(اس شمارہ میں اقوامِ متحدہ کی تنظیم اور کردار کے بارے میں چند مضامین شامل کیے گئے ہیں، اس سلسلہ میں رئیس التحریر کی تحریروں کا ایک انتخاب یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔ ادارہ الشریعہ)
تاریخی پس منظر
مغرب میں انسانی حقوق کے حوالے سے جو تاریخ بیان کی جاتی ہے اس کا آغاز ’’میگنا کارٹا‘‘ سے کیا جاتا ہے۔ ۱۲۱۶ء میں برطانیہ کے کنگ جان اور جاگیرداروں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کا معاہدہ اس عنوان سے ہوا تھا جس کا اصل مقصد تو بادشاہ اور جاگیرداروں کے مابین اختیارات اور حدودکار کی تقسیم تھا لیکن اس میں عام لوگوں کا بھی کسی حد تک تذکرہ موجود تھا، اس لیے اسے انسانی حقوق کا آغاز قرار دیا جاتا ہے۔ مغربی ممالک میں ایک عرصہ تک حکمرانی کا حق اور اس کے تمام تر اختیارات تین طبقوں کے درمیان دائر رہے ہیں (۱) بادشاہ (۲) جاگیردار اور (۳) مذہبی قیادت۔ ان میں مختلف مراحل میں آپس میں کشمکش بھی رہی ہے لیکن عام شہری اس تکون کے درمیان، جو دراصل جبر اور ظالمانہ حاکمیت کی تکون تھی، صدیوں تک پستے رہے ہیں۔ مغرب خود اس دور کو جبر و ظلم اور تاریکی و جاہلیت کا دور کہتا ہے اور اس تکون سے نجات حاصل کرنے کے لیے مغربی دنیا کے عوام کو طویل جدوجہد اور صبر آزما مراحل سے گزرنا پڑا ہے۔ بہرحال ان حکمران طبقات کی باہمی کشمکش کے پس منظر میں کنگ جان اور جاگیرداروں کے درمیان حقوق و اختیارات کی باہمی تقسیم کے معاہدہ کو ’’میگناکارٹا‘‘ کہا جاتا ہے اور مغربی دنیا اسے انسانی حقوق کی ابتدائی دستاویز قرار دیتی ہے جو ۱۲۱۵ء میں ۱۵ جون کو طے پایا تھا۔
اس کے بعد ۱۶۸۴ء میں عوامی بغاوت کے نتیجے میں انقلابی فوج نے پارلیمنٹ کے اقتدارِ اعلیٰ کا قانون پیش کیا اور ۱۶۸۹ء میں برطانوی پارلیمنٹ نے ’’بل آف رائٹس‘‘ (حقوق کے قانون) کی منظوری دی جو اس سمت پیشرفت کا اہم مرحلہ تھا۔
ادھر امریکہ میں تھامس جیفرسن نے ۱۲ جولائی ۱۷۷۶ء کو برطانوی استعمار کے تسلط سے امریکہ کی مکمل آزادی کا اعلان کیا اور ۱۷۸۹ء میں امریکی کانگریس نے دستور میں ترامیم کے ذریعے عوامی حقوق کو دستور کا حصہ بنایا۔
فرانس میں زبردست عوامی جدوجہد اور بغاوت کے ذریعے ۱۷۸۹ء کو جاگیرداری، بادشاہت اور ریاستی معاملات میں چرچ کی مداخلت کو مسترد کر کے قومی اسمبلی سے شہری حقوق کا قانون ’’ڈیکلریشن آف رائٹس آف مین‘‘ منظور کرایا اور پورے سیاسی اور معاشرتی نظام کی کایا پلٹ دی۔ اسے ’’انقلابِ فرانس‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور مغرب میں ظلم و جبر اور حقوق کے درمیان اسے حدِ فاصل قرار دیا جاتا ہے۔
انقلابِ فرانس کے ذریعے نہ صرف بادشاہت اور جاگیرداری کا مکمل خاتمہ ہوگیا بلکہ اقتدار میں مذہبی قیادت کی شرکت کی بھی نفی کر دی گئی۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ چرچ، پوپ اور مذہبی قیادت نے عوام پر بادشاہ اور جاگیرداروں کی طرف سے ہونے والے دوہرے مظالم اور شدید جبر و تشدد میں عوام کا ساتھ دینے کی بجائے بادشاہ اور جاگیردار کا ساتھ دیا تھا اور مذہب عملاً بادشاہت اور جاگیرداری کا پشت پناہ بن کر رہ گیا تھا۔ اس لیے بادشاہ اور جاگیردار کے ساتھ ساتھ پوپ کی سیاسی قیادت کا بوریا بستر بھی لپیٹ دیا گیا اور نئے نظام میں ہمیشہ کے لیے طے کر دیا گیا کہ مذہب اور چرچ کا تعلق انسان کے عقیدہ، عبادت اور اخلاقیات کے ساتھ رہے گا جبکہ سیاسی و معاشرتی معاملات میں رائے دینے، راہنمائی کرنے اور مداخلت کرنے کا مذہب، پادری اور چرچ کو کوئی حق نہیں ہوگا۔ اسی کو آگے چل کر ’’سیکولرازم‘‘ سے تعبیر کیا گیا اور معیاری نظام قرار دے کر پوری دنیا سے اسے اختیار کرنے اور اس کی پابندی کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
بیسویں صدی عیسوی کے دوسرے عشرہ میں یورپی ممالک یعنی برطانیہ اور جرمنی وغیرہ کے درمیان جنگ ہوئی جس میں پوری دنیا بالواسطہ یا بلا واسطہ لپیٹ میں آگئی، اس لیے اسے ’’جنگِ عظیم اول‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ اس جنگ میں عالمِ اسلام کی نمائندہ حکومت ’’خلافتِ عثمانیہ‘‘ نے جرمنی کا ساتھ دیا تھا چنانچہ جرمنی کے ساتھ ساتھ وہ بھی شکست سے دوچار ہو گئی تھی اور نتیجے میں خلافتِ عثمانیہ کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ جنگِ عظیم اول میں لاکھوں انسانوں کے قتل ہو جانے کے بعد اقوام و ممالک کی ایک بین الاقوامی تنظیم ’’لیگ آف نیشنز‘‘ (League of Nations) قائم کی گئی تھی جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ اقوام و ممالک کے درمیان پیدا ہونے والے تنازعات کو جنگ کی صورت اختیار نہ کرنے دی جائے اور اس بین الاقوامی فورم کے ذریعے ان تنازعات کا حل نکال کر قوموں اور ملکوں کی باہمی جنگ کو روکا جائے، لیکن ’’لیگ آف نیشنز‘‘ اپنے اس مقصد میں ناکام ہو گئی اور بیسویں صدی کے چوتھے اور پانچویں عشرے کے درمیان پھر عالمی جنگ بپا ہوئی جس میں جرمنی اور جاپان ایک طرف جبکہ برطانیہ، فرانس اور روس وغیرہ دوسری طرف تھے۔ اس جنگ نے پہلی جنگ سے زیادہ تباہی مچائی اور اس کے آخری مراحل میں امریکہ نے اتحادیوں کی حمایت میں جنگ میں شریک ہو کر جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرا کر اسے ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا جس پر جنگِ عظیم کا خاتمہ ہوا۔
اقوامِ متحدہ کا آغاز اور نظم
اس کے بعد ۱۹۴۵ء میں ایک اور بین الاقوامی تنظیم ’’اقوامِ متحدہ‘‘ (United Nations) کے نام سے وجود میں آئی جو اب تک نہ صرف قائم ہے بلکہ بین الاقوامی معاملات کا کنٹرول اسی کے ہاتھ میں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اقوامِ متحدہ کے تنظیمی اور پالیسی سازی کے اختیارات اور معاملات پر اجارہ داری کی وجہ سے اقوامِ متحدہ پر مغربی ممالک کی بالادستی قائم ہے اور اسے عام طور پر انہی کے حق میں استعمال کیا جاتا ہے۔
اقوامِ متحدہ کی تنظیمی صورتحال یہ ہے کہ اس کی ایک ’’جنرل اسمبلی‘‘ ہے جس میں تمام ممبر ممالک برابر کے رکن ہیں اور سال میں ایک بار تمام ممالک کے حکمران یا ان کے نمائندے جمع ہو کر عالمی مسائل پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں جس کے نتیجے میں قراردادیں پاس ہوتی ہیں۔ لیکن ان قراردادوں کی حیثیت صرف سفارش کی ہوتی ہے ان کا نفاذ ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ چنانچہ جنرل اسمبلی کی سینکڑوں سفارشی قراردادیں اقوامِ متحدہ کے سیکرٹریٹ کی فائلوں میں دبی پڑی ہیں۔
اقوامِ متحدہ میں پالیسی سازی، فیصلوں اور ان کے نفاذ کی اصل قوت ’’سلامتی کونسل‘‘ ہے جس کے گیارہ ارکان میں سے پانچ ارکان (۱) امریکہ (۲) برطانیہ (۳) فرانس (۴) روس اور (۵) چین مستقل ممبر کی حیثیت رکھتے ہیں، جبکہ چھ ارکان دنیا کے مختلف ممالک میں سے باری باری دو دو سال کے لیے منتخب ہوتے ہیں۔ یہ گیارہ رکنی سلامتی کونسل اقوامِ متحدہ کی اصل قوت اور اتھارٹی ہے لیکن ان میں سے پانچ مستقل ارکان کو حقِ استرداد (veto power) حاصل ہے کہ امریکہ، روس، چین، برطانیہ اور فرانس میں سے کوئی ایک ملک بھی سلامتی کونسل کے کسی فیصلے کو مسترد کر دے تو وہ کالعدم ہو جاتا ہے۔ اس طرح پوری دنیا کے نظام پر اقوامِ متحدہ کے نام سے اصل حکمرانی اور کنٹرول ان پانچ ممالک کا ہے اور یہ پانچ ممالک جس بات پر متفق ہو جائیں پوری دنیا کو وہ فیصلہ بہرحال تسلیم کرنا ہوتا ہے۔
منشور، دائرہ کار، مقاصد
اقوامِ متحدہ کا اصل مقصد قوموں اور ملکوں کے درمیان ہونے والے تنازعات کا حل تلاش کرنا اور جنگ کو روکنا تھا لیکن ۱۰ دسمبر ۱۹۴۸ء کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے انسانی حقوق کا عالمگیر منشور منظور کر کے اور اس کی پابندی کو تمام ممالک و اقوام کے لیے لازمی قرار دے کر دنیا کے سیاسی اور معاشرتی نظام میں راہنمائی اور مداخلت کو بھی اپنے دائرۂ کار میں شامل کر لیا۔ اور اس کے بعد سے ممالک و اقوام کے درمیان جنگ کو روکنے کے ساتھ دنیا بھر کے ممالک کے سیاسی اور معاشرتی نظاموں کو کنٹرول کرنا بھی اقوامِ متحدہ کی ذمہ داری سمجھا جا رہا ہے اور اقوامِ متحدہ اس سلسلہ میں مسلسل کردار ادا کر رہی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ ایک بین الاقوامی تنظیم ہے اور اس کے تحت متفقہ طور پر یا اکثریت کے ساتھ طے ہونے والے فیصلے ’’بین الاقوامی معاہدات‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں، لیکن تاریخ اور سماج کے ایک طالب علم کے طور پر مجھے اس سے اختلاف ہے۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل اپنے جن فیصلوں کو دنیا پر نافذ کرنا چاہتی ہے وہ عملاً نافذ ہوتے ہیں، ان کی خلاف ورزی کرنے والے ملکوں کو سزا دی جاتی ہے، حتیٰ کہ خلاف ورزی کرنے والے ملکوں پر فوج کشی بھی کی جاتی ہے اور انہیں اقوامِ متحدہ کا فیصلہ تسلیم کرنے پر بزور مجبور کیا جاتا ہے۔ اس لیے انسانی حقوق کا منشور اور اقوامِ متحدہ کے دیگر فیصلے صرف ’’معاہدات‘‘ نہیں بلکہ عملاً ’’بین الاقوامی قانون‘‘ بن چکے ہیں، اور خود اقوامِ متحدہ صرف بین الاقوامی تنظیم نہیں بلکہ عملًا ایک عالمی حکومت کا درجہ رکھتی ہے جس کے ذریعے سلامتی کونسل میں ویٹو پاور رکھنے والے پانچ ممالک عملاً پوری دنیا پر حکومت کر رہے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے اس عملی کردار کو سامنے رکھنا بالخصوص عالمِ اسلام کے ان حلقوں کے لیے انتہائی ضروری ہے جو اسلامی نظام کے نفاذ، اسلامی معاشرہ کے قیام، اور خلافتِ اسلامیہ کے اَحیا کے لیے دنیا کے کسی بھی حصہ میں محنت کر رہے ہیں، تاکہ انہیں یہ معلوم ہو کہ اس سلسلہ میں ان کا مقابلہ اصل میں کس قوت سے ہے۔ ہمارے ہاں عام طور پر ایسی جدوجہد کرنے والے حلقے اور طبقے اس غلط فہمی کا شکار رہتے ہیں کہ ہم اپنے ملک میں اپنے مقتدر حلقوں سے نفاذِ اسلام کا مطالبہ کر رہے ہیں، یا ان سے نفاذِ اسلام کے لیے لڑ رہے ہیں۔ جبکہ حقیقی صورتحال یہ نہیں ہے بلکہ دنیا کے کسی بھی حصے میں نفاذِ اسلام یا شریعت کے قوانین کی ترویج کی جدوجہد ہو، اس کا سامنا اصل میں ایک بین الاقوامی نظام سے ہے اور ایک مضبوط عالمی نیٹ ورک سے ہے، جو ساری دنیا میں ’’انسانی حقوق کے منشور‘‘ کے عنوان سے مغرب کا طے کردہ سیاسی اور معاشرتی نظام نافذ کرنے کے لیے پوری طرح مستعد ہے۔
عالمِ اسلام کے کم و بیش سبھی ممالک اقوامِ متحدہ کا حصہ ہیں اور اس کے معاملات میں شریک ہیں، لیکن عالمِ اسلام کے نظریاتی اور باشعور حلقوں کو دو حوالوں سے واضح طور پر تحفظات کا سامنا ہے:
- ایک یہ کہ اقوام متحدہ کی فیصلہ سازی اور فیصلوں کے نفاذ کی اتھارٹی میں عالمِ اسلام کی کوئی نمائندگی نہیں ہے اور مسلمانوں کا کوئی ملک بھی ان پانچ ممالک میں شامل نہیں ہے جنہیں فیصلے مسترد کر دینے اور معاملات کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کا اختیار اور حق حاصل ہے۔ اس طرح اقوامِ متحدہ کے فیصلہ سازی اور فیصلوں کی تنفیذ کے معاملات سے عالمِ اسلام کلیتہً بے دخل ہے اور اس کا کردار دنیا کے ان پانچ بڑوں کے فیصلوں کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دینے اور کرتے چلے جانے کے سوا کچھ نہیں ہے۔
