مغربی طاقتیں اور پاکستان کی سلامتی

پروفیسر میاں انعام الرحمن

مغربی طاقتوں کے موجودہ رویے کی بنیاد دوسری جنگ عظیم کے دوران میں ایٹم بم کے استعمال میں ٹریس کی جا سکتی ہے۔ بہ نظر غائر معلوم ہو جاتا ہے کہ ان طاقتوں کا مقصد دنیا میں امن کا قیام اور لوگوں کی عمومی خوش حالی نہیں بلکہ طاقت کے بل بوتے پر اپنی برتری قائم کرنا ہے۔ایٹم بم کی تباہی کے پیش نظر چاہیے تو یہ تھا کہ اس کی روک تھام اور خاتمے کے لیے موثر اقدامات کیے جاتے لیکن مغربی طاقتوں نے اپنے مخصوص مزاج کی بنا پر اس کو ایک موثر ہتھیار کے طور پر اپنا لیا۔ اس طرح بعد از جنگ کا عہد ایٹمی دوڑ کا عہد بن گیا۔ اس ایٹمی دوڑ کے جنگ جویانہ اثرات فلموں کے ذریعے سے پورے مغربی معاشرے میں سرایت کر گئے۔ اگر تحلیل نفسی کا کوئی سنجیدہ ماہر غیر جانب دارانہ اور معروضی انداز سے مغربی معاشرے کا تجزیہ کرے تو اس پر اس ’’مہذب‘‘ معاشرے کی حقیقت بہت جلد عیاں ہو جائے گی۔

قوت وطاقت کے بل بوتے پر اپنی برتری کے اظہار کی تازہ ترین کاوش وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا میں کی جا رہی ہے۔ بد امنی اور باہمی منافرت کے گڑھ افغانستان میں طالبان نے کم از کم امن وامان قائم کر لیا تھا۔ مخصوص صورتِ حال میں کسی بھی نوخیز حکومت کے لیے یہ بہت کریڈٹ کی بات تھی۔ ترقی وخوش حالی کے اقدامات امن وامان سے مشروط اور اس کے بعد کی بات تھے۔ اس اعتبار سے ترجیحات کے تعین میں طالبان نے کوئی غلطی نہیں کی تھی۔ لیکن یہی ان کی غلطی بھی ہے۔ بھلا ایٹمی دوڑ کے خالقوں کو امن وامان کیسے راس آ سکتا تھا اور پھر ایسا امن وامان جو وسیع ہوتے ہوئے‘ ان کی قوت وطاقت پر استوار برتری کے لیے چیلنج بھی بن سکتا تھا۔ اپنی مخصوص تخریبی نفسیات کی وجہ سے مغربی طاقتیں افغانستان پر چڑھ دوڑیں اور ان کے معاشرے کی اکثریت نے ان کے اس اقدام کی حمایت وتصدیق کرنے میں دیر نہیں لگائی کیونکہ مخصوص تربیت کی وجہ سے مغربی معاشرہ امن کا خواہاں نہیں ہو سکتا۔ ان کی تہذیب اور شائستگی دوسروں کی لوٹ مار اور حق تلفی سے مشروط ہے۔ مغربی طاقتوں نے طالبان کے افغانستان میں مداخلت کر کے کچھ اس طرح کی گھمبیر صورتِ حال پیدا کی ہے جس سے وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا میں امن وامان اور تحفظ وسلامتی کا مسئلہ سنگین تر ہو گیا ہے۔ اس کا مختصر سا جائزہ درج ذیل ہے:

۱۔ طالبان حکومت کو مغربی طاقتوں نے تسلیم نہیں کیا تھا۔ اگر تسلیم نہ کرنے کی وجہ چار پانچ سال پہلے بھی موجود تھی تو پھر اسی وقت طالبان حکومت کو ختم کرنے کے اقدامات کیوں نہیں کیے گئے؟ آخر اتنے سال چھوٹ دینے کی کوئی وجہ تو ہوگی۔ بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ مغربی طاقتیں چاہتی تھیں کہ طالبان افغانستان پر کنٹرول کر لیں اور کچھ پر پرزے بھی نکال لیں تاکہ ان کی ٹھکائی کے بہانے یہاں آنے کا موقع مل سکے۔ اگر بہت شروع میں طالبان حکومت کے خلاف کارروائی کی جاتی تو اس کا دائرہ کار بہت مختصر ہوتا اور مغربی طاقتوں کے مخصوص مفادات پورے نہ ہوتے۔

۲۔ اب افغانستان کو ’’دوسرا کشمیر‘‘بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پاکستان کے لیے جتنی اہمیت کشمیر کی ہے‘ اتنی ہی اہمیت افغانستان کی بھی ہے:

(i) کشمیر میں بھارتی فوج ہے جبکہ افغانستان میں امریکی وبرطانوی فوج یا کم از کم پسِ پردہ کنٹرول انہی کا ہوگا۔

