امریکی اور برطانوی جارحیت۔ ایک تجزیاتی مطالعہ

پروفیسر میاں انعام الرحمن

پہلی جنگ عظیم میں امریکی شمولیت کے حوالے سے جواز پیدا کرتے ہوئے وڈرو ولسن نے کہا تھا کہ اس طرح دنیا جمہوریت کے لیے محفوظ (Safe for democracy) ہو جائے گی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر شمالی امریکہ اور برطانیہ کے سامنے ایک موثر اور طاقت ور کمیونسٹ گروہ آنے سے یہ ’’تحفظ‘‘ قائم نہ رہا۔ اسی لیے سرد جنگ کے دوران میں امریکہ اور برطانیہ کی خارجی پالیسی کا محور کمیونسٹ گروہ کو فوجی طاقت کے اعتبار سے بہت پیچھے رکھنا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس مقصد کا حصول اپنی فوجی طاقت میں بے پناہ اضافے سے ہی ہو سکتا تھا۔ سرد جنگ کے دوران میں امریکی وبرطانوی سرگرمیاں جمہوریت کے حوالے سے توسیعی نہیں تھیں بلکہ ان کا مرکزی نکتہ کمیونسٹ پھیلاؤ کو روکنا تھا اسی لیے رونالڈ ریگن نے سوویت یونین کو Evil empire(شر کی سلطنت) سے موسوم کیا۔

موجودہ دور میں امریکی وبرطانوی سرگرمیاں توسیعی اور جارحیت پر مبنی ہیں۔ کمیونسٹ گروہ کے مقابل ہونے کے سبب سے دونوں ممالک نے اسلحے کے ڈھیر جمع کر رکھے تھے۔ طاقت کے اس ڈھیر کا outlet (اظہار)جارحیت میں ڈھونڈا جا رہا ہے۔ اس جارحیت کے ذریعے سے دنیا کو ’’جمہوریت کے لیے محفوظ‘‘ بنایا جا رہا ہے۔ اس گفتگو کے تناظر میں ممتاز برطانوی مفکر برٹرینڈ رسل کی فکر سے استشہاد ضروری ہو جاتا ہے۔ موصوف لکھتے ہیں:

’’اگرچہ طاقت کی حکمرانی کوئی ایسی چیز نہیں جس کی تعریف وتوصیف کی جائے اور اگر اس کی جگہ کوئی نرم ولطیف اور کم ظالمانہ چیز لے لے تو آدمی کو لازماً خوش ہوناچاہیے ‘ تاہم سماجی اداروں کی ترقی میں اس کا ایک مفید کردار ہے۔ حکومت ایک مشکل فن ہے اور (اسی طرح) حکومت کی اطاعت بھی مشکل ہے ماسوائے اس کے کہ (حکومت کی طاقت) کے سامنے سرتسلیم خم کیا جائے۔ طاقت سے مسلط کی گئی حکومتوں نے گروہوں کی تشکیل میں ایسا کردار ادا کیا ہے جو بہت ضروری معلوم ہوتا ہے۔ انگریزوں کی اکثریت آج اپنی حکومت کی اس لیے اطاعت کرتی ہے کہ اسے معلوم ہے کہ اس کا بدل خوف ناک نراجیت اور انتشار ہے۔ لیکن ایسے طویل ادوار بھی گزرے ہیں جن کے دوران میں لوگوں نے نراجیت اور انتشار کو‘اگر ان کا حصول ان کے بس میں تھا‘ ترجیح دی۔ بادشاہوں اور جاگیرداروں کے درمیان طویل لڑائیاں رہیں جن میں‘ خوش قسمتی سے جاگیرداروں نے ایک دوسرے کو جڑسے اکھاڑ دیا۔ نتیجتاً بادشاہ فاتح کی حیثیت سے نمودار ہوا۔ لوگوں نے اس کی اطاعت کی کیونکہ وہ اطاعت کے لیے مجبور کر سکتا تھا اور ا س طرح سے رعایا نے اتحاد اور قانون کی اطاعت کی عادت حاصل کر لی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب بادشاہی طاقت میں کمی آ گئی تو ایسا نراجیت کے احیا کی صورت میں نہیں ہوا بلکہ حکومتوں کی نئی اقسام کے ذریعے سے۔ تاہم اس امر میں شک کا اظہار کیا جا سکتا ہے کہ بادشاہی طاقت کے مرحلے سے گزرے بغیر شاید ہی کوئی ایک واحد مستحکم حکومت سارے ملک پر کبھی قائم ہوئی ہو ۔

