پیٹ معذور ہوتا ہے

پروفیسر میاں انعام الرحمن

وہ بے چینی سے ہاتھ پر ہاتھ مسل رہا تھا۔ بھاری بھرکم کھردرے ہاتھوں پر جمی ہوئی پتلی سی سیاہی صاف چغلی کھا رہی تھی کہ یہ ’’دستِ محنت‘‘ ہیں۔ اپنا خون پسینہ ایک کرکے روزی کمانے والا پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے سوالی بننے پر مجبور ہو گیا تھا۔ .......’’یقین کریں باؤ صاحب، میں مانگنے والا نہیں ہوں۔ ........ بڑا عجیب سا لگ رہا ہے۔ ...... شرم آ رہی ہے۔ میں تو ..... میں تو جی کاری گر ہوں۔ لوہے کی الماریاں مرمت کرتا ہوں۔ ہفتہ ہو گیا ہے کام نہیں ملا۔ ...... میرے پاس ڈیڑھ سو روپے تھے، وہ ختم ہو گئے ہیں۔ ..... اگر ..... اگر آپ ......‘‘ اس سے آگے کچھ کہنے سے وہ ہچکچا رہا تھا۔ میرا خیال تھا وہ کرایے وغیرہ کے لیے پچاس، سو روپے کا تقاضا کرے گا لیکن جب بات ’’اگر آپ......‘‘ سے آگے بڑھی تو میں حقیقتاً چونک اٹھا۔ وہ صرف ’’روٹی‘‘ کھانے کے لیے پیسے مانگ رہا تھا۔ اس کے کھردرے ہاتھوں کی سختی اس کی ’’انا‘‘ کی حفاظت نہ کر پائی تھی۔ میں نے پریشان سے انداز میں جیب میں ہاتھ ڈالا اور حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے دس روپے کی ’’خطیر رقم‘‘ اس کے حوالے کر دی۔ اگر اس وقت اس سے ذرا بڑھ کر مدد کرنے کی کوشش کرتا تو بجٹ درہم برہم ہونے سے ’’پروفیسری‘‘ تہی دامن ہو جاتی۔ اس کے ہاتھوں کا کھردرا پن، ان پر جمی ہوئی ہلکی سی سیاہی، بھرائی ہوئی آواز اور لہجے سے امڈتی سچائی ، یہ سب چیزیں اسے پیشہ ور بھکاری سمجھنے میں مانع ہو رہی تھیں۔ پھر اس نے پوچھا، ’’باؤ جی آپ کیا کام کرتے ہیں؟‘‘ ’’کالج میں پڑھاتا ہوں۔‘‘ میرے جواب پر اس نے خالصتاً ’’کامی‘‘ لوگوں کی طرح مشتاق ہو کر کہا، ’’کالج میں بھی الماریوں کی مرمت کا بہت سا کام ہوتا ہے، بنچ وغیرہ بھی ہوتے ہیں، امتحانی کرسیاں بھی ہوتی ہیں۔ ..... میں کالج میں حاضر ہو جاؤں؟‘‘ اس کے سوالیہ انداز کو میں نے سیاست دانوں کی طرح ٹالتے ہوئے کہا کہ کالج میں ایسے کام عموماً گرمیوں کی چھٹیوں میں ہوتے ہیں۔ ویسے بھی ہر کام ایک Process سے ہوتا ہے۔ کالج میں ایک مخصوص کمیٹی ہی یہ کام کروا سکتی ہے۔ اگر تم دل چسپی رکھتے ہو تو کالج کی اس کمیٹی سے رابطہ کر لو۔ یوں میں نے اسے ٹال دیا۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ میں اس کی مدد کرنے سے قاصر تھا۔ بحیثیت پروفیسر میں خود ’’سرخ فیتے‘‘ کا شکار رہا ہوں، بھلا اس کے لیے کیا کر سکتا تھا؟ آخر Process بھی کوئی چیز ہے، اگر معاملہ میرے اور اس جیسے لوگوں کا ہو۔ اور اگر ’’ہاتھ پڑتا‘‘ ہو تو دستور بھی کوئی چیز نہیں۔

اس شخص کے لہجے کی سچائی اور شکستگی نے دل میں غبار بھر دیا۔ ذہن کی یہ حالت تھی جیسے کسی نے جامد پانی میں لگاتار پتھر پھینک کر ہلچل مچا دی ہو۔ ایک نہ تھمنے والے اضطراب نے ذہن کے ایک گوشے میں مستقل پڑا ڈال لیا۔ کیا پیٹ کی ’’انا‘‘ نہیں ہوتی؟ یہ اور اس جیسے کئی سوالات تھے جو کم از کم ایک لمحے کے لیے سہی، کسی کو بھی جھنجھوڑ سکتے ہیں۔ 

