اکثر اوقات یہ سوال کیا جاتا ہے کہ ہمارے مذہبی معاشرے کے عوام سیاست میں حصہ لینے والی مذہبی جماعتوں کو ووٹ کیوں نہیں دیتے؟ اس کے جواب میں دو نقطہ ہائے نظر سامنے آتے ہیں: مذہبی جماعتوں کا موقف یہ ہوتا ہے کہ انگریز کے ٹوڈی ان کی راہ میں حائل ہیں ورنہ عوام تو دل وجان سے مذہبی جماعتوں کو ووٹ دینا چاہتے ہیں۔ ان میں سے بعض لوگ خود عوام ہی کو منافقت پسند اور دوغلا قرار دیتے ہیں جو عام زندگی میں تو دین پر عمل کے حوالے سے علما کی طرف رجوع کرتے ہیں لیکن سیاست میں ان کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ علما کے مخالف طبقے کا نقطہ نظر یہ ہوتا ہے کہ علما جدید عہد کے تقاضوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں اس لیے اگر وہ خود کو نماز روزے تک ہی محدود رکھیں تو یہ نہ صرف عوام کے لیے بلکہ خود ان کے لیے بھی بہتر ہے۔
ہمارے خیال میں ان دونوں نقطہ ہائے نظر میں جزوی صداقت موجود ہے۔ آئیے غیر جانب دارانہ اور معروضی انداز میں جائزہ لیں کہ آخر انتخابات میں مذہبی جماعتوں کوووٹ کیوں نہیں ملتے؟
ہماری رائے میں سیاست میں مذہبی جماعتوں کی ناکامی کے بنیادی اسباب حسب ذیل ہیں:
محدود فکری اپروچ
۱۔ مذہبی جماعتوں کا ذہنی وفکری سانچہ اصلاً دینی مدارس میں تیار ہوتا ہے چنانچہ ان مدارس کے نظام میں موجود خامیوں کا پورا پورا عکس سیاست کے میدان میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ دینی مدارس پر عام طور پر یہ تنقید کی جاتی ہے کہ ان میں سائنسی علوم کی تعلیم نہیں دی جاتی جس کی وجہ سے علما کا طبقہ معاشرے کے عمومی دھارے (Main Stream) میں شامل نہیں ہو سکا اور ’’وقت‘‘ سے پیچھے رہ گیا ہے۔ ہمارے خیال میں سائنسی علوم کی تعلیم نہ دینے کا تو کسی حد تک جواز تلاش کیا جا سکتا ہے لیکن عصری سماجی علوم سے صرف نظر ناقابل اعتذار ہے۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ سیاست ومعیشت، ثقافت وسماجیات اور دیگر شعبوں میں ہونے والی ترقیوں اور ارتقا سے ہمارے علماء کرام نابلد رہتے ہیں۔ ان امور کو ڈیل کرنے سے متعلق ان کا طریقہ فرسودہ اور متروک ہے اسی لیے بعض حلقے یہ مشورہ دینے لگے ہیں کہ علماء کرام اپنے آپ کو قوم کی صرف اخلاقی تربیت کے لیے وقف کر دیں کہ اس سے زیادہ کچھ کرنا ان کے بس کی بات نہیں۔ لیکن لطف کی بات یہ ہے کہ اخلاقی تربیت کے لیے بھی جدید عہد اور سماجی علوم کے ارتقا کا مطالعہ ضروری ہے کیونکہ آج کے انسان کی اجتماعی نفسیات بہرحال زرعی دور کے انسان کی نفسیات جیسی نہیں ہے۔ اسی طرح آج کے مسائل کی نوعیت اور انسان پر ان کے اثرات بھی ہمارے ’’شاندار ماضی‘‘ سے بہرحال مختلف ہیں۔
۲۔ ہمارا طبقہ علما اگرچہ اپنے آپ کو ’’دین‘‘ کے نمائندے کے طور پر پیش کرتا ہے لیکن درحقیقت وہ ’’مذہب‘‘ کا نمائندہ ہے۔ یہ طبقہ بالعموم دین کے کسی جامع اور ہمہ گیر تصور کا داعی نہیں ہے اور اس کی عملی خدمات کا دائرہ کار بھی مخصوص اور لگا بندھا ہے یعنی تعلیم کے ایک خاص شعبے کو اس طبقے نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس طبقے کی اپروچ نظری ہے، عملی نہیں اور نظری اپروچ بھی ’’دین‘ ‘پر محیط نہیں بلکہ زیادہ توجہ ’’مذہب‘‘ پر مبذول ہوتی ہے۔ اس حوالے سے یہ یقیناًایک خطرناک بات ہوگی کہ دین کی نمائندگی کا دعویٰ لے کر یہ طبقہ مسند اقتدار پر رونق افروز ہو اور ’’مذہب‘‘ کو نافذ کرنا شروع کر دے۔ ہم معذرت کے ساتھ عرض کریں گے کہ اس طرح خود دین اسلام کی بابت خدشات جنم لیں گے کہ شاید یہ دین جدید عہد کے تقاضوں سے عہد برآ نہیں ہو سکتا حالانکہ درحقیقت دین تو نافذ ہی نہیں کیا گیا ہوگا۔ اس ضمن میں طالبان کا تجربہ پیش نظر رہنا چاہیے جنہوں نے اپنے مذہبی تصورات کے تحت بعض ایسے اقدامات کیے جن کو پاکستان کے راسخ العقیدہ اور طالبان کے حامی مذہبی حلقے بھی ہضم نہ کر سکے۔
