چشم کو چاہیے ہر رنگ میں وا ہو جانا

پروفیسر میاں انعام الرحمن

’’دنیا میں کیا کچھ موجود ہے جس کی مجھے ضرورت نہیں ہے‘‘۔ ایتھنز کے بازاروں میں عیش و عشرت کا قیمتی ساز و سامان دیکھ کر یہ تاریخی الفاظ سقراط نے کہے تھے۔ اس فقرے میں مضمر دلالتوں اور ابدی صداقتوں نے ’’شہرِ ہجر‘‘ کی تفہیم کو Order کرنے اور نقد و تبصرہ کے لیے راستہ وا کرنے میں میری بڑی معاونت کی۔ میں حیران تھا، چناب کنارے گجرات جیسے زرخیز خطے میں رہنے والا شخص اپنے تخیل میں ’’صحرا‘‘ کیوں بسائے ہوئے ہے، نہ صرف صحرا بلکہ اس کے کچھ Shades، جیسے ریگ، لمحہ، رنج، وداع۔ صحرا میں رنگارنگی، رعنائی اور تنوع نہیں ہوتا، لیکن صحرا ہے وسعت کی علامت۔ اگر ہم سقراط کے محولا بالا مقولے سے مدد لینا چاہیں تو بات کچھ بنتی نظر آتی ہے کہ طارق اشیاء کا رسیا نہیں، اس کا وژن Cosmic ہے۔ وہ زمانی تناظر کی راہنمائی میں تدبر و تفکر کرتا ہے، معاشرتی زندگی کے مادی لوازمات پرکشش سہی، لیکن ہمارے شاعر کے تفکر کو پامال نہیں کر سکے کہ اس کے نزدیک ان کی چنداں اہمیت نہیں۔

اس کی دوسری وجہ، طارق کی ملتان میں سکونت ہو سکتی ہے۔ میرے علم کے مطابق ’’شہر ہجرت‘‘ کا خالق کچھ عرصہ ملتان میں رہائش پذیر رہا ہے۔ شاید طارق کے لیے شہر ملتان، شہر نگاراں بن گیا ہے۔ ملتان اگرچہ صحرائی علاقہ نہیں لیکن اس میں صحرائی ٹچ بہرحال موجود ہے۔ یہ صحرائی ٹچ ان کے تحت الشعور پر ڈیرہ جمائے بیٹھا ہے۔ طارق کی شاعری کا ایک اور عنصر، اس کے اس ملتانی حوالے کو تقویت دیتا ہے، کوئی ظاہر بین بھی بھانپ لے گا کہ ان کے کلام میں صوفیانہ رنگ بھرپور موجود ہے۔ ملتان کا اس ضمن میں تعارف کرانا ضروری معلوم نہیں ہوتا۔

اس کی تیسری وجہ پاکستان اور مسلم دنیا کی حالتِ زار بھی ہو سکتی ہے، کیونکہ ایسی ہی صورت حال تھی جب ٹی ایس ایلیٹ نے مغربی دنیا کے انہدام و شکست و ریخت کو Wasteland میں قلم بند کیا۔ طارق نے Wasteland کا ترجمہ صحرا کیا ہے۔

اس پس منظر میں ’’صحرا‘‘ طارق کی داخلی معروضیت کے اظہار کے ساتھ ساتھ استعارہ بن جاتا ہے۔ اگر آپ صحرا کو Depersonify کریں تو ’’رنج‘‘ ابھر آتا ہے۔ یوں صحرا کی ویرانی اور دہشت ’’رنج و وداع‘‘ جیسے لفظوں کو بار بار استعمال کرنے کا موجب بنتی ہے۔ ایسی صورت حال میں ہمارے شاعر کے لیے ایک راستہ رہ جاتا ہے کہ وہ سخن طرازی کے لیے خود اپنی ذات میں جھانکے، اپنے اندر مجمع لگائے اور اس میں مضمر تنوع، ہمہ رنگی کا عرفان حاصل کرے تاکہ منصبِ تخلیق کے تقاضے پورے ہو سکیں اور پھر یہ تخلیق مغائرت محض Pure Alienation پر مبنی نہ ہو کہ انسانی ذات کی موضوعی صداقتیں اظہار و ابلاغ نہ پا سکیں۔ ہاں ہمارا شاعر ہر حالت، ہر کیفیت میں اپنی آنکھ کھلی رکھتا ہے اور یہ بنیادی پیغام دیتا ہے کہ اگر آپ دانش و فرزانگی کے متلاشی ہیں تو ادھر ادھر جھک مت مارئیے، اپنے سے بڑی دانش، آپ کو اپنے ہی اندر ملے گی۔ طارق کی تخیلی فکر کا یہ پیغام مجھے بے اختیار، ژونگ کا یہ فقرہ یاد دلاتا ہے ’’لاشعور کی دانش‘‘۔ یہیں پر ’’دید‘‘ بھی شہر ہجرت میں بنیادی حیثیت سے رونق افروز ہو جاتی ہے۔ صحرا کے حوالے سے صرف یہی شعر ملاحظہ فرمائیں ؎