یہ واقعہ مجھے اس واقعے کی بازگشت معلوم ہوا جب ایک مرتبہ ایک اچھے خاصے سفید پوش قسم کے صاحب ملے اور کہا کہ آپ سے بات کرنی ہے۔ میں نے کہا، فرمائیے۔ انہوں نے اصرار سے گھر لے جانے کو کہا۔ میں گھر لے آیا، چائے سے تواضع کی۔ اس کے بعد ان صاحب نے جو حرکت کی، میں لرز کر رہ گیا۔ میرے خواب وخیال میں بھی نہ تھا کہ وہ ایسا کر گزریں گے۔

خواب بھی خواب ہوئے اب تو یہاں پر یارو

وہ اچانک اٹھے اور میرے گھٹنے پکڑ کر تھکے تھکے لہجے میں انتہائی لجاجت اور بے چارگی سے کہا، ’’میں بہت مجبور ہوں۔ اگر آپ ایک سو روپے عنایت فرمائیں تو زندگی بھر احسان مند رہوں گا۔ چند ہی روز میں آپ کو واپس کر دوں گا۔‘‘ میں تو اپنے گھٹنے پکڑے جانے پر ششدر تھا، تقریباً سکتے کی حالت میں تھا۔ ہوش میں آنے پر شرمندگی سے گھڑوں نہیں سمندروں پانی میں نہا گیا۔ جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے اکثر علاقوں میں ہو سکتا ہے یہ معمول کی حرکت ہو لیکن میرے لیے گھٹنے پکڑے جانا ایک غیر معمولی واقعہ تھا۔ شاید یہ اس سمندروں پانی میں نہانے کا نتیجہ ہے کہ اس کی چھوڑی ہوئی ’’تری‘‘ لفظوں میں ڈھل کر تحریر کی صورت میں ’’خشک ‘‘ہو رہی ہے۔ میرا خیال ہے یہ تری کبھی ختم نہیں ہوگی۔ خیر! میں نے ان صاحب کو سو روپے دیے اور ڈھارس بندھاتے ہوئے کہا کہ آپ ذہن پر بوجھ نہ ڈالیں، یہ آپ کی اپنی رقم ہے۔ ہم اجنبی سہی، لیکن آپ کا مجھ پر کوئی حق بھی ہے۔

ذہن پر ان واقعات کے نقوش ابھی دھندلے نہیں ہوئے تھے کہ خبر آئی، جنرل پرویز مشرف نے ’’صدر‘‘ کی تنخواہ میں اضافہ کر دیا ہے۔ یہ خبر پڑھ کر نواب وقار الملک کے وہ الفاظ یاد آ گئے جو انہوں نے تقسیمِ بنگال کی تنسیخ پر کہے تھے:

’’حکومت کا یہ اقدام مسلمانوں کی لاشوں پر سے توپ خانہ گزارنے کے مترادف ہے جو اس امر کا احساس کیے بغیر گزارا گیا ہو کہ شاید ان میں سے کچھ لاشیں نیم جان ہوں۔‘‘

صدر محترم! معاشی بے انصافی اور معاشرتی بے یقینی کے تھپیڑوں سے یہ قوم نیم جان ضرور ہوئی ہے، ابھی مری نہیں۔ خدارا صدارتی مراعات جیسے توپ خانے اس پر سے مت گزاریے۔ اپنی ’’انا‘‘ کی تسکین کے لیے لاکھوں اناؤں کو قربان مت کیجیے۔ ایک طرف ایڈہاک لیکچررز کو چھٹی کرا دی گئی ہے اور دوسری طرف ......۔

صدر محترم! دستِ محنت کو سوالی بنانے کے بجائے میدانِ محنت کی کشادگی کا بندوبست کیجیے۔ ہمارے وطن میں دستِ محنت کی کمی نہیں، بس میدانِ محنت نایاب ہے۔ قاضی صاحب نے رہائی کے بعد جو بیانات دیے ہیں، ان کا لفظ لفظ سچ پر مبنی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے الفاظ نہیں، کیل ہیں جو ایک ایک کر کے دماغ میں ٹھونکے جا رہے ہیں۔ لیکن قاضی صاحب! کیا کریں، پیٹ کا دماغ نہیں ہوتا اس لیے قوم پر آپ کی کسی بات کا کوئی اثر نہیں ہو رہا۔ جذباتی نعرے لگانے والے اور فصیح وبلیغ تقریریں کرنے والے بھی یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ پیٹ کے کان نہیں ہوتے۔ پیٹ کی آنکھیں بھی نہیں ہوتیں۔ پیٹ تو بس پیٹ ہوتا ہے۔ ہاں، پیٹ معذور ہوتا ہے۔

آراء و افکار

(اپریل ۲۰۰۲ء)

تلاش

Flag Counter