جمہوریت کے مسلّمہ اصولوں کے مطابق حقیقی جمہوریت اپوزیشن کی موجودگی سے مشروط ہے۔ کمیونسٹ ممالک پر اسی حوالے سے تنقید ہوتی رہی ہے کہ ان کے ہاں اپوزیشن مفقود ہے کیونکہ ان کے ہاں کمیونسٹ پارٹی کے علاوہ کسی دوسری پارٹی کو سیاسی عمل میں شریک نہیں کیا جاتا، لہٰذا حقیقی جمہوریت کے لیے کم از کم دو جماعتی نظام نہایت ضروری ہے۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد سرد جنگ کے دوران اور تاحال امریکہ جمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام کا سرخیل ہے اور وہاں دو جماعتی نظام رائج ہے۔ برطانیہ میں بھی دو جماعتی نظام رائج ہے لیکن ایسا نہیں کہ دوسری جماعت تقریباً برائے نام یا غیر مؤثر ہو کیونکہ اس طرح بھی جمہوری سپرٹ پیدا نہیں ہوتی۔ دونوں جماعتیں، جو حزب انتشار اور حزب اختلاف کے طور پر ابھریں، متوازی طور پر مؤثر اور مضبوط ہونی چاہئیں، امریکہ اور برطانیہ میں یہی صورتحال ہے۔
سرد جنگ کے دوران میں کمیونسٹ رائٹرز یک جماعتی نظام کے دفاع میں اور اپنے نظام میں جمہوری قدروں کی موجودگی کے حوالے سے یہ دلیلیں دیتے رہے ہیں کہ ان کی جماعت میں جمہوریت ہے۔ اگرچہ مرکزیت ہے لیکن اسے بھی جمہوری بنایا گیا ہے۔ اس کے لیے ایک اصطلاح ’’جمہوری مرکزیت‘‘ (Democratic centralization) بہت معروف رہی ہے۔ کمیونزم کے علمبردار دوسری جماعت کی موجودگی کو اپنے نظام کے لیے نقصان دہ گردانتے تھے اور جمہوری مرکزیت اور ذاتی املاک کی عدم موجودگی کو پوری دنیا میں پھیلانے کے خواہشمند تھے۔ سابقہ سوویت بلاک کی امریکہ کے خلاف محاذ آرائی، کمیونسٹ نظریے سے میچ کرتی تھی کیونکہ وہ اپنے نظام کے پھیلاؤ کے دوران میں اور پھیلاؤ کے بعد عالمی سطح پر کسی دوسری جماعت کو برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ اگر سرد جنگ کا فیصلہ کمیونسٹ ممالک کے حق میں ہوتا تو نتیجتاً پیدا ہونے والا یک قطبی نظام (Uni-polar system) ان کے نظریے کا عین ہوتا۔ لیکن سرد جنگ میں جیت امریکہ کی ہوئی۔ چاہیے تو یہ تھا کہ امریکہ اپنے جمہوری اصولوں کے مطابق عالمی سطح پر بھی ایک دوسری جماعت کو برداشت کرتا اور خیال کرتا کہ عالمی سطح پر جمہوری عمل جاری رہے، کیونکہ دو مؤثر جماعتیں عالمی سطح پر موجود ہیں لیکن امریکہ نے سابق سوویت یونین بلاک کے خلاف کام کرتے ہوئے ایک طرح سے غیر جمہوری عمل اختیار کیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس عمل کے دوران میں امریکہ جمہوریت اور آزادیوں کے پھیلاؤ کا پراپیگنڈا کرتا رہا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ اپنے ملک کے اندر جمہوریت کے قیام اور کامیابی کے لیے تو اپوزیشن کو ضروری خیال کرتا ہے لیکن یہی امریکہ جب اپنی جغرافیائی حدود سے باہر آتا ہے اور اپنے اسی نظام کو پوری دنیا میں پھیلانے کے لیے جتن کرتا ہے تو اس کی اپروچ عملاً کمیونسٹ ہو جاتی ہے، وہی کمیونزم جس کے پھیلاؤ سے امریکہ اس لیے خوفزدہ تھا کہ وہ جمہوری قدروں کا حامل نہیں۔ (امریکہ کی طرف سے اب بھی چین پر تنقید ہوتی رہتی ہے) امریکی سیاسی فکر کے مطابق تو سابق سوویت یونین کا وجود بھی بطور اپوزیشن رہنا چاہیے تھا لیکن امریکیوں نے اسے ختم کر کے دم لیا۔