بادشاہی طاقت سے جمہوریت کی طرف تبدیلی جو کہ انگلینڈ میں چارلس اول کے عہد سے لے کر ملکہ وکٹوریہ کے عہد تک ہوئی‘ ایک ایسی تبدیلی ہے جس کی دوسری بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ جہاں کہیں سماجی اکائی ہے‘ وہاں حکومت ناگزیر ہے اور یہ حکومت کی طاقت وجبر ہے جو متعلقہ گروہ کو ربط واتحاد عطا کرتی ہے۔ لیکن جب ایک دفعہ گروہ تشکیل پا جائے ‘ایسا کسی بھی طریقے سے ہوا ہو‘ تو گروہ کی ساخت میں کسی تبدیلی کے بغیر حکومت کی ہیئت وصورت بدلی جا سکتی ہے۔ اکثر وبیشتر سب سے مشکل مرحلہ ایک واحد حکومتی گروہ کی تشکیل ہے اور مآل کار‘ حکومت کی ہیئت وصورت میں تبدیلیاں بہت آسان ہوتی ہیں۔ نراجیت پسندانہ جذبات کو دبائے بغیر کسی بھی حکومتی گروہ کی تشکیل نہیں ہو سکتی اور جذبات کی تحدید بہت آسانی سے ہو جاتی ہے اگر گروہ کے صرف کمزور ارکان کو دبانا مقصود ہو جبکہ مضبوط ارکان اپنے نراجیت پسندانہ جذبات کا بدل حکومتی طاقت کے استعمال کی صورت میں پا لیتے ہیں ۔ جب پاپا اونگھ رہے ہوں‘ تو وکٹوریہ عہد کے بچے شور نہیں مچاتے تھے لیکن پاپا جب چاہتا‘ شور کر سکتا تھا۔ پاپا کا ان بچوں کو سرزنش کرنے کا جذبہ‘ جو اس کے آرام میں خلل ڈالتے تھے‘ نراجی حملہ ہوتا اگر خاندانی گروہ قائم نہ ہو چکاہوتا لیکن چونکہ یہ قائم ہو چکا تھا ‘ اس لیے اسے نظم وضبط قائم رکھنے کے لیے پدری اختیار کا ایک مناسب استعمال سمجھا جاتا تھا۔ اس طرح سے سماجی گروہوں کی تشکیل اس کے بغیر ممکن ہو سکی کہ تشکیل پانے سے قبل گروہوں کے جو طریقہ ہائے عمل تھے‘ ان میں بہت زیادہ مداخلت کی جائے۔ البتہ کمزور افراد اس سے مستثنیٰ ہیں۔ مثال کے طور پر قتل کو لیجیے۔ جہاں کہیں کسی خطے میں فاتح اشرافیہ حکومت کرتی ہے تو یہ بات ایک عمومی قاعدے کے طور پر مان لی جاتی ہے کہ سماجی اعتبار سے کمتر لوگوں کو سماجی لحاظ سے اپنے سے برتر لوگوں کو قتل نہیں کرنا چاہیے یا حتیٰ کہ ایک دوسرے کو بھی لیکن جب سماجی اعتبار سے کوئی برتر آدمی کسی کمتر وادنیٰ کو قتل کرے تو یہ ایک ٹھیک اور صحیح عمل ہوگا۔ حقیقت میں اگر برتر لوگ بہت زیادہ بے صبرے نہ ہوں تو وہ ایسا قانونی ذرائع سے کر سکتے ہیں۔ خالصتاً رضاکارانہ تعاون پر مبنی نئے گروہوں کی تشکیل کی کوششیں عام طور پر ناکام ہو جاتی ہیں کیونکہ ایسے گروہوں کے لیے کوئی بھی حکومت تشکیل دی جائے‘ وہ روایتی احترام کی حامل نہیں ہوتی اور اسے اتنی طاقت نہیں دی جاتی کہ وہ جبری احترام حاصل کر سکے۔

