صدر پاکستان جناب پرویز مشرف کے حالیہ سہ ملکی دورے سے پاکستان نے کیا کھویا، کیا پایا، اس کا تعین عجلت میں نہیں کیا جا سکتا۔ مجموعی طور پر اس دورے کو کام یاب قرار دیا جا سکتا ہے۔
جناب صدر نے بنگلہ دیش پہنچنے پر ۱۹۷۱ء میں ہونے والی زیادتیوں پر تاسف کا اظہار کرتے ہوئے بجا فرمایا کہ اس المیے کے نتیجے میں ایک خاندان جس کا ایک ہی مذہب اور ایک ہی تاریخی ورثہ ہے اور جنہوں نے مل کر آزادی کی جدوجہد کی اور مل کر مستقبل کے خواب بنے تھے، دو حصوں میں بٹ گیا۔ صدر پاکستان کے بیان کی اہمیت اپنی جگہ لیکن اہم بات یہ ہے کہ وہ آرمی چیف بھی ہیں، اس طرح ان کا بیان مسلح افواج کی طرف سے ۷۱ء کے واقعات پر معذرت کی حیثیت رکھتا ہے۔ بنگالیوں کو مسلح افواج سے ’’خاص‘‘ شکایات تھیں۔ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم محترمہ خالدہ ضیا نے بھی دانش مندانہ طرز عمل اختیار کیا اور پاکستان کی معذرت کا خیر مقدم کرتے ہوئے باہم مل کر آگے بڑھنے کا عندیہ دیا۔
مخصوص عالمی اور علاقائی صورت حال کے تناظر میں باہمی خیر سگالی کے یہ جذبات خوش آئند ہی قرار دیے جا سکتے ہیں۔ ۷۱ء کے واقعات کی تباہ کاریوں کو وسعت دینے اور دونوں ممالک کے درمیان خلیج پیدا کرنے میں بھارت کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ یہ ہاتھ اب بھی مصروف عمل ہے۔ غالباً بنگلہ دیش کو اس امر کا احساس ہے کہ ’’سارک‘‘ میں پاکستان ہی واحد ملک ہے جو بھارت کے مقابل کھڑا ہو سکتا ہے۔ موجودہ علاقائی صورت حال میں، جبکہ سرحدوں پر فوجیں کھڑی ہیں، بنگلہ دیش نے خطے میں توازن قائم کرنے کے لیے اور اپنی سلامتی کے پیش نظر اپنا وزن پاکستان کے پلڑے میں ڈال کر دانش مندی کا ثبوت دیا ہے۔ یقیناًبنگالی قیادت کو احساس ہو گیا ہے کہ بھارت کبھی ان کا خیرخواہ نہیں ہو سکتا۔ پاکستان کو بنگلہ دیش سے تعلقات مزید مضبوط بنانا ہوں گے تاکہ ’’آسیان‘‘ میں کم از کم بالواسطہ ہی اس کا عمل دخل ہو سکے۔ جنوب مشرقی ایشیا میں ایک دوست بنگلہ دیش پاکستانی مفادات کا تحفظ کرنے کی پوزیشن میں ہوگا۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ’’آسیان‘‘ کے حالیہ بیانات خطرناک قرار دیے جا سکتے ہیں۔ ہماری وزارت خارجہ کو اس محاذ پر توجہ دینی چاہیے۔
بنگالی قیادت کی معاملہ فہمی اس امر سے واضح ہوتی ہے کہ بیگم خالدہ ضیا نے اثاثوں کی تقسیم کا مسئلہ اٹھانے سے گریز کیا۔ پاکستان نے بھی نہ صرف بنگلہ دیش کے ذمے ۸ کروڑ ۴۰ لاکھ روپے کے واجبات معاف کر دیے ہیں بلکہ پٹ سن اور چائے کا کوٹہ بڑھانے کے ساتھ ساتھ ان کی درآمد پر ڈیوٹی بھی ’’ختم‘‘ کر دی ہے۔ دونوں ممالک آزادانہ تجارت کے معاہدے پر مذاکرات جاری رکھنے پر بھی متفق ہیں۔ جہاں تک مسئلہ کشمیر کا تعلق ہے، بنگلہ دیش نے بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ مذاکرات کی میز پر آئے۔
بنگالیوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بعد صدر پاکستان سری لنکا تشریف لے گئے۔ دونوں ملکوں نے ’’آزادانہ تجارتی معاہدے‘‘ پر دستخط کیے۔ یہ اقدام نئے عالمی حقائق اور علاقائی تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ سری لنکا ایسا ہی معاہدہ بھارت کے ساتھ کر چکا ہے۔ علاقائی اقتصادی تنظیموں کی اہمیت بیسویں صدی کے آخری عشرے سے بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ جنوبی ایشیا میں ’’سارک‘‘ اسی لیے قائم کی گئی تھی لیکن بھارت کی ہٹ دھرمی نے اسے فعال نہیں ہونے دیا۔ سارک کو بے اثر جانتے ہوئے سری لنکا نے بہترین ’’دو طرفیت‘‘ کا مظاہرہ کیا ہے اور بتا دیا ہے کہ پاک بھارت کشیدگی سری لنکا اور پاکستان کے تعلقات میں سرد مہری پیدا نہیں کرسکتی، اگرچہ اس سلسلے میں سری لنکا کے کچھ تزویراتی مقاصد بھی ہیں کیونکہ اپنی دفاعی ضروریات کے لیے سری لنکا پاکستان کی طرف دیکھتا ہے۔ پاکستان کے لیے بھی یہ خوش آئند بات ہے کہ اس کا اپنا بنایا ہوا اسلحہ سری لنکا میں کھپ سکتا ہے۔
