سے کسی ایک کی بھی صراحۃً و ارادۃً تحقیر و تضحیک اور استہزا و تمسخر27؛ اسلام کی اساسیات پر حملہ اور انہیں مسمار کرنا ہے، جو کہ موجبِ ارتداد و کفر یا باعثِ فسق و نفاق ہے۔
(۳) بالخصوص قرآن کریم کی اہانت کرنا صریح کفر ہے28، جیسے اسے گندگی میں پھینکنا، روندنا، مذاق اڑانا، شرمناک جگہوں پر لکھنا وغیرہ۔
(۴) اسی طرح مساجد میں فلمیں بنانا، انہیں تفریحی مقام سمجھنا29 اور ان میں مردوزن کا فحش حرکات کرنا30 مسجد کے تقدس کے منافی ہے۔
(۵) موجودہ عالمی ماحول میں آزادئ اظہار کے نام پر اسلام اور اس کے شعائر کو تضحیک، تحقیر اور تمسخر کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، جو دراصل امتِ مسلمہ کی دینی شناخت پر حملہ ہے۔ جبکہ مسلمانوں نے ہر دور میں شعائرِ دین کے تحفظ کو جان و مال سے مقدم رکھا؛ یہ صرف جذباتی غیرت نہیں بلکہ ایمانی ذمہ داری اور اسلامی شعور کا مظہر ہے31۔ لہٰذا اس کا دفاع واجب ہے، کیونکہ ان کی بے حرمتی سے تعلیماتِ شرعیہ کے تشخص کا خاتمہ ہوتا ہے، تہذیبِ اسلامی کا وقار ختم ہوتا ہے اور دین کے اصولوں اور اساسیات میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔
تجاویز و سفارشات
(۱) تحفظِ ناموسِ رسالت ﷺ، دفاعِ صحابہ و اہل بیت رضی اللہ عنہم اور تعظیمِ شعائرِ اسلام کی جدوجہد واجباتِ شرعیہ میں سے ہے اور ہمارے ایمان کا تقاضا ہے۔
(۲) رسول کریم ﷺ کی توہین، تنقیص اور تعریض کرنا ملتِ اسلامیہ سے خارج ہونے کا سبب ہے، مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے اور وطنِ عزیز کے امن کو خراب کرنے کا باعث ہے۔
(۳) صحابہ کرام و اہلِ بیت عظام رضی اللہ عنہم اور شعائرِ اسلام کی توہین، تنقیص اور تعریض کرنا صریحاً گمراہی ہے اور بین المسالک فساد پیدا کرنے کی ناپاک کوشش ہے۔
(۴) حدیثِ نبوی کی حجیت کا واضح انکار کرنا، کلی انحراف یا استہزاء؛ توہینِ نبوت کے مترادف اور منصبِ نبوت پر ڈاکہ زنی ہے۔ ایسا کرنے والا ملتِ اسلامیہ سے خارج ہے، اس طرح کتاب و سنت کے مسلّمات اور اجماعِ امت کے خلاف محاذ آرائی سراسر گمراہی ہے۔
(۵) حالیہ بلاسفیمی کیسز میں سازش کا سدباب کرنا پاکستان مسلم حکومت کی ذمہ داری ہے۔
(۶) توہینِ ناموسِ رسالت کو روکنے کے لیے عالمی سطح پر اسے جرم تسلیم کروانے کے لیے حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
(۷) بلاسفیمی کیسز میں جن مجرموں کو سزا سنائی جا چکی ہے، اس پر فوری عمل کیا جائے۔
(۸) توہین سے متعلقہ زیر سماعت مقدمات کا فوری فیصلہ کیا جائے۔
(۹) قانونِ توہینِ رسالت کو غیر مؤثر بنانے اور ترمیم کرنے والے پروٹیکشن گروپ کی اندرونی و بیرونی فنڈنگ کو بند کیا جائے اور سوشل میڈیا وغیرہ پر ایسے توہین آمیز مواد اور اس کو پھیلانے والے عناصر پر فوری پابندی لگائی جائے اور قرار واقعی سزا دی جائے۔
