(’’فہمِ اقبال‘‘ سے چند منتخب نظمیں)
دانائے سبل ختم الرسل
گراں جو مجھ پر یہ ہنگامہ زمانہ ہوا
جہاں سے باندھ کے رختِ سفر روانہ ہوا
قیودِ شام و سحر میں بسر تو کی لیکن
نظامِ کہنہ عالم سے آشنا نہ ہوا
فرشتے بزمِ رسالت میں لے گئے مجھ کو
حضورِ آیۂ رحمت میں لے گئے مجھ کو
کہا حضورؐ نے، اے عندلیب باغ حجاز
کلی کلی ہے تری گرمئ نوا سے گداز
ہمیشہ سرخوشِ جام وِلا ہے دل تیرا
فتادگی ہے تیری غیرت سجودِ نیاز
اُڑا جو پستی دنیا سے تو سوئے گردوں
سکھائی تجھ کو ملائک نے رفعتِ پرواز
نکل کے باغِ جہاں سے برنگِ بو آیا
ہمارے واسطے کیا تحفہ لے کے تو آیا؟
حضورؐ دہر میں آسودگی نہیں ملتی
تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں ملتی
ہزاروں لالہ و گل ہیں ریاض ہستی میں
وفا کی جس میں ہو بو وہ کلی نہیں ملتی
مگر میں نذر کو اک آبگینہ لایا ہوں
جو چیز اس میں ہے جنت میں بھی نہیں ملتی
جھلکتی ہے تیری اُمت کی آبرو اس میں
طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اس میں
(بانگِ درا، ص ۲۴۳)
عندلیب: بلبل۔ جامِ وِلا: محبت کا پیالہ
تشریح
علامہ اقبالؒ نے یہ نظم ۱۹۱۱ء میں جنگ بلقان کے موقع پر بادشاہی مسجد لاہور میں پڑھی تھی۔
اللہ تعالیٰ نے دنیا عمل کے لیے بنائی ہے۔ دنیا میں انسان کو تکالیف اور طرح طرح کے مسائل بھی ہیں۔ ان سب سے نبرد آزما ہونا ہی مومن کی شان ہے۔ اس کی جزا اللہ تعالیٰ آخرت میں دے گا۔
میں نے اپنی زندگی تو بہتر کر لی ہے لیکن دنیا میں وہی پرانا نظام ہے۔ اس کو کوئی بدلنا نہیں چاہتا۔ اصل میں علامہ اقبالؒ نے کہا ہے کہ لوگ غلامی سے باہر نہیں آنا چاہتے۔ میں نے اپنی بھرپور کوشش کی۔
فرشتے مجھے اللہ کے نبی ﷺ کی محفل میں لے گئے۔ آپ ﷺ پوری کائنات کے لیے رحمت ہیں۔
اللہ کے نبی ﷺ نے کہا اے اقبالؒ! تو نے اپنی شاعری سے مسلمانوں کو بیدار کرنے کی کوشش کی۔ تیری اس آواز سے لوگوں کے دل نرم ہوئے ہیں۔
اقبال میری محبت میں تیرے جام کا پیالہ بھرا رہتا ہے۔ یعنی تیرا دل میری محبت سے سرشار رہا۔ جس عاجزی سے تو نے رب کے سامنے سجدے کیے ہیں وہ رشک کے قابل ہے۔ تو نے اپنی شاعری سے بلندی کا درس دیا ہے۔ لوگوں کو تو نے پستی سے نکالنے کی کوشش کی۔
دنیا سے تو میری طرف ایسے آیا جیسے پھول سے خوشبو نکل آتی ہے۔ میرے لیے کیا تحفہ لے کر آیا ہے؟
اقبالؒ نے کہا میرے آقا ﷺ دنیا کے اندر سکون نہیں ہے۔ وہ زندگی جو آپ ﷺ کی اطاعت میں گزر جائے آپ ﷺ کی محبت میں گزر جائے تلاش کرنے سے نہیں ملی۔
دنیا میں ہزاروں طرح کے پھول ہیں۔ لوگ ہیں۔ آپ ﷺ سے وفا کرنے والے لوگ نہیں ملتے۔
اس گئے گزرے دور میں بھی آپ ﷺ کے لیے اک شیشی میں تحفہ لایا ہوں۔ جو بہت قیمتی ہے۔ میرے آقا ﷺ تری اُمت کی عزت اسی میں ہے۔ طرابلس کے شہیدوں کا لہو اس شیشی میں لایا ہوں۔ میرے آقا ﷺ جب تک آپ کی اُمت خون دیتی تھی عزت تھی۔ خون نہ دینے کی وجہ سے ذلت کا شکار ہے۔
