پس منظر
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے حماس کے ساتھ جنگ بندی معاہدے کو یکطرفہ طور پر توڑ کر غزہ پر دوبارہ بھرپور حملے شروع کیے ہیں۔ یہ حملے 471 دن کے تباہ کن جنگی تسلسل کے بعد اس وقت شروع کیے گئے جب اسرائیل عسکری طور پر کوئی فیصلہ کن کامیابی حاصل نہ کر سکا۔
موجودہ صورتحال (اعداد و شمار)
شہادتیں: 60,000+ (جن میں 18,000 بچے اور 12,000 خواتین شامل)۔
زخمی: 115,000+
تباہ شدہ عمارتیں: 3 لاکھ سے زائد (اسکول، اسپتال، مساجد، رہائشی عمارات، گرجا گھر)۔
معاشرتی و اقتصادی تباہی: غزہ مکمل طور پر مفلوج، پانی، بجلی، غذا، دوا کی قلت شدید ترین۔
نتن یاہو کے عزائم
ذاتی کرپشن کیسز سے توجہ ہٹانا، شدت پسند اتحادیوں کو خوش رکھنا، حماس کا مکمل خاتمہ، غزہ کو غیر مسلح و خالی کرنا، پورے فلسطین پر مکمل قبضے کی راہ ہموار کرنا، اسرائیل کو ’’یہودی قوم پرست ریاست‘‘ کے طور پر مضبوط کرنا۔
ناکامیوں کا اعتراف
صہیونی ریاست کی تمام تر قوت، عالمی حمایت اور مظالم کے باوجود فلسطینی مزاحمت کمزور نہیں ہوئی۔ اسرائیلی معاشرہ اندرونی خلفشار کا شکار، جنگ کے خلاف رائے عامہ میں اضافہ۔ نیتن یاہو کی پالیسیز کو خود اسرائیلی تجزیہ کار “شخصی مفادات کی جنگ” قرار دے چکے ہیں۔
مزاحمت کا کردار
حماس اور جہاد اسلامی صرف عسکری نہیں، بلکہ فکری، نظریاتی اور عوامی بنیادوں پر استوار تحریکیں ہیں۔ فلسطینی عوام کا اعتماد ان تحریکوں پر قائم ہے، جو اسلامی فکر اور مزاحمتی قوت کی علامت ہیں۔
عرب و عالمی رویہ
بیشتر عرب حکومتیں حماس و مزاحمت کی مخالفت میں اسرائیل کی خاموش یا عملی حمایت کر رہی ہیں۔ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں صرف بیانات تک محدود ہیں۔ عوامی سطح پر عالمی ضمیر بیدار ہے مگر حکومتیں مصلحتوں کا شکار۔
تجاویز
- قومی سطح پر مضبوط آواز بلند کریں: قائد جمعیت کا جاندار موقف امت کے ضمیر کی آواز بن سکتا ہے۔ ریاستی پالیسی پر سیاسی دباؤ ضروری ہے۔
- پارلیمانی سطح پر قرارداد لائیں: غزہ کے مظالم کے خلاف قومی اسمبلی و سینیٹ میں قراردادیں پیش کی جائیں۔
- عالمی فورمز پر سفارتی کوششیں: او آئی سی، یو این اور دیگر عالمی اداروں میں غزہ پر جنگی جرائم کے مقدمات کے لیے عملی دباؤ۔
- عوامی بیداری مہم: خطبات جمعہ، سیمینار، اور میڈیا کے ذریعے فلسطینی کاز کے حق میں عوامی شعور پیدا کیا جائے۔
- اسلامی قیادت سے رابطے: سعودیہ ترکی، ایران، ملائیشیا، انڈونیشیا اور دیگر مسلم ممالک کی مذہبی قیادت سے مشاورت و ہم آہنگی۔
- مزاحمت کے اخلاقی و فکری پہلو پر روشنی: حماس و مزاحمت کو دہشتگردی کے بجائے جدوجہدِ آزادی اور ایمانی غیرت کے مظہر کے طور پر اجاگر کیا جائے۔
اختتامی کلمات
حضرت قائد محترم، آپ کی بصیرت اور اسلامی موقف نے ہمیشہ امت کے لیے رہنمائی فراہم کی ہے۔ یہ وقت ہے کہ فلسطین کے مظلوموں کی صدائے درد کو عالم اسلام کے ایوانوں تک پہنچایا جائے۔ پاک فلسطین فورم اس راہ میں آپ کی قیادت کا منتظر اور معاون ہے۔