(۱۰) اس مسئلے کی غیر معمولی اہمیت کے پیشِ نظر بین المسالک ’’تحفظِ شعائر اللہ فورم‘‘ قائم کر کے متحرک کیا جائے۔
(۱۱) حکومت سے اپیل کی جاتی ہے کہ اس مسئلے کی حساسیت کے پیشِ نظر اسی قدر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جائے اور شعائر اللہ کی تعظیم و تقدیس کو یقینی بنایا جائے۔
(۱۲) بین المسالک تحفظِ شعائرِ اسلام فورم بنایا جائے جو شرعی قانون سازی کروانے اور پہلے سے موجود قوانین پر عمل درآمد کی مؤثر تحریک چلائے۔
(۱۳) اس حوالے سے عوامی سطح پر موجود شکوک و شبہات کے تدارک کے لئے علماء و داعیانِ دین کی تحقیقی مجالس کا انعقاد کرے۔
(۱۴) علمائے کرام رفعِ شبہات کی بابت علمی و تحقیقی کتب، مضامین اور تعلیمی اداروں کے لیے نصابی لٹریچر تیار کریں۔
(۱۵) جبکہ داعیانِ دین دفعِ شبہات کے لیے تمام اسباب و ذرائع؛ خصوصاً سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز پر ریلیز، شارٹ کلپس اور پوڈکاسٹس کے ذریعے مضبوط جدوجہد کریں۔
متفرق قراردادیں
- توہینِ رسالت کے مرتکبین کی سہولت کاری اور قانونِ توہینِ رسالت کو غیر مؤثر بنانے کے لیے عدالتی کمیشن بنانا سنگین جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کی ہم نوائی ہے۔
- تمام پرائیویٹ یا سرکاری تعلیمی اداروں میں طلبہ پر تشدد ناقابلِ برداشت ہے۔
- جرگے اور پنجایت کے حکم پر غیرت کے نام پر قتل کرنا ظلم و زیادتی ہے، جس کی ہم مذمت کرتے ہیں۔
قرآن و سنت، آثار صحابہ کرامؓ اور اقوالِ ائمہ اسلاف مع حوالہ جات
- شیخ الاسلام ابن تیمیۃ: ما ہو السب؟: ’’الکلام الذی یقصد بہ الانتقاص والاستخفاف وہو ما یفہم منہ السب فی عقول الناس علیٰ اختلاف اعتقاداتہم کاللعن والتقبیح ونحوہ… (الصارم المسلول لابن تیمیہ: ص 561) والکلمۃ الواحدۃ تکون فی حال سبا وفی حال لیست بسب فعلم ان ہذا یختلف باختلاف الاقوال والاحوال واذا لم یکن للسب حد معروف فی اللغۃ ولا فی الشرع، فالمرجع فیہ الی عرف الناس فما کان فی العرف سبا للنبی فہو الذی یجب ان ننزل علیہ کلام الصحابۃ والعلماء وما لا فلا۔ (ص 541)
+ قاضی عیاض (م544ھ) نے بھی الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی ﷺ میں ’توہین‘ کی ایک تعریف درج کی ہے۔ (932/2) تاہم مذکورہ تعریف زیادہ بہتر ہے۔ - ابن المنذر: ’’اجمع عوام اہل العلم علی ان من سب النبی ﷺ القتل۔‘‘ (الاشراف لابن المنذر: 60/8)
+ ابوبکر الفارسی: ’’اجمعت الامۃ علیٰ ان من سب النبی ﷺ یقتل حدا‘‘ (السیف المسلول للسبکی: 156) - الامام الشافعی: ’’لا یقیم الحد علی الاحرار الا الامام ومن فوض الیہ الامام۔‘‘
