پروفیسر میاں انعام الرحمن

کل مضامین: 82

دین اسلام کی معاشرتی ترویج میں آرٹ کی اہمیت

معاشرے میں چھائی ہوئی ابتری کے پیشِ نظر ہمارے ہاں ایک جملے کی مقبولیت کا گراف مسلسل بلند ہوتا جا رہا ہے۔ وہ مقبولِ عام جملہ یہ ہے کہ ’’لوگ بے دین ہو گئے ہیں ‘‘۔ حالانکہ یہ بات صریحاً غلط ہے، کیونکہ اصل بات یہ ہے کہ جس سوچ کو دین کا نام دیا جا رہا ہے، وہ دین نہیں ہے یا پھر زیادہ سے زیادہ وہ دین کی فقط ایک جہت ہے۔ اسی کی وجہ سے معاشرتی ابتری بڑھ رہی ہے نہ یہ کہ بے دینی اس کا سبب ہے۔ راقم کی نظر میں ہمارے محترم علما جب بھی دین کی بات کرتے ہیں تو ان کے ذہن میں حقیقتاً ’’ فقہ‘‘ ہوتی ہے اور فقہ کی بھی جزئیات (۱) یہ ایک عظیم فروگزاشت ہے جو تسلسل سے ہو...

SDPI کی رپورٹ کا ایک جائزہ

پاکستان کی تاریخ محض سیاسی کشمکش کی تاریخ نہیں ہے۔ اپنے قیام کے بعد سے اسے مختلف مسائل کا سامنا رہا ہے۔ ان مسائل کی نوعیت مختلف ہونے کے باوجود ’’تعلیم ‘‘ ہمیشہ موضوع بحث ہونے کے باعث ہر دور کا مشترکہ مسئلہ رہی۔ یہ بات بہرحال تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ تعلیم کے حوالے سے حکومتوں کا رویہ بالخصوص اور غیر حکومتی تنظیموں (NGOs) کا رویہ بالعموم، فقط گفتار تک محدود رہا۔ حکومتی اور غیر حکومتی سطح پرہم لوگ کس حد تک گفتار کے غازی ہیں، ہماری شرح خواندگی اس کی واقعاتی گواہ ہے۔ تعلیم کے حوالے سے ہی وطنِ عزیز میں مختلف طبقات کے درمیان کھینچا تانی جاری رہی۔ پہلے...

برصغیر کی مذہبی فکر کا ایک تنقیدی جائزہ ۔ عالمی سیاست ومعیشت کے تناظر میں

اس وقت عالمِ اسلام اور وطنِ عزیز کی ناگفتہ بہ حالت کے معروضی تجزیے کے لیے جس اخلاقی جرات اور تاریخی شعور کی ضرورت ہے، شاید اس سے دیدہ و دانستہ پہلو تہی برتی جا رہی ہے۔ نتیجے کے طور پر قومی و ملی مورال گرتا جا رہاہے۔ عوام الناس آنکھوں میں سینکڑوں سوالات لیے قائدین کی طرف دیکھ رہے ہیں ، جو اب بھی ایڑیاں اٹھا اٹھا کر’ قد آور‘ ہونے کی ادھیڑ بن میں مبتلا ہیں کہ ان کی اپنی سوچ محدود، منتشر اور غیر منظم ہے۔ ان نام نہاد قائدین نے جماعت، طبقہ، ذات، حیثیت، نسل اور مسلک وغیرہ جیسی خواہشات سے دب کر اپنے نظریات اور کمٹ منٹ کو انتہائی منفی حد تک متاثر کیا...

ارضی نظام کی آسمانی رمز

جدید دور کے ریاستی و جمہوری نظام کی فکری آبیاری ہابس (۱)، لاک(۲) اور روسو (۳)نے کی تھی ، پھر کارل مارکس(۴) نے اپنے عہد کے مخصوص احوال و ظروف کے طفیل اسے ایک نئی جہت سے روشناس کرایا۔ ان مفکرین کے پیش کردہ نظریات اور ان کے اثرات اگرچہ عمومی نوعیت کے حامل رہے ہیں لیکن یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ ان کا پس منظر اور واقعاتی حوالہ جات، مکمل طور پر مقامی ہیں۔ اس طرح ان نظریات کی خوبیوں اور ان میں مضمر آفاقی نکات کے باوجود، ان کا مقامی اور محدود واقعاتی حوالہ بعض تحفظات کو جنم دیتا ہے۔ یہ تحفظات آج کے دور میں نئے انداز اور نئی قوت سے سر ابھار رہے ہیں۔...