موجودہ عہد میں اس اصول کا سب سے اہم اطلاق عالمی حکومت پر ہوتا ہے۔ جنگ کی روک تھام کے لیے یہ ناگزیر ہے کہ کرہ ارض پر محیط ایک واحد حکومت قائم ہو لیکن ایک وفاقی حکومت جو باہمی رضامندی سے بنائی گئی ہو جیسا کہ انجمن اقوام اور اقوام متحدہ کی تشکیل کی گئی‘ یقیناً کمزور ہی ہوگی کیونکہ اسے تشکیل دینے والی قومیں محسوس کریں گی‘ جیسا کہ نوابوں نے قرون وسطیٰ میں محسوس کیا تھا کہ نراجیت خود مختاری کے کھونے سے بہتر ہے۔اور جیسا کہ قرون وسطیٰ میں نراجیت کی جگہ منظم حکومت کے آنے کا انحصار شاہی طاقت کی فتح پر تھا‘ اسی طرح سے بین الاقوامی تعلقات میں نراجیت کے بجائے نظم وضبط کا آنا‘ اگر یہ آجاتا ہے‘ ایک قوم یا قوموں کے اتحاد کی برتر قوت کے ذریعے سے ہوگا اور جب ایسی حکومت واحدہ تشکیل پا جائے گی تبھی یہ ممکن ہوگا کہ بین الاقوامی جمہوری حکومت کا ارتقا شروع ہو۔ یہ نظریہ جس پر میں پچھلے تیس برس سے قائم ہوں‘ اس کی تمام آزاد خیال لوگوں اور ہر قوم کے تمام قوم پرستوں نے شدید مخالفت کی ہے۔ بلاشبہ میں اس بات سے متفق ہوں کہ یہ بہت بہتر ہوگا کہ رضامندی پر مبنی ایک بین الاقوامی حکومت کی تشکیل ہو لیکن مجھے اس بات پر بھی پورا اطمینان ہے کہ قومی خود مختاری کی محبت اتنی مضبوط ہے کہ ایسی کوئی بین الاقوامی حکومت موثر اختیار نہیں رکھ سکے گی۔ جب ایک قوم یا قوموں کے گروہ کی عسکری برتری پر مبنی تمام دنیا کے لیے حکومت واحد ایک صدی یا اس کے لگ بھگ عرصہ تک اقتدار میں رہے گی تو یہ اس درجے کااحترام حاصل کرنا شروع کر دے گی جس سے ممکن ہو جائے گا کہ وہ طاقت کے بجائے قانون اور جذبات پر اپنے اختیار کی بنیاد رکھے اور جب ایسا ہو جائے گا تو بین الاقوامی حکومت جمہوری ہو سکتی ہے۔ میں نہیں کہتا کہ یہ ایک خوش گوار امکان ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ انسان کی نراجی تحاریک (جذبات) اتنی مضبوط ہیں کہ وہ پہلے مرحلے پر سوائے برتر طاقت کے کسی اور چیز کے تابع ہونا کے قابل نہیں ہو سکتیں۔‘‘

معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ رسل کی فکر سے ملتی جلتی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔ یہاں کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں:

۱۔ کیا امریکہ اور برطانیہ کے مخصوص حالات کی پیدا کردہ فکر کا پھیلاؤ‘ بغیر ترامیم کے‘ ممکن اور سودمند ثابت ہوگا؟