+ الامام النووی: لا یقیم الحد علی الاحرار الا الامام ومن فوض الیہ الامام، لانہ لم یقم حد علیٰ حر علیٰ عہد رسول اللہ ﷺ الا باذنہ ولا فی ایام الخلفاء الا باذنہم، ولانہ حق للہ تعالیٰ یفتقر الی الاجتہاد ولا یؤمن فی استیفائہ الحیف فلم یجز بغیر اذن الامام۔ (’المجموع‘ للنووی: 34/20، اور 448/18)
+ ابوبکر الکاسانی الحنفی: ’’واما شرائط جواز اقامتہا یعنی الحدود … فہو الامامۃ ان یکون المقیم للحد ہو الامام او من ولاہ الامام۔ (بدائع الصنائع: 57/7)
+ ابن تیمیۃ: ’’خاطب اللہ المؤمنین بالحدود والحقوق خطابا مطلقا … ہو فرض علی الکفایۃ من القادرین و ’’القدرۃ‘‘ ہی السلطان؛ فلہٰذا: وجب اقامۃ الحدود علیٰ ذی السلطان ونوابہ۔ (مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ: 176/34)
+ نابینا صحابی کا اپنی باندی کو خود توہین کرنے پر سزائے قتل دینے کی شیخ ابن تیمیہ نے چھ توجیہات پیش کی ہیں۔ ( الصارم المسلول: ص 285) - قال النبی ﷺ: «انتم خیر اہل الارض» وکنا الفا واربع مائۃ …» (صحیح البخاری: رقم 4186)
+ قال النبی لاہل بدر: «من افضل المسلمین…» (صحیح البخاری: رقم 2992)
+ ای الناس خیر؟ فقال النبی ﷺ: «القرن الذی انا فیہ، ثم الثانی، ثم الثالث» (صحیح مسلم: 6478) - عبد اللہ بن مسعود: ’’فوجد قلوب اصحابہ خیر قلوب العباد، فجعلہم وزراء نبیہ، یقاتلون علی دینہ‘‘ (مسند احمد: 379/1، رقم 3600)
+ شیخ الاسلام ابن تیمیۃ: ’’وخیار ہذہ الامۃ ہم الصحابۃ، فلم یکن فی الامۃ اعظم اجتماعا علی الہدی ودین الحق، ولا ابعد عن التفرق والاختلاف منہم، وکل ما یذکر عنہم مما فیہ نقص، فہٰذا اذا قیس الی ما یوجد فی غیرہم من الامۃ کان قلیلا من کثیر، واذا قیس ما یوجد فی الامۃ الی ما یوجد فی سائر الامم کان قلیلا من کثیر، وانما یغلط من یغلط انہ لینظر الی السواد القلیل فی الثوب الابیض وینظر الی الثوب الاسود الذی فیہ بیاض۔‘‘ (منہاج السنۃ: 242/3) - ﴿رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ، اولئک حزب اللہ، الا ان حزب اللہ ہم المفلحون﴾ (المجادلۃ: 22)
- ﴿فان آمنوا بمثل ما آمنتم بہ فقد اہتدوا﴾ (البقرۃ: 137)
- «لعل اللہ ان یکون قد اطلع علی اہل بدر فقال: اعملوا ما شئتم فقد غفرت لکم» (صحیح البخاری: 3028)
- ﴿لا یستوی منکم من انفق من قبل الفتح وقاتل، اولئک اعظم درجۃ من الذین انفقوا من بعد وقاتلوا وکلا وعد اللہ الحسنیٰ﴾ (الحدید: 10)
+ ﴿الذین آمنوا وہاجروا وجاہدوا فی سبیل اللہ باموالہم وانفسہم اعظم درجۃ عند اللہ واولئک ہم الفائزون﴾ (التوبۃ: 20) - عن محمد بن الحنفیۃ قال قلت لابی: ای الناس خیر بعد رسول اللہ ﷺ قال: ابوبکر قلت ثم من قال ثم عمر … (صحیح البخاری: 3698)