کیا علاقائی کلچر اور دین میں بُعد ہے؟

ماہنامہ الشریعہ کے نومبر ۲۰۰۳ء کے شمارے میں رئیس التحریر جناب ابو عمار زاہد الراشدی کا مضمون بعنوان ’’خاتون مفتیوں کے پینل کا قیام‘‘ شائع ہوا۔ راشدی صاحب کے طرز استدلال اور وسعت بیان کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس مضمون میں انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں جن نکات پر قلم اٹھایا ہے، ان سب سے اتفاق کرنا پڑتا ہے سوائے آخری چند سطور کے۔ یہ سطریں مذکورہ شمارے کے سرورق پر بھی شائع ہوئی ہیں۔ ’’عورت کے حوالے سے ہماری موجودہ اور مروجہ روایات واقدار کا ایک بڑا حصہ ہمارے علاقائی کلچر سے تعلق رکھتا ہے جسے دین قرار دے کر ان کی ہر حالت میں حفاظت کا تکلف...

پاک بھارت اتحاد کے حوالے سے مولانا فضل الرحمن کے خیالات

۲۲ جولائی ۲۰۰۳ء کے اخبارات کی شہ سرخیوں میں مولانا فضل الرحمن کا یہ بیان شائع ہوا کہ پاک بھارت گول میز کانفرنس منعقد ہونی چاہیے جو اس امر کا جائزہ لے کہ آیا دونوں ممالک دوبارہ ایک ہونا چاہتے ہیں یا نہیں۔ مولانا نے اس سلسلے میں مشرقی اور مغربی جرمنی کی مثال دی جو نصف صدی کے بعد دوبارہ متحد ہو چکے ہیں۔ ہماری رائے میں جرمنی کی مثال کا اطلاق پاک بھارت اتحاد پر نہیں ہو سکتا کیونکہ جرمنی کی تقسیم خالصتاً اتحادی قوتوں کی پیدا کردہ تھی، جنہیں اندیشہ تھا کہ متحدہ جرمنی دوبارہ طاقت پکڑ کر ان کے لیے خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔ تقسیم ہند کا معاملہ اس سے خاصا...

سماجی تبدیلی کے نئے افق اور امت مسلمہ

اپنے ظہور کے بعد سے انسانی معاشرہ نوع بہ نوع تبدیلیوں سے ہمکنار ہوتا چلا آ رہا ہے۔اکیسو یں صدی میں یہ تبدیلیاں رفتار اور نوعیت کے اعتبار سے منفرد کہی جا سکتی ہیں۔اس وقت انسانی آبادی کی بہتات اور اس سے جنم لیتے مختلف النوع مسائل جہاں فکر انگیز ہیں، وہاں تبدیلی کی لہر کو انگیخت کرنے میں بھی اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ افراطِ آبادی اور کرپشن سے لے کر توانائی اور پانی کے بحران تک بڑے بڑے مسائل ایسے ہیں جن پر دنیا بھر میں بحث ومباحثہ جاری ہے کہ ان پر کیونکر قابو پایا جا سکتا ہے۔ موجودہ عہد میں عالمی سطح پر جہاں تک نظامات (Systems) کا تعلق ہے، ان کی تشکیلِ...

گلوبلائزیشن: عہد جدید کا چیلنج

تاریخ کا ہر عہد تاریخ ساز رہا ہے۔ مورخین نے اپنے اپنے انداز میں ہر عہد کا جائزہ لیا ہے ،جس سے اختلاف ہونے کے باوجود یکسر رد کرنے کا ذمہ دار بننے کوشایدکوئی بھی تیار نہ ہو۔ تاریخی دھارے کی تشریح اور تاریخی عمل کی وضاحت کے ضمن میں بعض مورخین نے واحد عنصرپر زور دیا ہے،مثلاََ مالتھس نے آبادی کی، اسمتھ نے منڈیوں کی، ویبر نے طاقت کی اور مارکس نے طبقات کی بطور واحد عنصر کے نشان دہی کی۔ اسی طرح ۱۹۵۷ء میں Karl Wittfogel نے ایشیائی hydraulic despotism کی تھیوری پیش کی کہ پانی کے ذخائر پر مرکزی کنٹرول کی ضرورت نے استبداد کو جنم دیا ہے۔ مذکورہ نظریات کی یک رخی کے باوجود...

