غلطیاں بانجھ نہیں ہوتیں‘ یہ بچے دیتی ہیں۔ اگر ہم مسلم تاریخ اور مسلمانوں کی موجودہ زبوں حالی کا مطالعہ اس تناظر میں کریں تو نہ صرف اس فقرے کی صداقت کو تسلیم کر لیں گے بلکہ معروضی انداز سے تجزیہ کرتے ہوئے بنیادی غلطی تک پہنچنے کے قابل بھی ہو سکیں گے۔ جو بنیادی غلطی ہم سے سرزد ہوئی‘ جس نے ہمیں راہ حق سے بھٹکا دیا اور بوجوہ قدروں کے بگاڑ کا سبب بنتے ہوئے دین کی حقیقی صورت ہماری نظروں سے اوجھل کر دی‘ وہ ’’عمل‘‘ سے فرار ہے:
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
پہلے سے طے شدہ اور خود ساختہ موقف کو اپنانے کے بجائے اگر کوئی سلیم الفطرت شخص دین اسلام کا مطالعہ کرے تو اس پر نہایت سہولت سے واضح ہو جائے گا کہ دین اسلام کا مخاطب انسان ہے اور اس کا غالب رجحان نظری کے بجائے عملی ہے۔ اس طرح پورے دین کی تصویر ’’عملی انسان‘‘ کے الفاظ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ دین اسلام کا امتیازی وصف یہ ہے کہ ’’عملی انسان‘‘ کا تصور بھی محض نظری طور پر پیش نہیں کیا گیا بلکہ اس کی نظری تصویر کے متوازی ایک عملی شخصیت بطور ’’نمونہ کامل‘‘ موجود ہے۔ یہ نمونہ کامل وقت کے دھارے میں گم نہیں ہوا بلکہ دین اسلام کے ’’عملی انسان‘‘ کے اظہار اور تسلسل کے لیے نظری پہلو کا حصہ بن چکا ہے۔ بقول اقبال:
وہی قرآں‘ وہی فرقاں‘ وہی یاسیں‘ وہی طٰہٰ
رسول کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی مبارک زندگی قرآن مجسم تھی۔ آپ کے اقوال واعمال حق وباطل کے درمیان فرقان تھے۔ چونکہ قرآن مجید کی روش اختیاری ہے اور رسول پاک ﷺ کی حیات مبارکہ مجسم قرآن ہے‘ لہذا نبی کی زندگی لازماً عملی اور اختباری روش کی حامل ہوگی۔ حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ اپنی کتاب ’’تشکیل جدید الہیات اسلامیہ‘‘ کے پہلے خطبے میں رقم طراز ہیں:
’’صحیح بخاری اور دوسری کتب حدیث میں حضور کے اس مشاہدے کی پوری تفصیل درج ہے جس کا تعلق ابن صیاد ایسے وارفتہ نفس یہودی نوجوان سے تھا اور جس کی وجدانی کیفیتوں نے حضور رسالت مآب ﷺ کی توجہ اپنی طرف منعطف کر لی تھی۔ حضور نے اس کی آزمائش کی‘ طرح طرح کے سوالات پوچھے اور مختلف حالتوں میں اس کا معائنہ کیا۔ ایک مرتبہ آپ ایک درخت کے پیچھے کھڑے ہو گئے تاکہ وہ الفاظ سن سکیں جو ابن صیاد آپ ہی آپ بڑبڑا رہا تھا لیکن اس کی ماں نے اسے حضور کی موجودگی سے متنبہ کر دیا جس پر اس کی وہ حالت کافور ہو گئی اور حضور نے فرمایا کہ اگر اس کی ماں اسے متنبہ نہ کر دیتی تو ساری حقیقت کھل جاتی۔‘‘
