حال ہی میں ’’الجزیرہ‘‘ پر شائع ہونے والے ایک مضمون میں جیفری ساکس (Jeffrey Sachs) اور سِیبِل فیراس (Sybil Fares) نے اسرائیل اور امریکہ کی ملی بھگت سے غزہ میں فلسطینی عوام کو بھوکا مارنے اور اجتماعی قتلِ عام کے اقدامات کی وضاحت کی ہے۔ جیفری ساکس کولمبیا یونیورسٹی میں پروفیسر اور سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ کے معروف ماہر ہیں جنہوں نے اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرلز کو بھی مشاورت فراہم کی ہے، جبکہ سِیبِل فیراس مشرقِ وسطیٰ کی پالیسی اور پائیدار ترقی کے امور میں مہارت رکھنے والی ماہر ہیں۔ دونوں مصنفین نے اس مضمون میں بین الاقوامی برادری کی ذمہ داری پر زور دیا ہے کہ وہ اسرائیل کے ان اقدامات کو روکنے کے لیے فوری اور مؤثر عملی اقدامات کرے۔
الجزیرہ کے اس آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل غزہ میں عوام کو بھوکا مار کر اور انفراسٹرکچر کو تباہ کر کے نسل کشی کر رہا ہے، اور اس سب میں امریکہ براہ راست شریک ہے۔ اسرائیل یہ کام عملی طور پر کرتا ہے جبکہ امریکی حکومت اسے فنڈ فراہم کرتی ہے اور اقوامِ متحدہ میں اپنے ویٹو کے ذریعے سفارتی تحفظ دیتی ہے۔ ٹیکنالوجی کمپنیاں بھی اس جرم میں شامل ہیں، جیسے پالانٹیر نے "لیونڈر" نامی مصنوعی ذہانت فراہم کی ہے جو اجتماعی قتلِ عام میں مدد دیتی ہے۔ مائیکروسافٹ کے ایژور کلاؤڈ سروسز کے ذریعے اور گوگل اور ایمازون کے نِمبس منصوبے کے ذریعے اسرائیلی فوج کو بنیادی تکنیکی ڈھانچہ مہیا ہو رہا ہے۔
یہ اکیسویں صدی کے جنگی جرائم ہیں جو اسرائیل اور امریکہ کی شراکت سے سرانجام دیے جا رہے ہیں۔ اقوامِ متحدہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل، ریڈ کراس، سیو دی چلڈرن، اور دیگر اداروں نے اسرائیل کی جانب سے فلسطینی عوام کو بھوک سے مارنے کی پالیسی کی تصدیق کی ہے۔ ناروے ریفیوجی کونسل اور سو سے زیادہ تنظیمیں بھی اس غیر انسانی عمل کے خاتمے کا مطالبہ کر چکی ہیں۔ پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں اجتماعی بھوک کو سرکاری طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔
آرٹیکل کے مطابق بھوک کی شدت خوفناک ہے۔ اسرائیل بیس لاکھ سے زیادہ افراد کو منظم طور پر خوراک سے محروم کر رہا ہے۔ پانچ لاکھ سے زائد فلسطینی تباہ کن بھوک کا شکار ہیں اور ایک لاکھ بتیس ہزار سے زیادہ بچے جو پانچ سال سے کم عمر ہیں، شدید غذائی قلت کے باعث موت کے خطرے میں ہیں۔ اسرائیلی فوج ان لوگوں پر بھی گولیاں چلاتی ہے جو کسی طرح خوراک کے مراکز تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
ایک سابق امریکی سفیر کے مطابق ابتدا ہی سے اسرائیل کی نیت فلسطینی عوام کو بھوکا مارنے کی تھی۔ اسرائیل کے وزیرِ وراثت امیخائی ایلیاہو نے حال ہی میں کہا کہ ’’کوئی قوم اپنے دشمنوں کو کھانا نہیں کھلاتی۔‘‘ اسی طرح وزیر بیزالیل سموترچ نے کہا کہ ’’جو نہیں نکلے انہیں نہ نکلنے دو۔ نہ پانی، نہ بجلی، وہ بھوک سے مر جائیں یا ہتھیار ڈال دیں، یہی ہم چاہتے ہیں۔‘‘
اس سب کے باوجود امریکہ اقوامِ متحدہ میں اسرائیل کے جنگی جرائم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ 2024ء میں امریکہ نے اکیلے فلسطین کی رکنیت کو ویٹو کیا اور اب فلسطینی رہنماؤں کو اقوامِ متحدہ میں شرکت کے لیے ویزے دینے سے انکار کر رہا ہے، جو ایک اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔
دنیا اسرائیل اور امریکہ کی اس قتل و غارت پر ششدر ہے مگر بے بس دکھائی دیتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اقوامِ عالم کے پاس عمل کرنے کا اختیار موجود ہے۔ دسمبر میں 172 ممالک نے فلسطین کے حقِ خودارادیت کی حمایت کی تھی اور اسرائیل و امریکہ اپنی مخالفت میں تنہا رہ گئے تھے۔ امریکہ کے اندر بھی عوامی رائے اسرائیل کے خلاف جا رہی ہے، ایک سروے کے مطابق 60 فیصد امریکی اسرائیل کے غزہ میں اقدامات کی مخالفت کرتے ہیں۔
آرٹیکل میں اس سلسلہ میں عملی اقدامات تجویز کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ:
- سب سے پہلے ترکی نے درست راستہ اختیار کیا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تجارتی، فضائی اور بحری تعلقات ختم کر دیے ہیں۔ دیگر ممالک کو بھی فوراً اسی پالیسی پر عمل کرنا چاہیے۔
- اقوامِ متحدہ کے وہ تمام رکن ممالک جنہوں نے اب تک فلسطین کو تسلیم نہیں کیا، انہیں یہ قدم اٹھانا چاہیے۔ ابھی تک 147 ممالک فلسطین کو تسلیم کر چکے ہیں اور مزید درجنوں ممالک کو 22 ستمبر کو فلسطین سے متعلق اجلاس میں ایسا کرنا چاہیے، چاہے امریکہ مخالفت کرے۔
- ابراہیم معاہدے (Abraham Accords) پر دستخط کرنے والے عرب ممالک – بحرین، مراکش، سوڈان اور متحدہ عرب امارات – اسرائیل کے ساتھ تعلقات معطل کریں جب تک کہ غزہ کا محاصرہ ختم نہ ہو اور فلسطین کو اقوامِ متحدہ کی رکنیت نہ مل جائے۔
- جنرل اسمبلی (UNGA) دو تہائی اکثریت سے اسرائیل کی رکنیت معطل کرے، جیسا کہ نسلی امتیاز کے دور میں جنوبی افریقہ کے ساتھ کیا گیا تھا۔ جنرل اسمبلی میں امریکہ کے پاس ویٹو کا اختیار نہیں ہے۔
- اقوامِ متحدہ کے رکن ممالک کو چاہیے کہ اسرائیل کی فوجی کارروائیوں میں مدد دینے والی ٹیکنالوجی اور سروسز کی برآمدات روک دیں۔ ایمازون اور مائیکروسافٹ جیسی کمپنیوں سے اگر اسرائیلی فوج کو مدد ملنے کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا تو ان کا عالمی سطح پر بائیکاٹ ہونا چاہیے۔
- جنرل اسمبلی کو غزہ اور مغربی کنارے میں اقوامِ متحدہ کی ایک پروٹیکشن فورس بھیجنی چاہیے تاکہ انسانی امداد پہنچائی جا سکے۔ اگر سلامتی کونسل (UNSC) میں امریکہ ویٹو کا استعمال کرے تو ’’یونائٹنگ فار پیس‘‘ (Uniting for Peace) طریقہ کار کے ذریعے جنرل اسمبلی کو اس کا اختیار حاصل ہو جاتا ہے۔ 1956ء میں بھی جنرل اسمبلی نے اسی طریقے سے مصر میں اقوامِ متحدہ کی ایمرجنسی فورس (UNEF) بھیجی تھی۔ آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ فلسطین کی دعوت پر یہ فورس غزہ جا سکتی ہے جو امداد پہنچانے کے عمل کو محفوظ بنائے گی۔ اگر اسرائیل اس فورس پر حملہ کرے تو یہ فورس اپنے دفاع کے ساتھ ساتھ فلسطینی عوام کا بھی تحفظ کرے گی۔
الجزیرہ کے آرٹیکل کے مطابق اسرائیل نے اب وہ لکیر پار کر دی ہے جس کے بعد کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ وہ بھوک سے مرنے والے کمزور عوام پر گولیاں چلا رہا ہے۔ اب وقت ضائع کرنے کی گنجائش نہیں، اقوامِ عالم کو آزمایا جا رہا ہے اور فوری اقدام کی ضرورت ہے۔