گلوبلائزیشن: چند اہم پہلو

تکنیکی ترقی اور ای کامرس سے گلوبل رجحانات کو مسلسل تقویت مل رہی ہے۔ اگرچہ اس وقت بھی لوگوں کی اکثریت اپنی اپنی ریاستوں سے گہری وابستگی رکھتی ہے لیکن یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ قومی ریاست روایتی طاقت کی حامل نہیں رہی۔ اس وقت اس کی جیسی صورت سامنے آ رہی ہے، اسے Post-sovereign nation state سے موسوم کیا جا سکتا ہے۔ اکیسویں صدی کی گلوبل دنیا میں قومی ریاست کا زیادہ سے زیادہ کردار Night-watching state کا ہی ہوگا۔ کارل مارکس اور فریڈرک اینگلس نے ۱۸۴۸ء میں ہی گلوبلائزیشن کی نشان دہی ان الفاظ میں کر دی تھی کہ In place of old local and national seclusion and self-sufficiency, we have intercourse in every direction...

ترقی اور لبریشن کی متوازی پرواز ناگزیر ہے

اس وقت دنیا میں ترقی کو جا نچنے کے لیے تین طریقے رائج ہیں۔ انہیں تین مکاتب فکر بھی کہا جا سکتا ہے۔ ایک مکتبہ فکر کے مطابق کوئی ملک اس وقت ترقی یافتہ ہو جاتا ہے جب اس کا GNP نمو پذیر رہے اور قومی ضروریات پوری کرتا رہے۔ والٹ روسلو Walt Roslow) (کی کتاب ’’معاشی نمو کے مراحل‘‘ (The Stages of Economic Growth) کی طرح مزید کئی کتب نے ترقی کے اس پہلو کو خاصا اجاگر کیا ہے۔ اس کے علاوہ معاشی منصوبہ بندی میں ماہرین معاشیات کے حتمی کردار نے بھی غیر معاشی عوامل کو عملاً دیس نکالا دے دیا ہے۔ جدید دور میں شاید ہی کوئی ایسا ماہر معاشیات ہو جو دھڑلے سے مذکورہ بالا نظریے کی حمایت...

امریکی جارحیت کے محرکات

عالمی سیاست کے حقیقت پسند مکتبہ فکر کے مطابق کسی بھی قسم کی ’’قدریں‘‘ قومی مفاد کا جزو لا ینفک نہیں ہوتیں۔ مغربی ممالک کی عمومی نفسیات اسی مکتبہ فکر سے متاثر ہے لہٰذا ان ممالک میں قومی مفاد کو قدروں سے وابستہ کرنے کے بجائے تزویراتی مفاد سے وابستہ کیا جاتا ہے، اگرچہ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے ڈھنڈورا اعلیٰ انسانی قدروں کا ہی پیٹا جاتا ہے۔ افغانستان اور عراق کے خلاف حالیہ امریکی اقدامات میں بھی ’’انسانی تہذیب کی سلامتی‘‘ جیسے جوازات گھڑے گئے ہیں حالانکہ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ امریکی پالیسی ساز قدریاتی تعیش پر مبنی...

عوام مذہبی جماعتوں کو ووٹ کیوں نہیں دیتے؟

اکثر اوقات یہ سوال کیا جاتا ہے کہ ہمارے مذہبی معاشرے کے عوام سیاست میں حصہ لینے والی مذہبی جماعتوں کو ووٹ کیوں نہیں دیتے؟ اس کے جواب میں دو نقطہ ہائے نظر سامنے آتے ہیں: مذہبی جماعتوں کا موقف یہ ہوتا ہے کہ انگریز کے ٹوڈی ان کی راہ میں حائل ہیں ورنہ عوام تو دل وجان سے مذہبی جماعتوں کو ووٹ دینا چاہتے ہیں۔ ان میں سے بعض لوگ خود عوام ہی کو منافقت پسند اور دوغلا قرار دیتے ہیں جو عام زندگی میں تو دین پر عمل کے حوالے سے علما کی طرف رجوع کرتے ہیں لیکن سیاست میں ان کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ علما کے مخالف طبقے کا نقطہ نظر یہ ہوتا ہے کہ علما جدید عہد کے تقاضوں...