بلال رضی اللہ عنہ
لکھا ہے ایک مغربی حق شناس نے
اہلِ قلم میں جس کا بہت احترام تھا
جولاں گہِ سکندر رومی تھا ایشیا
گردوں سے بھی بلند تر اس کا مقام تھا
تاریخ کہہ رہی ہے کہ رومی کے سامنے
دعویٰ کیا جو پورس و دارا نے، خام تھا
دنیا کے اِس شنہشہِ انجم سپاہ کو
حیرت سے دیکھتا فلکِ نیل فام تھا
آج ایشیا میں اس کو کوئی جانتا نہیں
تاریخ دان بھی اسے پہچانتا نہیں
لیکن بلالؓ، وہ حبشی زادۂ حقیر
فطرت تھی جس کی نورِ نبوت سے مستنیر
جس کا امین ازل سے ہوا سینۂ بلالؓ
محکوم اس صدا کے ہیں شاہنشہ و فقیر
ہوتا ہے جس سے اَسود و احمر میں اختلاط
کرتی ہے جو غریب کو ہم پہلوئے امیر
ہے تازہ آج تک وہ نوائے جگر گداز
صدیوں سے سن رہا ہے جسے گوشِ چرخِ پیر
اقبال! کس کے عشق کا یہ فیضِ عام ہے
رومی فنا ہوا، حبشی کو دوام ہے
(بانگِ درا ۲۹۶)
جولاں گہ: میدان۔ مستنیر: روشن۔ اختلاط: ملاپ
تشریح
مغرب کا ایک مصنف جو سچ کہنے والا تھا اور اس کی تحریر کا لوگ احترام کرتے تھے، نے کہا کہ سکندراعظم روم کا رہنے والا تھا۔ اُس کا مقام مرتبہ بہت اونچا تھا۔ جس نے دنیا کو فتح کیا جس کی فوج ستاروں کے برابر تھی۔ پورس جو ہندوستان کا بادشاہ تھا، اس کو شکست دی۔ اور دارا جو ایران کا مشہور بادشاہ تھا اس کو شکست دے کر ایران پر قبضہ کر لیا۔ اتنی بڑی طاقت رکھنے والا جس نے دنیا کو فتح کیا، آج اس کو ایشیا میں کوئی نہیں جانتا، تاریخ دان بھی اس کو نہیں جانتے۔
لیکن اس کے مقابلے میں وہ بلالؓ ایک خدام حبشی جس کا معاشرے میں معمولی مقام تھا، لیکن دل اس کا اسلام کی روشنی سے منور تھا۔ شروع سے بلالؓ نے ہی اذان دی۔ اس کی اذان کے ہر چھوٹے اور بڑے طبقہ کے لوگ شیدائی تھے۔ اسلام میں ہی یہ بات ہے کہ نماز کے وقت سب کو ایک کر دیتی ہے۔ امیر غریب کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوتے ہیں۔ پیارے آقا ﷺ سے عشق کی وجہ سے بلالؓ کا نام زندہ ہے اور قیامت تک زندہ رہے گا۔ طاقت ور رومی آج ختم ہو گیا ہے۔
امارت کیا، شکوہِ خسروی بھی ہو تو کیا حاصل
نہ زورِ حیدری تجھ میں نہ استغنائے سلمانیؓ
نہ ڈھونڈ اس چیز کو تہذیبِ حاضر کی تجلّی میں
کہ پایا میں نے استغنا میں معراجِ مسلمانی
(بالِ جبریل، ص ۴۹۶)
تشریح
اے مسلماں تجھ کو موجودہ دور میں سرداری، خسرو پرویز بادشاہ کی سی شان و شوکت دے دی جائے تو اس کا بھی کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا، کیونکہ تیرے اندر ابھی حضرت علیؓ جیسی ایمان کی قوت نہیں، اور نہ حضرت سلمان فارسیؓ جیسی بے نیازی ہے۔ ان چیزوں کو مغربی تہذیب میں تلاش نہ کر کہ مسلمانوں کو عظمت شانِ بے نیازی سے حاصل ہوتی ہے۔
اخوتِ مومن
مدعا تیرا اگر دنیا میں ہے تعلیمِ دیں
ترکِ دنیا قوم کو اپنی نہ سکھلانا کہیں
وا نہ کرنا فرقہ بندی کے لیے اپنی زباں
چھپ کے ہے بیٹھا ہوا ہنگامہ محشر یہاں
