افغانستان میں امریکی پالیسی کا ایک جائزہ

پروفیسر میاں انعام الرحمن

۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر ہونے والے حملے اپنی نوعیت کے لحاظ سے حیران کر دینے والے تھے۔ عالمی سطح پر رائج رجحانات کے پس منظر میں یہ واقعہ ’’اپ سیٹ‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سے امریکہ کو فوجی، اقتصادی اور نفسیاتی حوالے سے شدید دھچکا لگا۔ نفسیاتی بازیابی تو شاید فوری ممکن نہیں ہوگی تاہم کچھ نہ کچھ مداوا کرنے کے لیے امریکہ نے کسی ثبوت اور تصدیق کے بغیر اس واقعہ کی ذمہ داری اسامہ بن لادن اور اس کے نیٹ ورک القاعدہ پر ڈال کر ان کے خلاف بین الاقوامی رائے عامہ کو ہموار کیا اور پھر عالمی تعاون حاصل کر کے افغانستان پر حملہ کر دیا۔

امریکی پالیسی وسیع تر تناظر میں

اگرچہ ’’دہشت گردی‘‘ کے خلاف امریکی مہم کئی قدم آگے بڑھ چکی ہے اور اب نظری سے زیادہ عملی نوعیت کے سوالات درپیش ہیں، لیکن یہ بنیادی سوال اب بھی غور وفکر کا محتاج ہے کہ کیا دہشت گردی کے مبینہ ملزموں کے خلاف امریکہ کے پاس ملٹری آپریشن کی صورت میں ایک ہی آپشن تھا؟

میرا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ ۱۱ ستمبر کے بعد امریکی موقف بہت غیر ذمہ دارانہ رہا۔ ثبوت فراہم کیے بغیر اسامہ کو ان کے حوالے کرنے کا امریکی مطالبہ اخلاقی اور قانونی حوالے سے قابل مذمت تھا۔ کوئی بھی آزاد اور خود مختار ریاست ایسے کسی مطالبے کو تسلیم نہیں کر سکتی لہذا افغانوں کا فیصلہ حیران کن نہیں تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ کا یہ بے جواز مطالبہ افغانستان میں مداخلت کے لیے محض ایک بہانہ تھا۔ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی تباہی سے اس کا جو نقصان ہوا، سو ہوا لیکن اب وہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے راکھ کے اس ڈھیر سے مفادات کی نئی عمارت تعمیر کرنا چاہتا تھا۔ امریکی پالیسی سازوں نے حقیقتاً وقت سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔

اس سلسلے میں ایک فرضیے پر غور کیجیے تو امریکی عزائم کی نوعیت اور ان کی پالیسی کے تزویراتی مضمرات (Strategic implications)کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ افغانستان پر امریکی حملہ اصل ہدف سے توجہ ہٹانے کے لیے کیا گیا ہو؟ یعنی امریکہ کا اصل ہدف تو کہیں اور ہو اور دنیا اور عالم اسلام کی توجہ افغانستان پر مبذول کرا کے وہ اپنے اصل ہدف پر خفیہ کام کر رہا ہو؟ اگر اس سوال کا جواب ہاں میں ہے تو پھر موجودہ جنگ محض ایک ریہرسل ہے جبکہ اصل اور باقاعدہ جنگ بعد میں ہوگی۔

اب یہ دیکھیے کہ اس ریہرسل سے امریکہ کون سے فوجی، سیاسی، اقتصادی اور تہذیبی فوائد حاصل کر سکتا ہے؟

۱۔ اب تک کی صورتِ حال کے مطابق امریکی حکمت عملی مختلف مرحلوں (Phases)میں تقسیم ہے۔ پہلے مرحلے میں صرف ہوائی حملے ہوئے اور وہ بھی اس طرح کہ خوب شور مچایا گیا کہ ’’میں آ رہا ہوں‘‘۔ ہتھیاروں کی بابت بھی بتایا گیا کہ ان کی یہ قیمت اور اہلیت ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا افغانوں نے سب کچھ جانتے ہوئے اپنے تحفظ کے اقدامات نہیں کیے ہوں گے؟ کیا انہوں نے اپنا مخصوص اسلحہ جو ان کے لیے نہایت مفید ثابت ہو سکتا تھا، امریکی حملوں کے لیے وہیں پڑا رہنے دیا ہوگا؟ یقیناًافغان ایسی غلطی نہیں کرسکتے تھے اور نہ امریکہ یہ چاہتا تھا کہ افغان ایسی غلطی کریں، ورنہ پہلے شور مچانے کا کیا فائدہ؟