ہندوستان اور پاکستان کے مشترکہ دشمن

کہتے ہیں جب بہت بڑا خطرہ سامنے ہو تو دو شدید دشمن بھی، باہمی دشمنی بھلا کر اس کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔ مثلاً سیلاب کے بہت بڑے ریلے میں بہتا ہوا درخت، سانپ، نیولے اور بندر وغیرہ کے لیے یکساں حفاظت کا سبب بن سکتا ہے۔ ایک دوسرے کے جانی دشمن مختلف جانور سیلاب تھمنے تک ایک دوسرے پر حملہ نہیں کرتے۔ بڑی حیرت کی بات ہے کہ برصغیر پاکستان وہند میں ایک نہیں کئی بڑے مشترکہ خطرات موجود ہیں مثلاً غربت، افلاس، پس ماندگی، مغربی ممالک کی اجارہ داری وغیرہ لیکن یہ دونوں ممالک مشترکہ مہیب خطرات کے باوجود ایک دوسرے پر غرا رہے ہیں۔ بھارت کا طرز عمل دیکھتے ہوئے...

احیائے امت کے چند بنیادی تقاضے

معاصر اسلامی دنیا بیدار ہو چکی ہے۔ اپنے حقوق اور تشخص کی بازیافت کے لیے ہر مسلمان کسی نہ کسی محاذ پر سرگرم عمل ہے۔ اس صورت حال میں ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم اپنے موجودہ سفر کے راستے کا تعین کریں اور اس سفر کے تقاضوں سے کماحقہ واقف ہوں۔ ذیل میں اس حوالے سے ایک طالب علمانہ کاوش کی گئی ہے۔ اگر ہم کائناتی تناظر میں زندگی پر غور وفکر کریں تو اس کی بے ثباتی عیاں ہو جاتی ہے۔ فانی دنیا ہے اور فانی انسان۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہماری تگ ودو اور دوڑ دھوپ کس لیے ہے کیونکہ ہماری اپنی زندگی تو نہایت محدود ہے کہ سانس کا کیا بھروسہ! ہماری محدود زندگی کی ’’تحدید‘‘...

صدر پاکستان کے سہ ملکی دورے کے مضمرات

صدر پاکستان جناب پرویز مشرف کے حالیہ سہ ملکی دورے سے پاکستان نے کیا کھویا، کیا پایا، اس کا تعین عجلت میں نہیں کیا جا سکتا۔ مجموعی طور پر اس دورے کو کام یاب قرار دیا جا سکتا ہے۔ جناب صدر نے بنگلہ دیش پہنچنے پر ۱۹۷۱ء میں ہونے والی زیادتیوں پر تاسف کا اظہار کرتے ہوئے بجا فرمایا کہ اس المیے کے نتیجے میں ایک خاندان جس کا ایک ہی مذہب اور ایک ہی تاریخی ورثہ ہے اور جنہوں نے مل کر آزادی کی جدوجہد کی اور مل کر مستقبل کے خواب بنے تھے، دو حصوں میں بٹ گیا۔ صدر پاکستان کے بیان کی اہمیت اپنی جگہ لیکن اہم بات یہ ہے کہ وہ آرمی چیف بھی ہیں، اس طرح ان کا بیان مسلح...

ٹیپو سلطانؒ، اقبالؒ اور عصر حاضر

تاریخ کے جدید دور میں یورپی سیاست کو عالمی سیاست کی اہمیت حاصل رہی ہے۔ برطانیہ سے امریکہ کی آزادی، انقلاب فرانس اور نپولین کے عروج نے توازن طاقت انگریزوں کے خلاف کر دیا تھا۔ زار روس سلطنت عثمانیہ پر قبضہ کر کے بحیرۂ روم تک پہنچنا چاہتا تھا۔ مصر میں نپولین کی کام یابی نے برصغیر کے انگریزوں کو خطرے کا قوی احساس دلا دیا تھا۔ انہی دنوں والی کابل زمان شاہ کے ارادے بھی شمالی ہند کے لیے پریشان کن تھے۔ انگریز افسر ہر اس حکمران سے نفرت کرتے تھے جو ان کے سیاسی مستقبل اور اقتدار کے لیے خطرناک ثابت ہو رہا ہو۔ ان کی یہ نفرت ٹیپو سلطانؒ کے بارے میں انتہائی...