- ہمارا دوسرا تحفظ انسانی حقوق کے منشور کے حوالے سے ہے جو صرف مغربی ممالک کی باہمی کشمکش اور انقلابِ فرانس کے پس منظر کو سامنے رکھ کر ترتیب دیا گیا ہے، بلکہ اس کی بہت سی دفعات اسلامی شریعت کے احکام و قوانین سے متصادم ہیں۔ اور عملی صورتحال یہ ہے جس کی ہم آئندہ سطور میں وضاحت کریں گے کہ اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے منشور کو من و عن قبول کر لینے کی صورت میں مسلم ممالک اور حکومتوں کو قرآن و سنت کے بیسیوں احکام اور شریعتِ اسلامیہ کے سینکڑوں ضابطوں سے دستبردار ہونا پڑتا ہے۔ جبکہ عالمِ اسلام کی صورتحال یہ ہے کہ مسلم ممالک کے حکمران طبقات خدانخواستہ اس کے لیے کسی درجہ میں تیار بھی ہوں مگر مسلم عوام کی اکثریت دنیا کے کسی بھی خطے میں اس کے لیے تیار نہیں ہے۔ اور گزشتہ نصف صدی کے دوران درجنوں مسلم ممالک کی رائے عامہ جمہوری و سیاسی ذرائع سے اس امر کا اظہار کر چکی ہے کہ قرآن و سنت کے احکام و قوانین اور ریاست و حکومت کے معاملات میں مذہب کے کردار سے دستبردار ہونے کے لیے وہ کسی صورت میں بھی تیار نہیں ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد نے یہ مسئلہ اٹھایا تھا کہ عالمِ اسلام کو اقوامِ متحدہ کے فیصلہ سازی اور فیصلوں کے نفاذ کے نظام میں شریک کیا جائے اور انسانی حقوق کے منشور پر نظرِثانی کی جائے۔ اگر اس وقت عالمِ اسلام کی دیگر حکومتیں ان کا ساتھ دیتیں تو اس سلسلہ میں مؤثر پیشرفت ہو سکتی تھی لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکا اور موجودہ صورتحال میں اب بھی اس کا بظاہر کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔
دسمبر ۱۹۴۸ء میں جب اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے انسانی حقوق کا یہ منشور منظور کیا تھا اس وقت دنیا میں مسلم ممالک کا کوئی عالمی فورم موجود نہیں تھا، خلافتِ عثمانیہ کا اس سے قبل خاتمہ ہو چکا تھا اور اس کی جگہ لینے کے لیے کوئی عالمی فورم سامنے نہیں آیا تھا بلکہ اب تک یہی صورتحال ہے، دنیا کے بیشتر مسلم ممالک آزاد نہیں تھے اور کسی نہ کسی استعماری قوت کی نو آبادی شمار ہوتے تھے، اس طرح جنرل اسمبلی میں عالم اسلام کی مکمل نمائندگی موجود نہیں تھی۔ اس لیے یہ کہنا کہ اقوامِ متحدہ کی تشکیل اس کے نظام کے تعین اور اس کے معاہدات کی تدوین میں عالمِ اسلام برابر کا شریک ہے، درست نہیں ہے اور انصاف کی بات نہیں ہے، اس لیے آج بھی مسلم حکومتوں بالخصوص او آئی سی کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس سلسلہ میں اپنے فرائض کو محسوس کریں اور اقوامِ متحدہ کے تنظیمی ڈھانچے اور اس کے تحت ہونے والے بین الاقوامی معاہدات پر نظرِثانی کا مطالبہ کرتے ہوئے اسلام اور عالمِ اسلام کی صحیح نمائندگی کا فرض پورا کریں۔
اس مسئلہ کا ایک اور پہلو بھی قابلِ توجہ ہے کہ جب اقوامِ متحدہ خود مذہبی آزادی، لوگوں کے اپنے مذہب پر عمل کرنے کا حق اور علاقائی ثقافتوں کے تحفظ کی علمبردار ہے تو اسے کسی مذہب کی حدودِ کار متعین کرنے اور اہلِ مذہب کو اس مذہب کے کچھ حصوں پر عمل سے روکنے کا حق نہیں ہے، اور نہ ہی علاقائی ثقافتوں کو انسانی حقوق کے منشور کے نام پر بلڈوز کر کے ایک ہی تہذیبی فلسفہ کو پوری دنیا پر مسلط کرنے کا اس کے پاس کوئی جواز ہے۔
(روزنامہ اسلام، لاہور ۔ ۲۰ دسمبر ۲۰۱۷ء)
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ۱۰ دسمبر ۱۹۴۸ء کو تیس نکات پر مشتمل انسانی حقوق کے عالمی منشور کی منظوری دیتے ہوئے تمہید میں ان کے مندرجہ ذیل مقاصد بیان کیے تھے کہ:
’’چونکہ ہر انسان کی ذاتی عزت اور حرمت اور انسانوں کے مساوی اور ناقابلِ انتقال حقوق کو تسلیم کرنا دنیا میں آزادی، انصاف اور امن کی بنیاد ہے۔
چونکہ انسانی حقوق سے لاپروائی اور ان کی بے حرمتی اکثر ایسے وحشیانہ افعال کی شکل میں ظاہر ہوئی ہے جن سے انسانیت کے ضمیر کو سخت صدمے پہنچے ہیں اور عام انسانوں کی بلند ترین آرزو یہ رہی ہے کہ ایسی دنیا وجود میں آئے جس میں تمام انسانوں کو اپنی بات کہنے اور اپنے عقیدے پر قائم رہنے کی آزادی حاصل ہو اور خوف اور احتیاج سے محفوظ رہیں۔
چونکہ یہ بہت ضروری ہے کہ انسانی حقوق کو قانون کی عملداری کے ذریعے محفوظ رکھا جائے، اگر ہم یہ نہیں چاہتے کہ انسان عاجز آکر جبر اور استبداد کے خلاف بغاوت کرنے پر مجبور ہوں۔
چونکہ اقوامِ متحدہ کی ممبر قوموں نے اپنے چارٹر میں بنیادی انسانی حقوق، انسانی شخصیت کے حرمت اور قدر، اور مردوں اور عورتوں کے مساوی حقوق کے بارے میں اپنے عقیدے کی دوبارہ تصدیق کر دی ہے، اور وسیع تر آزادی کی فضا میں معاشرتی ترقی کو تقویت دینے اور معیارِ زندگی کو بلند کرنے کا ارادہ کر لیا ہے۔
چونکہ ممبر ملکوں نے یہ عہد کر لیا ہے کہ وہ اقوامِ متحدہ کے اشتراکِ عمل سے ساری دنیا میں اصولاً اور عملاً انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کا زیادہ سے زیادہ احترام کریں گے اور کرائیں گے۔
چونکہ اس عہد کی تکمیل کے لیے بہت ہی اہم ہے کہ ان حقوق اور آزادیوں کی نوعیت کو سب سمجھ سکیں۔
جنرل اسمبلی یہ اعلان کرتی ہے کہ انسانی حقوق کا یہ عالمی منشور تمام اقوام کے واسطے حصولِ مقصد کا مشترک معیار ہوگا تاکہ ہر فرد اور معاشرے کا ہر ادارہ اس منشور کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھتے ہوئے تعلیم و تبلیغ کے ذریعے ان حقوق اور آزادیوں کا احترام پیدا کرے اور انہیں قومی اور بین الاقوامی کارروائیوں کے ذریعے ممبر ملکوں میں اور ان قوموں میں جو ممبر ملکوں کے ماتحت ہوں، منوانے کے لیے بتدریج کوشش کر سکے۔‘‘
مگر آج چھپن سال کے بعد جب انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جا رہا ہے تو دنیا کی صورتحال پر اور بڑھتی ہوئی عالمی کشمکش پر ایک نظر ڈال لیں کہ ۱۹۴۵ء میں قائم ہونے والی اقوامِ متحدہ اور ۱۹۴۸ء میں منظور ہونے والے انسانی حقوق کے عالمی منشور نے دنیا کے تنازعات میں کس حد تک کمی کی ہے اور دنیا کی اس وقت موجودہ چھ ارب کی آبادی کی اکثریت کو کون سے حقوق دلوائے ہیں؟
(روزنامہ اسلام، لاہور ۔ ۱۳ دسمبر ۲۰۰۴ء)
عالمِ اسلام کی بے حیثیتی
عالم اسلام کے ساتھ اقوامِ متحدہ کے طرزِ عمل کا جائزہ لینے کے لیے ہمیں گزشتہ نصف صدی کے دوران عالمِ اسلام کی داخلی صورتحال پر ایک نظر ڈالنا ہو گی اور ان توقعات کو پیشِ نظر رکھنا ہوگا جو معروضی حالات میں ملتِ اسلامیہ کو اقوامِ متحدہ سے فطری طور پر ہونی چاہیے تھیں۔ اقوامِ متحدہ جس وقت تشکیل و تنظیم کے مراحل طے کر رہی تھی اور انسانی حقوق کی سربلندی اور عالمی سطح پر انصاف اور رواداری کے فروغ کو اپنی منزل قرار دے کر سفر کا آغاز کر رہی تھی، اس وقت عالمِ اسلام کے بہت سے ممالک استعماری قوتوں کی غلامی سے تازہ تازہ آزاد ہوئے تھے اور بعض مسلم ممالک ابھی آزادی کے لیے جانگسل جدوجہد کے مراحل سے گزر رہے تھے۔ جبکہ گزشتہ نصف صدی کے دوران عالمِ اسلام کے بیشتر ممالک آزاد ہو کر اپنی خودمختار حکومتیں قائم کر چکے ہیں، مگر بہت سے ایسے علاقے بھی موجود ہیں جہاں مسلم اقوام آزادی اور خودمختاری کے لیے ابھی تک جدوجہد میں مصروف ہیں۔
اس دوران مسلم اقوام و ممالک کی سب سے بڑی ضرورت یہ تھی کہ وہ سیاسی، معاشی اور فوجی طور پر استحکام حاصل کریں، نوآبادیاتی دور کے غلامی کے اثرات سے نجات پائیں، اور اقتصادی خود کفالت کے ساتھ ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوں۔ جبکہ مسلم ممالک کو عرصۂ دراز تک اپنی غلامی میں رکھنے والے ممالک، عالمِ اسلام میں اپنے اثرات کو قائم رکھنے اور مسلم ممالک کو سیاسی خودمختاری اور اقتصادی خود کفالت کی منزل سے روکنے کے لیے مسلسل مصروفِ کار چلے آ رہے ہیں۔ حتیٰ کہ مختلف مسلم علاقوں پر نوآبادیاتی تسلط قائم رکھنے والے استعماری ممالک برطانیہ، فرانس، ہالینڈ، پرتگال (اور اب روس بھی) اس مقصد کے لیے امریکہ کی زیرقیادت متحدہ محاذ قائم کر چکے ہیں کہ عالمِ اسلام ان کے دائرہ اثر سے نکلنے نہ پائے اور مسلم ممالک بدستور ان کی ریموٹ کنٹرول نوآبادیات بنے رہیں۔
اس حوالے سے انسانی حقوق، انصاف اور مساوات کی علمبردار اقوامِ متحدہ سے بجاطور پر یہ توقع ہونی چاہیے تھی کہ وہ بیرونی تسلط قائم رکھنے اور اس سے آزادی حاصل کرنے کی اس کشمکش میں آزادی اور خودمختاری کی جدوجہد کرنے والی اقوام کا ساتھ دیتی۔ لیکن گزشتہ نصف صدی کا ریکارڈ گواہ ہے کہ اقوامِ متحدہ انصاف اور انسانی حقوق کی ان توقعات کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے، بلکہ موجودہ عالمی تناظر یہ ہے کہ مغربی ممالک اور عالمِ اسلام کے درمیان تسلط قائم رکھنے اور اس سے نجات حاصل کرنے کی یہ کشمکش واضح محاذ آرائی کی صورت اختیار کر چکی ہے جس میں مغربی ممالک کے اہداف و مقاصد متعین طور پر سامنے ہیں کہ:
- مسلم ممالک نظریاتی اور سیاسی اتحاد کی منزل کی طرف بڑھنے نہ پائیں۔
- ایٹمی ٹیکنالوجی اور جدید ترین حربی وسائل کو مسلم ممالک کی دسترس سے دور رکھا جائے۔
- امداد اور قرضوں کے نام پر مسلم ممالک کی معیشت کو جکڑ کر انہیں اقتصادی طور پر خود کفالت حاصل نہ کرنے دی جائے۔
- مغربی مفادات کی حفاظت کرنے والے مسلم حکمرانوں کا ہر قیمت پر تحفظ کیا جائے اور مسلم ممالک کی نظریاتی قوتوں کو ’’بنیاد پرست‘‘ قرار دے کر انہیں اقتدار تک پہنچنے سے ہر حال میں روکا جائے۔
- عالمِ اسلام کے مذہبی اور تہذیبی تسلسل کو مبینہ ’’انسانی حقوق‘‘ سے متصادم قرار دے کر اس کے خلاف معاشرتی بغاوت کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
یہ ساری تگ و دو عالم اسلام کو مغرب کا دستِ نگر بنائے رکھنے اور مسلم ممالک پر مغرب کے سیاسی و اقتصادی تسلط کو دوام دینے کے لیے ہے۔ اور اس کشمکش کے حوالے سے اقوامِ متحدہ کے کردار کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا جائے تو انسانی حقوق، اقوامِ عالم کے درمیان مساوات، آزادی اور عالمی سطح پر انصاف کے تمام تر دعووں کے باوجود اس کشمکش میں اقوامِ متحدہ مغربی استعمار کی مکمل طور پر حلیف بلکہ آلۂ کار نظر آتی ہے۔ اس سے ہٹ کر گزشتہ نصف صدی کے دوران عالمِ اسلام کو درپیش واقعاتی مسائل و مشکلات کے حوالے سے بھی اقوامِ متحدہ کی کارکردگی پر ایک نظر ڈال لی جائے:
- فلسطینی عوام کے مسلّمہ انسانی حقوق اور بیت المقدس پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضہ کے بارے میں اقوامِ متحدہ نے خود اپنی واضح قراردادوں کی نفی کرتے ہوئے عملاً اسرائیل کو تحفظ فراہم کیا اور اقوامِ متحدہ کی سرد مہری اور مجرمانہ غفلت کی وجہ سے آج نسل پرست اسرائیل من مانی کر رہا ہے۔
- کشمیر میں کشمیری عوام کے حقِ خود ارادیت کو واضح طور پر تسلیم کرنے کے باوجود اقوامِ متحدہ کشمیریوں کے قتلِ عام اور ان کے حقوق کی پامالی پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے اور انہیں خود ارادیت کا مسلّمہ حق دلانے کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کر سکی۔
- بوسنیا میں مسلمانوں کے قتلِ عام پر اقوامِ متحدہ نے یہ کردار ادا کیا کہ ہتھیاروں کی فراہمی پر پابندی کے نام سے بوسنیا کی نوزائیدہ حکومت کو غیر مسلح کر دیا تاکہ سابق یوگوسلاویہ کے حربی وسائل پر پہلے سے قابض سرب فوج اطمینان کے ساتھ بوسنیا کے مسلمانوں کا قتلِ عام کر سکے۔
- چیچنیا میں مسلمانوں کے قتلِ عام پر اقوامِ متحدہ کو ایک لفظ کہنے کی توفیق نہیں ہوئی۔
- قازقستان میں روس کے ایٹمی تجربات کے دوران مبینہ طور پر ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں کی المناک موت پر اقوامِ متحدہ مکمل خاموش ہے۔
- خلیج کی جنگ زرگری میں عراق کی فوجی قوت کو تباہ کر کے، تیل کی دولت کو مغربی ممالک کی تجوریوں میں منتقل کر کے، اور خلیج پر مغربی ممالک کی افواج کو مسلط کر کے اقوامِ متحدہ الٹا عالمِ اسلام پر احسان جتلا رہی ہے کہ ایک مسلم ملک پر دوسرے مسلم ملک کے ہاتھوں ابتلا آنے پر ہم نے کس چابکدستی اور تیز رفتاری کے ساتھ اپنا کردار ادا کیا ہے۔