پہلے مرحلے میں امریکیوں نے یہ پتہ لگانے کی کوشش کی ہے کہ افغانی، حملے کی صورت میں اپنا اسلحہ کیسے، کتنی مدت میں اور کہاں شفٹ کرتے ہیں۔ امریکی انٹیلی جنس اس حوالے سے کام کر رہی ہوگی۔ پھر سب نے پڑھا اور سنا کہ امریکہ کے بقول فضائی حملے پچاسی فیصد کام یاب رہے اور یہ بھی سب جانتے ہیں کہ یہ سفید جھوٹ تھا۔ اس پراپیگنڈے کا مقصد یہ دیکھنا تھا کہ افغانی کیسا رد عمل ظاہر کرتے ہیں؟ اس پچاسی فیصد کامیابی کے اثر کو کم بلکہ ختم کرنے کے لیے افغانوں کا طرز عمل کیا ہوتاہے؟ اس میں ’’سرپرائز‘‘ اور ’’منفیت‘‘ کس حد تک ہوگی؟

پہلے مرحلے کی یہ معلومات امریکہ کو ’’فائنل فیز‘‘ میں بہت کام دیں گی۔ جنگ کا فائنل فیز بہت جلد متوقع نہیں ہے، ہو سکتا ہے وہ چند سال بعد شروع ہو۔ کوریا جنگ میں چین نے تین مختلف مرحلوں میں مداخلت کر کے امریکہ کوحیران کر دیا تھا اور امریکی ملٹری کمانڈ ان مرحلوں کی پیش بینی نہیں کر سکی تھی۔ امریکی کوریا، ویت نام اور کیوبا میں اپنے سابقہ تجربات سے بھرپور فائدہ اٹھائیں گے۔

اس جنگ کا دوسرا مرحلہ زمینی حملوں کا ہے۔ اس کا مقصد بھی فائنل فیز کے لیے امریکی فوج کی تربیت اور امریکی جرنیلوں کو افغانستان سے متعلق ’’عملی سہولت‘‘ بہم پہنچانا ہے تاکہ وہ افغان خطرے کو گہرے انداز سے اسٹڈی کر سکیں اور اس علاقے کی مناسبت اور افغانوں کی نفسیات کے مطابق کوئی نیا طریقہ کار (Mode of action) آزما سکیں۔ نیز نئے ہتھیاروں کی افادیت کا بھی پتہ چل سکے تاکہ فائنل فیز میں امریکہ کو سبکی نہ اٹھانی پڑے۔

۲۔ فوجی مہم کے علاوہ سیاسی میدان میں بین الاقوامی برادری بالخصوص مسلم ممالک کے رویوں کوجانچا جارہا ہے کہ ان میں ڈپلومیسی کی کتنی اہلیت ہے اور وہ اپنے مفادات کے مطابق خود کو ڈھالنے کی کتنی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مسلم ممالک کے عوام کو خاص کوریج دی جائے گی تاکہ فائنل فیز میں ان کی قوت کو امریکی مفادات میں چینلائز کیا جا سکے۔ مسلم ممالک کے انٹیلی جنس کے نیٹ ورک پر امریکیوں کی خاص نظر ہوگی۔ ان کی معلومات تک رسائی، تجزیہ اور بھانپ لینے کی قوت کو سٹڈی کیا جائے گا۔ امریکہ کے لیے یہ معلومات انتہائی اہمیت کی حامل ہیں کہ یہ ایجنسیاں سفارت کاری، حکومتوں کی اکھاڑ پچھاڑ اور رائے عامہ کو ہموار کرنے میں کتنی موثر ہیں۔