+ سمع النبی ﷺ یقول یوم خیبر: لاعطین الرایۃ رجلا یفتح اللہ علی یدیہ، فقاموا یرجون لذلک ایہم یعطی، فغدوا وکلہم یرجو ان یعطی، فقال: این علی؟…» (البخاری: 2942) - قال رسول اللہ ﷺ: «ابوبکر فی الجنۃ وعمر فی الجنۃ وعثمان فی الجنۃ وعلی فی الجنۃ وطلحۃ فی الجنۃ والزبیر فی الجنۃ وعبد الرحمٰن بن عوف فی الجنۃ وسعد فی الجنۃ وسعید فی الجنۃ وابو عبیدۃ بن الجراح فی الجنۃ۔ (سنن الترمذی: 3747)
- عن ابی بکر رضی اللہ عنہم قال ارقبوا محمدا ﷺ فی اہل بیتہ (صحیح البخاری: 3741)
- الامام ابن ابی العز الحنفی: فانہم لم ینقلوا نظم القرآن وحدہ، بل نقلوا نظمہ ومعناہ، ولا کانوا یتعلمون القرآن کما یتعلم الصبیان، بل یتعلمونہ بمعانیہ۔ ومن لا یسلک سبیلہم فانما یتکلم برایہ… (شرح العقیدۃ الطحاویۃ: ص (120)
+ عبد اللہ بن عمر: اولئک اصحاب محمد ﷺ کانوا خیر ہذہ الامۃ ابرہا قلوبا واعمقہا علما واقلہا تکلفا، قوم اختارہم اللہ لصحبۃ نبیہ ولاقامۃ دینہ… (حلیۃ الاولیاء لابی نعیم احمد الاصبہانی: 305/1، وجامع بیان العلم وفضلہ لابن عبد البر: ص 948/2) - «من دعا الیٰ ہدی کان لہ من الاجر مثل اجور من تبعہ لا ینقص ذلک من اجورہم شیئا» (مسند احمد بن حنبل: 397/2)
- «تفترق امتی علیٰ ثلاث وسبعین ملۃ کلہم فی النار الا ملۃ واحدۃ قالوا ومن ہی یا رسول اللہ قال ما انا علیہ واصحابی»۔ (جامع ترمذی: 2641)
- ’’الصحابۃ کلہم عدول من لابس الفتن وغیرہم باجماع من یعتد بہ۔‘‘ (تقریب النواوی مع تدریب: 214/2 و ’مقام صحابہ‘ از مفتی محمد شفیع عثمانی: ص 77)
- قال رسول اللہ ﷺ: «الانصار لا یحبہم الا مؤمن، ولا یبغضہم الا منافق فمن احبہم احبہ اللہ، ومن ابغضہم ابغضہ اللہ» (صحیح البخاری: 3783)
+ قال انس: فانا احب اللہ ورسولہ وابا بکر وعمر، فارجو ان اکون معہم (صحیح مسلم: 3639) - الامام ابو جعفر الطحاوی (م321ھ): ’’ونحب اصحاب رسول اللہ ﷺ، ولا نفرط فی حب احد منہم، ولا نتبرا من احد منہم ونبغض من یبغضہم، وبغیر الخیر یذکرہم ولا نذکرہم الا بخیر وحبہم دین وایمان واحسان، وبغضہم کفر ونفاق وطغیان۔‘‘ (شرح العقیدۃ الطحاویۃ: 57)
- قال النبی ﷺ: «اللہم انتم من احب الناس الی قالہا ثلاث مرار» (صحیح البخاری: 3785)
- قال رسول اللہ ﷺ: «لا تسبوا احدا من اصحابی، فان احدکم لو انفق مثل احد ذہبا، ما ادرک مد احدہم، ولا نصیفہ»۔ (صحیح مسلم: رقم 6488 واللفظ لمسلم، وصحیح البخاری رقم 3700)
+ عن عبد اللہ بن عباس، قال النبی ﷺ: «من سب اصحابی فعلیہ لعنۃ اللہ والملائکۃ والناس اجمعین» (المعجم للطبرانی: 12541، صحیح الجامع: 5111
