خادمۂ رسول ؐحضرت امِ رافع سلمٰیؓ
عہدِ نبوی کی Midwifery میں ماہر خاتون

تمہید

عہدِ نبوی میں خواتین کی ایک بڑی تعداد پیشہ ورانہ طور پر طب سے جڑی ہوئی تھی اور یہ خواتین طب کے مختلف شعبوں میں ماہر بھی تھیں، انھیں میں ایک نمایاں نام ''حضرت سلمیٰ'' رضی اللہ عنہا کا ہے، جو نبی کریم ﷺ کی آزاد کردہ باندی تھیں، انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے گھرانہ کی خدمت کو اپنے اوپر لازم کر رکھا تھا؛ حتیٰ کہ نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد بھی آلِ بیتِ رسولﷺ کی خدمت کا فریضہ انجام دیتی رہیں۔

یہ ''دایہ گیری'' کے شعبہ میں مہارت رکھتی تھیں، جسے آج کی زبان میں Midwifery کہا جاتا ہے، یہ ایک پیشہ ورانہ اور طبی شعبہ ہے، جس میں دایہ (Midwife) حاملہ خاتون کی دیکھ بھال، زچگی کے دوران مدد اور بچہ کی پیدائش کے بعد ماں اور نومولود کی نگہداشت کرتی ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ وہ عام نرسنگ بھی کر لیا کرتی تھیں۔ آئیے! یہاں ہم ان کے تعلق سے جانتے ہیں۔

نام و تعارف

ان کا نام ''سلمیٰ'' ہے، یہ نبی کریم ﷺ کی آزاد کردہ باندی ہیں، ابتداء یہ حضرت صفیہ بنت عبد المطلب کی باندی تھیں، انھوں نے نبی کریم ﷺ کو ہبہ کر دیا تو آپﷺ نے انھیں آزاد کر دیا۔ محمد الحسون اورام علی مشکور لکھتے ہیں:

سلمیٰ: مولاۃ رسول اللہ ﷺ، کانت أولاً مولاۃ لصفیۃ بنت عبد المطلب، فوہبتہا لرسول اللہ ﷺ، فأعتقہ (أعلام النساء المؤمنات، ص: ۵۱۵)
''سلمیٰ: رسول اللہﷺ کی خادمہ، یہ پہلے صفیہ بنت عبدالمطلب کی خادمہ تھیں، انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو ہبہ کر دیا تو رسول اللہ ﷺ نے انھیں آزاد کردیا''۔

یہی وہ خاتون ہیں، جنھوں نے حضرت خدیجہؓ اور ماریہ قبطیہؓ کی ولادت کے موقع پر ان کا خیال رکھا اور ان کی دیکھ بھال کی۔ ابن سعد لکھتے ہیں: یہی وہ خاتون ہیں، جنھوں نے حضرت خدیجہؓ کے بطن سے پیدا ہونے والی نبی کریم ﷺ کی تمام اولاد کی پیدائش کے وقت ان کی دیکھ بھال کی اور دایہ گیری کا فریضہ انجام دیا، پہلے سے ہی ان کی ضروریات کا انتظام کر رکھتی تھیں، انھوں نے حضرت ماریہ قبطیہ کو بھی حضرت ابراہیم کی پیدائش کے وقت سنبھالا تھا (الطبقات الکبری: ۱۰؍۲۱۶، نمبر شمار: ۴۹۸۷)۔

ازواج و اولاد

حضرت سلمیٰ کا نکاح نبی کریم ﷺ کے آزاد کردہ غلام ''ابو رافع'' کے ساتھ ہوا۔ ان کے نام کے سلسلہ میں کئی قول ہیں: (۱) ابراہیم (۲) اسلم (۳) ہرمز (۴) ثابت (۵) سنان (۶) یسار (۷) صالح (۸) عبدالرحمٰن (۹) قزمان (۱۰) یزید؛ تاہم اسلم نام دیگر ناموں کی بہ نسبت زیادہ مشہور ہے۔ 