- ان کے علاوہ صومالیہ اور آذربائیجان سمیت بہت سے دیگر خطوں کے مسائل کا حوالہ بھی دیا جا سکتا ہے جہاں اقوامِ متحدہ نے عالمِ اسلام کے بارے میں اپنے دوہرے معیار کا تسلسل قائم رکھا اور استعماری ممالک نے مسلم اقوام کے خلاف اپنے اہداف اقوامِ متحدہ کی چھتری تلے حاصل کیے۔
اور اس نظریاتی اور فکری جنگ کا ذکر بھی نامناسب نہ ہوگا جو اقوامِ متحدہ کے نام پر بلکہ اس کے ذریعے اسلامی عقائد و نظریات کے خلاف لڑی جا رہی ہے، اور اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کو بنیاد بنا کر نہ صرف اسلام کے عقائد و احکام کو ہدفِ تنقید بنایا جا رہا ہے بلکہ مسلمانوں کے معاشرتی و خاندانی نظام کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ اس عنوان سے مغربی لابیاں اور عالمی میڈیا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جو مسلسل مہم جاری رکھے ہوئے ہے اس کا نقشہ کچھ یوں ہے:
- معاشرتی جرائم کی قرآنی سزاؤں ہاتھ کاٹنے، کوڑے مارنے، قصاص میں قتل کرنے اور سنگسار کرنے کو انسانی حقوق کے منافی قرار دیا جا رہا ہے۔ جبکہ بائبل میں بھی جرائم کی یہی سزائیں بیان کی گئی ہیں۔
- آزادیٔ رائے کے نام پر خدا، رسول اور مذہب پر تنقید بلکہ گستاخی اور اہانت کے رجحانات کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے اور پورے عالمِ اسلام میں گستاخانِ رسولؐ کو مغرب کی طرف سے تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے جس کی واضح مثال سلمان رشدی، تسلیمہ نسرین اور مصر کے ڈاکٹر ابو زید کی صورت میں دنیا کے سامنے ہے۔
- نکاح و طلاق اور وراثت کے بارے میں مسلمانوں کے خاندانی مذہبی قوانین کو عالمی معیار اور اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کے منافی قرار دے کر ان کی مخالفت کی جا رہی ہے۔
- ہم جنس پرستی، بغیر شادی کے بچوں کی ولادت، اور آزادانہ جنسی تعلقات کو قانونی تحفظ دلانے کے لیے اقوامِ متحدہ کی عالمی کانفرنسیں مسلم حکومتوں پر دباؤ ڈال رہی ہیں۔
اور اس طرح عالمِ اسلام کے خلاف مغربی استعمار کی اعتقادی، فکری اور تہذیبی جنگ میں بھی اقوامِ متحدہ مغرب کی حلیف اور آلہ کار کا کردار ادا کر رہی ہے۔
(ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ ۔ نومبر ۱۹۹۵ء)
اب سے ایک صدی قبل دنیا کے نقشے پر اسرائیل کا وجود نہیں تھا اور فلسطین سلطنتِ عثمانیہ کا ایک صوبہ تھا۔ پہلی جنگِ عظیم کے موقع پر خلافتِ عثمانیہ کا تیاپانچہ کرنے کے بعد فلسطین پر برطانیہ نے قبضہ کر لیا، اور دنیا بھر سے یہودیوں کو ترکِ وطن کر کے فلسطین میں آباد ہونے کی سہولتیں فراہم کیں، تا آنکہ برطانوی ترغیب اور تحفظ کی چھتری تلے یہودیوں کی اچھی خاصی تعداد فلسطین میں آباد ہو گئی۔ پھر اقوامِ متحدہ کے ذریعے فلسطین کو ان کا وطن تسلیم کرتے ہوئے فلسطین کے ایک حصے کو یہودی ریاست کے طور پر اسرائیل کے نام سے قیام کا جواز فراہم کر دیا گیا۔ اقوامِ متحدہ نے اپنی قرارداد (نمبر ۱۸۱/ ۲۹ نومبر ۱۹۴۷ء) میں فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کر کے اسرائیلی اور فلسطینی دو الگ الگ ریاستوں کا اصول طے کیا اور دونوں کی حد بندی بھی کر دی۔ لیکن نہ صرف یہ کہ فلسطینی ریاست ایک خودمختار ملک کے طور پر ابھی تک قائم نہیں ہو سکی، بلکہ اسرائیل نے کئی بار مسلح جارحیت کر کے فلسطین کے بہت سے مزید علاقوں پر بھی قبضہ جما لیا، ۱۹۴۹ء اور ۱۹۶۷ء میں فوج کشی کر کے بہت سے فلسطینی علاقے اپنے مقبوضات میں شامل کر لیے، لاکھوں فلسطینی اس جارحیت کا شکار ہو کر مہاجر بن گئے اور کیمپوں میں دربدر ہوئے۔ فلسطینیوں نے اپنے وطن کے تحفظ اور مقبوضہ علاقوں کی واپسی کے لیے مسلح جدوجہد کا آغاز کیا، مگر اسرائیل کی عسکری قوت اور اس کی پشت پر امریکہ کی دیوہیکل طاقت نے فلسطینیوں کی جدوجہدِ آزادی کو آگے نہ بڑھنے دیا۔
(روزنامہ پاکستان، لاہور۔ ۲۱ اپریل ۲۰۰۴ء)
کشمیری عوام اس وعدہ کی تکمیل اور اپنا یہ مسلّمہ جائز حق حاصل کرنے کے لیے سیاسی اور عسکری دونوں محاذوں پر مسلسل مصروفِ پیکار ہیں، ہزاروں نوجوان جامِ شہادت نوش کر چکے ہیں اور اس جدوجہد میں اب چوتھی نسل آگے بڑھتی نظر آرہی ہے، لیکن اقوام متحدہ اور عالمی رائے عامہ کے وعدے سلامتی کونسل کے فریزر میں منجمد پڑے ہیں۔ اور اقوامِ متحدہ کی جس سلامتی کونسل نے مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان میں عوامی ریفرنڈم کرا کے انہیں الگ ریاستیں بنوانے میں عملی دلچسپی کا مظاہرہ کیا ہے، کشمیری عوام کو آزادانہ ریفرنڈم کا حق دلوانے میں اسے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ عالمی راہنماؤں کو یہ فکر دامن گیر ہے کہ کشمیری عوام کو یہ حق دینے میں سوسائٹی کی مذہب کی بنیاد پر تقسیم کا رجحان بڑھے گا، جبکہ مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کی تقسیم انہی عالمی راہنماؤں کی نگرانی میں مذہبی بنیادوں پر ہوئی ہے، اور یہ دونوں ریاستیں مسیحی اکثریت کی بنیاد پر دنیا کے نقشے کا حصہ بنی ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام نے، جن میں مقبوضہ کشمیر، آزاد ریاست جموں و کشمیر، اور گلگت و بلتستان کے علاقوں کے عوام شامل ہیں، آزادانہ رائے کے ذریعے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ بھارت یا پاکستان میں سے کس کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے ہیں؟ اس لیے کہ ۱۹۴۷ء میں پاکستان کے قیام اور بھارت کی تقسیم کے موقع پر جن ریاستوں کو پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کا حق دیا گیا تھا، ان میں جموں و کشمیر کی ریاست بھی شامل ہے اور اس کے راجہ نے اپنی ریاست کے عوام سے رائے لیے بغیر بھارت کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا تھا۔ جسے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا کہ یہ فیصلہ کرنا کشمیری عوام کا کام ہے کہ وہ بھارت اور پاکستان میں سے کون سے ملک میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ چنانچہ بھارت ڈوگرہ راجہ کے جس فیصلہ کو کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کی بنیاد قرار دیتا ہے اسے اقوامِ متحدہ اور عالمی برادری مسترد کر چکی ہے، اور اقوامِ متحدہ کی اس قرارداد کو تسلیم کرنے کے بعد بھارت کے پاس بھی راجہ کے فیصلے کو الحاق کا جواز قرار دینے کا کوئی حق باقی نہیں ہے۔
کشمیر کے مسئلہ کا واحد حل یہی ہے کہ اقوامِ متحدہ اپنے فیصلے کے مطابق کشمیری عوام کو استصوابِ رائے کا آزادانہ حق دے اور خود اپنی نگرانی میں ریفرنڈم کرا کے جنرل اسمبلی کے فیصلے پر عملدرآمد کا اہتمام کرے۔ جب تک یہ نہیں ہوتا کشمیری عوام کی جدوجہد جاری رہے گی اور دنیا کے ہر منصف مزاج شخص کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان کی حمایت کرتا رہے۔
(روزنامہ اسلام، لاہور۔ ۵ فروری ۲۰۱۶ء)
این این آئی کے حوالے سے ’’پاکستان‘‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق اقوامِ متحدہ نے برما (میانمار) سے مطالبہ کیا ہے کہ اقلیتی روہنگیا مسلمانوں کی شہریت اور طویل مدتی ضروریات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے معاملات کا تعین کیا جائے جن میں لاکھوں افراد نسلی تشدد کے واقعات کے نتیجے میں پناہ گزین خیموں میں رہائش پر مجبور ہوئے۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق اقوامِ متحدہ کے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد سے متعلق ادارے نے بتایا ہے کہ برما کی مغربی ریاست راکھین (اراکان) میں ایک لاکھ چالیس ہزار افراد بے گھر ہیں۔ ایک برس سے جاری (حالیہ) بودھ مسلمان فسادات کے باعث تقریباً دو ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ یہ خطہ مذہبی اور نسلی بنیادوں پر بٹ چکا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ضرورتمندوں کو اب روزانہ کی بنیاد پر خوراک تقسیم ہوتی ہے اور اکہتر ہزار سے زائد افراد کو پناہ دینے کے لیے عارضی خیمے قائم ہیں۔ عالمی ادارے نے متنبہ کیا ہے کہ تناؤ کی بنیادی وجوہات ختم کیے بغیر دیرپا امن اور ہم آہنگی قائم نہیں ہو سکتی۔ رپورٹ میں کم و بیش آٹھ لاکھ مسلمانوں کی شہریت کے تعین کے معاملے کو حل کرنے پر زور دیا گیا ہے۔
میانمار (برما) کی مغربی ریاست اراکان کے بارے میں اس قسم کی رپورٹیں کم و بیش ایک سال سے تسلسل کے ساتھ اخبارات کی زینت بن رہی ہیں اور اقوامِ متحدہ اور او آئی سی (اسلامی تعاون تنظیم) سمیت عالمی اداروں کی طرف سے احتجاج اور برما کی حکومت سے اصلاحِ احوال کے مطالبات بھی نظر سے گزرتے رہتے ہیں، لیکن صورتحال میں بہتری کی کوئی صورت سامنے نہیں آرہی بلکہ اراکانی مسلمانوں کی اس بے رحمانہ خونریزی کو بودھ مسلم فسادات یا نسلی فسادات کا عنوان دے کر فریقین کے درمیان کشمکش بتایا جا رہا ہے۔ حالانکہ یہ سب کچھ یکطرفہ ہے، قتل بھی صرف مسلمان ہو رہے ہیں، مکانات صرف ان کے جل رہے ہیں، وہی جلا وطن ہو رہے ہیں، پناہ گزینوں کے کیمپوں میں صرف ان کا بسیرا ہے، اور انہی پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا گیا ہے …
ہم سمجھتے ہیں کہ اراکان کے ان مسلمانوں کا سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں، ایک اسلامی ریاست کا پس منظر رکھتے ہیں، اور بد قسمتی سے بودھ اکثریت کے ملک برما (میانمار) کا حصہ بن گئے ہیں۔ جبکہ ان کا اس سے بھی بڑا جرم یہ ہے کہ انہوں نے برصغیر کی تقسیم کے وقت پاکستان میں شامل ہونے کی خواہش کا اظہار کیا اور قائد اعظم محمد علی جناحؒ سے ملاقات کر کے ان سے اس کی درخواست بھی کر دی جو بوجوہ قبول نہ کی جا سکی۔ اس لیے ہمارے خیال میں یہ مسئلہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے ’’مسئلہ کشمیر‘‘ سے مختلف نہیں ہے۔
گزشتہ برس ہم نے جمعیت علماء اسلام پاکستان کے امیر مولانا فضل الرحمٰن سے، جو اس وقت پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین تھے، ملاقات کر کے درخواست کی تھی کہ مسئلہ کشمیر کے ساتھ اراکان کے مسئلہ کو بھی حکومتِ پاکستان کے ایجنڈے کا حصہ بنایا جائے اور اس کے لیے عالمی سطح پر آواز اٹھائی جائے۔ مولانا فضل الرحمٰن نے قومی اسمبلی میں اور مختلف بین الاقوامی اداروں میں برما کے ان مظلوم مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھائی ہے اور اس کے اثرات بھی سامنے آئے ہیں، لیکن اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ
- او آئی سی اس سلسلہ میں زیادہ سنجیدگی کے ساتھ توجہ دے،
- بنگلہ دیش کی حکومت اسے باقاعدہ اپنے ایجنڈے میں شامل کرے،
- اور حکومتِ پاکستان بھی اسے ترجیحات کا حصہ بنائے۔
اراکانی مسلمان صدیوں تک ایک آزاد اسلامی ریاست کا پس منظر رکھنے کے باوجود آج مسلسل مظالم اور بے بسی کا شکار ہیں تو ان کے حق میں آواز اٹھانا اور عالمی رائے عامہ اور اداروں کو برما (میانمار) کی حکومت پر مؤثر دباؤ ڈالنے کے لیے آمادہ کرنے کے ساتھ ساتھ مظلوم مسلمانوں کی امداد کا اہتمام کرنا بہرحال ہماری دینی اور قومی ذمہ داری بنتی ہے۔
(روزنامہ پاکستان، لاہور۔ ۲۲ جون ۲۰۱۳ء)
اسلامی تعلیمات سے روگردانی کا دباؤ
مسلم حکومتوں پر بین الاقوامی طور پر دباؤ مسلسل بڑھ رہا ہے کہ وہ اپنے ممالک میں عمومی قوانین اور خاص طور پر پرسنل لاء یعنی نکاح و طلاق اور وراثت سے متعلقہ قوانین کو بین الاقوامی معیار کے مطابق بنانے کے لیے قرآن و سنت کے بیان کردہ ضابطوں میں تبدیلی کریں اور انہیں عالمی معیار کے مطابق بنائیں۔