۳۔ پچھلے چند سالوں میں مسلم دنیا کی جہادی تنظیمیں تیزی سے فعال ہوئی ہیں اور عوام میں ان کو پذیرائی ملی ہے۔ موجودہ امریکی حملے میں، ظاہر ہے کہ ان تنظیموں کی ہمدردیاں افغانستان کے ساتھ ہیں اور تقریباً تمام بڑی تنظیمیں افغانستان کی مدد کرنا چاہتی ہیں اور غالباً کر رہی ہیں۔ اس طرح امریکہ نے تمام جہادی تنظیموں کو افغانستان پر فوکس (Focus)کر دیا ہے اور یہ تنظیمیں فرنٹ پر آگئی ہیں۔ موجودہ جنگ سے ان تنظیموں کی سطح، صلاحیت، ان کے باہمی روابط اور مسلم عوام میں ان کی مقبولیت کھل کر سامنے آئے گی اور ان تنظیموں سے متعلق ایسی معلومات فائنل فیز میں امریکہ کے لیے بہت مفید ثابت ہوں گی۔ موجودہ جنگ کے دوران میں ہی امریکہ کو ان تنظیموں میں سے اپنے مطلب کے لیڈر بھی مل جائیں گے جو فائنل فیز کے آنے تک ان تنظیموں کی نئی نہج متعین کر کے امریکی مفادات کو تقویت بخش سکیں گے۔

۴۔ امریکہ اس جنگ سے اقتصادی لحاظ سے بھی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گا۔ اپنے زنگ آلود اسلحے کو استعمال میں لانے کے ساتھ ساتھ نئے ہتھیاروں کی افادیت کا بھی پتہ چل سکے گا اور خرچ دوسرے ملکوں پر ڈال دیا جائے گا۔ ملک کے اندر عوام سے اپیل کی جائے گی کہ جنگ کی وجہ سے حالات خراب ہو رہے ہیں لہذا حکومت کی مدد کی جائے۔ یہ جنگی فنڈ اقتصادی وفوجی مہم جوئی کے لیے کارآمد ثابت ہوگا۔

۵۔ افغانستان میں سابق سوویت یونین کی ناکامی کو امریکہ نے بہت باریک بینی سے اسٹڈی کیا ہے۔ اس ناکامی میں ظاہر ہے کہ امریکہ کا بھی بڑا ہاتھ تھا۔ اس جنگ میں چین نے بھی افغانوں کی مدد کی تھی۔ اسی طرح کچھ دوسرے ممالک بھی تھے اور امداد کی نوعیت میں بھی فرق تھا۔ امریکہ موجودہ جنگ میں کسی ایسے ہاتھ کو تلاش کرنے کی کوشش کرے گا جو افغانستان میں امریکی ناکامی کا سبب بننے کی سکت رکھتا ہو۔ امریکہ کی کوشش ہوگی کہ موجودہ جنگ کے دوران میں اس ہاتھ کی نشان دہی ہو سکے تاکہ اس سے نمٹنے کی حکمت عملی تیار کی جا سکے اور فائنل فیز میں اس کا حشر سوویت یونین جیسا نہ ہو۔ اس عمل کے دوران میں امریکی انٹیلی جنس کی کارکردگی کو تنقیدی نظر سے دیکھا جائے گا اور امریکی فیصلہ سازی کے عمل میں موجود خامیوں کی نشان دہی کر کے ان کا سدباب کیا جائے گا۔

اگر امریکی صدر کی ٹیم پر ناقدانہ نظر ڈالی جائے تو بیشتر سرد جنگ کے تجربہ کار چہرے نظر آئیں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ امریکہ افغان جنگ کو Anticipate کر رہا تھا۔ چونکہ افغان روسیوں کے خلاف جنگ لڑ چکے ہیں اس لیے ان کا طریقہ جنگ روسی اثرات کا حامل ہوگا۔ زیادہ تر اسلحہ بھی روسی نوعیت کا ہوگا اور ان کی امداد کرنے والے متوقع ممالک بھی سابق کمیونسٹ ہوں گے۔ لہذا کمیونسٹ نفسیات (Psyche) سے واقف لوگوں کی ٹیم ہی ایسی ’’پر پیچ‘‘ جنگ لڑ سکتی ہے جس کے کئی مرحلے ہیں ور فائنل فیز میں جیت سے ہی امریکہ اپنی بالادستی قائم رکھ سکتا ہے۔

