کسی بات کو سننا، اس پہ غور کرنا اور حق بات کو قبول کرنا، اس میں رکاوٹ سات آٹھ چیزیں ہوتی ہیں۔ اور وہ سات آٹھ چیزیں اس سوشل میڈیا سے نہ صرف پیدا ہوتی ہیں بلکہ وہ بڑی تیزی کے ساتھ بڑھتی ہیں۔ وہ سات آٹھ چیزیں کیا ہیں؟
ایک تو آپ دیکھیں جو عصبیت ہمارے ہاں چل رہی ہے، تو عصبیت سوشل میڈیا سے بہت زیادہ بڑھتی ہے۔ اور عصبیت کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ جب آپ کسی تعصب میں مبتلا ہو جائیں، چاہے وہ قوم پرستی کا تعصب ہو، یا صوبائیت کا تعصب ہو، یا زبان کا ہو، یا کسی خانقاہ کا ہو، یا حتیٰ کہ کسی مذہب کا بھی ہو؛ کیونکہ عصبیت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ حق بات کا انکار کرنا اپنی قوم کی وجہ سے، اور غلط بات کی تائید کرنا اپنی قوم کی وجہ سے؛ اگر مسلمان ہونے کی وجہ سے، اسلام کی وجہ سے آپ اقلیتوں پر ظلم کر رہے ہیں، یہ بھی اسلامی مذہبی عصبیت ہے، جائز نہیں ہے، یہ بھی حرام ہے۔ اگر آپ اپنی خانقاہ کی وجہ سے کسی صحیح بات کا انکار کر رہے ہیں، یہ بھی عصبیت ہے۔ تو ایک عصبیت ہے۔
دوسری عقیدت، جب عقیدت اپنی حد سے بڑھ جاتی ہے اور اندھی عقیدت جسے کہتے ہیں، اور اندھی عقیدت کیسے ہوتی ہے کہ کسی چیز کو مسلسل آپ دیکھ رہے ہیں، مسلسل اس کو پڑھ رہے ہیں، مسلسل اس کو شیئر کر رہے ہیں، اس کو لائک کر رہے ہیں، اس کو آگے لوگوں تک پہنچا رہے ہیں؛ ایسی اندھی محبت، کسی سے عشق اور محبت جب ہو جاتی ہے تو وہ آدمی اس کے خلاف سننے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ یہ جو آپ کہہ رہے ہیں نا کہ نوجوان سن ہی نہیں رہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا نے ہمیں اندھی عقیدت میں بھی مبتلا کر دیا ہے، ہمیں اندھی محبت میں بھی مبتلا کر دیا ہے، ہمیں عصبیت میں مبتلا کر دیا ہے، اور ہمیں ضد اور ہٹ دھرمی میں بھی مبتلا کر دیا ہے۔
اور اسی طریقے سے ایک پانچویں چیز ہے، جب آپ کسی چیز کو مشن بنا لیتے ہیں، زندگی کا نصب العین بنا لیتے ہیں کہ مجھے یہی کام کرنا ہے، رات دن یہ کام کرنا ہے۔ تو جو آدمی ایک مشنری بن جاتا ہے، اس کے بعد پھر کسی اور کی بات سننا اس کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے۔
پھر ان سب کے ساتھ جذباتیت، جب آدمی جذبات میں آجاتا ہے تو جذباتی ہو کر پھر کسی بات کو دھیان سے سن لے، غور کرے، یہ نہیں کر سکتا۔ جذباتیت کے ساتھ پھر سطحیت، کہ ریسرچ نہیں ہے، تحقیق نہیں ہے، سنی سنائی باتیں ہیں، اور اس کو آپ لے کر چل رہے ہیں۔ تو جذباتیت کو چھٹے نمبر پر ملا لیں، پھر سطحیت کو ملا لیں۔ اس کے ساتھ ساتھ عدمِ برداشت۔ یہ سوشل میڈیا آدمی کو برداشت سے باہر نکال دیتا ہے۔ آپ دیکھیں چھوٹے چھوٹے بچے، وہ کتنی ضد کر رہے ہوتے ہیں، یہ سوشل میڈیا کے وہ اثرات ہیں۔