جھلک رہا تھا کہیں دور صبح کا چہرہ
کسی کے دھیان میں صحرائے جاں سلگتا رہا

صحرائے جاں کی ترکیب نہایت خوبی سے استعارۃً استعمال کی گئی ہے۔ پہلے مصرعے میں ’’کہیں دور‘‘ نے شعر کے صحرائی ٹچ کو بہت نمایاں کیا ہے۔ ’’کہیں دور‘‘ اور ’’سلگتا رہا‘‘ لمحہ رواں معلوم ہوتے ہیں۔ ماضی، حال، مستقبل اس لمحہ رواں میں سمٹ آئے ہیں۔ پیکارِ مسلسل کی صورت میں ہمارا شاعر اس ’’لمحے‘‘ سے قربتیں بڑھاتا نظر آتا ہے ؎

یوں لمحہ لمحہ کٹتے ہوئے کٹ ہی جائے گی
طارق زمانوں کی یہ مسافت کسی گھڑی

اس شعر میں تقریباً تمام مترادفات استعمال کیے گئے ہیں۔ لمحہ، زمانوں، گھڑی، پھر مسافت اور کٹنا بھی ضمناً مترادفات میں آجائیں گے کیونکہ مسافت لمحوں کے بغیر ناممکن ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ طارق محدود الفاظ میں نہایت خوبصورت انداز سے بہت بامعنی بات کہہ سکتا ہے۔ یہ شعر دیکھئے ؎

لمحہ خواب وداع مانگنے آیا طارق
سایہ خواب نے اک عمر رفاقت چاہی

لفظ وداع بھی آپ کو اس شعری مجموعے میں بار بار ملے گا۔ معلوم ہوتا ہے کہ طارق آئینِ نو سے ڈرتا نہیں۔ طرزِ کہن پر اڑتا نہیں، وداع انہی معنوں پر دلالت کرتا ہے۔ لمحہ خواب اور سایہ خواب پر غور کریں۔ غالباً لمحہ خواب خارجی اور متجسم معنوں میں استعمال ہوا ہے اور خواب داخلی اور تجریدی معنوں میں۔ کہتے ہیں چوٹ گرم ہو تو شدت کا احساس نہیں ہوتا۔ لمحہ خواب گرم چوٹ کی طرح ہے اور سایہ خواب ما بعد کی کیفیات جو نہ صرف دیرپا ہوتی ہیں بلکہ تکلیف بھی ہوتی ہیں۔ دید اور خواب کے حوالے سے یہ شعر ملاحظہ فرمائیں ؎

اک دید میں ہوتا ہے ودع یار اے طارق
اک دید میں دائم سبھی خواب گزراں ہیں

دائم کے ساتھ خواب گزراں بہت خوبی سے استعمال ہوا ہے۔ خواب ندی کی مانند متعین اور متحرک ہوتا ہے۔ ندی کے دو متوازی چلتے ہوئے کنارے جہاں ندی کو متعین کرتے ہیں وہیں مسلسل آگے بڑھتا ہوا پانی ہمہ وقت متحرک ہوتا ہے۔ خواب گزراں ایسا ہی بہتا ہوا پانی ہے اور آپ یہ تو جانتے ہیں کہ ایک ہی ندی میں دوبار نہیں نہایا جا سکتا۔

شہر ہجر کے بالاستیعاب مطالعہ سے طارق کی نفسی کیفیت کھل کر سامنے آتی ہے۔ جدت اور تخلیقی ایج کے باوجود ہمارا شاعر اپنی ذات سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔ اس کے تفکر و تخیل میں داخلیت بھری پڑی ہے۔ صحرا کا استعارہ اسے اپنی ذات میں گم کرنے کا باعث بنتا ہے کہ خارجی واقعیت موافقِ حال نہیں  ؎

خود اپنے بجز کچھ نہیں اندوختہ میرا
جو بھی مری صدیوں کی بضاعت ہے میں خود ہوں

اگر سرسری نظر سے دیکھیں تو اس میں وجودی رنگ جھلکتا ہے لیکن ’’صدیوں کی بضاعت‘‘ سے صرف ماورائیت کا اظہار ہوتا ہے بلکہ ’’میں‘‘، ’’ہم‘‘ کا روپ دھار لیتا ہے۔ ہمارا شاعر داخلی سفر پر آمادہ ہے، اپنی ذاتی حیثیت سے نہیں بلکہ بحیثیت انسان ۔۔۔ کہ انسان کا اندوختہ انسان ہے  ؎