اس سلسلہ میں بین الاقوامی معیار سے مراد اقوامِ متحدہ کا بنیادی حقوق کا چارٹر اور اس کی تشریح میں اقوامِ متحدہ کے مختلف اداروں اور کانفرنسوں کی قراردادیں ہیں جن کی بہت سی باتیں نکاح و طلاق اور وراثت کے بارے میں قرآن و سنت کے صریح احکام سے متصادم ہیں۔ اسی لیے بین الاقوامی اداروں اور لابیوں کی طرف سے مسلم ممالک سے یہ کہا جا رہا ہے کہ جب وہ اقوامِ متحدہ کے رکن ہیں اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر پر دستخط کر چکے ہیں تو انہیں اس کے مطابق اپنے قوانین میں ترمیم کرنی چاہیے اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور اس کے اداروں کے فیصلوں کا احترام کرنا چاہیے۔
اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی بنیاد پر مروجہ بین الاقوامی قوانین اور قرآن و سنت کے شرعی احکام میں کیا فرق اور تضاد ہے؟ اس کو واضح کرنے کے لیے دو تین باتوں کو بطور مثال ذکر کرنا چاہوں گا:
- بین الاقوامی قوانین کے مطابق کوئی بھی مرد اور عورت رنگ و نسل اور مذہب کے کسی امتیاز کے بغیر آپس میں آزادانہ مرضی سے شادی کر سکتے ہیں، مگر اسلام میں مسلمان عورت کا نکاح کسی غیر مسلم مرد سے نہیں ہو سکتا، اسی طرح مسلمان مرد بھی اہلِ کتاب کے علاوہ کسی اور مذہب سے تعلق رکھنے والی خاتون سے شادی نہیں کر سکتا۔ یہ ایک بنیادی فرق ہے جس کا اظہار آپ کے سامنے اس وقت ہوتا ہے جب یہاں کسی مغربی ملک میں کوئی مسلمان لڑکی کسی غیر مسلمان نوجوان کے ساتھ عدالت کے ذریعے شادی کر لیتی ہے، لیکن جب آپ عدالت سے رجوع کرتے ہیں کہ اسلام اس شادی کی اجازت نہیں دیتا تو یہاں کی عدالت آپ کا اعتراض سننے کے لیے تیار نہیں ہوتی اور مروجہ بین الاقوامی معیار کے مطابق نہ صرف اس شادی کو جائز قرار دے دیتی ہے بلکہ یہاں کا سسٹم اس شادی کو مکمل تحفظ بھی فراہم کرتا ہے۔
- اسی طرح نکاح کا رشتہ ختم کرنے میں مروجہ بین الاقوامی قانون خاوند اور بیوی کا یکساں حق تسلیم کرتا ہے کہ دونوں میں سے جو بھی چاہے اس رشتہ کو ختم کر سکتا ہے۔ جبکہ اسلام نے نکاح کا رشتہ غیر مشروط طور پر ختم کرنے کا حق خاوند کو دیا ہے جسے قرآن کریم نے ’’بیدہ عقدۃ النکاح‘‘ کے ساتھ بیان کیا ہے۔ جبکہ عورت کو یہ حق براہ راست اور غیر مشروط طور پر نہیں دیا گیا بلکہ خلع کے عنوان سے عورت کا یہ حق عدالتی پراسیس کے ذریعے تعلیم کیا گیا ہے۔ اس کی وجوہ کچھ بھی ہوں مگر یہ حقیقت ہے کہ اسلام عورت کو نکاح کا رشتہ ختم کرنے کا حق غیر مشروط طور پر نہیں دیتا اور یہ بات مروجہ بین الاقوامی قانون سے متصادم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں برطانیہ میں کوئی مسلمان خاتون اپنے خاوند کو طلاق دے دے تو کوئی عدالت خاوند کا یہ اعتراض سننے کے لیے تیار نہیں ہو گی کہ چونکہ شرعی قوانین کی رو سے طلاق دینے کا حق صرف اسے ہے اس لیے یہ طلاق واقع نہیں ہوئی۔ چنانچہ قانونی طور پر وہ طلاق واقع ہو جائے گی اور یہاں کا سسٹم اس طلاق کا تحفظ بھی کرے گا۔
- اس کے علاوہ وراثت کے معاملہ میں بھی قرآن کریم نے حصوں کی جو تقسیم کی ہے وہ واضح طور پر غیر مساویانہ ہے۔ خاوند کے فوت ہو جانے کی صورت میں بیوی کو ایک صورت میں آٹھواں اور دوسری صورت میں چوتھا حصہ ملتا ہے، اور بیٹی کا حصہ ہر صورت میں بیٹے سے نصف ہوتا ہے۔ جبکہ بین الاقوامی قانون اس سلسلہ میں برابری کا متقاضی ہے اور قرآن کریم کے بیان کردہ غیر مساویانہ حصوں کو غیر منصفانہ قرار دیتا ہے۔ لہٰذا جب وراثت کے قوانین کو بین الاقوامی معیار کے مطابق بنانے کی بات کی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ قرآن کریم کے بیان کردہ حصوں پر نظرِ ثانی کر کے ان میں ترمیم کی جائے۔
یہ تین مثالیں میں نے اس لیے دی ہیں تاکہ یہ بات واضح ہو جائے کہ نکاح، طلاق اور وراثت کے باب میں قرآن و سنت کے بیان کردہ قوانین آج کے مروجہ بین الاقوامی قوانین سے متصادم ہیں، اس لیے اقوامِ متحدہ کے مختلف اداروں سمیت بین الاقوامی حلقوں کی طرف سے مسلم ممالک پر یہ دباؤ مسلسل بڑھ رہا ہے کہ وہ اپنے قوانین میں ردوبدل کر کے انہیں بین الاقوامی معیار کے مطابق بنائیں۔
اس پر مسلم ممالک اور حکومتوں کا رد عمل تین طرح کا ہے:
- ایک ردعمل ترکی کا ہے کہ اس نے پون صدی قبل ہی قرآن و سنت کے احکام سے اعلانیہ دستبرداری اختیار کر کے مغربی قوانین کو قبول کر لیا تھا اور وہ اپنے اس فیصلہ پر سختی کے ساتھ قائم ہے۔ بلکہ اگر ترکی میں اس حوالے سے قرآن و سنت کے احکام کی طرف واپسی کا معمولی سا رجحان بھی نظر آنے لگتا ہے تو ریاستی قوانین اور ادارے اسے روکنے کے لیے پوری طرح سرگرم ہو جاتے ہیں۔
- دوسرا ردِ عمل امارتِ اسلامی افغانستان میں طالبان کی اسلامی حکومت کا ہے کہ وہ قرآن و سنت کے احکام کے ساتھ بے لچک وابستگی قائم رکھتے ہوئے اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور اس کی بنیاد پر تشکیل پانے والے مروجہ بین الاقوامی قوانین کو قبول کرنے سے صاف انکار کر رہے ہیں۔ اور ان کا یہ انکار بھی اس بات کی ایک بڑی وجہ ہے کہ افغانستان کے ایک بڑے حصے پر کنٹرول اور دارالحکومت کا قبضہ حاصل کرنے اور اپنے زیر تسلط علاقے میں مکمل امن قائم کر لینے کے باوجود ان کی حکومت کو اقوامِ متحدہ میں تسلیم نہیں کیا جا رہا اور انہیں اقوامِ متحدہ میں افغانستان کی نشست سے محروم رکھا جا رہا ہے۔
- ترکی اور افغانستان کے فیصلے تو دوٹوک اور غیر مبہم ہیں جو سب کے سامنے ہیں۔ لیکن ایک تیسرا ردِ عمل بھی ہے جو پاکستان سمیت بیشتر مسلم ممالک کا ہے کہ قرآن و سنت پر عملدرآمد کا ٹائٹل بھی ہاتھ میں رہے اور مغرب کو بھی مطمئن رکھا جائے۔ اس کے لیے ایک الگ راستہ اختیار کیا گیا کہ قرآن و سنت کے احکام و قوانین کی ایسی تعبیر و تشریح کی جائے جس سے قوانین کو مغرب کے معیار کے قریب تر لایا جائے۔ ہمارے ہاں اس سلسلہ میں سب سے پہلی کوشش صدر محمد ایوب خان مرحوم کے دور میں مسلم فیملی لاز آرڈیننس یعنی عائلی قوانین کے نفاذ کی صورت میں ہوئی تھی جس کی متعدد دفعات کو ملک کے تمام مکاتبِ فکر کے علماء کرام نے متفقہ طور پر قرآن و سنت سے متصادم قرار دیا، لیکن اس کے باوجود وہ نافذ ہوئے اور ابھی تک ریاستی قوت کے بل بوتے پر مسلسل نافذ العمل ہیں۔ ان قوانین میں سے صرف ایک کی مثال دوں گا کہ نکاح کے فارم میں خاوند کی طرف سے عورت کو طلاق کا حق تفویض کر دینے کا خانہ رکھ کر ہم نے مغرب کو مطمئن کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہم نے پاکستان میں عورت کو بھی طلاق کا حق دے دیا ہے۔ اسی سے باقی قوانین کے رخ کا بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
(روزنامہ اوصاف، اسلام آباد۔ ۳۱ اگست ۱۹۹۹ء)
اس کشمکش میں جب ہم اسلام کے عقائد و احکام پر مغربی دانشوروں کے حملوں کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں یہ یلغار عقائد و احکام اور معاشرت کے تمام شعبوں پر محیط نظر آتی ہے۔ اگر آپ گزشتہ ایک دہائی کے دوران پیش آنے والے واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے حالات کا تجزیہ کریں گے تو آپ کو صورتحال کا نقشہ کچھ یوں نظر آئے گا:
- سلمان رشدی کو مغربی ممالک اور ذرائع ابلاغ نے صرف اس ’’کارنامے‘‘ پر آزادیٔ رائے کا ہیرو بنا کر پیش کیا ہے کہ اس نے جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کے ساتھ مسلمانوں کے بے پایاں عشق و محبت پر ضرب لگانے کی کوشش کی اور ملتِ اسلامیہ کے اس اجماعی عقیدہ کا دائرہ توڑنا چاہا کہ جناب رسول اللہؐ ہر قسم کے اختلاف، اعتراض اور تنقید سے بالاتر، اور غیر مشروط اطاعت کا مرکز ہیں۔
- تسلیمہ نسرین صرف اس ’’جرأتِ رندانہ‘‘ پر مغرب کی آنکھوں کا تارا بن گئی ہے کہ اس نے قرآن کریم کے ناقابلِ تغیر و تبدل ہونے کے عقیدہ پر یہ کہہ کر ضرب لگانے کی کوشش کی کہ آج کے حالات کی روشنی میں قرآن کریم میں ترامیم کی ضرورت ہے۔
- معاشرتی جرائم کی اسلامی سزاؤں ہاتھ کاٹنے، سنگسار کرنے اور کوڑے مارنے کو انسانی حقوق کے منافی قرار دیا گیا ہے، پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ میں مجرم کو کھلے بندوں سزا دینے کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی گردانا گیا ہے، اور پاکستان میں برائے نام نافذ چند اسلامی تعزیری قوانین کو ختم کرنے کے لیے امریکہ کی طرف سے مسلسل دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔
- توہینِ رسالتؐ پر سزا کے قانون کو انسانی حقوق کے منافی قرار دیا گیا ہے اور اس قانون کے خاتمہ کے لیے دباؤ ڈالنے کے ساتھ ساتھ مغربی حکومتوں کی طرف سے توہینِ رسالتؐ کے مرتکب افراد کی حوصلہ افزائی اور پشت پناہی کا سلسلہ جاری ہے۔
- قادیانیت کو اسلام سے الگ مذہب قرار دینے اور قادیانیوں کو اسلام کا نام اور مسلمانوں کے مذہبی شعائر کے استعمال سے روکنے کے قانونی و آئینی اقدامات کو بھی انسانی حقوق کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ اور قادیانیوں کو مظلوم قرار دے کر امریکہ کی طرف سے ان کے خلاف مذکورہ اقدامات واپس لینے پر زور دیا جا رہا ہے۔
- اسلام کے معاشرتی اور خاندانی نظام کو معاشرت کے موجودہ عالمی نظام کے منافی قرار دیا جا رہا ہے اور خاندانی زندگی کے بارے میں بیشتر مسلم ممالک میں مروجہ قوانین کو عالمی معیار کے مطابق بدل دینے کی تلقین کی جا رہی ہے۔ جس میں شادی کے لیے مذہب کی شرط کو ختم کرنے، آزادانہ جنسی تعلقات کے بھرپور مواقع کی فراہمی، ہم جنس پرستی کو قانونی طور پر تسلیم کرنے، اور بن بیاہی ماؤں اور ناجائز بچوں کو سماجی تحفظ فراہم کرنے کے تقاضے شامل ہیں۔
- اسلام کے عقائد و احکام کے ساتھ مسلمانوں کی غیر مشروط اور وفادارانہ وابستگی کو ’’بنیاد پرستی‘‘ قرار دیا جا رہا ہے اور ایسی دینی تحریکات پر بھی ’’دہشت گردی‘‘ کا لیبل چسپاں کر کے انہیں عالمی ذرائع ابلاغ کے ذریعے مسلسل کردار کشی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جو متعدد مسلم ممالک میں اسلامی عقائد و احکام کے ساتھ وابستگی کی بنا پر ریاستی تشدد کا نشانہ بننے کی وجہ سے اپنے دفاع میں ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہوئی ہیں، یا غیر مسلم ممالک میں موجود مسلم اقلیتوں کی آزادی اور ان کے اسلامی تشخص کے تحفظ کی جدوجہد میں ان کا ساتھ دے رہی ہیں۔
یہ ہے ایک سرسری خاکہ مغرب کی طرف سے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں سامنے آنے والے اعتراضات اور تقاضوں کا جو گزشتہ ایک عشرہ کے دوران منظم مہم اور مربوط نظریاتی جنگ کی شکل اختیار کر چکے ہیں اور جن کے سامنے مسلم ممالک کی بیشتر حکومتیں سپر انداز ہوتی چلی جا رہی ہیں۔
چنانچہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی وزیراعظم نے اپنے حالیہ دورۂ امریکہ کے دوران یہ کہہ کر مسلم حکمرانوں کے اسی رجحان کی نشاندہی کی ہے کہ وہ ’’انٹرنیشنلزم پر یقین رکھتی ہیں‘‘۔ اس انٹرنیشنلزم کا تصور مغرب کے نزدیک یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کے منشور کو پوری دنیا کا مشترکہ دستور تسلیم کر کے تمام ممالک اقوام متحدہ کی بالادستی کے سامنے جھک جائیں، اور اقوامِ متحدہ کو کنفیڈریشن طرز کی مشترکہ حکومت قرار دے کر ساری دنیا ایک عالمی برادری کی شکل اختیار کر لے۔ گویا وہ مغرب جس نے گزشتہ ایک سو سال کے دوران نیشنلزم اور قومیت کے نام پر عالمِ اسلام کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کر کے خلافتِ عثمانیہ کے حصے بخرے کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے، اب انہی ٹکڑوں کو انٹرنیشنلزم کے نام پر وہ اپنی بالادستی میں ویسٹرن سولائزیشن میں ضم کرنے کے لیے کوشاں ہے اور اس اسکیم کے تانے بانے پوری طرح بنے جا چکے ہیں۔
(ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ ۔ مئی ۱۹۹۵ء)
مسلم حکومتوں کا طرزِ عمل
صدر جنرل پرویز مشرف نے گزشتہ دنوں اسلام آباد میں انسانی حقوق کے بارے میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ایک بار پھر غیرت کے نام پر قتل، حدود آرڈیننس، اور توہینِ رسالتؐ کے قانون کا ذکر چھیڑا، اور مروجہ قوانین پر نظرِ ثانی کی حمایت کرتے ہوئے ایک بااختیار قومی کمیشن کے قیام کا اعلان کیا ہے، جو ملک میں انسانی حقوق کے حوالے سے صورتحال کا جائزہ لے گا اور اسے بہتر بنانے کے لیے اقدامات تجویز کرے گا۔ اس پر ملک کے مختلف طبقات کی طرف سے ردِ عمل کا اظہار کیا گیا ہے۔ متحدہ مجلسِ عمل اور دیگر دینی جماعتوں نے حدود آرڈیننس اور توہینِ رسالتؐ کے قانون میں ردوبدل کو مسترد کرتے ہوئے اس کی مزاحمت کا اعلان کیا ہے، جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چودھری اعتزاز احسن نے حدود آرڈیننس کو سرے سے منسوخ کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔
جہاں تک انسانی حقوق کے بارے میں ایک آزاد اور خودمختار قومی کمیشن کے قیام کی بات ہے، اگر وہ واقعی آزاد اور خودمختار ہو اور اس میں ایک ہی طرح کا ذہن رکھنے والے دانشوروں کی یکطرفہ بھرتی نہ ہو، تو ہمارے خیال میں اس کے قیام میں کوئی حرج نہیں، بلکہ انسانی حقوق کے عنوان پر اصولی جنگ لڑنے والوں کے لیے یہ ایک بہتر فورم ثابت ہو گا۔ البتہ اس کے قیام کے ساتھ ہی ایک بات اصول اور بنیاد کے طور پر طے کرنا ہو گی کہ انسانی حقوق کی فکری اور علمی بنیاد کیا ہے؟ اور ہم نے کس فلسفہ و تہذیب کے دائرے میں انسانی حقوق کی تعبیر و تشریح کو قبول کرنا ہے؟
اس لیے کہ اس وقت کنفیوژن کی اصل بات یہی ہے کہ ہمارے ہاں انسانی حقوق کی بات کرنے والے بیشتر دانشور اس سلسلہ میں ہمیشہ اسلام کی تعلیمات اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا حوالہ دیتے ہیں، صدر جنرل پرویز مشرف نے بھی اپنے مذکورہ خطاب میں جناب نبی اکرمؐ کے خطبۂ حجۃ الوداع کا ذکر کیا ہے، لیکن امرِ واقعہ یہ ہے کہ جب بھی انسانی حقوق کے کسی مسئلہ پر عملی تعبیر و تشریح اور دوٹوک فیصلے کا وقت آتا ہے تو ہمارے ان دانشوروں کے موقف اور فیصلوں کی بنیاد قرآن و سنت کی تعلیمات کے بجائے اقوامِ متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر اور جنیوا کے انسانی حقوق کی قراردادیں ہوتی ہیں۔ جبکہ یہ بات واضح طور پر طے ہے کہ متعدد انسانی حقوق کے تعین اور تشریح و تعبیر میں اقوامِ متحدہ کا منشور اور جنیوا انسانی حقوق کمیشن کی قراردادیں اسلامی تعلیمات سے متصادم ہوتی ہیں۔
مثال کے طور پر اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے جنیوا کے انسانی حقوق کمیشن کی اب سے صرف ایک ماہ قبل کثرتِ رائے سے منظور ہونے والی اس قرارداد پر نظر ڈال لیجیے جس میں انسانی حقوق کمیشن نے دنیا بھر کے ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ مرد اور عورت کی باہمی رضامندی سے جنسی تعلق کو سنگین جرائم کی فہرست سے خارج کر دیں۔ اس کا مطلب صاف طور پر یہ ہے کہ رضامندی سے قائم کیا گیا ایسا تعلق اقوامِ متحدہ کے اس ادارے کے نزدیک کوئی سنگین جرم نہیں ہے۔ حالانکہ باقاعدہ نکاح کے بغیر جنسی تعلق خواہ رضامندی سے ہو یا جبر سے، دونوں صورتوں میں نہ صرف اسلام کے نزدیک سنگین ترین جرم ہے، بلکہ بائبل بھی اسے سنگین جرائم میں شمار کرتی ہے، اور دونوں نے اس کے لیے کوڑے مارنے اور سنگسار کرنے کی سزا مقرر کی ہے۔
اسی طرح چند روز قبل امریکہ کی سپریم کورٹ نے ہم جنس پرستی کے جواز کو ایک بار پھر توثیق کی سند فراہم کر دی ہے، اور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو برقرار رکھا ہے کہ اگر کوئی مرد دوسرے مرد سے تعلق کو باقاعدہ نکاح اور شادی کا درجہ دینا چاہتا ہے، یا کوئی عورت دوسری عورت کے ساتھ تعلق کو شادی اور نکاح قرار دیتی ہے، تو ان کے اس تعلق کو باقاعدہ شادی تسلیم کرنے سے انکار نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ ایسا کرنا ان کے حقوق کے منافی ہو گا۔
رضامندی سے بداخلاقی اور ہم جنس پرستی کو جواز کی سند فراہم کرنے کی یہ باتیں کسی این جی او کا مطالبہ نہیں ہیں بلکہ اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے انسانی حقوق کمیشن آف جنیوا کی قرارداد، امریکی سپریم کورٹ کے فیصلے اور رولنگ کی صورت میں سامنے آئی ہیں، اور پرانی باتیں نہیں بلکہ گزشتہ ایک ماہ کے دورانیہ کی باتیں ہیں۔ اس سے قارئین اندازہ کر سکتے ہیں کہ آج کی دنیا میں ’’انسانی حقوق‘‘ کا تصور کیا ہے اور رضامندی سے بداخلاقی اور لواطت و ہم جنس پرستی کو باقاعدہ حقوق کی فہرست میں شامل کر کے ہم سے انسانی حقوق کا کون سا فریم ورک قبول کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
دوسری طرف بداخلاقی اور ہم جنس پرستی دونوں اسلامی تعلیمات کی رو سے سنگین جرم ہیں، دونوں کے لیے سنگین سزا مقرر کی گئی ہے اور دونوں کو اللہ تعالیٰ کے غضب اور لعنت کا مستحق گردانا گیا ہے۔ یہ صرف ایک بات ہم نے بطور نمونہ اور مثال پیش کی ہے، ورنہ اگر اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر، جنیوا کے انسانی حقوق کمیشن کی قراردادوں، اور اقوامِ متحدہ کے زیر اہتمام قاہرہ، بیجنگ اور نیویارک میں منعقد ہونے والی خواتین کی عالمی کانفرنسوں کی سفارشات کا تفصیل کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو ایسے بیسیوں تضادات سامنے آئیں گے جو قرآن و سنت کی تعلیمات اور اقوامِ متحدہ کے ان اداروں کے فیصلوں میں پائے جاتے ہیں۔
ہم ایک عرصہ سے ملک کے دینی اور علمی حلقوں سے گزارش کر رہے ہیں کہ وہ اس نقطۂ نظر سے اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے منشور، اس کے ذیلی اداروں اور کانفرنسوں کی سفارشات کا مطالعہ کریں اور اسلامی تعلیمات کے ساتھ ان کے تضادات کی نشاندہی کریں، کیونکہ ہمارے ساتھ مسلسل یہ دھاندلی ہو رہی ہے کہ ہمارے حکمران اور بہت سے دانشور انسانی حقوق کے بارے میں حوالہ تو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا دیتے ہیں اور سائن بورڈ اسلامی تعلیمات کے آویزاں کرتے ہیں، لیکن جب عملی طور پر کوئی بات طے کرنے کا موقع آتا ہے تو خاموشی کے ساتھ اقوامِ متحدہ کے فریم ورک کو سامنے کر دیتے ہیں۔
ہمیں لگتا ہے کہ اب بھی یہی ہونے جا رہا ہے، قومی کمیشن قائم ہو گا، اس کے افتتاحی اجلاس سے ملک کی مقتدر ترین شخصیت خطاب کرے گی، جس میں قرآن کریم کی بہت سی آیات اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد ارشادات کا بڑی عقیدت کے ماحول میں ذکر کیا جائے گا۔ مگر جب کمیشن کام شروع کرے گا تو اس کے ہاتھ میں اقوامِ متحدہ کا منشور اور جنیوا کنونشن کی سفارشات تھما دی جائیں گی۔ اور اسلام کے نام پر قائم ہونے والے ملک میں، اسلام کی مالا جپنے والوں کے ہاتھوں، اسلام کے نام پر مغربی فکر و فلسفہ اور تہذیب و ثقافت کا ایک مورچہ سر کر لیا جائے گا۔
ہمیں اس سے انکار نہیں کہ پاکستان میں انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ عوام کے سیاسی حقوق پیہم پامال ہو رہے ہیں، شہری آزادیوں کی صورتحال تسلی بخش نہیں، جمہوریت کی گردن ابھی تک وردی کے پٹے سے آزاد نہیں ہو سکی، عام لوگوں کو جان و مال، آبرو اور روزگار کا تحفظ حاصل نہیں، ملک و قوم کے وسیع تر مفاد کے نام پر سیاسی عمل پر شبخون مارنے کی روایت نے تسلسل اختیار کر لیا ہے، محنت کشوں، مزدوروں اور عام ملازمین کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے، جسم اور جان کا رشتہ قائم رکھنا عام آدمی کے لیے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے، عورتیں قبائلی اور خاندانی روایات کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں، لاکھوں بچوں کے ہاتھوں میں کتابوں اور کھلونوں کی بجائے محنت مزدوری کے آلات ہیں، اور لاکھوں افراد ایسے ہیں جنہیں دو وقت کی روٹی اور سر چھپانے کو چھت نہیں ہے۔ یہ سب انسانی حقوق کے مسائل ہیں جن کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
ہمیں ان میں سے کسی پہلو کی اہمیت سے انکار نہیں ہے، اگر کوئی قومی کمیشن واقعتاً آزادانہ اور خودمختارانہ ماحول میں قائم ہوتا ہے اور انسانی حقوق کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے کر خرابیوں کی نشاندہی کرتا ہے، اسباب کا تعین کرتا ہے، عوامل کا سراغ لگاتا ہے، اور اصلاح کے لیے قابلِ عمل سفارشات کرتا ہے تو ہمیں اس سے خوشی ہو گی، ہم اس کا خیرمقدم کریں گے اور اس سے تعاون کو اپنے لیے باعثِ اجر و ثواب سمجھیں گے۔ لیکن اس کمیشن کو پہلے انسانی حقوق کی فکری بنیاد اور تہذیبی فریم ورک کا تعین کرنا ہو گا، اور یہ واضح کرنا ہو گا کہ اس کا فکری اور تہذیبی قبلہ نیویارک اور جنیوا نہیں بلکہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ ہے۔ اور اس کے فیصلوں کی اساس اقوام متحدہ کا منشور اور جنیوا کنونشن کی قراردادیں نہیں بلکہ قرآنی تعلیمات اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و ہدایات ہیں۔ اس کے بغیر یہ کمیشن ملک کے دینی حلقوں اور قرآن و سنت پر بے لچک ایمان رکھنے والے عام مسلمانوں کا اعتماد حاصل نہیں کر سکے گا، اور نہ ہی اس کی سفارشات قابلِ قبول ہوں گی۔
باقی رہی بات حدود آرڈیننس اور توہینِ رسالتؐ کے قانون کے غلط استعمال کی، تو اس کے بارے میں اس کالم میں پہلے بھی عرض کر چکے ہیں کہ کسی قانون کے غلط استعمال کی ذمہ داری قانون پر نہیں بلکہ معاشرے کے عمومی رویے پر ہوتی ہے۔ اور ایسا صرف ان دو قوانین کے ساتھ نہیں ہو رہا بلکہ ملک میں رائج دیگر بہت سے قوانین بھی غلط استعمال کی اس عمومی روش کا شکار ہیں۔ صرف اس بنیاد پر ان دو قوانین کی مخالفت کرنے والے قانون دانوں اور دانشوروں سے گزارش ہے کہ وہ سنگین سزاؤں والے دوسرے قوانین کے استعمال کی صورتحال کا بھی جائزہ لے لیں، اور سارا غصہ توہینِ رسالتؐ کے قانون اور حدود آرڈیننس پر نکالنے کے بجائے غلط استعمال ہونے والے دیگر قوانین کے بارے میں بھی اپنی رائے کا اظہار فرمائیں۔ اگر وہ اپنے اس استدلال پر مطمئن ہیں کہ کسی قانون کا کثرت کے ساتھ غلط استعمال ہونا اس قانون کو ختم کرنے کا جواز فراہم کرتا ہے، تو پھر اس کلہاڑے کی زد میں آنے والے دیگر قوانین کو رعایت دینے کی وجہ بیان فرما دیں۔ کیونکہ یہ کسی طرح بھی انصاف کی بات نہیں ہے کہ غلط استعمال ہونے والے دیگر بہت سے قوانین تو اس کلہاڑے کی ضرب سے محفوظ رہیں اور توہینِ رسالتؐ کا قانون اور حدود آرڈیننس صرف اس لیے اس کی زد میں آ جائیں کہ اس سے مغربی آقاؤں کے ریکارڈ میں ہمارے کچھ نمبر بڑھ جائیں گے۔
(روزنامہ پاکستان، لاہور۔ ۲۲ مئی ۲۰۰۴ء)
اسرائیل کے قیام کو نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے، اس دوران اسرائیل جس سینہ زوری سے فلسطینیوں کے جائز حقوق اور آزادی کو دبائے ہوئے ہے، اور عالمی برادری کے مطالبات اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کو جس دیدہ دلیری کے ساتھ مسترد کرتا آ رہا ہے، وہ کسی سے مخفی نہیں۔ یہ بات سب پر واضح ہے کہ اسرائیل کو یہ حوصلہ صرف اور صرف امریکہ کی پشت پناہی کی وجہ سے حاصل ہے۔ ورنہ اگر امریکہ اسرائیل کی ناجائز حمایت چھوڑ دے، اور فلسطینی قوم کے جائز قومی موقف کی حمایت نہ سہی، بلکہ صرف اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور فیصلوں کا ہی لحاظ کر لے، تو اسرائیل کی اس دہشت گردی اور درندگی کو بریک لگ سکتی ہے جو وہ فلسطینیوں اور عرب عوام کے خلاف نصف صدی سے مسلسل اختیار کیے ہوئے ہے۔ لیکن امریکہ نے اس بات کی قسم کھا رکھی ہے کہ اس نے ہر حال میں یہودیوں کو تقویت دینی ہے، اسرائیل کی پشت پناہی کرنی ہے، اور اس کی ہر جائز و ناجائز بات کی حمایت کرنی ہے۔ اس کے لیے اسے نہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی پروا ہے، نہ ہی اپنے ’’عرب دوستوں‘‘ کے جذبات و مفادات کا لحاظ ہے، اور نہ ہی مظلوم فلسطینیوں کی کسمپرسی کا کوئی پاس ہے۔