۳۔ مذہب کے حوالے سے سیاسی ایجنڈا رکھنے والی ان جماعتوں کے خود کو ’’مذہبی‘‘ یا ’’دینی‘‘ جماعتیں قرار دینے سے تھیا کریسی کا تاثر ابھرتا ہے۔ مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن جماعتوں نے اپنے نام کے ساتھ ’’دینی‘‘ کا سابقہ نہیں لگایا، کیا وہ غیر دینی ہیں ؟ دوسرے لفظوں میں کیا وہ غیر اسلامی ہیں؟ کیا ان جماعتوں کے کارکن دین سے باہر ہیں؟ ممکن ہے مذہبی جماعتیں ان سوالوں کا جواب واضح طور اثبات میں نہ دیں لیکن اپنے طرز عمل سے وہ نفسیاتی طور پر قوم کو مذہبی اور غیر مذہبی میں تقسیم کرنے کا سبب بن رہی ہیں اس لیے ہماری رائے میں ’’مذہبی جماعت‘‘ کی اصطلاح بالکل ترک کر دینی چاہیے اور دینی جماعت اور غیر دینی جماعت کی بابت پیدا ہونے والے سوالات اور تاثرات کا سنجیدگی سے جائزہ لینا چاہیے۔
سیاسی تقاضوں سے بے اعتنائی
۱۔ مذہبی جماعتوں کا رویہ سیاسی نہیں ہے اور نہ ہمارے محترم علماء کرام ووٹ حاصل کرنے کے لیے وہ ’’پاپڑ‘‘ بیلنے کے لیے تیار ہیں جو اس میدان میں بہرحال بیلنے پڑتے ہیں۔ عام سیاسی جماعتوں کے بر خلاف، جو اپنی کارکردگی اور عملی وعدوں کی بنیاد پر ووٹ مانگتی ہیں، مذہبی جماعتیں اس لہجے میں بات کرتی ہیں جیسے مذہب کا نمائندہ ہونے کی بنا پر عوام کا ووٹ ان کا استحقاق ہو۔ وہ عوام کو یہ باور کراتے ہیں کہ مذہبی جماعتوں کو ووٹ دینا ان کا ’’دینی فریضہ‘‘ ہے اور اس سلسلے میں دوسری جماعتوں پر تنقید کے لیے ’’فتووں‘‘ کا سہارا لینا ایک عام بات ہے۔ یہ رویہ کسی بھی درجے میں ووٹر کو اپیل نہیں کرتا بلکہ الٹا اس کے ذہنی فاصلے کو بڑھانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔
۲۔ علما کے نام نہاد ’’اتحاد‘‘ میں ٹکٹوں کی تقسیم کرتے وقت زمینی حقائق کے بجائے فرقہ وارانہ ایڈجسٹمنٹ کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر فرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹکٹوں کی تقسیم کی جا سکتی ہے تو برادری کی بنیاد پر کیوں نہیں؟ پاکستان کی سیاست میں برادری کا کردار بہت اہم ہے۔ اگر ٹکٹوں کی تقسیم میں اس پہلو کو بھی مد نظر رکھا جائے تو نام نہاد اتحاد زیادہ سیٹیں جیت سکتا تھا کیونکہ برادری کے لوگوں نے تو بہرحال اپنے امیدوار کو ووٹ دینا تھا لیکن ایک فرقے کاووٹر دوسرے فرقے کے امیدوار کو ووٹ نہیں دیتا۔
۳۔ سیاست میں سیاست دان کی شخصیت کا کردار بنیادی ہے۔ ایک کام یاب سیاست دان اپنے وقت کو عوام کے لیے وقف رکھتا، ہر وقت ان سے رابطہ رکھتا اور اپنے حلقہ اثر کو مسلسل بڑھانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ ظاہر ہے یہ کوئی جز وقتی کام نہیں۔ انگریزی محاورے کے مطابق سیاست ایک Jealous Mistress (حاسد بیوی) ہے جو اپنی سوکن کو برداشت نہیں کرتی لیکن مذہبی جماعتوں نے اس سامنے کی حقیقت کو کبھی قابل اعتنا ہی نہیں گردانا۔ بجائے اس کے کہ وہ مذہبی رجحان رکھنے والے پیشہ ور سیاسی قائدین کی کوئی کھیپ الگ سے تیارکریں، انتخابات کے موقع پر وہ مدارس کے اساتذہ اورمساجد کے ائمہ کو امیدوار بنا کر میدان میں لے آتی ہیں جن کی انتخابی مہم کی ساری توانائیاں اپنا تعارف کرانے میں ہی صرف ہو جاتی ہیں۔