چھونے کو عالمِ انفس ہی کے آفاق بہت
سوئے انفس بھی اگر اپنی نظر جانے دو

اختباری روش سے محترز اپنا داخلی سفر جاری رکھتے ہوئے ہمارا شاعر ایک مقام پر بے اختیار کہتا ہے ؎

ہٹا کے خود سے نگاہیں میں اور کیا تکتا
ہر اک لحظہ تھا آشوبِ ذات کا لحظہ

یہ Self Knowing کی طرف پیش قدمی ہے۔ قدیم یونان کے سو فسطائیوں کا نعرہ تھا Assert Thyself ۔ ان کا مقابل سقراط جیسا نابغہ روزگار آیا اور ان کی آواز کو یوں پلٹایا Know Thyself ۔ آشوبِ ذات کی ترکیب اپنی تمام تر معنویت سمیت Self Knowing کے کٹھن سفر کا عنوان ہے۔ اس عنوان کے بین السطور Self Knowing کے تمام Shades بطورِ داستان موجود ہیں۔ اگر شعر کو انہماک سے پڑھیں تو یہ داستانِ سوزِ جگر اپنا طلسمی حصار قاری کے گرد قائم کر دیتی ہے اور قاری طارق کا شریکِ سفر ہو جاتا ہے۔ آشوبِ ذات کی المناکی اور کرب و اندوہ سے ہمارا شاعر مضمحل نہیں ہوتا کہ وہ ہر رنگ میں آنکھیں کھلی رکھتا ہے۔ اس کی یہ خصوصیت آشوبِ ذات کی جگر سوزی کو ارتفاعیت بخشتی ہے اور داخلی سفر کے اس مرحلے پر ہمارا شاعر اپنی کیفیت کا یوں اظہار کرتا ہے ؎

محال ہے کہ یہ صدیوں کی پیاس بجھ جائے
اتر گئے ہیں تہہ ریگ کتنے ہی دریا

ہاں Knowing Thyself قائم ہے اور قائم رہے گا، البتہ طارق ایک حل نکالتا ہے ؎

یہ پیاس وہ نہیں کہ دریا سے بجھ سکے
ہاں موجہ سراب اگر میزبان ہو

تاحال، داخلی سفر کا اختتام، علم و تیقن پر ہونا محال ہے۔ اگر کوئی سفر کی صعوبتوں سے تھک کر، اندرونی توڑپھوڑ سے بدحال ہو کر ’’موجہ سراب‘‘ کو میزبان بنا لے تو بنا لے کہ ہر شخص کی Limitations ہوتی ہیں جو بطور مسافر اس کے Potential کا تعین کرتی ہے۔ آخر وہی ہوتا ہے جو اکثر ہوتا آیا ہے  ؎

ہر کوئی اپنے لیے ہے ایک لا ینحل سوال
لفظ ہیں اور اپنے معانی ڈھونڈتے پھرتے ہیں ہم
میں خود ہوں؟ یا کوئی اور؟ یا کچھ بھی نہیں
کون ہے کس کی چاہت میں پھرتا ہوں میں

خلیل جبران کو بھی کہنا پڑا تھا کہ ’’میں کبھی لاجواب نہیں ہوا، لیکن اس شخص سے جس نے پوچھا، تم کون ہو؟‘‘۔ یہ تفکر و تدبر کا وہ مقام ہے جہاں فلسفہ ساتھ چھوڑ جاتا ہے اور تصور و سلوکیت انسان کے راہنما بن جاتے ہیں۔ ہمارا شاعر اب فلسفی نہیں رہتا۔ کیا، کیوں اور کیسے کے سوالوں سے نجات پانے کی سبیل دیکھ لیتا ہے اور کچھ یوں کلام کرتا ہے  ؎

چاک قمیص کی تو کرا لی رفوگری
اب کیوں نہ چاک دل کو بھی بازار لے چلو

یہاں لفظ ’’بازار‘‘ بہت ذو معنی معلوم ہوتا ہے۔ لیکن شہر ہجراں کے مطالعہ سے مترشح ہوتا ہے کہ طارق عشق کے ابتذالی پہلو سے، جو آرائش خم و کاکل، بادہ و ساغر اور لب و رخسار کے قصوں سے مملو ہوتا ہے، بہت دور فکر و نظر کی بلندیوں پر متمکن ہے۔ ہمارے شاعر کے ہاں زندگی کی اعلیٰ قدروں کا حوالہ Mental Reservation کی حد تک ملتا ہے۔ اس حوالے میں دانستگی شامل نہیں۔ محبت، دل سوزی، کرب و اندوہ کا احساسِ شدید اور ان سب کا خالق ایک جذبہ محیط ۔۔۔ ابنائے جنس سے گہری ہمدردی و خلوص۔ سر آغاز سے اختتام تک، طارق کا یہ جذبہ قائم و دائم نظر آتا ہے۔ اس اعتبار سے ’’بازار‘‘ کے ابتذالی معنی خارج از امکان ہی سمجھے جا سکتے ہیں۔ اس اعتبار سے ’’بازار‘‘ کے Refined اور Cultured معنوں میں استعمال کیا ہے۔ بازار سے مراد کوچہ عشق ہے اور دل کے چاک کی رفوگری محبوب حقیقی سے مطلوب ہے۔ اسی عالمِ کیف وجد میں ہمارا شاعر چند تقاضے کرتا ہے  ؎