اب صورتحال اس طرح سے ہے کہ اپنے ملک سے باہر امریکی اپروچ کمیونسٹ ڈھب پر ہے۔ وہ کسی بھی اپوزیشن کو برداشت کرنے کے موڈ میں نہیں کیونکہ ان کا ’’نظام‘‘ اس کی اجازت نہیں دیتا۔ جس طرح کمیونسٹ ممالک اپنی جغرافیائی حدود میں معاشی وسائل کو ’’مرتکز‘‘ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا تھے، عالمی سطح پر یہی طرز امریکہ نے اختیار کی ہے۔ امریکہ نے پوری دنیا کے معاشی وسائل صرف اپنے ہاں مرتکز کرنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ عالمی سطح پر ’’کمیونسٹ‘‘ بن کر ابھرا ہے۔ دنیا کو جو خوف کمیونسٹ ممالک سے تھا اور جس میں بہت زیادہ تخفیف سابقہ سوویت یونین کے ٹوٹنے سے ہوئی تھی، وہ اب امریکہ کی صورت میں پوری دنیا کا منہ چڑا رہا ہے۔
امریکہ نے کمیونسٹ پارٹی کی طرز پر ہی تو اپنی آمریت کو چھپانے کے لیے ایک طرح سے ’’جمہوری مرکزیت‘‘ کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے تاکہ جمہوریت پسندوں کو مطمئن کیا جا سکے۔ اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی داروں میں دنیا کی بے چارگی سے کون واقف نہیں؟ اسی طرح کمیونسٹ ممالک میں عوام اور پارٹی کارکنوں کی بے چارگی سے کون واقف نہیں تھا، اگرچہ ڈھنڈورا جمہوری مرکزیت کا پیٹا جاتا تھا۔ ایک جگہ اگر یک جماعتی نظام کی خامیاں تھیں تو دوسری جگہ یک قطبی نظام کا عفریت منہ کھولے کھڑا ہے۔ آج دنیا کو کسی ’’سپر گورباچوف‘‘ کی ضرورت ہے۔ ایک اور نکتہ قابل غور ہے، اگر امریکی رویہ اپنے ملک سے باہر اپنے نظریے کا معکوس ثابت ہوا ہے تو اس کا بھی امکان تھا کہ سابق سوویت یونین کا اپنے ملک سے باہر، عالمی سطح پر رویہ کمیونسٹ نظریے کا معکوس ہوتا اور دنیا یک قطبی نظام کا شکار نہ ہوتی، لیکن اس حوالے سے پورے تیقن سے بات کرنا بہرحال مشکل ہے۔
تاہم صورتحال میں آنے والی حالیہ تبدیلیوں کے نتیجے میں خود امریکہ کے اندر سے امریکی عوام کی آواز کی صورت میں ایک ’’سپر گورباچوف‘‘ کا ظہور شروع ہو گیا ہے۔ اب امریکہ کے لیے ممکن نہیں رہے گا کہ وہ اپنی موجودہ روش کو برقرار رکھ سکے۔ امریکہ کو اپنے آمرانہ رجحانات کو Politicize کرنا ہو گا تاکہ یک قطبی نظام کا تاثر کم ہو سکے اور بظاہر اپوزیشن کی موجودگی کا احساس قائم ہو سکے۔ عالمی سطح پر امریکی آمریت کی سیاسی ہیئت (Politicization) امریکہ کے داخلی نظام میں تبدیلیوں کے بغیر ممکن نہیں ہو گی۔ امریکی تبدیلیوں کی نہج کا تعین کرنے میں درج ذیل امور کلیدی کردار ادا کریں گے:
- صدارتی الیکشن کے دوران میں بش اور الگور کے مابین جو کچھ ہوا کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ امریکہ کی عالمی سطح پر سبکی ہوئی۔ امریکی صدارتی انتخابات کو براہ راست اور زیادہ شفاف کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے کیونکہ جمہوریت کے حامی کہتے ہیں کہ اگر جمہوریت میں کوئی نقص ظاہر ہو تو اس کا حل مزید جمہوریت ہے۔ مزید جمہوریت کے اس اصول کو امریکہ کے داخلی معاملات کی حد تک صدارتی الیکشن سے لے کر کسی بھی دستوری ادارے تک بڑھایا جا سکتا ہے۔
- اس اصول کے اپنائے جانے کے بعد بھرپور پراپیگنڈا کیا جائے گا کہ دیکھیے ہم نے عوام کی آزادیوں کو وسعت بخشی ہے۔ اسی طرح صرف لفظوں کی حد تک اعادہ کیا جائے گا کہ ہم یہی آزادیاں پوری دنیا کے انسانوں تک پھیلانا چاہتے ہیں۔
- زیادہ آزادیوں (More liberties) کے اسی نعرے کے تحت امریکی وفاق میں چند ایسی تبدیلیاں کی جا سکتی ہیں جن سے امریکہ کی وحدت اندرونی اعتبار سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہ ہو لیکن اس کی خارجی ہیئت یورپی یونین کی طرز پر استوار ہو۔