۴۔ معروضی سیاست میں پیسے کی بھی بہت اہمیت ہے۔ جس کی جیب بھاری ہو، وہ بہتر پوزیشن میں ہوتا ہے۔ طبقہ علما کی اپنی کوئی جیب ہی نہیں بلکہ، معاف کیجیے، وہ خود کسی کی جیب میں ہوتا ہے۔
معاشرتی مسائل سے لا تعلقی
۱۔ سوشل سیکٹر بہت وسیع میدان ہے لیکن افسوس ہے کہ جتنا یہ میدان وسیع ہے، مذہبی طبقے کی خدمات اس سلسلے میں اتنی ہی کم ہیں۔ ہرکس وناکس آگاہ ہے کہ دین اسلام کا غالب رجحان عملی ہے اور اس میں حقوق العباد پر بے حد زور دیا گیا ہے لیکن علماء کرام کی نظروں سے دین کا یہ غالب پہلو ابھی تک اوجھل ہے۔ گلی محلوں میں اس طبقے کے قائم کردہ بے شمار چھوٹے بڑے مدرسے دکھائی دیتے ہیں لیکن سلائی سنٹر، ہسپتال، سکول، بلڈ بینک اور اس طرح کے دیگر رفاہی ادارے بنانے کا ان کے ہاں کوئی تصور موجود نہیں۔ اسی بنا پر ایک عمومی تاثر یہ بھی پایا جاتا ہے کہ یہ طبقہ ’’طفیلی‘‘ (Parasite) ہے ، اسے کیا معلوم کہ ورکنگ کلاس کے مسائل اور مشکلات کیا ہیں؟
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ طبقہ علما میں بھی ’’طبقاتی درجہ بندی‘‘ راہ پا چکی ہے اور علما اے، بی، سی کی مختلف کلاسوں میں تقسیم ہیں۔ سی کلاس کے علما کو اے کلاس کے علما کے ہاں وہ پذیرائی نہیں ملتی جس کے وہ حق دار ہیں۔ اس طرح مساوات اور سادگی کے اسلامی تصورات عملاً ایک طرف رکھ دیے گئے ہیں۔ گویا اے کلاس کے علما کے اقتدار میں آنے سے سماجی سطح پر اس تبدیلی کے پیدا ہونے کی کوئی توقع نہیں ہے جس کا پرچار کیا جاتا ہے۔
باہمی برداشت کا فقدان
علماء کرام کے ’’اتحاد‘‘ کی بابت بھی عوام بجا طور پر تحفظات رکھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ اتحاد صرف کاغذی ہے اور الیکشن میں ووٹوں کی شرح سے اس اتحاد کی ’’مضبوطی‘‘ سامنے آ جائے گی۔ ایک ہی حلقے میں دو مختلف فرقوں کے امیدوار، جو اتحاد کے پلیٹ فارم سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں، ان کی ووٹوں کی شرح مختلف ہوگی کیونکہ کوئی بھی فرقہ دوسرے فرقے کو ووٹ دینے کے لیے تیار نہیں۔ ہمارے خیال میں مذہبی طبقہ اگر صرف ’’اپنے‘‘ ووٹوں کو ’’اکٹھا‘‘ کر لے تو بڑی بات ہے، اسے فی الحال ’’عوامی ووٹ‘‘ لینے کی ضرورت نہیں۔
یہ وہ حقائق ہیں جن کی بنا پر ہماری زبان میں ’’ملا کی دوڑ مسجد تک‘‘، ’’بسم اللہ کے گنبد میں رہنا‘‘ اور ’’دو ملاؤں میں مرغی حرام‘‘ قسم کے محاورے رائج ہو گئے ہیں۔ ان محاوروں کے طفیل علما کی بابت یہ نفسیاتی تاثر عام ہو گیا ہے کہ ان کا وژن بہت محدود ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ محاورے انگریز کے عہد میں وجود میں آئے اور انگریز نے علما کی بابت ان تاثرات کو تقویت دے کر اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی، لیکن یہ بات بھی ناقابل انکار ہے کہ طبقہ علما کی مخصوص روش نے ان محاوروں پر تصدیق کی مہر ثبت کر دی ہے۔ ہم امید کر سکتے ہیں کہ طبقہ علما اپنے فکر وعمل کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے ایسا طرز عمل اختیار کرے گا کہ لوگ انہیں اپنی ’’آخرت کا محافظ‘‘ سمجھنے کے ساتھ ساتھ اپنی ’’دنیا کا نگہبان‘‘ بھی سمجھنے لگیں اور ان کے پیچھے نمازیں پڑھنے کے ساتھ ساتھ انتخابات میں انہیں ووٹ بھی دینے لگیں۔