۲۔ کیا امریکہ اور برطانیہ اپنی اپنی جغرافیائی حدود کے اندر عملی اعتبار سے اور عوامی سطح پر وہ ثمرات حاصل کر چکے ہیں جس کا وعدہ ان کی فکر کرتی ہے؟

۳۔ کیا ان کی فکر کے نظری وعملی پہلو یکساں ہیں؟

۴۔ کیا قرون وسطیٰ کے عہد اور اکیسویں صدی میں معاشرت اور مقامیت کے حوالے سے کوئی فرق نہیں ہے؟

۵۔ کیا جمہوریت کی نوعیت اور جمہوریت کا حصول اسی انداز کا متقاضی ہے جو دونوں ممالک میں معروف ہے؟

۶۔ کیا مختلف قوموں کے اختلافات اور شناخت کی خواہش کو ایک قوم کے اندر موجود متخالف گروہوں کے برابر سمجھا جا سکتا ہے؟

۷۔ کیا قوموں کی شناخت کی خواہش کو address کرنے کا واحد طریقہ جبر اور جارحیت ہے؟

۸۔ کیا قرون وسطیٰ سے اکیسویں صدی تک نوع انسانی نے اس معاملے کو نمٹانے کے لیے کوئی نئی راہ تلاش نہیں کی؟

اگر ہم یورپی اور عالمی تاریخ کا سرسری جائزہ لیں تو ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے میں چنداں مشکل نہیں ہوتی۔ مثلاً سب سے پہلے 1648ء کا ویسٹ فالیا ٹریٹی (Treaty of Westphalia) ہی دیکھ لیں۔ اس ٹریٹی سے ریاستوں کا نظام (States system) پیدا ہوا جس سے امید بندھی کہ یورپ میں امن قائم ہو جائے گا کیونکہ ریاستوں کو ان کی حدود کے اندر مقتدر تسلیم کرنے سے اور دوسری ریاستوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے باز رکھنے سے ہی امن کا قیام ممکن تھا۔ اس سے مذہبی جنگوں سے بچنے کی بھی امید تھی۔ پھر 1871ء میں برطانیہ‘ فرانس‘ اٹلی‘ پرشیا‘ رشیا‘ آسٹریا اور ترکی نے لندن کانفرنس میں درج ذیل اعلامیے (Declaration)پر دستخط کیے:

"That the powers recognise it an essential principle of the Law of Nations that no power can liberate itself from the engagements of a treaty nor modify the stipulations thereof, unless with the consent of the contracting parties by measns of an amiable understanding." 

’’(اس اعلامیے میں شریک تمام) طاقتیں اسے قوموں کے قانون کا لازمی اصول تسلیم کرتی ہیں کہ کوئی بھی طاقت اپنے آپ کو کسی معاہدے کے عہد وپیمان سے آزاد نہیں کر سکتی اور نہ ان شرائط کو بدل ہی سکتی ہے جب تک کہ معاہدے میں شامل دوسرے فریق دوستانہ اتفاق رائے سے اس کی منظوری نہ دے دیں۔‘‘

جدید عہد کے حوالے سے 1961ء کا ’’ویانا کنونشن ڈپلومیٹک تعلقات پر‘‘ نہایت اہم ہے۔ اس کے افتتاحیے کے مطابق:

"....that an international convention on diplomatic intercourse, privileges and immunities (will) contribute to the development of friendly relations among nations, irrespective of their differring constitutional and social systems."

’’ڈپلومیٹک میل جول‘ مراعات اور تحفظات کے لیے ایک بین الاقوامی کنونشن اقوام کے مابین‘ ان کے دستوری اور سماجی نظاموں کے تفاوت سے قطع نظر‘ دوستانہ تعلقات کی ترقی کے لیے مدد دے گا ۔‘‘

دوسری ریاستوں کے معاملات میں دخل اندازی اور ڈپلومیٹک ایکشن کی وسعت کے حوالے سے اس کنونشن کا آرٹیکل 41بہت واضح ہے:

"Without prejudice to their privileges and immunities, it is the duty of all persons enjoying such privileges and immunities to respect the laws and regulations of the receiving state. They also have a duty not to interfere in the internal affairs of that state. All official business with the receiving state entrusted to the (diplomatic) missions by the sending state shall be conducted with or through the Ministry for Foreign Affaris of the receiving state of such other ministry as may be agreed."