ڈاکٹر اقبال سلسلہ گفتگو کو بڑھاتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’بہرحال یہ ابن خلدون تھا جس نے عالم اسلام میں سب سے پہلے یہ سمجھا کہ حضور کے اس طرز عمل کے معنی فی الحقیقت کیا ہیں اور پھر اس کی قدروقیمت کا اندازہ کرتے ہوئے بڑی حد تک وہ مفروضہ قائم کر لیا جس کو آج کل نفوس تحت الشعور سے منسوب کیا جاتا ہے۔‘‘
ابن خلدون کی اس توصیف سے پہلے اقبال لکھتے ہیں کہ:
’’بایں ہمہ اصحاب رسول ﷺ جو اس واقعہ پر‘ جسے گویا تاریخ اسلام میں نفسیاتی تحقیقات کا پہلا واقعہ تصور کرنا چاہیے‘ موجود تھے، علی ٰ ہذا حضرات محدثین بھی‘ جنہوں نے آگے چل کر یہ ساری روایت باحتیاط نقل کی‘ حضور ﷺ کے اس طرز عمل کی صحیح اہمیت سمجھنے سے قاصر رہے اور اس کی تشریح اپنے معصومانہ انداز میں کی۔‘‘
ڈاکٹر اقبال نے محدثین کے طرز عمل کی بابت یہاں بہت محتاط الفاظ (’’معصومانہ انداز‘‘) استعمال کیے ہیں لیکن ضرب کلیم میں کہتے ہیں:
حلقہ شوق میں وہ جرات اندیشہ کہاں
آہ محکومی وتقلید وزوال تحقیق
علماء کرام اور حضرات محدثین کا طرز عمل اس امر کا غماز ہے کہ انہوں نے اپنے مخصوص ذہنی سانچے سے باہر نکل کر ماحول اور حالات پر واقعیت پسندانہ نظر نہیں دوڑائی۔ اس کے برعکس رسالت مآب ﷺ کی حیات مبارکہ میں ماحول اور حالات کو بھانپ لینے کی قوت اور واقعیت پسندی بدرجہ اتم موجود ہے۔ دعوت اسلام کا آغاز‘ کوہ صفا کا واقعہ‘ ہجرت مدینہ‘ میثاق مدینہ‘ صلح حدیبیہ‘ غزوات میں ٹھوس حکمت عملی‘ فتح مکہ پر مخصوص طرز عمل‘ بین الاقوامی سفارت کاری وغیرہ اس سلسلے میں چند مثالیں ہیں۔ جیسا کہ ذکر ہوا‘ رسول اکرم ﷺ کی زندگی مجسم قرآن تھی لہذا یہ واقعیت پسندی قرآنی آئیڈیلز کی متشکل صورت تھی۔
پاکستان میں سیرت النبی ﷺ پر بہت کچھ لکھا جا رہا ہے۔ بازار میں بے شمار کتابیں موجود ہیں۔ وزارت مذہبی امور ہر سال سیرت کانفرنس کا انعقاد کرتی ہے لیکن افسوس کامقام ہے کہ مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہو رہے۔ معاشرے کی صورت پذیری قرآنی آئیڈیلز اور نبی ﷺ کی سنت کے مطابق نہیں ہو رہی۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ بنیادی وجہ وہی ہے: بے عملی۔ چونکہ ہمارا عمومی رویہ بے عملی کا بن چکا ہے‘ اس لیے نظری مباحث‘ مثلاً کانفرنسوں میں تقاریر‘ مقالے‘ کتابیں وغیرہ‘ مخصوص‘ متعین اور لگی بندھی نوعیت کی چیزیں ہیں۔ سیرت کانفرنس کے مقالہ جات کے عنوانات دیکھیے۔ اگر اتفاق سے عنوانات میں کہیں واقعیت پسندی نظر آئے گی تو مواد‘ اسلوب اور صاحب مقالہ کی اپروچ عنوان کا ستیاناس کر دے گی۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اگر قومی سطح کی کانفرنسوں کے مقالہ جات کا جب یہ معیار ہے تو صورت حال کا اندازہ بخوبی کیا جا سکتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ دین سے رغبت رکھنے والے طبقے کی اکثریت اس مخصوص بے عملی کے سبب سے گرفتار خرافات ہے۔ بقول اقبال ایک باعمل مرد حر‘ جو واقعیت پسندی سے محترز نہیں ہوتا‘ وقت کی لگام ہاتھ میں لے لیتا ہے:
آزاد کا اندیشہ حقیقت سے منور
محکوم کا اندیشہ گرفتار خرافات
لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں کتنے باعمل مرد حر موجود ہیں؟ کیونکہ ایسے افراد کی کاوشوں سے ہی ’’حقیقت‘‘ منور ہو کر سب کو اپنی طرف کھینچے گی۔ نبی ﷺ کو حقیقت کی کتنی جستجو رہتی تھی‘ یہ ان دعائیہ کلمات سے واضح ہے جو اکثر وبیشتر آپ کی زبان پر جاری ہوتے تھے: اے اللہ‘ مجھ کو اشیا کی اصل حقیقت سے آگاہ فرما۔‘‘ ڈاکٹر اقبال کی رائے میں اشیا کی اصل حقیقت تک رسائی‘ قرآن مجید کی رو سے‘ انسان کی اختباری روش میں پنہاں ہے۔ اقبال کے مطابق قرآن مجید نے انسان کے ایسے طرز عمل کو اس کی روحانی زندگی کا ایک ناگزیر مرحلہ ٹھہرایا ہے۔ چنانچہ تعلیمات قرآن کی ایک بڑی خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس نے حقیقت کے اس پہلو کو جس کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے‘ بے حد اہمیت دی۔ ڈاکٹر اقبال رقم طراز ہیں کہ:
’’یہ فطرت ہی کے پیہم انقلابات ہیں جن کے پیش نظر ہم مجبور ہو جاتے ہیں کہ اپنے آپ کو نئے نئے سانچوں میں ڈھال دیں۔ پھر جوں جوں ہم اپنی ذہنی کاوشوں سے علائق فطرت پر غلبہ حاصل کرنے کی سعی کرتے ہیں‘ ہماری زندگی میں وسعت اور تنوع پیدا ہوتا اور ہماری بصیرت تیز تر ہو جاتی ہے۔ یونہی ہم اس قابل ہو جاتے ہیں کہ محسوسات ومدرکات کے زیادہ نازک پہلو اپنی گرفت میں لے آئیں اور یونہی اشیا کے مرور زمانی پر غور وفکر کرتے کرتے ہم اپنے اندر یہ استعداد پیدا کر لیتے ہیں کہ لازمانی کا تعقل کر سکیں۔‘‘
قارئین کرام! اس اقتباس سے واضح ہوتا ہے کہ ہم نے اپنی زندگی میں وسعت اور تنوع پیدا نہیں ہونے دیا۔ بوجوہ ہماری بصیرت کہنگی کا طواف کر رہی ہے۔ قرآن مجید کی اختباری روش اور سیرت النبی ﷺ کے خلاقی پہلو سے محترز ہونے کے باعث ہم فطری انقلابات کا سامنا کرنے سے گھبرا رہے ہیں۔ اسی گھبراہٹ سے وہ بے عملی پھوٹ رہی ہے جس کا اوپر کی سطروں میں ذکر ہوا حالانکہ انسان تو انسان بنتا ہی باعمل اور تخلیق کار ہونے سے ہے۔ اقبالؒ وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’جب انسان کے گرد وپیش کی قوتیں اسے اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں تو وہ ان کے جیسی چاہے شکل دے سکتا اور جس طرف چاہے موڑ سکتا ہے لیکن اگر اس کا راستہ روک لیں تو اسے یہ قدرت حاصل ہے کہ اپنے اعماق وجود میں اس سے بھی ایک وسیع تر عالم تیار کر لے جہاں اس کو لا انتہا مسرت اور فیضان خاطر کے نئے نئے سرچشمے مل جاتے ہیں۔ اس کی زندگی میں آلام ہی آلام ہیں اور اس کا وجود برگ گل سے بھی نازک۔ بایں ہمہ حقیقت کی کوئی شکل ایسی طاقت ور‘ ایسی ولولہ خیز اور حسین وجمیل نہیں جیسی روح انسانی۔ لہذا باعتبار اپنی کنہ کے‘ جیسا کہ قرآن پاک کا ارشاد ہے‘ انسان ایک تخلیقی فعالیت ہے‘ ایک صعودی روح جو اپنے عروج وارتقا میں ایک مرتبہ وجود سے دوسرے میں قدم رکھتا ہے ...... انسان ہی کے حصے میں یہ سعادت آئی ہے کہ اس عالم کی گہری سے گہری آرزوؤں میں شریک ہو جو اس کے گرد وپیش میں موجود ہے اورعلیٰ ہذا اپنی کائنات کی تقدیر خود متشکل کرے‘ کبھی اس کی قوتوں سے توافق پیدا کرتے ہوئے اور کبھی پوری طاقت سے کام لیتے ہوئے اسے اپنی غرض وغایت کے مطابق ڈھال کر۔‘‘
اس پیرا گراف کا آخری فقرہ توجہ طلب ہے۔ اقبال لکھتے ہیں کہ:
’’اس لحظہ بلحظہ پیش رس اور تغیر زا عمل میں خدا بھی اس کا ساتھ دیتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ پہل انسان کی طرف سے ہو۔‘‘
قارئین کرام! تسخیر فطرت‘ واقعیت پسندی اور تخلیقی اپج کے اعتبار سے ہماری عصری تاریخ سے مترشح ہوتا ہے کہ ہم یہ شرط پوری کرنے پر تیار نہیں۔ حکومتی بے حسی پر بات کرنے کا فائدہ ہی نہیں کہ حکومتوں کے اپنے ایجنڈے ہوتے ہیں۔ ملال کی بات تو یہ ہے کہ دینی مدارس جمود کی انتہاؤں کو چھو چکے ہیں۔ عالمی سطح پر مسلمانوں کا جو حشر ہو رہا ہے اور پاکستان میں خود ان مدارس کی جو درگت بنتی نظر آرہی ہے‘ ا س سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان مدارس کے کرتا دھرتا لوگ ’’تخلیقی فعالیت‘‘ کے منصب پر، غالباً، کبھی فائز نہیں ہو سکتے۔ اپنی طرف سے پہلے کرنے کے بجائے وہ معاملہ خدا کے سپرد کیے ہوئے ہیں‘ حالانکہ:خدائے زندہ‘ زندوں کا خدا ہے۔
قرآن مجید اور سیرت خاتم النبیین ﷺ ہماری زندگیوں میں تبھی انقلاب لا سکتے ہیں اگر ہم سب سے پہلے اپنے گرد وپیش کے حالات اور ماحول پر شعوری گرفت قائم کر لیں۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ عصر حاضر اور اس کے تقاضوں کو سمجھنا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ دین اسلام کی حقیقی روح کو بھی تحقیق وجستجو کے زور پر خرافات‘ توہمات اور وہم وگمان کے چنگل سے چھڑانا ہے:
شیر مردوں سے ہوا بیشہ تحقیق تہی
رہ گئے صوفی وملا کے غلام اے ساقی
ہمیں تقلید محض کے بجائے بیشہ تحقیق سے ’’جدت کردار‘‘ بھی تراشنا ہے:
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار
لفظ گری اور اصطلاحوں کی طوطا مینا میں الجھنے کے بجائے عصری تفہیم کی جیکٹ پہن کر‘ قرآن میں غوطہ زن ہو کر‘ چن چن کر ایسے قرآنی آئیڈیلز معاشرتی سطح پر لانے ہیں جو جدت کردار کی تشکیل میں رہنمائی کر سکیں:
عصر حاضر کے تقاضاؤں سے ہے لیکن یہ خوف
ہو نہ جائے آشکارا شرع پیغمبر کہیں
گویا اقبال عصر حاضر کے تقاضاؤں سے پر امید ہیں کہ انہی کے بطن سے جدت کردار کی راہیں ہویدا ہوں گی لیکن ’’ابلیسی خوف‘‘ بنیادی رکاوٹ ہے لہذا دین اسلام کو معاشرتی سطح پر زندگی میں سمونے کے لیے ضروری ہے کہ:
۱۔ عصر حاضر کو سمجھا جائے اور ابلیسی خوف کو دور کیا جائے۔
۲۔ عصر حاضر کے تقاضوں اور مسائل کی بابت بھی کماحقہ آگاہی حاصل کی جائے۔
ان دو تقاضوں کو پورا کیے بغیر عصر حاضر کے چیلنج کا سامنا نہیں کیا جا سکتا:
جب تک نہ زندگی کے حقائق پہ ہو نظر
تیرا زجاج ہو نہ سکے گا حریف سنگ
مثلاً ہم سب جانتے ہیں کہ آج کا دور تخصیص (Specialization) کا دور ہے۔ فرد کی زندگی کے نظری اور عملی پہلوؤں میں یک رخی اپروچ ہے۔ تخصیص کی بربریت جلد ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہے چنانچہ اب مغربی ممالک میں Working Father (کمائی میں مصروف باپ) جیسے معاشرتی موضوعات پر کام ہو رہا ہے۔ زندگی کی تیز رفتاری اور تخصیص نے دو آتشی تلوار کا روپ دھار لیا ہے۔ ایک آدمی اپنی زندگی کی مختلف حیثیتوں میں توازن ملحوظ نہیں رکھ پاتا جس سے بے پناہ معاشرتی‘ نفسیاتی اور جذباتی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ اہل مغرب اپنے انداز سے ان مسائل کا حل ڈھونڈ رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ نبی ﷺ کی حیات طیبہ ہماری بہتر راہنمائی کر سکتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ آج کے عہد کے تناظر میں رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ کا مطالعہ کریں اور یہ دکھائیں کہ آپ باپ ہونے کے ساتھ ساتھ معاشرتی زندگی میں بہت فعال تھے۔ آپ نے معاشرتی فعالیت اور پدرانہ ذمہ داریوں میں بہترین توازن کا مظاہرہ کیا اور تخصیص کے بجائے شخصی جامعیت کی راہ اختیار کی۔ شخصی جامعیت کے فوائد وثمرات اور اہمیت کے ضمن میں‘ اہل مغرب کا تخصیص کی بربریت پر کیا ہوا تحقیقی کام نہایت مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ چند اقتباسات ملاحظہ کیجیے:
’’...... جب ۱۸۹۰ء میں تیسری نسل نے یورپ کے عقلی افق پر خود کو نمایاں کیا تو ایسے سائنس دان سامنے آئے جن کا موازنہ تاریخ میں کسی اور سے نہیں کیا جا سکتا۔ اور یہ وہی شخص ہے جس کو تمام لوگوں میں سے صائب الرائے قرار دیا جاتا ہے لیکن وہ تو صرف ایک سائنس سے آشنائی رکھتا ہے بلکہ اس سائنس کے بھی کسی ایک کونے کھدرے کو جانتا ہے جس کا وہ ایک فعال تفتیش کار ہے۔ وہ تو اس کو بھی ایک خوبی قرار دیتا ہے اور اسے اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ اس چھوٹے سے دائرۂ کار کے باہر کیا موجود ہے جس کی اس نے خاص طور پر آب یاری کی ہے اور وہ علم کے عمومی شعبوں کے تجسس کو Dilettantism قرار دیتا ہے۔‘‘