اس ساری گفتگو سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر امریکہ نے افغانستان کو ہی کیوں اپنے ٹارگٹ کے طور پر منتخب کیا؟ اس کی وجوہ یہ ہیں:

(i) تاریخ کے طالب علم جانتے ہیں کہ دنیا میں جغرافیائی تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ تاریخ جغرافیے کو بدلتی رہتی ہے لیکن افغانستا ن کا جغرافیہ ایسا ہے جو خود تاریخ بنا سکتا ہے۔ افغانستان کا جغرافیہ امریکہ کے لیے ایک سیاسی خطرے (Political threat) کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگرچہ سائنسی وتکنیکی ترقی سے جغرافیے کی اہمیت میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن افغانوں نے اپنے مخصوص جغرافیے کی اہمیت کو برقرار رکھا ہے۔

(ii) افغانی جنگ آزمودہ لوگ ہیں۔ اس وقت دنیا میں اتنے تربیت یافتہ جنگ جو شایدکہیں بھی موجود نہیں۔

(iii) باقی تمام مسلم ممالک امریکہ کے نشانے کی زد میں (Vulnerable) ہیں۔ صرف افغانستان ایک استثنائی مثال ہے، لہذا امریکی اس خطرے سے نمٹنا چاہتے ہیں۔

(iv) مسلم جہادی تنظیموں کی تربیت گاہ افغانستان کی پہاڑیاں ہیں۔ اگر عالم اسلام اور امریکہ کی تکنیکی صلاحیتوں کا تقابل کیا جائے تو توازن کا نشان تک نہیں ملتا۔ صرف ایک پاکستان ایٹمی قوت ہے لیکن وہ بھی سائنسی وتکنیکی اعتبار سے امریکہ سے بہت پیچھے ہے۔ نظر آ رہا تھا کہ مغرب اسلام کشمکش میں Nuclear Deterrent موثر ثابت نہیں ہوگا، البتہ جہادی تنظیمیں ایک موثر Deterrentکے طور پر ابھر رہی تھیں۔ امریکہ اس Deterrent کو ختم کر کے اپنی بالادستی قائم رکھنا چاہتا ہے۔ اس تناظر میں امریکیوں نے اعلیٰ Threat perception کا ثبوت دیا ہے۔

۶۔ اس جنگ سے امریکہ کو حاصل ہونے والے تہذیبی فوائد کا اندازہ اس امیج سے کیا جا سکتا ہے جوکابل میں شمالی اتحاد کے داخلے کے بعد تعمیر کیا جا رہا ہے۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ سمیت انٹرنیشنل میڈیا جو خبریں اور تصاویر پیش کر رہا ہے، ان سے اس تصور کو تقویت ملتی ہے کہ:

۱۔ طالبان کے زیر حکومت عوام جبر کا شکار تھے، اب انہیں معاشرتی آزادیوں سے ہم کنار کیا گیا ہے۔