مجوزہ آئینی ترامیم کا ایک جائزہ

این آر بی کی طرف مجوزہ آئینی ترامیم منظر عام پر آ چکی ہیں۔ ان کا پس منظر اور بنیاد صدر پاکستان کا وہ فرمان ہے جس کے مطابق انہوں نے واقعیت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ’’طاقت‘‘ کے تین ستونوں کی نشان دہی کی ہے: صدر، وزیر اعظم اور آرمی چیف۔ صدر محترم کا فرمان ہے کہ ان تینوں کے درمیان ’’توازن‘‘ قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ مجوزہ آئینی ترامیم کا سرسری مطالعہ ہی واضح کر دیتا ہے کہ اصل اہتمام صدر کو ’’فنا فی الدستور‘‘ کرنے کا کیا جا رہا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ ترمیمی پیکج تیار کرنے والے ’’تھنک ٹینک‘‘ نے سردھڑ کی بازی لگاتے ہوئے اکیسویں صدی کے تقاضوں...

حقیقی جمہوریت یا رجعت قہقریٰ؟

ڈوری کا ایک سرا طاقت ور شخص کے ہاتھ میں ہے اور دوسرے سرے سے ایک بظاہر آزاد شخص کی ٹانگ بندھی ہوئی ہے۔ اس ٹانگ بندھے شخص کی آزادی‘ ڈوری کی لمبائی کے برابر ہے۔ جب بھی یہ شخص ذرا زیادہ آزادی پانے کی کوشش کرتا ہے تو دوسرے سرے پر موجود شخص خائف ہو کر ڈوری کو کھینچنا شروع کر دیتا ہے اور وہ ’’آزاد‘‘ شخص الٹے پاؤں گھسٹتا چلا جاتا ہے۔ مزاحمت تو دور کی بات ہے‘ صرف بچاؤ کرنے میں ہی وہ منہ کے بل گر جاتا ہے‘ کہنیاں چھل جاتی ہیں اور ہاتھ خاک آلود ہوجاتے ہیں۔ رہا دل‘ تو اس کی بات ہی چھوڑیے۔ یہ مثال پاکستان کی سیاسی تاریخ سے زیادہ کہیں اور صادق نہیں آ سکتی۔...

سرحدی کشیدگی اور مغربی عزائم

اس وقت ساری دنیا کی نظریں جنوبی ایشیا پر مرکوز ہیں۔ اس خطے کی سات بڑی ریاستوں میں سے دو ریاستیں ایک دوسرے کے مقابل کھڑی ہیں۔ جنگ کا خطرہ بدرجہ اتم موجود ہے۔ پاکستان‘ بھارتی بالادستی کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے ورنہ باقی پانچ ریاستوں میں سے کسی میں اتنا دم خم نہیں کہ انڈیا سے برابری کی سطح پر تعلقات قائم رکھ سکے۔ انڈیا کا بارڈر بھی تقریباً تمام ریاستوں سے متصل ہے جس سے انڈیا کو در اندازی کے تمام مواقع میسر ہیں۔ جنوبی ایشیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ خطہ نااتفاقی کے سبب ایک اصول پر متفق ہے: باہمی عدم اتحاد۔ بالخصوص انڈیا اور پاکستان کے مابین انتہائی...

سیرت النبی ﷺ کے خلاقی پہلو اور فکر اقبالؒ

غلطیاں بانجھ نہیں ہوتیں‘ یہ بچے دیتی ہیں۔ اگر ہم مسلم تاریخ اور مسلمانوں کی موجودہ زبوں حالی کا مطالعہ اس تناظر میں کریں تو نہ صرف اس فقرے کی صداقت کو تسلیم کر لیں گے بلکہ معروضی انداز سے تجزیہ کرتے ہوئے بنیادی غلطی تک پہنچنے کے قابل بھی ہو سکیں گے۔ جو بنیادی غلطی ہم سے سرزد ہوئی‘ جس نے ہمیں راہ حق سے بھٹکا دیا اور بوجوہ قدروں کے بگاڑ کا سبب بنتے ہوئے دین کی حقیقی صورت ہماری نظروں سے اوجھل کر دی‘ وہ ’’عمل‘‘ سے فرار ہے: ’’عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی۔ یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے‘‘۔ پہلے سے طے شدہ اور خود ساختہ موقف...