سارک کا اگلا سربراہی اجلاس پاکستان میں ہونے والا ہے۔ اس تناظر میں دو ایسے سارک ممالک کا دورہ جو علاقے میں بھارت اور پاکستان کے بعد کلیدی اہمیت کے حامل ہیں، اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ ہماری وزارت خارجہ کچھ ’’سوجھ بوجھ‘‘ بھی رکھتی ہے۔ بھارت کی کسی متوقع شرارت کے پیش نظر کولمبو میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے جناب صدر نے صحیح عندیہ دیا کہ کوئی ملک نہ بھی آئے تو بھی سارک کانفرنس ہونی چاہیے۔ صدر محترم کے اس بیان کے مضمرات اپنی جگہ، لیکن اس کے متوازی ایسی کوششیں جاری رہنی چاہییں کہ بھارت ہٹ دھرمی کا مظاہرہ نہ کرے کیونکہ سارک کا گزشتہ اجلاس بھی بھارت کے منفی رویے کی وجہ سے ایک سال کی تاخیر سے شروع ہوا تھا۔
سری لنکا کے دورے کے بعد صدر، پاکستان کے قریبی دوست ہمسایہ ملک چین تشریف لے گئے۔ جناب صدر نے جنوبی ایشیا کے حالات وواقعات کے ضمن میں چینی قیادت سے صلاح مشورے کیے۔ چین نے یقین دلایا کہ پاکستان کے ساتھ تعاون جاری رہے گا۔ چینی قیادت نے زور دیا کہ بھارت کشمیر پر مذاکرات کرے۔
چین اس وقت پاکستان میں بہت سے منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔ ابھی حال ہی میں ریلوے کوچز پاکستان پہنچی ہیں۔ جلد ہی ایسی ریلوے کو چز پاکستان میں بھی تیار کی جائیں گی۔ چین نے پاکستان کی زرعی اجناس کی برآمد بڑھانے میں مدد دینے کی پیش کش بھی کی ہے جن میں چاول، گندم، سبزیاں، پھل، تمباکو اورخام کپاس شامل ہیں۔ چینی ذرائع کے مطابق پاکستانی آم اور کینو چین میں کھپائے جا سکتے ہیں۔ اس وقت چین فرانس اور آسٹریلیا سے پھل درآمد کر رہا ہے۔ چین اور پاکستان نے سائنس وٹیکنالوجی کی ترقی کے لیے دو طرفہ تعاون پر بھی اتفاق کا اظہار کیا ہے۔ اس کے علاوہ چین نے پاکستان کو چار ایٹمی پاور پلانٹس لگانے میں تعاون کی پیش کش بھی کی ہے۔ ایک چینی کمپنی نے کراچی میں آئل ریفائنری قائم کرنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے اور گوادربندرگاہ کی تعمیر میں تو چین بھرپور تعاون کر ہی رہا ہے۔ کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر کا ٹھیکہ بھی حکومت پاکستان نے آخر کار چینی کمپنی کو دے دیا ہے۔ اس کے علاوہ چین کے تعاون سے کوئلہ کی تلاش بھی جاری ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ آئندہ چھ ماہ میں یہ کام مکمل ہو جائے گا۔ کوئلے سے چلنے والی تھرمل یونٹوں کے ذریعے سے کثیر زر مبادلہ بچایا جا سکتا ہے۔ پاکستان نے گومل زم ڈیم کی تعمیر کا ٹھیکہ بھی دو چینی کمپنیوں کو دیا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس ٹھیکے کے لیے چار ارب اڑتیس کروڑ اسی لاکھ روپے کی بولی اس منصوبے کی تعمیر کی تخمینہ جاتی لاگت سے نصف ہے۔
پاک چین دوستی ہمالیہ سے بلند اور سمندر سے گہری ہے۔ چین سے ان بڑھتے ہوئے اقتصادی روابط کے تناظر میں چینی قیادت کا یہ بیان کہ پاکستان سے تعاون جاری رہے گا، نہایت اطمینان بخش قرار دیا جا سکتا ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ چین کے ایسے تحفظات جو کہ بیسویں صدی کی آخری دہائی میں ابھرنا شروع ہو گئے تھے، ان کا تدارک ممکنہ حد تک صدر پاکستان کے اس دورے سے ہو گیا ہوگا۔ چین کی قومی عوامی کانگریس کی مجلس قائمہ کے وائس چیئرمین سوجیالو نے زور دیا کہ پاکستانی طالب علم چینی زبان کی طرف بھی توجہ دیں۔ عالمی اقتصادی تنظیمWTO) (میں چین کی شرکت کے بعد اس کے اقتصادی امکانات میں اضافہ ہوا ہے۔ چین ترجیحی بنیادوں پر پاکستانی نوجوانوں کو اعلیٰ ملازمتیں فراہم کرے گا۔ اکیسویں صدی میں چین کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کو اس کے ساتھ سماجی تعلقات بھی پروان چڑھانے چاہییں تاکہ ہمارے اثر ورسوخ میں اضافہ ہو سکے۔