دو گھڑی کو تو اٹھا لو یہ زمانے کا حجاب
دو گھڑی گردش افلاک ٹھہر جانے دو
تم مرے ہو تو مری ظلمتِ شب میں اک پل
اپنے پیکر کی صباحت کو بکھر جانے دو

آشوبِ ذات پر قائم کی ہوئی یہ ہمہ بینی و ہمہ دانی کی عمارت بہرحال نامکمل رہتی ہے کہ ہر معلوم ایک نامعلوم کی طرف دھکیل دیتا ہے  ؎

ازل سے محو جستجو ہوں
اے غایتِ زیست تو کہاں ہے

طارق کے کلام میں بہت تنوع ہے اور مکالمے جیسا انداز جھلکتا ہے۔ مکالمہ زندگی اور حقیقت کے قریب ہوتا ہے۔ ہمارا شاعر حقیقت پسند ہے، آنکھیں کھلی رکھتا ہے۔ اپنے فکری سفر کے ارتقاء میں کہیں پڑاؤ نہیں ڈالتا۔ سفر کو منزل کے طور پر لیتا ہے اور داستان رقم کرتا چلا جاتا ہے۔ یہ شعر ملاحظہ فرمائیں  ؎

حقیقتِ نفس الامر سے کس کو آگہی ہے
باعتبارِ خیال ہے معنی ہو کہ صورت

یہ شعر خاصا پہلودار ہے۔ ایک نظر سے دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ طارق فلسفے کے ایک مکتبہ فکر میں شامل ہو رہا ہے جو کائنات کی تفہیم کے ضمن میں ’’خیال‘‘ کو برتر مانتے ہیں کہ خیال ہی حقیقت ہے۔ اگر دوسری نظر سے دیکھیں تو یہ معنی بنتے ہیں کہ نفس الامر کی حقیقت کو جاننے میں جو بھی کاوشیں ہیں وہ تو بس اپنے اپنے خیالات میں، ورنہ کسے معلوم حقیقت کیا ہے؟

طارق کے اشعار میں شدید نوعیت کے اتار چڑھاؤ بھی موجود ہے۔ بعض مواقع پر زیادہ اضافتیں ہونے سے شعر میں تیزی پیدا ہوئی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ خیال کے ورود میں شدت ہے جس سے ہمارا شاعر نبرد آزما ہے۔ پھر اظہار ہونے سے فورًا ہی اس جوش و جذبہ کی شدت میں ٹھہراؤ سا آ جاتا ہے اور یہ ٹھہراؤ خیال یا جوش و جذبے کی جزئیات کو بیان کرنے میں طارق کا ہم رکاب ہو جاتا ہے۔

شہر ہجر اردو شاعری کی کلاسیکل روایت کا نیا ایڈیشن ہے۔ یہ نیا ایڈیشن بہرحال کچھ Version بھی رکھتا ہے۔ اس اعتبار سے مجھ سے طفلِ مکتب کی شہرِ ہجر پر خامہ فرسائی جسارت ہی معلوم ہوتی ہے۔ طارق کے کلام کی معنویت، فکری بلندی، لفظوں کی ترتیب، تراکیب، استعارے، ایک بڑے نقاد کا تقاضا کرتے ہیں جو اردو شاعری کی کلاسیکل روایت سے مکمل آگاہی رکھتا ہو اور اس کے ساتھ ساتھ سنجیدگی، غیر جانبداری، قوتِ استدلال اور اظہارِ رائے کی صفات سے متصف ہو۔ کیونکہ شہرِ ہجر، مروجہ مزاج سے خاصی مختلف ہے، اس لیے بقول نظیری یہی کہوں گا  ؎

مشتری گو رد کن و دلال گو در پا فگن
جنس گر خوب است خواہد کرد پیدا قیمتے

اگرچہ خریدار رد کرے اور دلال پامال کرے، اگر چیز اچھی ہو گی تو ضرور قیمت پائے گی۔


آراء و افکار

(اپریل ۲۰۰۰ء)

تلاش

Flag Counter