وصل کے اسباب پیدا ہوں تری تحریر سے
دیکھ! کوئی دل نہ دکھ جائے تری تقریر سے
(بانگ درا ۷۶۱)
تشریح
علامہ اقبالؒ نے اپنے علما کرام کو کہا کہ آپ کا مقصد لوگوں کو دین کی تعلیم دینا ہے تو پھر ترکِ دنیا کی تعلیم نہ دینا، جیسے راہب سب کچھ چھوڑ کر جنگلوں میں عبادت کرتے ہیں۔ یہ اسلام کی تعلیم نہیں ہے۔
دوسری احتیاط یہ کرنی ہے کہ اپنی زبان کو نئے فرقے بنانے کے لیے استعمال نہ کرنا۔ آپ کو پتہ نہیں اس کے پیچھے بہت بڑا فساد ہے۔
قوم کو اخوت کا پیغام دینا ہے۔ قوم کو پیار و محبت کے ذریعے اکٹھا کریں۔ کوئی ایسی تقریر نہ کر کہ دوسری فقہ کے لوگوں کی دل آزاری ہو۔
پرونا ایک ہی تسبیح میں ان بکھرے دانوں کو
جو مشکل ہے تو اس مشکل کو آساں کر کے چھوڑوں گا
مجھے اے ہم نشیں رہنے دے شغل سینہ کاوی میں
کہ میں داغِ محبت کو نمایاں کر کے چھوڑوں گا
(بانگِ درا ص ۹۸)
شغل سینہ کاوی: سخت کوشش
تشریح
قوم کو تسبیح کے دانوں کی طرح اکٹھا کرنا ہے جو لوگ مختلف قوموں میں بٹ گئے ہیں۔ یہ کام تو بظاہر مشکل ہے لیکن اس مشکل کو آسان کر کے ہی دم لوں گا۔ میرے دوست! سخت محنت کی لگن سے میں لوگوں کے اندر آپس میں محبت پیدا کر کے ہی دم لوں گا۔
ہوس نے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوعِ انساں کو
اخوت کا بیاں ہو جا، محبت کی زباں ہو جا
یہ ہندی، وہ خراسانی، یہ افغانی، وہ تورانی
تو اے شرمندۂ ساحل! اچھل کر بے کراں ہو جا
غبار آلودۂ رنگ و نسب ہیں بال و پر تیرے
تو اے مرغِ حرم! اڑنے سے پہلے پر فشاں ہو جا
خودی میں ڈوب جا غافل! یہ سرِّ زندگانی ہے
نکل کر حلقۂ شام و سحر سے جاوداں ہو جا
مصافِ زندگی میں سیرتِ فولاد پیدا کر
شبستانِ محبت میں حریر و پرنیاں ہو جا
گزر جا بن کے سیلِ تند رو کوہ و بیاباں سے
گلستاں راہ میں آئے تو جوئے نغمہ خواں ہو جا
(بانگِ درا ص ۳۳۴)
تشریح
تمام انسانوں کو لالچ نے قوموں، قبیلوں اور فرقوں میں بانٹ دیا ہے۔ اس حالت میں محبت اور بھائی چارہ کا درس دینے والا ہو جا۔
مختلف قوموں میں تعصب ہوتا ہے۔ ان نظریات کو چھوڑ دے۔ کناروں میں محدود رہنے والے! کناروں سے آزاد ہو کر تمام قوموں اور انسانیت کی بات کرنے والا بن جا۔
یعنی رنگ و نسل کے تعصب میں گھرے ہوئے تری ترقی کی صلاحیتیں قوموں کے تعصب میں گرد آلود ہیں۔ اے مسلمان ان تعصبات کی مٹی اپنے پروں سے جھاڑ لے۔
خودی کو پہچان کر ہر قسم کے تفرقات سے پاک ہو جا۔ یہ اصل زندگی ہے۔
زندگی کے میدان میں فولاد جیسی مضبوط فطرت پیدا کر۔ مسلمانوں کی محبت میں، آپس کی محبت میں ریشم کی طرح نرم ہو جا۔
پانی کے سیلاب کی طرح دنیا کی مصیبتوں کا مقابلہ کرتے ہوئے گزر جا۔ مسلمانوں کی محفل میں بیٹھ کر دوسروں کو فائدہ پہنچانے والا بن جا۔
(’’فہمِ اقبال [کلامِ اقبال کا موضوعاتی انتخاب]‘‘۔ ناشر: محمد عابد۔ اہتمام: مثال پبلشرز، امین پور بازار، فیصل آباد۔ 923006668284)