اس صورتحال میں دو باتیں بطور خاص قابلِ توجہ ہیں:
- ایک عرب ممالک کے لیے کہ کیا یہ سب کچھ ہو جانے کے بعد بھی وہ امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو ’’دوستی‘‘ کے زمرے میں ہی شمار کرتے ہیں؟ اور کیا اب بھی انہیں اقوامِ متحدہ سے کوئی توقع ہے کہ وہ اسرائیل کی جارحیت و دہشت گردی کی روک تھام اور عرب ممالک نیز فلسطینیوں کے جائز حقوق کے تحفظ کے لیے زبانی جمع خرچ کے علاوہ کوئی اور کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہے؟ یہ انتہائی اہم بات ہے، اور شاید اس سے زیادہ سنجیدہ مرحلہ اس کا جائزہ لینے کے لیے پھر سامنے نہ آئے۔
اس لیے اگر عرب حکمرانوں میں حس اور سنجیدگی نام کی کوئی چیز باقی رہ گئی ہے تو انہیں مل بیٹھ کر امریکہ کی دوستی اور اقوامِ متحدہ سے وابستہ توقعات کا ازسرِنو جائزہ ضرور لینا چاہیے۔ یہ درست ہے کہ اس وقت کوئی متبادل سامنے نہیں ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ متبادل خودبخود سامنے نہیں آیا کرتے، انہیں تلاش کرنا پڑتا ہے اور ہمت و حوصلہ کے ساتھ ان کے لیے راہ ہموار کرنا پڑتی ہے۔ پھر مسلمان کی حیثیت سے ہمارا ایمان ہے کہ جب مسلمان حق کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر لیتے ہیں اور پیشرفت کا عزم کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کامیابی کی راہیں بھی سجھا دیا کرتے ہیں، مگر اس کے لیے پہلے ارادہ اور اس کے بعد عزم شرط ہے۔
اس لیے عرب حکمرانوں سے ہماری گزارش ہے کہ وہ ایک بار پھر مل بیٹھیں، اور صرف معروضی حالات کو سامنے رکھ کر نہیں، بلکہ گزشتہ ایک صدی کے تسلسل پر نظرثانی کر کے اپنی پالیسیوں اور ترجیحات کا ازسرِنو تعین کریں۔ بظاہر یہ بہت مشکل ہے لیکن اس کے سوا عزت و وقار کا کوئی بھی راستہ نہیں ہے۔ اس لیے جتنی جلد یہ راستہ اختیار کیا جائے گا اتنا ہی عربوں کے حق میں بہتر ہو گا۔ - دوسری بات جو ہم پاکستان کے حکمرانوں کے گوشگزار کرنا ضروری سمجھتے ہیں، وہ یہ کہ ہم نے بھی کشمیر میں مسلح جدوجہد کی نفی کر کے مذاکرات کی میز بچھنے کا فیصلہ کیا ہے، یاسر عرفات کے نقشِ قدم پر چلنے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے، اور جنوبی ایشیا کے تنازع کو حل کرنے کے لیے امریکہ اور اقوامِ متحدہ پر اعتماد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس لیے مذاکرات کی میز پر بیٹھنے اور امریکہ کے حوالے سے کشمیر کا تنازع حل کرنے کی طرف عملی پیشرفت سے قبل فلسطین کی تحریکِ آزادی اور یاسر عرفات کے ساتھ کھلے بندوں روا رکھے جانے والے امریکی طرزِ عمل کا ایک بار مطالعہ ضرور کر لینا چاہیے، ہو سکتا ہے ہدایت کا کوئی راستہ نظر آجائے۔ اور اگر سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی ہمارے مہربانوں نے اسی راستے پر چلنے کا تہیہ کر لیا ہے تو اس قومی خودکشی سے انہیں کیسے روکا جا سکتا ہے؟
(روزنامہ پاکستان، لاہور۔ ۲۱ اپریل ۲۰۰۴ء)
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے افغانستان کی طالبان حکومت کے خلاف عائد کردہ پابندیوں پر سختی کے ساتھ عمل کرانے کا فیصلہ کیا ہے اور سرحدات پر مانیٹرنگ کے لیے اپنی ٹیمیں بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ جن کے بارے میں طالبان حکومت کے سربراہ ملا محمد عمر نے کہا ہے کہ پاک افغان سرحد پر اقوامِ متحدہ کی مانیٹرنگ ٹیم کے افراد کو دشمن تصور کیا جائے گا، اور نہ صرف افغانستان بلکہ قبائلی علاقہ کے عوام بھی انہیں برداشت نہیں کریں گے۔ ادھر پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کی سرحدوں پر اقوامِ متحدہ کی ٹیموں کے بھیجے جانے کو ہم اپنے ملکی معاملات اور خود مختاری میں مداخلت تصور کرتے ہیں، لیکن چونکہ یہ اقوامِ متحدہ کا فیصلہ ہے اس لیے اس پر عملدرآمد کیا جائے گا۔
(روزنامہ اوصاف، اسلام آباد۔ ۷ اگست ۲۰۰۱ء)
کم و بیش نصف صدی قبل انڈونیشیا کے صدر عبد الرحیم احمد سوئیکارنو نے بغاوت کی ایک ہلکی سی جھلک دکھائی تھی مگر کسی طرف سے بھی حمایت نہ پا کر ’’پہلی تنخواہ پر گزارہ‘‘ کرنے میں ہی عافیت محسوس کی تھی۔ اس کے بعد ملائیشیا کے سابق وزیراعظم مہاتیر محمد مغرب کے اس معاہداتی جبر اور اقوامِ متحدہ کے غیر منصفانہ نظام کے خلاف اپنے دورِ حکومت میں آواز بلند کرتے رہے مگر کوئی شنوائی نہ دیکھ کر خاموش ہو گئے۔ اب ترکی کے صدر محترم رجب طیب اردگان اس میدان میں آئے ہیں اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اس کھلی دھاندلی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی ہے۔ چنانچہ سہ روزہ ’’دعوت‘‘ دہلی ۴ اکتوبر ۲۰۱۶ء کی رپورٹ کے مطابق :
’’ترکی کے صدر نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر کے ذریعے دنیا کو جھنجھوڑنے کی بہت کوشش کی، یہاں تک کہہ دیا کہ دنیا پر سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ممبران کی اجارہ داری ہے اور پوری دنیا کی قسمت کا فیصلہ ان کی مٹھی میں ہے۔ ان کے اختیارات نہایت ہی غیر اخلاقی، غیر قانونی اور غیر جمہوری ہیں۔ ان کی بدولت انہوں نے پوری دنیا کو غلام بنا رکھا ہے اور اپنے اشاروں پر نچا رہے ہیں۔ یہ پانچ ممالک کبھی بھی کسی دوسرے ملک کو اپنے مفادات کے خلاف قدم اٹھانے کی اجازت نہیں دیتے اور ان تمام قراردادوں کو ویٹو کر دیتے ہیں جو ان کے یا ان کے حامی ملکوں کے خلاف ہوتی ہیں۔ ان پانچ ویٹو پاور رکھنے والے ملکوں نے اقوامِ متحدہ پر قبضہ کر رکھا ہے اور ان میں ایک بھی مسلم ملک نہیں ہے۔ اقوامِ متحدہ کی طرف سے مسلم ملکوں کے مسائل حل کرنے کی ذرہ برابر بھی سنجیدہ کوشش نہیں ہوتی بلکہ حل کرنے کی بجائے اور الجھا دیا جاتا ہے جبکہ عیسائیت کے معاملہ میں ان کا رویہ دوسرا ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد ۲۴ اکتوبر ۱۹۴۵ء کو جن حالات میں اقوامِ متحدہ کو تشکیل دیا گیا تھا بعد میں اس کے ذیلی ادارے اور ممبران بھی وقت کے لحاظ سے بڑھائے جاتے رہے، وہ حالات یکسر بدل چکے ہیں۔ اب دنیا کے تقاضے دوسرے ہیں اس لیے اقوامِ متحدہ کو بھی دنیا کے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق ڈھالنا چاہیے، اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو اس کے ذریعے دنیا میں امن کے قیام کی توقع نہیں کی جا سکتی۔‘‘
جناب طیب اردگان کا اقوامِ متحدہ کے نظم کے بارے میں یہ تبصرہ بالکل حقیقت پسندانہ ہے اور کم و بیش یہی باتیں مہاتیر محمد کرتے رہے ہیں مگر افسوس کی بات ہے کہ اکثر مسلمان حکمرانوں کو اس جائز اور مصنفانہ موقف کی تائید کی ابھی تک توفیق نہیں ہوئی اور یہی اس وقت اس حوالے سے عالمِ اسلام کا سب سے بڑا المیہ ہے۔
(روزنامہ اسلام، لاہور۔ ۴ نومبر ۲۰۱۶ء)
امریکہ اور با اثر ممالک کی اجارہ داری
اقوامِ متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر منظور ہونے کے بعد آزادی کے مغربی علمبرداروں نے اعلان کیا تھا کہ اب غلامی مکمل طور پر ختم ہو گئی ہے اور دنیا میں آج کے بعد غلامی کا کوئی امکان باقی نہیں رہا۔ اقوامِ متحدہ کے منشور میں شخصی آزادی کی ضمانت دیتے ہوئے غلامی کی ہر قسم کو ممنوع قرار دے دیا گیا ہے اور اقوام و ممالک کی آزادی و خودمختاری کی حرمت کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں بیرونی مداخلت سے تحفظ کی ضمانت فراہم کی گئی ہے۔ لیکن شخصی اور قومی آزادی کا یہ اعلان اور گارنٹی نصف صدی گزرنے کے بعد آج بھی اس طرح تشنۂ تکمیل ہے جیسے اقوامِ متحدہ کے قیام کے وقت تھی۔ اور نہ صرف اقوام و ممالک کی آزادی و خود مختاری کو طاقتوروں کی طرف سے مجروح کرنے کا سلسلہ جاری ہے بلکہ انسانوں کی خرید و فروخت اور ان سے جبری مشقت لینے کے عمل میں بھی کوئی کمی نہیں آئی۔ صرف نام بدلے ہیں، اصطلاحات کا فرق پڑا ہے، طریق کار میں تبدیلی آئی ہے، اور عنوانات نئے اختیار کر لیے گئے ہیں۔ ورنہ قوموں اور ملکوں پر طاقت کے زور سے قبضہ جمانے کا عمل بھی جاری ہے اور اشخاص و افراد کی خرید و فروخت کی منڈیوں کا حجم بھی کسی کمی سے روشناس نہیں ہوا۔
اقوامِ متحدہ کا ہیڈ کوارٹر امریکہ کے سب سے بڑے شہر نیویارک میں ہے۔ ماضی میں امریکہ غلامی کا ایک بہت بڑا مرکز رہا ہے۔ ایک دور میں افریقہ سے بحری جہاز بھر بھر کر غلاموں کو امریکہ لایا جاتا تھا اور ان سے جبری مشقت لینے کے ساتھ ساتھ ان کی خرید و فروخت بھی ہوتی تھی۔ جانوروں کی طرح ان کے سودے ہوتے تھے اور جانوروں کی طرح ہی ان سے کام لیا جاتا تھا۔ پھر ایک دور ایسا آیا کہ جب اس جبر اور ظلم کے خلاف آواز اٹھی، احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا اور ردِ عمل سامنے آیا تو غلامی کے خاتمہ کے لیے جدوجہد منظم ہوئی۔
اس طویل جدوجہد کے بعد انسان کی شخصی آزادی کا حق تسلیم کرتے ہوئے اس کے خاتمہ کا اعلان ہوا اور اس کے ساتھ ہی اقوام و ممالک کی آزادی کا حق بھی تسلیم کیا گیا اور اس کی گارنٹی کے لیے اقوامِ متحدہ وجود میں آئی۔ لیکن آج اقوام و ممالک کی آزادی کا جو حشر ہو رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے امریکی جاگیرداروں اور سرمایہ داروں نے اپنے ملک میں غلاموں اور غلامی کے خاتمے کا بدلہ ساری دنیا سے لینے کا تہیہ کر رکھا ہے اور انسانوں سے طاقت اور جبر کے ذریعے کام لینے اور ان پر آقائی جتانے کے صدیوں پرانے جذبہ کی تسکین کے لیے پوری دنیا کو طاقت کی حکمرانی آماجگاہ بنا لیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ دنیا ایک ’’گلوبل ویلج‘‘ کی شکل اختیار کر گئی ہے اور فاصلے سمٹ جانے کی وجہ سے مشترک اور مربوط عالمی سوسائٹی کا ماحول بنتا جا رہا ہے۔ یہ بات کسی اور حوالے سے درست ہو یا نہیں مگر اس حوالے سے بالکل درست اور حقیقت ہے کہ ساری دنیا ایک ایسے گاؤں کی طرح دکھائی دے رہی ہے جس پر ایک طاقتور جاگیردار نے قبضہ جما لیا ہے اور قوت و طاقت کے بل پر اس نے گاؤں کی پوری آبادی کو یرغمال بنا رکھا ہے، کسی کو اس کے سامنے سر اٹھانے کی ہمت نہیں ہے، اس کے لٹھ بردار چاروں طرف گھوم رہے ہیں جن (کی نگرانی) سے کسی کی عزت محفوظ ہے اور نہ ہی کوئی چار دیواری بچی ہوئی ہے۔ تاریخ کے ایک طالب علم کے طور پر جب میں سوچتا ہوں کہ امریکا میں غلامی کے جواز کے دور میں کسی بڑے جاگیردار یا نواب کے ڈیرے کا منظر کیا ہوگا؟ تو آج کی دنیا کا مجموعی حصہ دیکھ کر اس کا عملی نقشہ ذہن میں آنے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہوتی اور تخیل کی سکرین پر ایک واضح نقشہ فوراً نمودار ہو جاتا ہے۔
اقوامِ متحدہ دنیا بھر کے انسانوں کی شخصی آزادی اور اقوام و ممالک کی سالمیت و خود مختاری کا پرچم اٹھائے ہوئے نیویارک میں ڈیرہ لگائے بیٹھی ہے۔ لیکن اس پرچم کے سائے میں قوموں اور ملکوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس کا ایک منظر افغانستان میں دیکھا جا چکا ہے اور دوسرا منظر عراق میں دیکھنے کے لیے پوری دنیا آنکھیں جھپکے بغیر عراق کی طرف ٹکٹکی باندھے کھڑی ہے۔
