مساجد و مدارس کو مسمار کرانے کی کارروائی کو قانونی اور شرعی حیثیت کے حوالے سے پیش کرنا ہمارے نزدیک فریب کاری سے کم نہیں ہے، اس لیے کہ اگر بات صرف قانون کی عملداری یا شرعی حیثیت کی پاسداری کی ہوتی تو اس کا نشانہ صرف مساجد نہ بنتیں بلکہ اسلام آباد میں غیر قانونی قبضوں کی باقی صورتیں بھی اس میں شامل ہوتیں، اور کسی بھی عنوان سے سرکاری اراضی پر بغیر اجازت تعمیر کی جانے والی تمام عمارتوں کے خلاف اجتماعی آپریشن کا فیصلہ ہوتا۔ باقی تمام غیر قانونی قبضوں کو نظرانداز کر کے صرف مساجد کے خلاف آپریشن اس امر کی واضح دلیل ہے کہ اصل ہدف ’’لاقانونیت‘‘ نہیں بلکہ ’’مسجد‘‘ ہے اور اسلام آباد کے حکمران دنیا کو اپنے سیکولر ہونے کا یقین دلانے کے لیے مساجد کے خلاف آپریشن کرنا چاہ رہے ہیں۔
(ابوعمار زاہد الراشدی — ۱۵ اگست ۲۰۲۵ء)
اِنہدام سے تعمیرِ نو کے فیصلے تک
اسلام آباد کی مدنی مسجد، جو مری روڈ (راول ڈیم چوک) کے قریب برسوں سے عبادت کے لیے استعمال ہو رہی تھی، اگست 2025ء میں اچانک انتظامیہ کی کارروائی کا نشانہ بن گئی۔ اس انہدام نے نہ صرف مقامی لوگوں اور دینی طبقات میں بے چینی پیدا کی بلکہ ریاست اور مذہب کے درمیان تعلق کی بحث ایک بار پھر چھیڑ دی۔
9 اور 10 اگست کی درمیانی شب سی ڈی اے اور ضلعی انتظامیہ کی ٹیموں نے بھاری مشینری کے ذریعے مسجد اور اس سے منسلک مدرسے کو مسمار کر دیا۔ انہدام کے فوراً بعد علاقے میں گھاس اور پودے لگا دیے گئے۔ حکام کے مطابق یہ عمارت گرین بیلٹ پر غیر قانونی طور پر موجود تھی اور وی آئی پی روٹ پر ہونے کے باعث سیکیورٹی رسک سمجھی جاتی تھی۔ حکومت کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ مدرسے کو پہلے ہی مارگلہ ٹاؤن میں منتقل کر دیا گیا ہے جس پر کروڑوں روپے لاگت آئی۔
حکومت کی طرف سے یہ اچانک کارروائی شدید عوامی ردعمل کا باعث بنی۔ مذہبی جماعتوں نے موقع پر احتجاجی اجتماع منعقد کیا اور جمعہ کی نماز ادا کی۔ بعد ازاں ملبے سے علامتی تعمیر بھی شروع کی گئی۔ پولیس اور مظاہرین کے درمیان کشیدگی کی خبریں آئیں اور دارالحکومت میں ایک تناؤ محسوس کیا جانے لگا۔
وزارت داخلہ نے وضاحت دی کہ مدرسے کو اس کی انتظامیہ کی رضامندی سے گرایا گیا ہے اور متبادل مقام پہلے سے فراہم کیا گیا ہے۔ تاہم وفاق المدارس اور دیگر دینی جماعتوں نے اس موقف کو مسترد کرتے ہوئے اسے مذہبی آزادی پر حملہ قرار دیا۔
بالآخر حکومت نے دباؤ بڑھنے پر جمعیۃ علماء اسلام (ف) اور اسلام آباد کے مقامی علماء سے مذاکرات شروع کیے جو تین چار دن جاری رہے۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں 20 اگست کو ایک تحریری معاہدہ طے پایا جس کے مطابق:
- مسجد کو اسی جگہ پر چار ماہ کے اندر دوبارہ تعمیر کیا جائے گا۔
- تعمیر کے دوران پانچوں نمازوں کا بندوبست باہمی مشاورت سے ہوگا۔