’’اپنی مراعات اور تحفظات کے تعصب کے بغیر یہ ان تمام افراد کا فرض ہے جو ان مراعات اور تحفظات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں کہ وہ اس خیر مقدم کرنے والی ریاست کے قوانین اور ضابطوں کا احترام کریں۔ ان کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ اس ریاست کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کریں۔ خیر مقدم کرنے والی ریاست سے متعلقہ تمام سرکاری کام جو کہ بھیجنے والی ریاست اپنے مشن کو سونپتی ہے‘ خیر مقدم کرنے والی ریاست کی خارجہ معاملات کی وزارت کے ساتھ یا اس کے ذریعے سے انجام پانے چاہییں یا کوئی ایسی دوسری وزارت جس پر اتفاق ہو۔‘‘

خیال رہے کہ امریکہ نے کنونشن پر دستخط 29جون 1961ء کو کیے اور اس کی توثیق 13 نومبر 1972ء کو کی کیونکہ امریکی صدر یا اس کا نمائندہ دستخط کرنے کا تو مجاز ہے لیکن توثیق (Ratification)کی مجاز امریکی سینٹ ہے۔ امریکہ نے اس کنونشن کی توثیق کے فوراً بعد قلابازی کھائی کیونکہ 1976ء میں امریکی کانگریس نے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی یہ ذمہ داری ٹھہرائی کہ وہ امریکی معاشی یا فوجی امداد لینے والے ممالک کی انسانی حقوق کے ریکارڈ کے حوالے سے سالانہ رپورٹ تیار کرے۔ یہیں سے امریکی مداخلت کا آغاز ہو جاتا ہے۔ مداخلت کے حوالے سے صدارتی احکامات کے پیچھے کانگریسی منظوری بھی مستقل موجود ہے۔ 

اگر آپ اب تک کے مندرجات کو مد نظر رکھیں تو صاف مترشح ہوتا ہے کہ عالم گیریت اور باہمی تعاون کے حوالے سے دنیا آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھی لیکن بڑھنے کا یہ انداز یا پیش رفت امریکی اور برطانوی بالادستی کے خلاف تھی کیونکہ قانونی اور برابری کی سطح پر ہونے والی پیش رفت سے ان دونوں طاقتوں کی ’’بالادستی‘‘ کو خطرہ تھا۔ اب ظاہر ہے کہ اسلحے کے انبار کی موجودگی میں یہ ممالک اپنی بالادستی سے کیسے دست بردار ہو سکتے تھے اس لیے بین الاقوامی ضوابط کی دھجیاں اڑاتے ہوئے جمہوریت کو عالمی سطح پر پھیلانے کے نام سے دونوں ممالک بد معاش (Rogue) بنے ہوئے ہیں۔ افغانستان میں سماجی وسیاسی نظام میں تبدیلیاں لانے کے لیے مداخلت کی گئی۔ حالیہ دورۂ چین کے دوران میں بش کا بیان کہ امریکہ کو ’’رو ل ماڈل‘‘ کے طور پر اپنایا جا سکتا ہے‘ چین کے دستوری نظام میں مداخلت ہی گردانا جا سکتا ہے۔ صدر بش نے ایسا بیان دیتے ہوئے ڈپلومیٹک ایکشن کی وسعت کی حدود وقیود کو مد نظر نہیں رکھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ قانونی اور گفت وشنید پر مبنی عالم گیریت کی طرف ارتقا کو اپنانے کے بجائے‘ رسل کے تجزیے سے مماثل اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ اس مضمون میں اٹھائے گئے چند سوالات کے تناظر میں یہ اقدامات موثر ثابت نہیں ہوں گے۔

حالات و مشاہدات

(مارچ ۲۰۰۲ء)

تلاش

Flag Counter