جی ہاں! پاکستان کو آئیڈیل ازم کی ضرورت ہے

جنرل پرویز مشرف آج کل جہاں اپنی حکومت کے ’’انقلابی اقدامات‘‘ کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں‘ وہاں یہ بھی فرما رہے ہیں کہ مثالیت (Idealism) کے بجائے عملیت اور نتائجیت (Pragmatism) کو قومی شعار بنانا چاہیے۔ جنرل صاحب مجوزہ آئینی ترامیم اور ریفرنڈم کے سیاق وسباق میں قوم کو یہی ’’درس‘‘ دے رہے ہیں۔ اگر ہم ذرا گہری نظر سے معروضی واقعیت کا جائزہ لیں تو دنیا میں اس وقت موجود قومی وعالمی تشتت وانتشار‘ بے حسی اور خود غرضی کے اسباب مثالیت پسندی کے زوال میں تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر شعبہ تعلیم سے وابستہ افراد اگر مثالیت پسندی کا مظاہرہ کریں تو انہیں مادی...

دستور سے کمٹمنٹ کی ضرورت

۱۹۴۷ء سے لے کر اب تک وطن عزیز کو کئی مسائل سے سابقہ رہا ہے۔ ان میں سے سرفہرست تین کی ترتیب یوں بیان کی جاتی ہے: ۱۔ ملکی سلامتی کا تحفظ ۲۔ معیشت کی بحالی اور مضبوطی ۳۔ عوامی امنگوں کے مطابق دستوری نظام- حقیقت یہ ہے کہ یہ تینوں آپس میں باہم مربوط ہیں لیکن ان کی ترتیب ٹھیک نہیں رکھی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم مسائل کے انبار تلے دبتے چلے جارہے ہیں کیونکہ مسائل کی نشان دہی کے ساتھ ساتھ ان کی نزاکت کو مد نظر رکھتے ہوئے دی گئی ترتیب بھی کلیدی اہمیت کی حامل ہے۔ یہ ترتیب اس طرح ہونی چاہیے تھی: ۱۔ عوامی امنگوں کے مطابق دستوری نظام ۲۔ معیشت کی بحالی اور مضبوطی...

پیٹ معذور ہوتا ہے

وہ بے چینی سے ہاتھ پر ہاتھ مسل رہا تھا۔ بھاری بھرکم کھردرے ہاتھوں پر جمی ہوئی پتلی سی سیاہی صاف چغلی کھا رہی تھی کہ یہ ’’دستِ محنت‘‘ ہیں۔ اپنا خون پسینہ ایک کرکے روزی کمانے والا پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے سوالی بننے پر مجبور ہو گیا تھا۔ .......’’یقین کریں باؤ صاحب، میں مانگنے والا نہیں ہوں۔ ........ بڑا عجیب سا لگ رہا ہے۔ ...... شرم آ رہی ہے۔ میں تو ..... میں تو جی کاری گر ہوں۔ لوہے کی الماریاں مرمت کرتا ہوں۔ ہفتہ ہو گیا ہے کام نہیں ملا۔ ...... میرے پاس ڈیڑھ سو روپے تھے، وہ ختم ہو گئے ہیں۔ ..... اگر ..... اگر آپ ......‘‘ اس سے آگے کچھ کہنے سے وہ ہچکچا رہا تھا۔ میرا...

بغاوت کی دستک

افغانستان سے متعلق حکومتی پالیسی سے لے کر جہادی تنظیموں پر پابندی کے حکم نامے سمیت بعض ایسے اقدامات کیے جا رہے ہیں جن پر ہر ذی شعور فرد تحفظات کا اظہار کر سکتا ہے۔ خاص طور پر عدلیہ کے حوالے سے جو آرڈی ننس جاری کیا گیا ہے، اس کے مضمرات کے پیش نظر جنرل پرویز مشرف ہٹلر کی ہم سری کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔ برطانویوں کی طرح انگریزی بولنے پر فخر کرنے والوں کو یہ بات بھی جاننی چاہیے کہ برطانوی لوگ کرامویل کے عہد کو اپنی تاریخ کا حصہ نہیں مانتے لیکن جنرل موصوف نے دستور کی دھجیاں اڑاتے ہوئے عوام پر آمریت مسلط کر رکھی ہے۔ نتائج وعواقب سے بے پروا ہو کر مخصوص...