- حالیہ جنگ کے دوران میں اور جنگ کے بعد امریکہ پر یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ نیا دور علاقائی اتحاد (Regional integration) کا دور ہے۔ یورپی یونین اس جنگ سے جو ثمرات سمیٹے گی وہ امریکہ کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہو گا۔ اس علاقائی اتحاد کی چھتری تلے یورپی ممالک جنگ میں شامل ہونے یا نہ ہونے کا آپشن رکھیں گے کیونکہ ان میں سے چند ممالک ان کی نمائندگی کرنے کے لیے کسی نہ کسی حوالے سے جنگ میں موجود رہیں گے۔ امریکہ ’’دہشت گردی‘‘ کے نام پر تمام یورپ کو ہائی جیک نہیں کر سکے گا۔ اس طرح جنگ کے زیادہ منفی اثرات یورپ پر نہیں پڑ سکیں گے۔ اگر بالفرض جنگ کے اخراجات کی بابت بات چلے گی تو ہو سکتا ہے کہ یورپی یونین تقاضا کرے کہ اسے ایک ’’وحدت‘‘ کے طور پر ڈیل کیا جائے یعنی جو حصہ کسی ریاست کے حصے میں آتا ہے اتنا حصہ ہی سارا یورپ ادا کرے گا۔ بہرحال علاقائی اتحاد کا پلیٹ فارم یورپی ممالک کو بہتر سودے بازی کی پوزیشن میں رکھے گا۔
یورپی یونین کے نظام کی اسی نوع کی افادیت کے پیش نظر امریکہ کے لیے ناگزیر ہو جائے گا کہ آنے والے دنوں کے تقاضوں کے مطابق اپنے نظام مین ہیئتی (Structural) تبدیلیاں کرے۔ یہ تبدیلیاں سیاسی اور دستوری نوعیت کی ہو سکتی ہیں۔ وفاق کو اس حد تک Decentralize یا مرکز گریز کیا جا سکتا ہے جیسے امریکی دستور کے ڈرافٹ کے مطابق تھا کیونکہ آغاز میں امریکی وفاق کا مرکز بہت مضبوط نہیں تھا۔ حالات کے تقاضوں اور امریکی سپریم کورٹ کے فیصلوں سے مرکز بتدریج مضبوط ہوتا گیا۔ اسی طرح اب ایک معکوس عمل شروع ہو سکتا ہے۔ اس عمل میں مضمر خرابیوں کے پیش نظر سیاسی جماعتوں کو زیادہ منظم اور مضبوط کیا جائے گا تاکہ دستور میں مرکز گریز رجحان کے باوجود سیاسی اعتبار سے امریکہ ایک وحدت رہے اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہ ہو۔ یہ کام منظم سیاسی جماعتیں ہی کر سکتی ہیں۔
ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ مستقبل کی امریکی وحدت سیاسی و سماجی نوعیت کی ہو گی۔ اس سے یہ تاثر پھیلایا جائے گا کہ ہم نے اندرونی اختلافات کو جمہوری طریقے سے ایڈریس کیا ہے۔ اس سے لا محالہ عوام پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور امریکی قوم کی وحدت کا ایک نیا تفکیری عمل شروع ہو جائے گا جو طویل المیعاد اور پائیدار ہو گا۔ عالمی سطح پر امریکہ کو اس سے یہ فائدہ ہو گا کہ کسی واقع کے حوالے سے USA کو ٹارگٹ نہیں کیا جا سکے کیونکہ پچاس ریاستوں کے مرکز گریز رجحان کے باعث ٹارگٹ کا تعین مشکل ہو جائے گا۔ اس وقت یورپی یونین کو یہ فائدہ حاصل ہے کہ اسے ٹارگٹ نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے یورپی کی سکیورٹی سیاسی اعتبار سے زیادہ پائیدار ہوئی ہے۔ یورپی یونین شاید یہ غلطی کبھی نہ کرے کہ Unity in diversity (تنوع میں وحدت) کو پھیلاتے ہوئے وفاق کی سطح پر لے جائے کیونکہ اس سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہو گا۔
بات کو سمیٹتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں امریکہ کے اندر یعنی داخلی اعتبار سے چند بنیادی تبدیلیاں متوقع ہیں جس سے عالمی سطح پر اقوام کے مابین راہ و رسم کے نئے باب وا ہو سکتے ہیں اور امریکہ کے یک قطبی نظام کو طوالت بھی مل سکتی ہے۔