کہتے ہیں جب بہت بڑا خطرہ سامنے ہو تو دو شدید دشمن بھی، باہمی دشمنی بھلا کر اس کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔ مثلاً سیلاب کے بہت بڑے ریلے میں بہتا ہوا درخت، سانپ، نیولے اور بندر وغیرہ کے لیے یکساں حفاظت کا سبب بن سکتا ہے۔ ایک دوسرے کے جانی دشمن مختلف جانور سیلاب تھمنے تک ایک دوسرے پر حملہ نہیں کرتے۔ بڑی حیرت کی بات ہے کہ برصغیر پاکستان وہند میں ایک نہیں کئی بڑے مشترکہ خطرات موجود ہیں مثلاً غربت، افلاس، پس ماندگی، مغربی ممالک کی اجارہ داری وغیرہ لیکن یہ دونوں ممالک مشترکہ مہیب خطرات کے باوجود ایک دوسرے پر غرا رہے ہیں۔ بھارت کا طرز عمل دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ وہ ہم پر پھنکار رہا ہے۔ دونوں ممالک اگر ’’حیوانی جبلت‘‘ کی سطح پر ہوتے تو شاید مشترکہ خطرات کے پیش نظر پر امن رہتے لیکن شعور کی ’’انسانی‘‘ سطح نے باہمی عدم اعتماد کو فروغ دیتے ہوئے بہت سے خود ساختہ مسائل پیدا کر رکھے ہیں۔ یہ کہتے ہوئے بڑا عجیب سا لگ رہا ہے کہ برصغیر پاکستان وہند کے عوام کو جنگ سے محفوظ رکھنے کے لیے دونوں ممالک کے حکمرانوں کو کم از کم ’’حیوانی جبلت‘‘ کا ہی مظاہرہ کرنا چاہیے۔
سوال یہ ہے کہ جب سرد جنگ کے دوران میں شمالی امریکہ اور سابق سوویت یونین ایک دوسرے سے تعاون کر سکتے ہیں اور لاطینی امریکہ میں دو بنیادی حریف ممالک برازیل اور ارجنٹائن اس حد تک متفق ہو سکتے ہیں کہ دونوں ایٹمی دوڑ شروع نہیں کریں گے، خاص طور پر اس تناظر میں کہ برازیل شمالی امریکہ سے بڑا رقبہ رکھتا ہے اور قدرتی دولت سے مالا مال ہے۔ اس ملک کی فی کس آمدنی بھارت اور پاکستان دونوں سے بہت زیادہ ہے ۔ یہ ملک ایٹمی مہم جوئی کا آغاز کر سکتا تھا اور جواباً ارجنٹائن کو بھی لازماً ایسا ہی کرنا پڑتا لیکن دونوں ممالک نے مذاکرات کے ذریعے سے اس امر پر اتفاق کیا کہ عوام کی خوش حالی کے لیے ملکی وسائل معاشی ترقی کے لیے وقف کر دینے چاہییں۔ اسی طرح بھارت پاکستان کی نسبت ایک بڑا ملک ہے، اسے بھی برازیل کی طرح ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا چاہیے لیکن دن بدن بھارتی رویہ غیر معقول ہوتا جا رہا ہے جس سے جنوبی ایشیا غیر یقینی صورت حال کا سامنا کر رہا ہے۔
توازن طاقت کی گیم میں بھارت پاکستان کو اپنے برابر نہیں سمجھتا۔ اس خطے کے اندر اس کی نظریں چین پر مرکوز ہیں۔ مغربی ممالک کے ساتھ چین کے بڑھتے ہوئے تعلقات نے تجارتی اور ٹیکنالوجیکل تبادلوں کو فروغ دیا ہے جس سے دنیا کے معاملات میں چین کو Visible اور assertive A رول ملتا معلوم ہوتا ہے۔ اندریں صورت بھارت ہاتھ پاؤں ما ررہا ہے۔ گاندھی اور نہرو کے آئیڈیل ازم کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ مغربی ممالک کے حاشیہ بردار بن کر بھارتی عزائم عالمی نوعیت کے ہوتے جا رہے ہیں۔ پچھلے چند سالوں سے جاری بھارتی رویے کا اگر تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کچھ تو اندرونی تحفظات کی خاطر اور کچھ استعماری مقاصد کی خاطر بھارت علاقائی کے بجائے گلوبل لیڈر شپ چاہتا ہے۔ اس سلسلے میں پہلی ایٹمی آبدوز تقریباً تیار کر لی گئی ہے جس کے لیے روس نے بھرپور تعاون کیا۔ ماہرین کی رائے ہے کہ اس آبدوز کو ایس ایل بی ایم (Sagarika Sea-launched ballistic missile)سے مسلح کیا جائے گا۔ ایک رپورٹ کے مطابق sagarika کی تیاری میں بھی روس بھارت کے ساتھ تعاون کر رہا ہے۔ اس میزائل کی رینج تقریباً تین سو کلو میٹر بتائی جاتی ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ بھارت اس ایٹمی آبدوز کے بل بوتے پر تجارتی راستوں کا ’’جگا‘‘ بن سکتا ہے کیونکہ یورپ، مشرق بعید اور مشرق وسطیٰ کے تجارتی راستے اس کے نشانے پر ہوں گے جن پرجاپان اور آسیان ممالک کی معیشتوں کا انحصار ہے۔ بھارتی قیادت کو سوچنا چاہیے کہ امریکہ سے جنگی مشقوں کے باوجود کیا وہ امریکی مفادات کے خلاف کام کر سکیں گے؟ مشرق وسطیٰ اور جاپان میں کسی بھی قسم کی معاشی مہم جوئی سے امریکی مفادات براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔ آسیان میں بے حد اہم سمندری راستوں کی موجودگی کے سبب کیا چین سکوت حکیمانہ ہی اختیار کرے گا؟ آنے والے دنوں میں برتری کا دعویٰ geo-economic بنیاد پر ہوگا نہ کہ geo-political بنیاد پر۔
ایٹمی قوت کو طاقت کی کرنسی قرار دینے والے ملک کو اس امر کا لحاظ رکھنا چاہیے کہ طاقت ہر مسئلے کا حل نہیں ہے ورنہ سوویت یونین ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہ ہوتا۔ بھارت کے اندر شدت سے اٹھتا ہوا ہندو انتہا پسندی کا ریلا ایٹمی قوت کو پاتال میں دھکیل سکتا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف بڑھتا ہوا ظلم وستم اور ہندو انتہا پسند تحریکات کا احیا بھارت کے مستقبل کی بابت منفی تصویر پیش کرتا ہے۔ مسلمانوں کو دوبارہ ہندو بنانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ان کے مذہبی مقامات کا تقدس مجروح کیا جارہا ہے۔
آج کا بھارت بیسویں صدی کے تیسرے عشرے کی بازگشت ہے اور ہندو انتہا پسندوں کے بیانات صدائے بازگشت۔ اگر ہندوؤں کا یہی رویہ جاری رہا تو ۱۹۴۷ء کی طرح ۲۰۴۷ء سے پہلے ہی ایک اورپاکستان بھارت کی کوکھ سے جنم لے گا۔ بھارتیوں کے عالمی قوت بننے کے خواب دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، پاکستان نے ایٹمی قوت بننے کے بعد ہمیشہ ذمہ دارانہ طرز عمل اختیار کیا ہے۔ یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان کو ایٹمی قوت بھی بھارت کی وجہ سے بننا پڑا۔ بھارت نے برازیل جیسا طرز عمل اختیار نہیں کیا۔ ہندوؤں کا وہ ہندوستان جو کبھی چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں منقسم تھا اور تہذیبی اور اخلاقی پس ماندگی کا شکار تھا، مسلمانوں کے آنے سے نہ صرف وحدت آشنا ہوا بلکہ انسانیت سے بھی متعارف ہوا۔ وہ آج روس اور مغربی ممالک سے قربت کی پینگیں بڑھانے کی بدولت طاقت کی کرنسی رکھتا ہے لیکن اس کی قدیم نفسیات لوٹ آئی ہے۔ بھارت کا ایٹمی قوت بن کر خود کشی پرمبنی پالیسیاں اختیار کرنا اس محاورے کی صداقت کو مزید روشن کر دیتا ہے کہ ’’خدا گنجے کو ناخن نہ دے‘‘ بہتر یہی ہے کہ بھارت عالمی طاقت بننے کے بجائے خطے کے دوسرے ممالک کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے اپنے عوام کی خوش حالی کے لیے معاشی پروگرام تشکیل دے۔