’’...... سوال یہ ہے کہ ہر آئندہ نسل کا سائنس دان جو اپنی کارکردگی کے دائرہ عمل کو سکیڑتا چلا گیا ہے‘ سائنس کے دوسرے شعبوں کے ساتھ اس کا رشتہ بھی کمزور پڑ رہا ہے کیونکہ اس کی کائنات کی یہی روابطی توجیہ ہو سکتی ہے اور شاید اسی کا نام سائنس‘ کلچر اور یورپی تہذیب ہے۔‘‘
’’اور پھر انسان خود کو ان شعبوں میں سے کسی کے اندر مقید کر لیتا ہے اور باقی سب کچھ فراموش کر دیتا ہے۔ اس طریق کار کا ٹھوس اور درست ہونا عارضی طور پر اس کے حق میں چلا جاتا ہے مگر حقیقی طور پر یہ علم کا بکھراؤ (Disarticulation) ہے۔‘‘
’’تخصیص کار عالم نہیں ہے کیونکہ وہ ہر اس شے سے لاعلم ہے جو اس کے مخصوص دائرہ کار میں نہیں آتی۔ مگر وہ لاعلم بھی نہیں کیونکہ وہ بہرحال ایک سائنس دان تو ہے اور وہ اپنے حصے کی کائنات کو تو اچھی طرح جانتا ہے۔ چنانچہ ہمیں کہنا پڑے گا کہ وہ علم رکھنے والا لا علم ہے اور یہ بہت ہی سنجیدہ معاملہ ہے کیونکہ اس بیان میں یہ بات مضمر ہے کہ وہ لاعلم آدمی ہے۔ ...... اور حقیقت میں تخصیص کار کا رویہ یہی کچھ ہے‘ سیاست میں‘ آرٹ میں‘ سماجی اعتبار سے اور دوسرے علوم کے متعلق بھی‘ کیونکہ وہ ان معاملات میں ایک قدیم اور لاعلم انسان کا رویہ اپناتا ہے۔‘‘
’’اس غیر متوازن تخصیص کاری کا‘ جو آج کل مروج ہے‘ یہ نتیجہ فکر نکلا ہے کہ اب دنیا میں جس قدر سائنس دان موجود ہیں‘ اتنے کبھی نہیں تھے مگر جہاں تک ثقہ (Cultured)لوگوں کا تعلق ہے‘ وہ تو اتنے بھی نہیں ہیں جتنے مثال کے طور پر ۱۷۵۰ء میں تھے۔‘‘ (بحوالہ ’’سائنس کے عظیم مضامین‘‘، ترجمہ : شہزاد احمد)
قارئین محترم! ان اقتباسات سے میرے موقف کی تصویر پوری طرح آپ پر واضح ہو گئی ہوگی۔ سیرت النبی ﷺ کے ضمن میں جامعیت اور توازن کے موضوعات پر اگرچہ کافی لکھا جا چکا ہے لیکن اس زاویے اور عصر حاضر کے تناظر میں نہیں لکھا گیا۔ اگر ہم عصر حاضر اور اس کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نبی ﷺ کی حیات مبارکہ کے خلاقی پہلو منظر عام پر لا سکیں تو نہ صرف اپنی بے عملیت کا خاتمہ کر سکیں گے بلکہ مغرب کو درپیش معاشرتی مسائل کا حل بھی فراہم کر سکیں گے اور یہی آدمیت ہے جس کا تقاضا دین اسلام ہم سے کرتا ہے۔ جامعیت اور توازن سے ہی آدمیت اپنائی جا سکتی ہے۔ آج بھی انہی کے فقدان سے ایک معاشرتی بحران منہ کھولے کھڑا ہے:
آدمیت زاحترام آدمی
باخبر شو از مقام آدمی
کسی معاشرے کے اندر اور اقوام کے مابین احترام ومقام آدمی کا نفوذ صرف شخصی جامعیت کا متقاضی ہے۔