- مستقبل میں مساجد کے معاملات علماء سے مشاورت کے بغیر نہیں نمٹائے جائیں گے۔
- ’’50 مساجد کی فہرست‘‘ کو سرکاری سطح پر جعلی قرار دے دیا گیا۔
مدنی مسجد کا واقعہ محض ایک عمارت کے انہدام کا معاملہ نہیں بلکہ ریاست اور مذہب کے تعلق کی تازہ ترین جھلک ہے۔ حکومت کے نزدیک یہ اقدام قانون اور سیکورٹی کے تحت تھا، مگر دینی حلقے اسے اپنے عقیدے اور مذہبی شناخت پر حملہ سمجھتے ہیں۔ بالآخر حکومت نے دباؤ میں آ کر مسجد کی تعمیرِ نو پر رضامندی ظاہر کی، جو اس بات کی علامت ہے کہ پاکستان میں مذہبی طبقات اب بھی فیصلہ سازی میں اثرانداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
حوالہ جات
- سی ڈی اے نے مدنی مسجد اور مدرسہ 9 اور 10 اگست کی درمیانی شب مسمار کیا، بعد ازاں جگہ پر پودے لگائے گئے۔ (ڈان، ۱۰ اگست ۲۰۲۵ء)
- وزیرِ مملکت داخلہ نے بتایا کہ مدرسہ انتظامیہ کی رضامندی سے گرایا گیا اور متبادل عمارت 4 کروڑ روپے میں تعمیر کی گئی۔ (دی نیوز، ۱۱ اگست ۲۰۲۵ء)
- حکومت نے جمعیۃ علماء اسلام (ف) کا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے مسجد دوبارہ تعمیر کرنے اور دیگر مساجد نہ گرانے کی یقین دہانی کرائی۔ (بزنس ریکارڈر، ۱۲ اگست ۲۰۲۵ء)
- مذہبی جماعتوں نے موقع پر جمعہ پڑھا اور ملبے سے علامتی تعمیر کی، پولیس کے ساتھ کشیدگی بھی ہوئی۔ (ڈان، ۱۶ اگست ۲۰۲۵ء)
- حکومت اور علماء ایکشن کمیٹی کے درمیان معاہدہ ہوا کہ مسجد اسی مقام پر چار ماہ میں دوبارہ تعمیر ہوگی، نمازوں کا انتظام اور مستقبل میں مشاورت پر بھی اتفاق کیا گیا۔ (ایکسپریس ٹریبیون، ۱۹ اگست ۲۰۲۵ء)
(رپورٹ — ۲۳ اگست ۲۰۲۵ء)
اسلام آباد انتظامیہ اور علماء ایکشن کمیٹی کے درمیان معاہدہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
آج مورخہ 19 اگست 2025ء بروز منگل مدنی مسجد (راول ڈیم) چوک، اسلام آباد کے قضیہ کے معاملہ میں اسلام آباد انتظامیہ اور علماء ایکشن کمیٹی کے درمیان کامیاب مذاکرات کے بعد باہمی مشاورت سے طے پایا ہے کہ
- مدنی مسجد کی تعمیر سی ڈی اے چار ماہ میں مکمل کرے گی۔
- اس دورانیہ میں باہمی مشاورت سے مدنی مسجد کے مقام پر پانچ وقت باجماعت نماز کے لیے ترتیب بنائی جائے گی۔
- پچاس مساجد سے متعلق جو نوٹیفیکیشن جاری ہوا تھا وہ جعلی ہے، اس حوالے سے انتظامیہ نے کوئی لسٹ جاری نہیں کی، یہ محض افواہ ہے۔
- اسلام آباد میں آئندہ مساجد کے کسی بھی معاملہ میں انتظامیہ علماء ایکشن کمیٹی سے مشاورت کرے گی۔
دستخط: صاحبزادہ محمد یوسف، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر، جنرل، اسلام آباد (نمائندہ ضلعی انتظامیہ)
دستخط: مفتی محمد اویس عزیز (نمائندہ علماء ایکشن کمیٹی، امیر جے یو آئی اسلام آباد)
دستخط گواہ: ڈاکٹر ضیاء الرحمان امازئی
دستخط گواہ: عبد الہادی (مجسٹریٹ، سیکرٹریٹ، اسلام آباد)
دستخط گواہ: محمد عثمان خان