امریکی اور برطانوی جارحیت۔ ایک تجزیاتی مطالعہ

پہلی جنگ عظیم میں امریکی شمولیت کے حوالے سے جواز پیدا کرتے ہوئے وڈرو ولسن نے کہا تھا کہ اس طرح دنیا جمہوریت کے لیے محفوظ (Safe for democracy) ہو جائے گی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر شمالی امریکہ اور برطانیہ کے سامنے ایک موثر اور طاقت ور کمیونسٹ گروہ آنے سے یہ ’’تحفظ‘‘ قائم نہ رہا۔ اسی لیے سرد جنگ کے دوران میں امریکہ اور برطانیہ کی خارجی پالیسی کا محور کمیونسٹ گروہ کو فوجی طاقت کے اعتبار سے بہت پیچھے رکھنا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس مقصد کا حصول اپنی فوجی طاقت میں بے پناہ اضافے سے ہی ہو سکتا تھا۔ سرد جنگ کے دوران میں امریکی وبرطانوی سرگرمیاں جمہوریت کے حوالے...

عصری تقاضے اور اسلام کی تعبیر وتشریح

کسی قوم کی کمزور تاریخ یا پھر اپنی عظیم تاریخ کا کمزور شعور تخلیقی صلاحیتوں کو مردہ اور سارے نظامِ اقدار وخیال کو تتر بتر کر دیتا ہے۔ عالمی مسلم معاشرہ اسی المیے کا شکار ہے۔ اسلام کی عصری تقاضوں سے ہم آہنگ تعبیر وتشریح بیک وقت دو محاذوں پر کام کرنے سے ممکن ہے‘ داخلی اور خارجی۔ درج بالا پہلے فقرے کے تناظر میں داخلی محاذ پر زیادہ سنجیدگی اور مشقت کی ضرورت ہے۔ اگر ہم کتاب اور سنت‘ احادیث نبوی اور اسلام کے ابتدائی عہد میں دعوت کے اسلوب پر طائرانہ نظر دوڑائیں تو اسلامی اسپرٹ بہت زیادہ سوشل معلوم ہوگی۔ اسلام کی دعوتی اور توسیعی سرگرمیاں‘ چاہے...

مغربی طاقتیں اور پاکستان کی سلامتی

مغربی طاقتوں کے موجودہ رویے کی بنیاد دوسری جنگ عظیم کے دوران میں ایٹم بم کے استعمال میں ٹریس کی جا سکتی ہے۔ بہ نظر غائر معلوم ہو جاتا ہے کہ ان طاقتوں کا مقصد دنیا میں امن کا قیام اور لوگوں کی عمومی خوش حالی نہیں بلکہ طاقت کے بل بوتے پر اپنی برتری قائم کرنا ہے۔ایٹم بم کی تباہی کے پیش نظر چاہیے تو یہ تھا کہ اس کی روک تھام اور خاتمے کے لیے موثر اقدامات کیے جاتے لیکن مغربی طاقتوں نے اپنے مخصوص مزاج کی بنا پر اس کو ایک موثر ہتھیار کے طور پر اپنا لیا۔ اس طرح بعد از جنگ کا عہد ایٹمی دوڑ کا عہد بن گیا۔ اس ایٹمی دوڑ کے جنگ جویانہ اثرات فلموں کے ذریعے سے...

اسلامی تحریکیں اور مغربی بلاک

بیسویں صدی کے آخری دو عشرے اس لحاظ سے بہت اہمیت کے حامل ہیں کہ اس دوران میں عالمی سیاست کے رجحانات میں بنیادی تبدیلیاں واقع ہوئیں ۔ کمیونزم کی توسیع اور گرم پانیوں تک رسائی کے لیے سوویت یونین کی افغانستا ن میں مداخلت، سوویت یونین کی شکست وریخت، کشمیر کی تحریک آزادی میں شدت، اسرائیل فلسطین تنازعہ کے حل کے لیے مغربی طاقتوں کی نام نہاد کوششیں، یوگوسلاویہ کا زوال اور بوسنیا کے مسلمانوں پر شرم ناک ظلم وستم۔ اگر ہم درج بالا امور کو ذہن میں رکھیں تو تبدیلی کی نہج اس طرح ترتیب...