ایک طرف فلسطین اور کشمیر کے باشندوں کا قتلِ عام جاری ہے اور ان کا حقِ خود ارادیت اسی اقوامِ متحدہ کی قراردادوں میں تسلیم کیے جانے کے باوجود کے اس حق کو صرف اس لیے پس پشت ڈالا جا رہا ہے کہ ’’گلوبل ویلج‘‘ کے بڑے زمیندار کا مفاد اس میں نہیں ہے۔ یا ایسا کرنے سے اس کی چودھراہٹ اور انا کو کوئی خطرہ لاحق ہونے کا خدشہ ہے۔ گاؤں میں دوسرے چودھری بھی ہیں مگر اس بڑے چودھری کے مقابلہ میں ان کے ڈیرے اجڑ چکے ہیں اور انہیں عافیت اسی میں نظر آرہی ہے کو وہ اس بڑے چودھری کے سامنے نگاہیں جھکا لیں اور مونچھیں نیچی کر لیں۔ بڑا چودھری ہاتھ میں لاٹھی لیے گاؤں کی پنچایت میں غصے سے بھرا ہوا کھڑا ہے۔ اس کے لٹھ بردار چاروں طرف لاٹھیاں اٹھائے گاؤں کے کسی بھی گھر میں داخل ہونے کے لیے اس کی آنکھوں کے اشارے کے منتظر ہیں۔ چودھری اور کمیوں سمیت ساری آبادی تھرا رہی ہے اور بڑا چودھری منہ سے جھاگ اڑاتے ہوئے للکار رہا ہے کہ میں ’’گلوبل ویلج‘‘ کا بڑا چودھری ہوں، میں اس گاؤں کا بڑا مالک ہوں، یہاں صرف میری مرضی چلے گی اور گاؤں کی پنچایت سمیت سب کو وہی کچھ کرنا ہوگا جو میں چاہوں گا۔
تاریخ کا کوئی بھی طالب علم تین سو سال قبل یورپ کے کسی جاگیردار کے ڈیرے اور ڈیڑھ سو سال قبل کے کسی امریکی زمیندار کی جاگیر کا منظر نگاہوں میں لا کر آج کے ’’گلوبل ویلج‘‘ کا مجموعی منظر دیکھ لے۔ اسے یورپی جاگیرداروں اور امریکی زمینداروں کے کردار، نفسیات اور طرزِ عمل کے بارے میں مزید کسی تحقیق و جستجو کی ضرورت نہیں رہے گی۔
اقوام و ممالک کے اس منظر سے ہٹ کر اشخاص و افراد کی آزادی کے منظر پر بھی ایک نگاہ ڈالیں، آپ کو خلیج عرب کے بہت سے ملکوں میں اکیسویں صدی میں رہنے والے کروڑوں انسان ایسے نظر آئیں گے جو شہری آزادیوں، ووٹ اور بنیادی حقوق سے صرف اس لیے محروم ہیں کہ انہیں رائے اور ووٹ کا حق اور اپنے معاملات خود طے کرنے کا اختیار دینے سے اس خطہ میں ’’گلوبل ویلج‘‘ کے بڑے چودھری کے مفاد خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
اور اس کے ساتھ ہی انسانوں کی خرید و فروخت کی صورتحال بھی دیکھ لیں کہ خود امریکہ کے محکمہ خارجہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں ہر سال چالیس سے ساٹھ لاکھ تک انسانوں کی خرید و فروخت ہوتی ہے جن میں زیادہ تعداد کمسن بچیوں کی ہوتی ہے جنہیں جبری مشقت اور عصمت فروشی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ روزنامہ جنگ راولپنڈی ۳۱ دسمبر ۲۰۰۲ء میں شائع شدہ ایک رپورٹ میں امریکی محکمہ خارجہ کے حوالے سے یہ ہوشربا انکشاف کیا گیا ہے کہ خرید و فروخت کا شکار ہونے والے ان مجبور افراد کو مغربی یورپ، عرب ممالک، تھائی لینڈ اور امریکہ سمیت دنیا کے ہر خطے میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ان لاکھوں افراد میں زیادہ تعداد کمسن لڑکیوں کی ہوتی ہے جنہیں نائٹ کلبوں، ریستورانوں اور قحبہ خانوں میں عصمت فروشی کے لیے پیش کیا جاتا ہے اور انہیں ایسے تمام کاموں کے لیے کوئی معاوضہ ادا نہیں کیا جاتا۔ ایسے افراد کا زیادہ تر تعلق جنوب مشرقی ایشیائی اور افریقی ممالک سے ہوتا۔ رپورٹ کے مطابق امریکہ میں ’’غلامی اور جبری مشقت‘‘ کی اس ترقی یافتہ صورت کی روک تھام کے لیے متعدد قوانین نافذ کیے گئے ہیں اور ایک مستقل محکمہ بھی بنایا گیا ہے لیکن اس کے باوجود امریکہ اور یورپ سمیت پوری دنیا میں یہ کاروبار جاری ہے۔
یہ ہے اقوامِ متحدہ کی نصف صدی کی کارکردگی کا خلاصہ جس کی بنیاد پر اس کا اصرار ہے کہ پوری دنیا میں اس کی حکومت تسلیم کی جائے اور اس کے کسی فیصلے سے اختلاف یا انحراف کی جرأت نہ کی جائے۔
(روزنامہ اسلام، لاہور ۔ ۱۱ جنوری ۲۰۰۳ء)
روزنامہ جنگ لاہور ۲۰ اکتوبر ۱۹۹۸ء کے ایک ادارتی شذرہ کے مطابق اقوامِ متحدہ کی دنیا میں غربت کے بارے میں سالانہ رپورٹ میں دنیا کے امیر ترین ممالک پر سخت تنقید کی گئی ہے۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ یہ امیر ممالک دنیا میں غربت اور افلاس کو کم کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بیسویں صدی کے اختتام پر جس پیمانے پر غربت پائی جاتی ہے وہ انسانیت کے نام پر ایک دھبہ ہے، اس لیے امیر ملکوں کو چاہیے کہ وہ غریب ملکوں کے قرضے معاف کر دیں۔
ہمارے نزدیک دنیا میں غربت کی موجودہ صورتحال کے بارے میں اقوامِ متحدہ کی یہ سالانہ رپورٹ ان جھوٹے دلاسوں کا ایک حصہ ہے جو کمزور اور غریب ممالک کو تسلی دینے کے لیے اقوامِ متحدہ کے صدر دفتر سے وقتاً فوقتاً جاری ہوتی رہتی ہیں، اور دنیا کی کمزور اور غریب اقوام اور ممالک کے حوالے سے اس قسم کی بیسیوں رپورٹیں اور قراردادیں اقوامِ متحدہ کے شو روم میں ہر وقت سجی رہتی ہیں۔ ورنہ جہاں تک اصل صورتحال کا تعلق ہے غریب ممالک اور اقوام کی موجودہ غربت خود ان امیر ممالک کی پیدا کردہ ہے۔ اور اس کا سب سے بڑا سبب وہ غیر متوازن سرمایہ دارانہ عالمی معاشی نظام ہے جو سیاسی بالادستی اور سائنسی و عسکری فوقیت کے سہارے بڑے ممالک نے پوری دنیا پر مسلط کر رکھا ہے۔ اور اس کے ذریعے دنیا بھر کا ظالمانہ استحصال کر کے یہ نام نہاد ترقی یافتہ ممالک اپنی چودھراہٹ اور بالادستی قائم رکھے ہوئے ہیں۔ اس عالمگیر استحصال اور جبر کو جاری رکھنے کے لیے انہیں اسی اقوام متحدہ کی چھتری میسر ہے جس کے عالمی اداروں اور سسٹم نے غریب ممالک اور اقوام کو ہر طرف سے جکڑ کر ان امیر ملکوں کے سامنے ڈال رکھا ہے۔
ورنہ اگر اقوامِ متحدہ دنیا میں غربت ختم کرنے کے لیے فی الواقع سنجیدہ ہے تو اس کا راستہ یہ ہے کہ یہ عالمی ادارہ امیر ملکوں اور نام نہاد بڑی طاقتوں کی اجارہ داری سے باہر نکلے، اور ان کی ترجیحات اور تحفظات کو ایک طرف رکھتے ہوئے دنیا کو ظالمانہ استحصالی نظام سے نجات دلانے کے لیے غریب ممالک اور اقوام کی عملی راہنمائی کرے۔
یہ بات طے شدہ ہے کہ موجودہ عالمی مالیاتی نظام کلیتاً ناکام ہو چکا ہے اور اس کے دامن میں انسانی آبادی کی اکثریت کے لیے غربت و افلاس اور فقر و محرومی کے سوا کچھ نہیں۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ استحصال اور اجارہ داری سے پاک مالیاتی نظام تلاش کیا جائے، اسے دنیا میں متعارف کرایا جائے، اسے اپنانے میں غریب ملکوں کی مدد کی جائے، اور اس کے لیے امیر ملکوں پر دباؤ ڈالا جائے۔ ورنہ خالی قراردادوں اور رپورٹوں سے اقوامِ متحدہ کے نمبر شاید بنتے رہیں، مظلوم اور غریب ممالک و اقوام کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
(ماہنامہ نصرۃ العلوم، گوجرانوالہ ۔ نومبر ۱۹۹۸ء)
مغرب کے اہلِ دانش سے جب بات کی جائے گی تو یہ نکتہ بھی زیر بحث آئے گا کہ وہ مسیحیت اور اسلام کو ان کے علمی اور معاشرتی کردار میں اس قدر واضح فرق کے باوجود ایک ہی پلڑے میں کیوں رکھ رہے ہیں اور اس معاملے میں بھی مغرب کا مخصوص پس منظر مسلمانوں پر مسلط کرنے کی تگ و دو میں کیوں مصروف ہیں؟
گزشتہ ڈیڑھ ہزار سال کی تاریخ گواہ ہے کہ اسلام اور مسیحیت کا علمی کردار ایک دوسرے سے مختلف رہا ہے اور ان کا معاشرتی کردار بھی جداگانہ اور ایک دوسرے سے قطعی طور پر الگ رہا ہے۔ اس لیے اگر اہلِ مغرب کو ان کا مذہب اپنے مخصوص پس منظر اور کردار کی وجہ سے راس نہیں آیا تو اس کی بنیاد پر انہیں اس بات کا حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ دوسرے مذاہب کو بھی مسترد کر دیں اور ساری دنیا کے پیچھے اس دستبرداری کو منوانے کے لیے لٹھ لے کر گھومتے پھریں۔ اگر کسی شخص کو اس کے عوارض اور بیماری کی وجہ سے گوشت راس نہیں آتا تو وہ نہ کھائے، لیکن اسے یہ حق کس نے دیا ہے کہ وہ باقی لوگوں کے ہاتھوں سے بھی یہ کہہ کر گوشت چھیننا شروع کر دے کہ چونکہ مجھے گوشت موافق نہیں ہے اس لیے تم سب بھی گوشت کھانا چھوڑ دو؟ اسے اپنی بیماری کا علاج کرانا چاہیے تاکہ وہ بھی اس نعمت سے کبھی مستفید ہو سکے، نہ یہ کہ وہ دوسروں کو بھی اس نعمت سے محروم کرنے کے لیے سرگرمِ عمل ہو جائے۔
اب رہی بات مغرب کے اہلِ سیاست کی تو ان سے گفتگو کا ایجنڈا الگ ہے اور ان سے مکالمہ میں جن امور پر بات کرنے کی ضرورت ہے، ان میں زیادہ اہم امور یہ ہیں:
- مغرب کے اہلِ اقتدار نے یکطرفہ طاقت اور جبر کے زور پر سائنس و ٹیکنالوجی، معیشت و تجارت، عسکری قوت اور سیاست و اقتدار پر جو عالمی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے، وہ اصول اور انصاف کے کسی بھی مسلّمہ معیار پر پوری نہیں اترتی۔
- مغرب دنیائے اسلام میں سیاسی مداخلت کر کے اپنی مرضی کی حکومتیں اور اپنی مرضی کے نظام قائم رکھنے پر مصر ہے، اس کے نزدیک جمہوریت، عوامی رائے، اور وہاں کے لوگوں کی مرضی کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ جس مسلمان ملک میں جس قسم کی حکومت اور جس قسم کا نظام مغرب کی اجارہ داری اور تسلط قائم رکھنے کے لیے فائدہ مند ہے وہ اس کو وہاں مسلط رکھنے پر مصر ہے، اور اس کے لیے اعلانیہ اور خفیہ ہر قسم کے حربے اختیار کیے ہوئے ہے۔
- مغرب نے اپنے مذہب بیزار فلسفے کی بنیاد پر اقوامِ متحدہ کے فورم سے انسانی حقوق کا جو چارٹر طے کیا تھا اسے وہ پوری دنیا پر بین الاقوامی قانون کے طور پر مسلط کیے ہوئے ہے۔ حالانکہ مسلمان اپنے عقائد اور ثقافت کے حوالے سے اس چارٹر کے بارے میں واضح تحفظات رکھتے ہیں اور اس چارٹر کو من و عن قبول کرنے کی صورت میں انہیں قرآن و سنت کے متعدد احکام سے جس طرح دستبردار ہونا پڑتا ہے وہ ان کے لیے قابلِ قبول نہیں ہے۔ لیکن مغرب اس چارٹر کو حرفِ آخر قرار دے کر مسلمانوں کے عقائد اور شرعی احکام کی نفی کر رہا ہے۔
- سائنس اور ٹیکنالوجی بالخصوص عسکری ٹیکنالوجی اور ایٹمی توانائی میں مغرب نے اپنی اجارہ داری کو بین الاقوامی قانون کا درجہ دے رکھا ہے اور وہ خاص طور پر کسی بھی مسلمان ملک کو یہ حق دینے کے لیے تیار نہیں ہے کہ وہ جدید ترین ٹیکنالوجی میں مغرب کے قائم کردہ اجارہ داری کے سرخ دائرے کو پار کر سکے اور عسکری قوت میں مغرب کی قائم کردہ حدود سے آگے بڑھ سکے۔ یہ سراسر ناانصافی اور ظلم کا قانون ہے اور اقوامِ عالم کے درمیان برابری اور مساوات کے اصول کے منافی ہے۔
- اقوامِ متحدہ میں، جسے بین الاقوامی حکومت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، فیصلوں کی قوت کا توازن یکطرفہ اور اجارہ دارانہ ہے۔ سلامتی کونسل کے مستقل ارکان اور ویٹو پاور میں مسلمانوں کا کوئی حصہ نہیں ہے، جس کی وجہ سے مسلمان اقوامِ متحدہ کا ایک معطل حصہ ہیں اور ان کے لیے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی لندن کے ہائیڈ پارک کارنر سے زیادہ کوئی افادیت نہیں رکھتی۔
- عسکری قوت اور جدید ترین ٹیکنالوجی میں مسلمانوں کی پیشرفت کا راستہ روک کر یکطرفہ عسکری اور معاشی قوت کے بل بوتے پر مغرب نے مسلمانوں کے معدنی وسائل اور تیل پر قبضہ جما رکھا ہے اور مسلم حکومتوں کو آلۂ کار بنا کر وہ مسلمانوں کا مسلسل استحصال کر رہا ہے۔
ہمارے نزدیک مغرب کے اہلِ سیاست و اقتدار سے مسلمانوں کے مکالمہ کے اہم نکات یہ ہونے چاہئیں۔ ہمیں مکالمہ کے لیے مغرب کے پیش کردہ نکات پر بات چیت کرنے سے بھی انکار نہیں ہے، لیکن بات یکطرفہ ایجنڈے پر نہیں ہونی چاہیے، مکالمہ ایجنڈا ہمیشہ دو طرفہ ہوتا ہے۔ مغرب اس معاملے میں بھی اجارہ داری کے یکطرفہ طرزِ عمل پر قائم ہے اور مسلمانوں سے ان کے مسائل اور شکایات پر بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
اس حوالے سے ہم ملک کے دینی اداروں اور علمی مراکز سے یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ اس صورتحال سے خود واقف ہونے اور اپنے اساتذہ، طلبہ اور دانشوروں کو واقف کرانے کی ضرورت ہے، رائے عامہ کو بیدار کرنے اور اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے، اور اس احساس کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ مکالمہ جس مسئلہ پر بھی ہو اس کے اصل فریق سے اور حقیقی ایجنڈے پر ہو گا تو فائدہ مند ہو گا، ورنہ وقت ضائع کرنے کے سوا کچھ حاصل نہ ہو سکے گا۔