تو سوشل میڈیا کے ان سات اثرات نے، سات چیزوں نے ہمیں وہاں تک پہنچا دیا ہے کہ ہم نہ کسی حق بات کو سننے کے قابل رہے ہیں، نہ اس پہ غور کر سکتے ہیں، نہ ہم اس کو قبول کر سکتے ہیں۔ تو سب سے پہلے اس کی ضرورت ہے کہ ان ساتوں چیزوں سے ہم بچنے کی کوشش کریں۔ اور اگر ان سات چیزوں کے ساتھ آپ اس کو بھی ملا لیں کہ ہمارے ملک میں حکومت کی رِٹ نہیں ہے۔ صوبائی حکومتیں ہوں، مرکزی حکومت ہو، بیوروکریسی ہو، پولیس کا محکمہ ہو، یا ہمارا میڈیا ہو، تو وہ جس طریقے سے چل رہے ہیں اس کی روشنی میں یہ ہر بیماری اتنی آگے [چلی جاتی ہے] پھر اس کو ضرب دیتے چلے جائیں۔
اس لیے ہمیں اپنا خیال رکھنا چاہیے اور جیسے مولانا عبد الودود صاحب نے کہا کہ نعمت تو بہت بڑی ہے لیکن اس کی کوئی ضمانت ہے کہ تمہارے پاس یہ نعمت رہے گی؟ اگر ہم ناشکری کریں گے اور ان چیزوں میں مبتلا ہوں گے تو اللہ تعالیٰ اس نعمت کو چھین نہ لے۔ قرآن مجید میں آتا ہے ’’وان تتولوا یستبدل قوماً غیرکم، ثم لا یکونوا امثالکم‘‘ کہ اگر تم باز نہیں آئے تو اللہ تعالیٰ کسی اور قوم کو لے آئیں گے جو تمہاری طرح نہیں ہوں گے۔ دو شکلیں ہوتی ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے: ایک شکل یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس نعمت کو چھین کر کسی اور کو دے دیتے ہیں۔ اور دوسری شکل یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس نعمت سے بالکل محروم کر دیتے ہیں، کسی اور کو بھی نہیں دیتے۔ آپ دیکھیں کہ اندلس میں چھ سات سو سال ہماری حکومت رہی، خلافت رہی، آج وہاں کھنڈرات ہیں، کچھ بھی نہیں ہے وہاں۔ تو ہمیں اس سے ڈرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کہیں ہم سے یہ نعمت نہ چھین لے۔
تو اس میں، میں یہ عرض کر رہا تھا کہ مولانا طارق مسعود صاحب نے جو سوشل میڈیا کی بات کی، تو سوشل میڈیا، جب یہ چیز ہمارے ملک میں آئی، یا جب اس کو لایا گیا، تو جنرل مشرف کے بارے میں بہت سارے لوگ باتیں کرتے ہیں نا، تو میرے ذہن میں جو انہوں نے بہت بڑا اس ملک کا نقصان کیا، وہ یہ کہ یہ میڈیا لے کر آئے اور پورے کا پورا لے لیا انہوں نے۔ اس کے لیے یہ منصوبہ بندی نہیں کی کہ یہ آئے گا تو اس کے لیے کیا ہمیں بندوبست کرنا ہو گا، اس کے اثرات کیا ہوں گے؟ اگر گاڑی آپ لے رہے ہیں اور اس گاڑی میں بریکیں ہیں ہی نہیں، اور گیئر بھی پانچ ہی کا لگ رہا ہے، تو پھر آپ تباہ کریں گے، گاڑی بھی تباہ ہو گی، آپ بھی تباہ ہوں گے اور لوگ بھی تباہ ہوں گے۔ تو جب یہ چیز آ رہی تھی، میڈیا، اس وقت ہمارے اداروں کو، ان لوگوں کو، ہماری حکومتوں کو، اس پہ سوچنا چاہیے تھا کہ اس کو کتنا لینا ہے اور کتنا نہیں لینا، اور جتنا لینا ہے اس کو بہتر کیسے استعمال کرنا ہے۔
تو میرے خیال میں اگر سو بیماریوں کی ایک بیماری ہم کہیں تو آج کے زمانے میں یہ سوشل میڈیا کا فتنہ، جس طریقے سے ہم استعمال کر رہے ہیں، فتنہ کا مطلب ہے کہ اس کا غلط استعمال۔ اگر اسی کا آپ حب الوطنی کے لیے استعمال کریں، اپنے مسائل کو حل کرنے کے لیے آپ استعمال کریں، اللہ کا شکر کرنے کے لیے آپ استعمال کریں، عصبیت کو ختم کرنے کے لیے آپ اس میڈیا کو استعمال کریں تو یہی چیز ہمارے ملک کے لیے نجات دہندہ بھی بن سکتی ہے۔