افغانستان میں امریکی پالیسی کا ایک جائزہ

۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر ہونے والے حملے اپنی نوعیت کے لحاظ سے حیران کر دینے والے تھے۔ عالمی سطح پر رائج رجحانات کے پس منظر میں یہ واقعہ ’’اپ سیٹ‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سے امریکہ کو فوجی، اقتصادی اور نفسیاتی حوالے سے شدید دھچکا لگا۔ نفسیاتی بازیابی تو شاید فوری ممکن نہیں ہوگی تاہم کچھ نہ کچھ مداوا کرنے کے لیے امریکہ نے کسی ثبوت اور تصدیق کے بغیر اس واقعہ کی ذمہ داری اسامہ بن لادن اور اس کے نیٹ ورک القاعدہ پر ڈال کر ان کے خلاف بین الاقوامی رائے عامہ کو ہموار کیا اور پھر عالمی تعاون حاصل کر کے افغانستان پر حملہ...

امریکی اِکسپوژر کی نئی جہتیں

جمہوریت کے مسلّمہ اصولوں کے مطابق حقیقی جمہوریت اپوزیشن کی موجودگی سے مشروط ہے۔ کمیونسٹ ممالک پر اسی حوالے سے تنقید ہوتی رہی ہے کہ ان کے ہاں اپوزیشن مفقود ہے کیونکہ ان کے ہاں کمیونسٹ پارٹی کے علاوہ کسی دوسری پارٹی کو سیاسی عمل میں شریک نہیں کیا جاتا، لہٰذا حقیقی جمہوریت کے لیے کم از کم دو جماعتی نظام نہایت ضروری ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد سرد جنگ کے دوران اور تاحال امریکہ جمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام کا سرخیل ہے اور وہاں دو جماعتی نظام رائج ہے۔ برطانیہ میں بھی دو جماعتی نظام رائج ہے لیکن ایسا نہیں کہ دوسری جماعت تقریباً برائے نام یا غیر...

امریکہ میں دہشت گردی: محرکات، مقاصد اور اثرات

امریکہ میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات میں کون ملوث ہے، یہ واقعات کس کے ایما پر ہوئے، ان کے محرکات اور مقاصد کیا ہیں، اور ان واقعات سے کیا نتائج برآمد ہو سکتے ہیں؟ یہ چند سوالات ہیں جو آج کل تقریباً ہر ذہن میں پیدا ہو رہے ہیں، آئیے اس ضمن میں چند امکانات پر غور کریں۔ کیا یہ دہشت گردی اسامہ بن لادن اور مسلمانوں کی طرف سے کی گئی ہے؟ لیکن ایسا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ اس کی وجوہات یہ ہیں: (۱) امریکی سکیورٹی کے فول پروف انتظامات میں سے حملے کے لیے ایک ہی ممکن راستے کو تلاش کر لینا مسلمانوں کے بس کی بات نہیں۔ (۲) مسلم تاریخ سے تھوڑی سی واقفیت رکھنے والا...

چشم کو چاہیے ہر رنگ میں وا ہو جانا

’’دنیا میں کیا کچھ موجود ہے جس کی مجھے ضرورت نہیں ہے‘‘۔ ایتھنز کے بازاروں میں عیش و عشرت کا قیمتی ساز و سامان دیکھ کر یہ تاریخی الفاظ سقراط نے کہے تھے۔ اس فقرے میں مضمر دلالتوں اور ابدی صداقتوں نے ’’شہرِ ہجر‘‘ کی تفہیم کو Order کرنے اور نقد و تبصرہ کے لیے راستہ وا کرنے میں میری بڑی معاونت کی۔ میں حیران تھا، چناب کنارے گجرات جیسے زرخیز خطے میں رہنے والا شخص اپنے تخیل میں ’’صحرا‘‘ کیوں بسائے ہوئے ہے، نہ صرف صحرا بلکہ اس کے کچھ Shades، جیسے ریگ، لمحہ، رنج، وداع۔ صحرا میں رنگارنگی، رعنائی اور تنوع نہیں ہوتا، لیکن صحرا ہے وسعت کی علامت۔ اگر ہم...
< 51-82 (82)🏠