۲۔ شعائر اسلام فرسودگی کی علامت ہیں اور ان سے اجتناب جدیدیت ہے۔

گویا مغربی رویے کے بین السطور ان کی تہذیبی برتری جھلکنا شروع ہو گئی ہے۔ ’’تہذیبوں کے تصادم‘‘ سے خائف مغربی قوتیں جارحیت سے اپنا دفاع کرنا چاہتی ہیں۔ اگرچہ طالبان کی بے جا سختی اور بے لچک رویہ قابل تعریف نہیں ہے اور اسلام کی تعبیر وتشریح میں عصری تقاضے ان کے پیش نظر نہیں رہے، تاہم اگر ہم مذکورہ امور کو مد نظر رکھیں تو افغانستان پر حملے کی امریکی پالیسی کے پوشیدہ (Invisible) پہلو کی بعض نئی جہتیں آشکارا ہوں گی۔ امریکی پالیسی کے خدوخال جیسے جیسے بھرپور صورت اختیار کریں گے، مسلم عوام کے ذہنی تحفظات (Mental reservations) میں اضافہ ہوتا جائے گا اور ناگزیر طور پر ہر مسلم ریاست میں معاشرتی سطح پر ’’دوئی‘‘ کو فروغ ملے گا۔ قدامت پسند ردِ عمل میں مزید قدامت پسند ہو جائیں گے اور ان کی قدامت پسندی کے مضمرات اور منفیت جدت پسندوں کو ان سے مزید دور کرنے کا باعث بنیں گے۔ اس طرح ہر ریاست میں دو معاشرتی گروہ آمنے سامنے ہوں گے۔ عالمی اسلامی معاشرہ بھی واضح دوئی کا حامل ہوگا۔ مغربی طاقتوں نے کمالِ تدبر سے متوقع مغرب اسلام کشمکش کو خود اسلامی معاشروں میں محدود کر دیا ہے جہاں جدت پسند ان کے نمائندے ہوں گے اور قدامت پسند مخالف۔ اس پر طرہ یہ کہ مغربی طاقتوں کے مخالف قدامت پسند بھی اسلام کے حقیقی نمائندے نہیں ہوں گے کیونکہ ان کا پیش کردہ اسلام اور اس کی تعبیر وتشریح رد عمل پر مبنی ہوگی لہذا اصل اسلام سے دور ہوگی۔ اس طرح اسلام کی حقیقی Orientation سامنے نہ آنے سے مغرب کی تہذیبی برتری کے لیے تمام راستے ہموار ہوتے جائیں گے۔

موجودہ صورتِ حال میں چین کی پالیسی بھی معنی خیز ہے۔ اسلامی تہذیب کی خلقی استعداد سے چین بھی خوف زدہ تھا۔ افغانستان میں امن کا قیام اور اس کے ساتھ اسلامائزیشن کے اقدامات چین کے لیے مشکلات پیدا کر سکتے تھے۔ اگرچہ طالبان کا اسلام خاصا یک رخا تھا لیکن بہتری کے امکانات، بہرحال، موجود تھے۔ پاکستان، افغانستان اور وسطی ایشیائی مسلم ریاستوں میں اسلام کی تعبیر وتشریح اور نفاذ کے حوالے سے دانش ورانہ مکالمہ شروع ہو سکتا تھا۔ یہ مکالمہ ان ریاستوں کو کوئی معاشرتی نقطہ اتصال بھی فراہم کر سکتا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ چین کی پالیسی اسی تناظر میں تشکیل دی گئی ہے۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ چین میں اسلامی دعوتی سرگرمیاں قبل از وقت تھیں یا کم از کم ان کا پھیلاؤ اور طریقہ کار ایسا تھا کہ چین تحفظات کا شکار ہو گیا۔ ماضی میں چین کی شکایات سامنے آتی رہی ہیں۔ عام قیاس آرائیاں یہی تھیں کہ مغرب اور اسلام کی تہذیبی کشمکش میں چین کا وزن اسلام کے پلڑے میں پڑے گا لیکن تازہ ترین صورت حال سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مغربی طاقتوں نے چین کو کم از کم خاموش رہنے پر رضامند کر لیا ہے۔

اس بحث کو سمیٹتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ افغانستان میں جاری موجودہ جنگ صرف ایک ریہرسل ہے جس سے متنوع وقتی اور مستقل فوائد کے ساتھ ساتھ ایسی معلومات کا حصول مقصود ہے جو جنگ کے فائنل فیز کے لیے کارآمد ثابت ہوں گی۔ امکان ہے کہ روس اور چین جہادی تنظیموں کے خاتمے کی حد تک امریکہ کا ساتھ دیں گے لیکن جہاں تک افغانستان کے جغرافیے کا سوال ہے، وہ کبھی اجازت نہیں دیں گے کہ امریکہ اسے فتح کرے لہذا اس جنگ کے دوران میں دوستیاں دشمنیاں بھی بدلتی رہیں گی۔