حافظ ابن عبد البر کہتے ہیں: وہو (أسلم) أشہر ما قیل فیہ ''تمام ناموں میں ''اسلم'' زیادہ مشہورہے''۔

یہ قبطی قوم سے تعلق رکھتے تھے، نبی کریمﷺ کے پاس کیسے پہنچے؟ اس سلسلہ میں دو باتیں ملتی ہیں:

(۱) رسول اللہ ﷺ کے چچا حضرت عباسؓ کے یہ غلام تھے، انھوں نے آپﷺ کو ہبہ کر دیا؛ چنانچہ جب حضرت عباسؓ مشرف بہ اسلام ہوئے تو انہی ابو رافع نے رسول اللہ ﷺ کو یہ خوش خبری سنائی، جس کی خوشی میں نبی ﷺ نے انھیں آزاد کر دیا۔

(۲) یہ سعید بن العاص کے غلام تھے، جن کی وفات کے بعد ان بیٹے وارث بنے، یہ آٹھ یا دس تھے، ان میں سے بعض نے ابو رافع کو آزاد کر دیا، جب کہ بعض نے آزاد نہیں کیا تو یہ نبی کریم ﷺ کے پاس مدد کے لئے آئے۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے گفتگو کی تو ان لوگوں نے ابو رافع کو آپﷺ کو ہبہ کر دیا، پھر آپ ﷺ نے انھیں آزاد کر دیا۔ ابو رافع کا انتقال صحیح قول کے مطابق حضرت علی کے دورِ خلافت میں ہوا۔

حضرت سلمیٰ کے بطن سے حضرت ابو رافع کا ایک لڑکا: عبیداللہ بن أبی رافع پیدا ہوئے، جنھوں نے اپنے والد اور حضرت علیؓ سے روایت نقل کی ہے اور یہ حضرت علی کے کاتب تھے (الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، ص: ۹۱۲، نمبر شمار: ۳۳۴۶/ص:۸۰۵، نمبر شمار: ۲۹۲۵/ ص: ۶۰، باب أسلم، نمبر شمار: ۷۳، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ: ۵؍۳۸، نمبرشمار: ۳۸۰۵)۔

اسلام اور غزوات میں شرکت

یہ بات ابھی گزر چکی ہے کہ حضرت سلمیؓ نے حضرت خدیجہ کی ساری اولاد کی دایہ گیری کی ہے تو اس سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ انھوں نے ابتدائی دور میں ہی اسلام قبول کر لیا تھا، یہ ہجرت کر کے مکہ سے مدینہ بھی گئیں اور پھر خصوصیت کے ساتھ غزوۂ خیبر میں انھوں نے شرکت بھی کی۔ 

ابن سعد لکھتے ہیں: وقد شہدت سلمیٰ خیبر مع رسول اللہ ﷺ (الطبقات الکبری: ۱۰؍۲۱۶، نمبر شمار: ۴۹۸۷) ''سلمیٰ غزوۂ خیبر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شریک تھیں''۔

غزوۂ حنین میں بھی شرکت کا ذکرہ ملتا ہے؛ چنانچہ شیخ محمد صادق کرباسی لکھتے ہیں: ویذکر أنہا شہدت وقعۃ حنین سنۃ ۸ ھ (معجم أنصار الحسین، ص:۸۴) ''ذکر کیا جاتا ہے کہ آٹھ ہجری میں انھوں نے غزوۂ حنین میں شرکت کی ہے''۔

طبابت

یہ دایہ گیری اور ڈیلوری کرانے میں مہارت تو رکھتی ہی تھیں، ساتھ میں نرسنگ بھی کیا کرتی تھیں، محمد الحسون لکھتے ہیں:

وہی قابلۃ وممرضۃ ... وہی التی کانت تقبل فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا فی نفاسہا وتمرضہا، وقیل: إنہا مرضتہا فی مرضہا التی توفیت فیہ (أعلام النساء المؤمنات، ص: ۵۱۵).
’’وہ ایک دایہ اور نرس تھیں...انھوں نے ہی حضرت فاطمہ زہراءؓ کے نفاس کے دوران ان کی دیکھ بھال اور تیمارداری کی تھی، کہا جاتا ہے کہ انھوں نے حضرت فاطمہؓ کی تیمارداری ان کے مرض الوفات میں کی تھی‘‘۔

ڈاکٹر حسین فلاح کساسبہ لکھتے ہیں:

ومنہن من مارست مہنۃ التولید کسلمی مولاۃ صفیۃ بنت عبد المطلب التی قبلت ماریۃ قبطیۃ حینما ولدت إبراہیم (Educational & Social Science Journal, Vol:6(1) January 2019، عنوان: الطب والأطباء فی صدر الاسلام للدکتور حسین فلاح الکساسبۃ، ص: ۶۸۲)۔
’’ان میں بعض ایسی بھی تھیں، جو زچگی اور ولادت کے پیشے سے وابستہ تھیں، جیسے: سلمیٰ، جو صفیہ بنت عبد المطلب کی آزاد کردہ باندی تھیں، انھیں کی نگرانی میں ماریہ قبطیہ نے حضرت ابراہیم کو جنم دیا‘‘۔

ڈاکٹر امیمہ ابوبکر اور ڈاکٹر ہدی سعدی نے انھیں ''جراحۃ حروب'' (Battlefield Surgeon) قرار دیا ہے، جسے اردو میں ''جنگی جراح'' یا ''میدان جنگ کا سرجن'' کہہ سکتے ہیں (النساء ومہنۃ الطب فی المجتمعات الاسلامیۃ، ص:۱۹)۔

اس تعلق سے خود ان کی حدیث ہے، جس میں وہ فرماتی ہیں:

ما کان یکون برسول اللہ ﷺ قرحۃ ولانکبۃ؛ إلا أمرنی رسول اللہ ﷺ أن أضع علیہا الحناء (سنن الترمذی، حدیث نمبر: ۲۰۵۴، قال أبوعیسی: ہذا حدیث حسن غریب).
’’رسول اللہ ﷺ کو جب بھی کوئی زخم یا چوٹ لگتی تو مجھے مہندی لگانے کا حکم فرماتے‘‘۔

کیوں کہ زخم پر مہندی لگانے کے کئی فائدے ہوتے ہیں:

(۱) مہندی میں اینٹی بیکٹیریل اور اینٹی فنگل خصوصیات ہوتی ہیں، جو زخم کو انفیکشن سے بچانے میں معاون ہوتی ہیں۔

(۲) مہندی قدرتی طور پر ٹھنڈک پہنچاتی ہے، جس کی وجہ سے آرام دہ اثر محسوس ہوتا ہے۔

(۳) اس کے اندر اینٹی انفلیمیٹری خصوصیات ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے زخم کے درد اور سوجن میں کمی واقعی ہوتی ہے۔

(۴) یہ قدرتی اینٹی سیپٹک ہے، یہی وجہ ہے کہ جڑی بوٹیوں کے علاج میں اسے استعمال کیا جاتا ہے؛ تاکہ جلدی بیماریوں اور زخموں کو جلد ٹھیک کیا جا سکے، انھیں وجوہات کی بنا پر نبی کریم ﷺ زخموں پر مہندی لگانے کی تاکید فرماتے تھے۔

وفات

ان کی وفات کس سن میں ہوئی؟ اس سلسلہ میں زیادہ تر کتابوں میں کوئی ذکر نہیں ہے؛ البتہ محمد صادق کرباسی نے ان کی سن وفات ۲۰ھ نقل کیا ہے، وہ لکھتے ہیں:  قد توفیت سنۃ ۲۰ھ (معجم أنصار الحسین:۲؍۹۵) ''ان کی وفات سن بیس (۲۰) ہجری میں ہوئی''۔