+ عن عبد اللہ بن مسعود قال النبی ﷺ: «اذا ذکر اصحابی فامسکوا» (المعجم الکبیر للطبرانی: 10296 وتخریج الاحیاء للعراقی 50/1، حسن) - الحافظ ابن حجر: ’’وقد اتفق اہل السنۃ علی ان الجمیع عدول، ولم یخالف فی ذلک الا شذوذ من المبتدعۃ۔‘‘ (الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ: 131/1)
- ابن تیمیۃ: ’’فمن تکلم فیما شجر بینہم - وقد نہی اللہ عنہ: من ذمہم او التعصب لبعضہم بالباطل - فہو ظالم معتد۔‘‘ (مجموع الفتاوی: 432/4)
- الامام احمد بن عبد الحلیم ابن تیمیۃ: ’’اما مجتہدون مصیبون واما مجتہدون مخطئون… ان اصابوا فلہم اجران وان اخطئوا فلہم اجر واحد والخطا مغفور لہم۔‘‘ (مجموع الفتاوی: 155/3)
+ الامام یحییٰ بن شرف النووی: ’’واما الحروب التی جرت، فکانت لکل طائفۃ شبہۃ اعتقدت تصویب انفسہا بسببہا، وکلہم عدول ومتاولون فی حروبہم وغیرہا، ولم یخرج شیء ذلک احدا منہم من العدالۃ؛ لانہم مجتہدون اختلفوا فی مسائل من محل الاجتہاد…‘‘ (شرح مسلم للنووی: 118/8) (بحوالہ مجلۃ شہریۃ ’الداعی‘ تصدر من دارالعلوم دیوبند، الہند، مقالۃ علمیۃ ’’موقف الامۃ المسلمۃ من مشاجرۃ الصحابۃ‘‘ لمدیرہا نور عالم امینی) - امام احمد بن حنبل: ’’کسی کے لیے صحابہ کرامؓ کا ذکرِ سو، یا اُن پر طعن و تشنیع کرنا جائز نہیں۔ حاکمِ وقت پر فرض ہے کہ ایسا کرنے والے کو سزا دے، کیونکہ یہ جرم ناقابلِ معافی ہے۔ سزا دینے کے بعد اس سے توبہ کروائی جائے، اگر توبہ کرے تو بہتر وگرنہ اسے دوبارہ سزا دی جائے اور اسے قید میں رکھا جائے جب تک کہ وہ توبہ کر کے اس فعلِ مذموم سے باز نہ آئے۔‘‘ (الصارم المسلول: و رسالہ قیرانویہ: ص 419)
- الامام ابن تیمیۃ: الاصل الخامس: 156 ۔ وفی اصحاب رسول اللہ ﷺ بین الروافض والخوارج… (العقیدۃ الواسطیۃ لابن تیمیۃ: ص 82)
- ﴿ومن یعظم شعائر اللہ فانہا من تقوی القلوب﴾ (الحج: (32)
- ﴿قل اباللہ وآیاتہ ورسولہ کنتم تستہزئون o لا تعتذروا قد کفرتم بعد ایمانکم…﴾ (التوبہ: 65، 66)
- وقد اتفق المسلمون علی ان من استخف بالمصحف مثل ان یلقیہ فی الحش او یرکضہ برجلہ اہانۃ لہ انہ کافر۔ (مجموع الفتاوی 425/8)
- ﴿وما کان صلاتہم عند البیت الا مکآء وتصدیۃ﴾ (الانفال: 35)
- ﴿ان الذین یحبون ان تشیع الفاحشۃ فی الذین آمنوا لہم عذاب الیم فی الدنیا والآخرۃ﴾ (النور: 19)
- یا ایہا الذین آمنوا لا تتخذوا الذین اتخذوا دینکم ہزوا ولعبا من الذین اوتوا الکتاب من قبلکم والکفار اولیاء﴾ (المائدۃ: 57)
الداعیان
علامہ حافظ ابتسام الٰہی ظہیر (چیئرمین قرآن و سنہ موومنٹ پاکستان)
شیخ الحدیث مولانا محمد شفیق مدنی (مفتی جماعت)
ڈاکٹر حافظ حمزہ مدنی (وائس چیئرمین)
ڈاکٹر حافظ انس مدنی (ناظم دعوت و تبلیغ)
ڈاکٹر حافظ شفیق الرحمٰن زاہد (چیئرمین پنجاب)