موجودہ صورت حال ۔ چند امکانات

مذکورہ بالا بحث کا تعلق امریکی پالیسی کے وسیع تر تناظر سے تھا۔ جہاں تک موجودہ جنگ کے ظاہری (Visible) پہلو کا تعلق ہے تو اس کو Discussکرنا اور جانچنا بظاہر جتنا آسان نظر تا ہے، اتنا ہی یہ مشکل بھی ہے۔ طالبان کی پسپائی کے بعد صورت حال کیا رخ اختیار کر سکتی ہے؟ اس سلسلے میں قطعیت سے کچھ کہنا فی الحال خاصا مشکل ہے۔ پاکستان اور عالم اسلام میں حکومتی رویے سے قطع نظر عوامی سطح پر تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ طالبان کی پسپائی ایسا دھچکا نہیں جس کے لیے لوگ ذہنی طور پر تیار نہ تھے۔ ایسا ہونا ممکنات میں سے تھا۔

اس حوالے سے آئندہ امریکی حکمت عملی کچھ اس قسم کی ہو سکتی ہے:

۱۔ کابل سلگتا رہے تاکہ افغان داخلی معاملات میں الجھے رہیں اور بقول امریکہ خارجی دنیا کے لیے دہشت گردی کا باعث نہ بنیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایکو (Echo)ممالک کی باہمی تجارت فروغ نہ پا سکے۔ یہ چیز چین اور بھارت کے مفاد میں بھی ہے۔ ایکو کی مضبوطی سے بھارت اور چین اقتصادی مشکلات کا شکار ہو سکتے ہیں۔ بھارت ،چین اور ایکو کی اقتصادی مسابقت مزید پیچیدگیوں کو جنم دے سکتی ہے۔ اس طرح افغانستان میں پائیدار امن اور مضبوط مرکزی حکومت کا قیام بعض ریاستوں کے مفادات سے متصادم ہے۔

۲۔ افغانستان کے کم از کم دو حصے کر دیے جائیں، شمالی افغانستان اور جنوبی افغانستان۔ ان میں اگر کوئی تعلق قائم بھی رکھا جائے تو وہ برائے نام اور معمولی نوعیت کا ہو۔ البتہ اس قسم کے پلان کی پاکستان شدید مخالفت کرے گا کیونکہ اس کے سرحدی صوبہ کو جنوبی افغانستان میں ضم کرنے کی داخلی کوششیں شروع ہو سکتی ہیں اور ایسے عناصر موجود ہیں جو مہروں کا کام دے سکتے ہیں۔ اس سے پاکستان کی سلامتی اور وحدت پارہ پارہ ہو جائے گی۔ پاکستان کی ٹوٹ پھوٹ کے اثرات سے بھارت بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ اس لیے امکان یہی ہے کہ بھارت افغانستان کی تقسیم کے کسی پلان کو تحفظات کے بغیر قبول نہیں کرے گا۔

۳۔ تیسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ موجودہ حالت (Stuatus quo) کو برقرار رکھا جائے تاکہ وار لارڈز کو بوقتِ ضرورت ایک دوسرے کے خلاف استعمال کیا جا سکے۔ اگر یہ صورت اپنائی جاتی ہے تو امریکہ کو مستقل طور پر عملاً ملوث رہنا پڑے گا جو ایک تھکا دینے والا اور اعصاب شکن عمل ہوگا۔

۴۔ ہو سکتا ہے کہ افغانستان میں اقوام متحدہ کی زیرنگرانی امن فوج متعین کر دی جائے۔ اگر امریکی اور یورپی طاقتوں کی فوج بھیجی جاتی ہے تو امریکہ کو سٹرٹیجک فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔ اگر مسلم ممالک کی افواج کو وہاں تعینات کیا گیا تو غلط فہمیوں کو ہوا دی جا سکتی ہے۔ ترکی، ایران اور پاکستان کے اپنے اپنے مفادات ہیں۔ طالبان کی حکومت اور افغانستان پر ان کے کنٹرول سے پاکستان مستقبل کے حوالے سے بہت پرامید جبکہ ایران اور ترکی تحفظات کے شکار تھے۔ موجودہ صورت حال سے ایران اور ترکی کو ایک Edge ملا ہے جس سے دونوں ممالک فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔ ترکی کی فوج ویسے بھی پروفیشنل نہیں۔ اس کے سیاسی مزاج اور دل چسپیوں (Political Orientaion)سے کون واقف نہیں۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ ایکو کا پلیٹ فارم ان ممالک کو کوئی بہتر راہ دکھا سکے۔