رضی اللہ عنہا وأرضاہا، وجعل مثواہ برداً وسلاماً۔

سیرت و تاریخ

(الشریعہ — ستمبر ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — ستمبر ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۹

مدنی مسجد اسلام آباد کا معاملہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ادارہ الشریعہ

مسجد گرانے کے متعلق چند اہم اصولی سوالات
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

اکیسویں صدی میں تصوف کی معنویت اور امکانات
مولانا شاہ اجمل فاروق ندوی

خطبہ حجۃ الوداع اغیار کی نظر میں
مولانا حافظ واجد معاویہ

شہیدِ کربلا حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مظلومانہ شہادت
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

خادمۂ رسول ؐحضرت امِ رافع سلمٰیؓ
مولانا جمیل اختر جلیلی ندوی

سوشل میڈیا کے منفی استعمال کے نتائج
مولانا مفتی عبد الرحیم

خواتین کا مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنا
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

خطبہ، تقریر اور نمازِ جمعہ میں لاؤڈ اسپیکر کا غلط استعمال
مفتی سید انور شاہ

کُل جماعتی دفاعِ شعائر اللہ سیمینار: اعلامیہ، سفارشات، قراردادیں
قرآن و سنہ موومنٹ پاکستان

غزہ پر اسرائیل کا نیا حملہ: فلسطین کا مستقبل کیا ہو گا؟
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

East and West: Different Futures for Different Pasts
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’خطباتِ فتحیہ: احکام القرآن اور عصرِ حاضر‘‘ (۳)
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا ڈاکٹر محمد سعید عاطف

حدیث میں بیان کی گئی علاماتِ قیامت کی تاریخی واقعات سے ہم آہنگی، بائیبل اور قرآن کی روشنی میں (۴)
ڈاکٹر محمد سعد سلیم

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۷)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
ڈاکٹر ثمینہ کوثر

ماہانہ بلاگ

بونیر میں امدادی سرگرمیاں اور مدارس کے طلباء
مولانا مفتی فضل غفور
مولانا عبد الرؤف محمدی

اسلام ایک عالمی مذہب کیسے بنا؟
ایپک ہسٹری

پاکستان اور عالمِ اسلام: فکری و عملی رکاوٹیں کیا ہیں؟
عبد اللہ الاندلسی
پال ولیمز

ردِ عمل پر قابو پانے کی ضرورت
محسن نواز

غزہ کو بھوکا مارنے کے اسرائیلی اقدامات کو کیسے روکا جائے؟
الجزیرہ

گلوبل صمود فلوٹیلا: غزہ کی جانب انسانی ہمدردی کا سمندری سفر
ادارہ الشریعہ

صمود (استقامت) فلوٹیلا میں پاکستان کی نمائندگی
مولانا عبد الرؤف محمدی

فلسطینی ریاست کی ممکنہ تسلیم کا برطانوی فیصلہ اور اس کی مخالفت
ادارہ الشریعہ

فلسطین کے متعلق آسٹریلیا اور دیگر مغربی ممالک کا بدلتا ہوا رجحان: ایک مذاکرہ کی روئیداد
اے بی سی نیوز آسٹریلیا

’’سیرتِ مصطفیٰ ﷺ (۱)‘‘
حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ
مولانا ڈاکٹر حافظ ملک محمد سلیم عثمانی

’’مطالعۂ سیرتِ طیبہ ﷺ : تاریخی ترتیب سے‘‘
ڈاکٹر حافظ سید عزیز الرحمٰن

’’اکبر بنام اقبال: ایک صدی کے بعد 133 غیرمطبوعہ خطوط کی دریافت‘‘
ڈاکٹر زاہد منیر عامر

’’فہمِ اقبال — کلامِ اقبال کا موضوعاتی انتخاب‘‘
رانا محمد اعظم

مطبوعات

شماریات

Flag Counter