(روزنامہ اسلام، لاہور۔ ۲۷ مارچ ۲۰۰۶ء)
فلسفہٴ جہاد کی تائید
مغرب نے سوسائٹی کی بنیاد نیشنلزم، سولائزیشن اور تہذیب و ثقافت کو قرار دیا جو مذہب کا متبادل ہیں، اور قوم و ملک اور سولائزیشن کے لیے طاقت کے استعمال کو نہ صرف مغرب نے جائز قرار دے رکھا ہے بلکہ کئی بار اس کا خوفناک مظاہرہ بھی کر چکا ہے۔
اقوامِ متحدہ نے اپنے قوانین میں نیشنلزم کی بنیاد پر سرحدوں کو جائز قرار دے کر ایک دوسرے کے خلاف طاقت کے استعمال سے روکا ہے، مگر کسی ایک طرف سے طاقت کے استعمال کی صورت میں دوسرے کو دفاع میں ہتھیار اٹھانے کا حق دیا ہے۔ حتیٰ کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کو بھی یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ (۱) امن کو لاحق خطرہ (۲) امن وامان کو توڑنے اور (۳) ظلم و تعدی کے کسی واقعہ کی صورت میں وہ کسی بھی ملک پر پابندیاں عائد کر سکتی ہے، اور اگر ان پابندیوں سے کام نہ چلے تو سلامتی کونسل کو فوج کشی کا حق بھی حاصل ہے۔ یہ فوج کشی سلامتی کونسل کا حق ہے اور سلامتی کونسل کی پوزیشن یہ ہے کہ وہ اقوامِ متحدہ کی نمائندہ کہلاتی ہے لیکن پانچ ملکوں کے ویٹو پاور کے حق نے اسے عملاً صرف پانچ ملکوں کی اجارہ داری کی علامت بنا دیا ہے۔
چنانچہ اقوامِ متحدہ کی اجازت سے امریکہ نے افغانستان کے خلاف جو فوج کشی کی، اور عراق پر امریکی اتحاد کا پہلا حملہ بھی سلامتی کونسل کی اجازت سے ہوا تھا، ان حملوں کے جواز کے بارے میں مغربی لیڈروں نے جو کچھ کہا، وہ تاریخ کے ریکارڈ میں ثبت ہو چکا ہے۔ ان میں سے صرف دو باتوں پر غور کر لیجیے:
- ایک یہ کہ افغانستان اور عراق اقوامِ متحدہ کے طے کردہ نظام سے بغاوت کر رہے ہیں اور اس کی پابندیوں سے انحراف کے مرتکب ہوئے ہیں،
- اور دوسرا یہ کہ جمہوریت اور سولائزیشن کے تحفظ کے لیے ایسا کرنا ضروری تھا۔
سوال یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کا نظام اور مغرب کی سولائزیشن دنیا بھر سے خود کو منوانے کے لیے طاقت کا وحشیانہ استعمال کر رہی ہے۔، یہ ورلڈ سسٹم اور مغربی سولائزیشن دونوں یکطرفہ اور جانبدارانہ ہیں جن کی تشکیل اور کنٹرول میں مسلمانوں کو کوئی قابلِ ذکر حیثیت حاصل نہیں ہے۔ کیا اس نظام اور ثقافت کے فروغ اور تسلط کے لیے طاقت کا استعمال فکر اور عقیدے کے لیے طاقت کا استعمال نہیں ہے؟ فرق صرف تعبیر کا ہے۔ ہم سے مذہب کے لیے قوت کا استعمال ترک کرنے کا مطالبہ کرنے والا مغرب خود مذہب کے اس متبادل کے لیے طاقت کا اندھا دھند استعمال کر رہا ہے، جسے اس نے سوسائٹی کی فکری بنیاد کے طور پر مذہب سے دستبرداری کے بعد اختیار کر رکھا ہے۔
مگر ہم سے مغرب کا تقاضا کیا ہے؟ اس کی ایک جھلک یورپین مستشرق اینڈرسن کی اس گفتگو میں دیکھی جا سکتی ہے جس کا ذکر عرب دنیا کے معروف عالمِ دین اور دانشور استاذ وہبہ زحیلی نے اپنے ایک مقالے میں کیا ہے، اور جس میں اینڈرسن نے مسلمانوں کو نصیحت کی ہے کہ وہ جہاد کو اسلامی احکام کی فہرست سے نکال دیں اس لیے کہ جہاد آج کے عالمی نظام اور بین الاقوامی اداروں کے قوانین و ضوابط سے ہم آہنگ نہیں ہے، اور فکر و عقیدے کو طاقت کے زور سے فروغ دینے کا وسیلہ ہے جو حریت اور عقلی ارتقا کے عالمی ماحول کے منافی ہے۔
لیکن جس عالمی نظام اور عقلی ارتقا کو مغرب نے مذہب کے لیے طاقت کے استعمال سے روکنے کا باعث قرار دیا ہے، وہ دونوں آج پوری طرح بے نقاب ہو چکے ہیں، جبکہ اقوامِ متحدہ نے افغانستان، عراق اور دوسرے متعدد ممالک پر امریکہ کی فوج کشی کو جواز کی سند دے کر ان کی اخلاقی حیثیت ختم کر دی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ مغرب اپنے اس عقیدے سے منحرف ہو گیا ہے کہ طاقت کا استعمال صرف دفاع کے لیے ہو سکتا ہے، فکر و عقیدے کے لیے ہتھیار کا استعمال ناجائز ہے۔ یہ صرف نظری بات ہے اور خوشنما فکری دھوکہ ہے، جبکہ امریکہ کے دفاع کے لیے سات سمندر پار پیشگی فوجی حملوں اور سولائزیشن کے تحفظ کے لیے عسکری قوت کے بے محابا استعمال نے اس کو صرف ایک کھوکھلے نعرے کی حیثیت دے دی ہے۔
اس کے ساتھ ہی میں یہ عرض کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ مغرب نے اسلام کے اس فلسفے کو عملاً تسلیم کر لیا ہے کہ قوت کا استعمال صرف دفاع کے لیے نہیں ہوتا بلکہ کسی عقیدے اور تہذیب کی بالادستی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو ختم کرنے کے لیے بھی طاقت کا استعمال ناگزیر ہو جایا کرتا ہے۔ میرے نزدیک یہ آج کے دور میں اسلام کی اخلاقی فتح ہے۔
(ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ ۔ ستمبر ۲۰۰۴ء)
اصلاحِ احوال اور متبادل راستہ
اب سے کم و بیش ساٹھ برس قبل جب اقوامِ متحدہ وجود میں آئی تھی تو بیشتر مسلم ممالک آزاد نہیں تھے، اس لیے اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر اور تنظیمی ڈھانچے کی تشکیل میں عالمِ اسلام کی متوازن نمائندگی اور شرکت موجود نہیں تھی۔ اس وجہ سے انسانی حقوق کے چارٹر میں مسلم دنیا کے عقائد، تہذیبی تشخص و روایات کو نظر انداز کر دیا گیا اور اس کا نتیجہ ہے کہ انسانی حقوق کے موجودہ چارٹر کی متعدد دفعات اسلامی احکام و قوانین سے متصادم ہیں اور ان کی بنیاد پر مسلمانوں کے معتقدات، دینی احکام اور تہذیبی روایات کی مسلسل نفی کی جا رہی ہے، اس لیے اس حوالے سے اس چارٹر پر نظرِ ثانی ناگزیر ہو گئی ہے۔
عسکری ٹیکنالوجی اور جدید ترین ہتھیاروں کی تیاری کے استحقاق پر چند ممالک کی اجارہ داری اور باقی تمام ممالک کے لیے اس کی ممانعت اقوام و ممالک کے مابین برابری اور مساوات کے اصول کے منافی ہے اور اس کی زد سب سے زیادہ مسلم دنیا پر پڑ رہی ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہو گیا ہے کہ اس اجارہ دارانہ، غیرمساویانہ، اور غیرمنصفانہ قانون و فلسفہ پر نظرِ ثانی کی جائے اور طاقت کے عالمی توازن پر چند ممالک کی اجارہ داری کے قوانین و ضوابط کو ختم کر کے برابری اور مساوات کے اصول پر نیا نظام وضع کیا جائے۔
اقوامِ متحدہ کے تنظیمی ڈھانچے اور سلامتی کونسل میں ویٹو پاور رکھنے والے مستقل ارکان میں دنیا کی ایک چوتھائی آبادی یعنی عالمِ اسلام کی کوئی نمائندگی نہیں ہے بلکہ اسے عملاً اس سے دور رکھا جا رہا ہے۔ اس لیے اقوامِ متحدہ کے نظام میں انصاف اور توازن کو بحال کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سلامتی کونسل میں ویٹو پاور رکھنے والے مستقل ارکان میں مسلم امہ کو دنیا میں اس کی مجموعی آبادی کے تناسب سے نمائندگی دی جائے۔
اقوامِ متحدہ کا موجودہ سسٹم، طریق کار، اور پالیسیاں دنیا بھر کی غریب، پسماندہ، غیر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر اقوام و ممالک کے مفادات، ضروریات اور مجبوریوں کا لحاظ اور پاسداری کرنے کی بجائے امیر ترین ممالک اور ترقی یافتہ اقوام کی اجارہ دارانہ اور استحصالی مفادات کی محافظ و نگران بن کر رہ گئی ہیں۔ اس لیے یہ ضروری ہو گیا ہے کہ غریب اور پسماندہ ممالک کو الگ سے اعتماد میں لینے کا اہتمام کیا جائے اور ان کی تجاویز و سفارشات کی روشنی میں پورے نظام پر نظرِ ثانی کی جائے۔
(روزنامہ اسلام، لاہور ۔ ۱۹ ستمبر ۲۰۰۵ء)
ہمارے خیال میں مسلم لیڈر شپ کو اس سلسلے میں اپنے معذرت خواہانہ رویے پر نظرِ ثانی کرنا ہو گی اور اقوامِ متحدہ کے ان قواعد و ضوابط کو جرأت اور حوصلہ کے ساتھ چیلنج کرنا ہوگا جو تیسری دنیا، بالخصوص مسلم ممالک کو جدید ترین عسکری ٹیکنالوجی کے حصول سے روکتے ہیں۔ اگر او آئی سی (اسلامی تعاون تنظیم):
- اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر پر نظرِ ثانی،
- سلامتی کونسل میں ویٹو پاور کے ساتھ دنیا میں اپنی آبادی کے تناسب سے نشستوں کے حصول،
- اور عسکری قوت کے حصول کی ترجیحات میں توازن قائم کروانے
کے لیے کوئی متفقہ لائحہ عمل طے کر سکے تو اقوامِ متحدہ کا فورم ایک عالمی ادارے کی صورت میں مسلم دنیا کے لیے قابلِ قبول ہو سکتا ہے، ورنہ یہ یکطرفہ تسلط اور طاقت کی اجارہ داری کی ایک منظم شکل ہے جس سے پیچھا چھڑانا ہی عالمِ اسلام کے مجموعی مفاد کے لیے واحد راستہ رہ جاتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اب وقت آ گیا ہے کہ مسلم دنیا کے لیڈر حقیقت پسندی سے کام لیں اور سنجیدگی کے ساتھ اس بات کا فیصلہ کریں کہ یا تو وہ اقوامِ متحدہ کے نظام میں توازن قائم کرنے کی عملی جدوجہد کریں، اور اگر یہ ممکن نہیں ہے تو اس سے دامن چھڑانے کا کوئی قابلِ عمل راستہ تلاش کیا جائے۔
(روزنامہ پاکستان، لاہور ۔ ۳۰ اگست ۲۰۰۵ء)
آج اقوامِ متحدہ کے قیام کو سات عشرے مکمل ہونے کو ہیں مگر اس کے عملی کردار کا جائزہ لیا جائے تو ایک مسلمان کو اس کے سوا کچھ نظر نہیں آتا کہ اس عالمی فورم نے عالمِ اسلام میں بین الاقوامی معاہدات کے ذریعے نفاذِ اسلام کا راستہ روک رکھا ہے، فلسطین و کشمیر کے سنگین مسائل کو حل کرانے میں ناکامی بلکہ زیادہ واضح الفاظ میں انہیں ’’حل نہ کرانے میں کامیابی‘‘ کا تمغہ اپنے سینے پر سجایا ہوا ہے، اور یہ بین الاقوامی پلیٹ فارم دنیا میں مغربی فکر و فلسفہ کی یلغار اور ویٹو پاور رکھنے والے ملکوں کی سیاسی بالادستی کے لیے سب سے بڑا ہتھیار بن کر رہ گیا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اس پس منظر میں سعودی عرب کا سلامتی کونسل میں نشست قبول کرنے سے انکار زمینی حقائق کے صحیح ادراک کے ساتھ ساتھ اسلامیانِ عالم کے جذبات کی ترجمانی بھی ہے اور ہم سعودی عرب کے اس موقف کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے مبارک باد پیش کرتے ہیں کہ:
’’گزشتہ ۶۵ برس سے مسئلہ فلسطین کا کوئی مستقل حل دریافت نہیں کیا جا سکا، اس مسئلہ نے مشرقِ وسطیٰ میں کئی جنگوں کو جنم دیا اور دنیا بھر کے امن اور سلامتی کے لیے یہ مسئلہ ایک خطرہ بنا رہا۔ سلامتی کونسل اب تک اس کا کوئی ایسا حل نہیں نکال سکی جو عدل و انصاف پر مبنی ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کونسل اپنے اصل فرائض کی ادائیگی میں ناکام رہی ہے۔ سلامتی کونسل میں جس طرح کام ہوتا ہے، اس کے دوہرے معیار جس طرح کے ہیں، وہ اس ادارے کو اپنے فرائض ادا کرنے سے روکتے ہیں اور دنیا میں امن قائم رکھنے کی ذمہ داریاں نباہنے نہیں دیتے۔ اس بنا پر ہمارے پاس اور کوئی آپشن نہیں کہ ہم سلامتی کونسل کی اس نشست کو قبول کرنے سے انکار کر دیں اور اس وقت تک اس نشست کو قبول نہ کریں جب تک اس روش کو بدلا نہیں جاتا اور جب تک سلامتی کونسل عالمی امن کے قیام کے لیے اپنی ذمہ داریاں نباہنے کے قابل نہیں ہو جاتی۔‘‘
ہمیں خوشی ہے کہ سعودی عرب کے اس فیصلے پر فرانس نے ہمدردانہ ردِ عمل کا اظہار کر کے اسے صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں رہنے دیا۔ روزنامہ دنیا لاہور میں ۲۰ اکتوبر کو شائع ہونے والی خبر کے مطابق فرانس کے دفتر خارجہ کے ترجمان رومین ندال نے کہا ہے کہ وہ سلامتی کونسل سے متعلق سعودی احساسات کو درست اور جائز سمجھتے ہوئے ان کی تائید کرتے ہیں کیونکہ سلامتی کونسل کے عملاً مفلوج ہو کر رہ جانے کے بعد ان احساسات کا پیدا ہو جانا بلا جواز نہیں ہے۔
فرانس کے دفتر خارجہ کے یہ ریمارکس سلامتی کونسل کے حقیقی کردار کی نشاندہی کر رہے ہیں جس پر ہمارے ذہن میں اردو شعر کا یہ مصرعہ گونجنے لگا ہے کہ
؏ لو وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ بے ننگ و نام ہے
(روزنامہ اسلام، لاہور۔ ۲۶ اکتوبر ۲۰۱۳ء)