(ii) کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت تھی اور وہ پاکستان سے الحاق چاہتے تھے لیکن اس وقت کشمیر میں کم از کم تین گروپ موجود ہیں: ۱۔ پاکستان کے ساتھ الحاق کے حامی‘ ۲۔ بھارت کے ساتھ الحاق کے حامی اور ۳۔ خود مختار کشمیر کے حامی۔ اسی طرح طالبان کا افغانستان پاکستان کا مکمل حامی تھا لیکن اس وقت تین گروہ ابھر رہے ہیں اور جنہیں ابھارنے کی بھرپور کوششیں ہو رہی ہیں‘ اس پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ بہرحال جس طرح کشمیر میں مصنوعی انداز سے گروہ پیدا کیے گئے ہیں‘ اسی انداز سے افغانستان میں قبائلی عصبیت کو ہوا دی جا رہی ہے۔

۳۔ پاک بھارت جنگوں کے دوران میں شاہِ ایران نے افغانستان کو کسی بھی قسم کی چھیڑ خانی سے باز رکھا تھا۔ اب افغانستان میں طالبان طرز کی دوست حکومت موجود نہیں۔ پھر طالبان حکومت پاکستان اور ایران کے مابین وجہ نزاع بھی رہی ہے جس سے دونوں ملکوں کے تعلقات اونچ نیچ کا شکار ہوئے۔ایران اب بھی سابقہ تجربے کی بنا پر تحفظات کا شکار ہوگا لہذا اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ ایران‘ پاک بھارت کشیدگی کے دوران شاہِ ایران کے عہد والا کردار ادا نہ کرے۔ اسی بات سے ایک اور نکتہ سامنے آتا ہے کہ مغربی طاقتوں کا طالبان حکومت کو چار پانچ سال تک ڈھیل دینے میں ایک مقصد یہ بھی تھا کہ پاکستان ایران تعلقات کشیدہ ہوں تاکہ پاک بھارت کشمکش کے دوران میں افغان بارڈر پر دباؤ بڑھاتے ہوئے مشرقی بارڈر پر پاکستان کو کسی کمپرومائز پر مجبور کیا جا سکے۔

۴۔ پھر خارجی محاذ پر ایسے دباؤ سے پاکستان داخلی اعتبار سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگا اور واقعتاً ایسا ہی ہے۔ قوم میں شدید قسم کا احساسِ بے چارگی پایا جا رہا ہے۔ صرف چین امید کی ایک کرن ہے اور وہ بھی اس لیے کہ پاکستان اس کی اسٹرٹیجک ضرورت ہے۔

۵۔ کشمیر میں تین موثر گروہوں کی موجودگی اور افغانستان میں کثیر نسلی حکومت کے قیام سے پاکستان بھی معاشرتی گروہ بندیوں کا شکار ہو سکتا ہے جس سے داخلی ٹوٹ پھوٹ اپنے منطقی انجام کو پہنچے گی۔

۶۔ وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کے سنگم پر واقع ہونے کی وجہ سے پاکستان کو درپیش سنگین حالات کے اثرات دونوں خطوں پرمرتب ہوں گے جس سے بے یقینی اور عدم تحفظ کا احساس پھیلے گا۔

ان نکات کے پیش نظر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مغربی طاقتوں کا ٹارگٹ پاکستان کی سلامتی اور وحدت کو پارہ پارہ کرنا ہے۔ کشمیر پر پاکستان کو کسی مصنوعی حل پر کمپرومائز کے لیے مجبور کیا جا سکتا ہے۔ یہ حل بہت سارے مسائل کو جنم دے گا۔ اس طرح مسئلہ کشمیر حل ہونے کے باوجود سنگین نوعیت کے مسائل بدستور موجود رہیں گے۔ ان کا اظہار معاشرتی گروہ بندیوں کی صورت میں ہوگا۔ افغان بحران کی وجہ سے ہمارا معاشرہ پہلے ہی تقسیم ہوتا نظر آ رہا ہے۔ کشمیر کا کوئی بھی مصنوعی حل مزید تقسیم در تقسیم کا باعث ثابت ہوگا۔ پاکستان کی سیاسی وجغرافیائی وحدت شاید کسی علاقائی طاقت کے مفاد میں ہو اور وہ اس وحدت کی بقا کے لیے پاکستان کی پشت پر موجود بھی رہے لیکن پاکستان کی سماجی وحدت اس علاقائی طاقت کے لیے بھی ایک خطرہ ہے لہذا سماجی وحدت کا شیرازہ بکھیرنے میں یہ علاقائی طاقت‘ مغربی طاقتوں کی ممد ومعاون ثابت ہوگی۔

ہم کہہ سکتے ہیں کہ مغربی طاقتیں فلسطین کی طرز پر مزید پیچیدگیوں کا حامل کوئی حل مسلط کر سکتی ہیں جس سے مشرقِ وسطیٰ کی طرح‘ جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا مستقل غیر یقینی کیفیت کا شکار رہیں گے۔ اب تک اختیار کی گئی پالیسیوں کے تناظر میں‘ مغربی طاقتیں اس غیر یقینی کی کیفیت اور عدم تحفظ کے احساس کے پھیلاؤ کے لیے کام کرتی نظر آ رہی ہیں۔ ان کے ماضی کے کردار کے پیش نظر یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔

پاکستان ۔ قومی و ملی مسائل

(جنوری ۲۰۰۲ء)

تلاش

Flag Counter