یہ امکانات امریکی نقطہ نظر سے تھے۔ اگر طالبان کے حوالے سے دیکھیں تو یہ باتیں سامنے آتی ہیں:

۱۔ ان کی پسپائی حکمت عملی کے ماتحت ہے۔ اب وہ اپنی کچھار یعنی اصل علاقے میں واپس آ گئے ہیں۔

۲۔ شمالی اتحاد کو کابل پر قابض ہونے کا موقع دیا گیا تاکہ ان کی اندرونی ٹوٹ پھوٹ شروع ہو، کیونکہ طالبان کو امریکی افواج اور امریکی ٹیکنالوجی سے زیادہ خطرہ شمالی اتحاد سے ہے۔

۳۔ پسپائی اختیار کر کے طالبان امریکی ترکش کے تیر دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس سے امریکی عزائم کی نوعیت اور طریقہ کار ان پر مزید واضح ہوگا۔

۴۔ امریکی حملے کے پہلے مرحلے کے دوران میں طالبان کا استقلال شاید یہ ظاہر کرنے کے لیے تھا کہ وہ حکومت پاکستان کے زیر اثر نہیں بلکہ خود مختار ہیں۔ طالبان نے جس قسم کی مدافعت کی ہے، اس سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے۔ اگر وہ بہت جلد پسپائی اختیار کر لیتے تو ان کے متعلق یہی تاثر پھیلتا کہ پاکستان کی سپورٹ کے بغیر وہ زیرو ہیں۔ اپنا کم سے کم نقصان کرواتے ہوئے انہوں نے ایک مہینے سے زیادہ مدافعت کی ہے جس سے یہ تاثر پھیلا ہے کہ ان میں لڑنے کی قوت موجود ہے۔ اب اگر پسپائی کے بعد وہ فوراً گوریلا کارروائیاں شروع کرتے ہیں اور کوئی خفیہ ہاتھ ان کی مدد پر آمادہ ہو جاتا ہے تو طالبان کی کارروائیوں کے تسلسل کو ان کی سابقہ مدافعتی سرگرمیوں کے متوازی سمجھا جائے گا کہ ان میں ابھی قوت باقی ہے۔ یہ باقی قوت خاصی طویل مدت پر محیط ہو کر دشمن کو ناکوں چنے بھی چبوا سکتی ہے۔

بہرحال صورتِ حال چاہے امریکی عزائم کے مطابق ہو یا ان کے برعکس، پاکستان کو اپنی پالیسی اس نوعیت کی رکھنا ہوگی کہ حالات کا تغیر اس کے لیے مشکلات کا باعث نہ بن سکے۔ جہاں تک پاکستان کے مفادات کا تعلق ہے تو اسے بھی طالبان کی طرح عارضی پسپائی اختیار کرنا پڑے گی۔ وقتی اور عارضی نقصان سے قطع نظر ہمیں اپنے مستقل اور پائیدار مفاد پر نظر رکھنا ہوگی۔ عالمی طاقتیں طویل عرصے تک افغانستان میں اکھاڑ پچھاڑ نہیں کر سکیں گی۔ پاکستان کو اپنے ٹارگٹ پر نظر رکھتے ہوئے اپنے کارڈز استعمال کرنا ہوں گے۔ افغانستان کی اہمیت پاکستان کے لیے ہمیشہ قائم رہے گی اور افغانستان کا مستقبل ہمیشہ پاکستان سے وابستہ رہے گا۔

حالات و مشاہدات

(دسمبر ۲۰۰۱ء)

تلاش

Flag Counter