جی ہاں! پاکستان کو آئیڈیل ازم کی ضرورت ہے

پروفیسر میاں انعام الرحمن

جنرل پرویز مشرف آج کل جہاں اپنی حکومت کے ’’انقلابی اقدامات‘‘ کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں‘ وہاں یہ بھی فرما رہے ہیں کہ مثالیت (Idealism) کے بجائے عملیت اور نتائجیت (Pragmatism) کو قومی شعار بنانا چاہیے۔ جنرل صاحب مجوزہ آئینی ترامیم اور ریفرنڈم کے سیاق وسباق میں قوم کو یہی ’’درس‘‘ دے رہے ہیں۔

اگر ہم ذرا گہری نظر سے معروضی واقعیت کا جائزہ لیں تو دنیا میں اس وقت موجود قومی وعالمی تشتت وانتشار‘ بے حسی اور خود غرضی کے اسباب مثالیت پسندی کے زوال میں تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر شعبہ تعلیم سے وابستہ افراد اگر مثالیت پسندی کا مظاہرہ کریں تو انہیں مادی مفادات سے بالاتر ہو کر (یعنی ٹیوشن وغیرہ سے بچتے ہوئے) محنت ودیانت داری کے ساتھ طلبا کی ذہنی اور اخلاقی تربیت کے لیے کوشاں رہنا چاہیے۔ ایک وقت تھا جب اس شعبے کے افراد کی اکثریت مثالیت کو اوڑھنا بچھونا بنائے ہوئے تھی اس لیے معاشرے میں کرپشن کا گراف بھی اتنا بلند نہیں تھا۔ لیکن شعبہ تعلیم میں نتائجیت پسندی کے راہ پانے سے مثالیت کو چپ سادھنی پڑی ہے۔ مثالیت پسند گوشہ نشین ہو چکے ہیں اور احباب کی نظروں میں ’’احمق‘‘ گردانے جاتے ہیں جبکہ نتائجیت پسند ’’عاقل‘‘ اپنے معیار زندگی کو بلند سے بلندتر کرتے ہوئے زمانے کے شانہ بشانہ چل رہے ہیں۔ 

نتائجیت پسندی زندگی کے ہر شعبے میں ’’شارٹ کٹ اپروچ‘‘ کو فروغ دیتی ہے۔ شعبہ تعلیم میں اسی اپروچ کے مطابق Selected study کرائی جاتی ہے جس سے طلبا کو معلومات (Information)کا طومار تو مل جاتا ہے لیکن شعور (Awareness) ان کے قریب بھی نہیں پھٹکتی۔ اس اپروچ کے سنگین نتائج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ اسی طرح بیوروکریسی اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں مثالیت کے زوال اور نتائجیت کے در آنے سے معاشرہ جس ٹوٹ پھوٹ اور بے حسی کا شکار ہے‘ قلم اسے بیان کرنے سے قاصر ہے۔

۱۲؍ اکتوبر کو اقتدار کی مسند پر قابض ہونے کے بعد جنرل پرویز مشرف نے سات نکاتی ایجنڈا پیش کیا تھا۔ ان نکات میں سے ایک نکتہ قومی اداروں کو سیاسی اثرات اور رجحانات سے پاک کرنا (Depoliticizing State Institutions)تھا۔ جب جنرل صاحب یہ نکتہ بیان فرما رہے تھے تو ساتھ ہی عملاً اس کی نفی بھی کر رہے تھے۔ ایک جمہوریہ میں فوجی جرنیل کا اقتدار سنبھالنا چہ معنی دارد؟ ریفرنڈم کے سلسلے میں حالیہ جلسوں میں وردی پہن کر سیاسی انداز میں ’’عوامی‘‘ تقاریر سے یہ تضاد اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے۔ جلسوں میں سرکاری ملازمین کی جبری حاضری سرکاری اداروں کی Politicization کو ہی منعکس کرتی ہے۔ یہ تلخ حقیقت اپنی جگہ روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مسلح افواج نے ملکی سلامتی اور قومی مفاد کے نام پر مملکت کے دستور کو ’’یرغمال‘‘ بنایا ہوا ہے۔ جناب صدر کو واضح کرنا چاہیے کہ ان کی دانش کے مطابق Depoliticization کے حدود اربعہ کیا ہیں اور State Institutionsکس بلا کا نام ہے؟پاکستان کے عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ کیا آرمی ایک پرائیویٹ ادارہ ہے؟ ہماری قومی تاریخ گواہ ہے کہ آرمی کے ڈسپلن کو ہمیشہ ہائی جیک کر کے اسے پرائیویٹ ادارہ ہی ثابت کیا گیا ہے۔ یہ سچ ہے کہ مقتدر گروہ کی نتائجیت پسندی نے Depoliticization کے معقول اور مثالی نکتے کو شرمندۂ تعبیر نہیں ہونے دیا۔ 

صدر محترم کے فرمان کے مطابق اگر ہم نتائجی نقطہ نظر سے بھی معروضی واقعیت کا جائزہ لیں تو یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ کسی بھی قسم کی ’’اصلاحات‘‘ اگر نظام کے بجائے شخصی بنیادوں پر استوار کی جائیں تو وہ دیرپا ثابت نہیں ہوتیں اور ان کے اثرات بھی خواہشات کے مطابق مرتب نہیں ہوتے۔ ویسے بھی قوم کو اصلاحات کے انبار کے بجائے کمٹ منٹ اور قوت ارادی کی ضرورت ہے۔ تاریخی استشہاد بھی اسی موقف کو تقویت دیتا ہے لیکن برسراقتدار گروہ نتائجیت کے بجائے ’’موضوعی نتائجیت‘‘ کو اپنائے ہوئے ہے جس سے اصلاحات کی شخصی بنیادیں مضبوط سے مضبوط تر ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ جناب صدر کا یہ جملہ کہ ’’میں‘ میں ہوں‘‘ اس کا زندہ ثبوت ہے۔ ماہرین نفسیات اس ’’میں‘‘ کو نرگسیت کے زمرے میں شمار کرتے ہیں اور ان کے مطابق اس کا کوئی علاج نہیں۔

ریفرنڈم میں لوگوں کو ہاں یا نہیں کا آپشن بھی دیا گیا ہے اور عوام کی جہالت کا تدارک سبز اور سفید رنگ کے خانوں سے کیا گیا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ عوام کی اکثریت کلر بلائنڈ ہے۔ انہیں مختلف رنگوں میں فرق نظر نہیں آتا۔ اس طرح دو خانوں کے درمیان کھینچی گئی لائن بے معنی ہو جاتی ہے حالانکہ حکومتی دعووں کے مطابق یہ لائن ہی ریفرنڈم کی بنیاد اور جواز ہے۔ بہتر ہوتا اگر ہاں اور نہیں کے لیے تصویروں سے مدد لی جاتی مثلاً ’’ہاں‘‘ والے خانے میں گدھ کی اور ’’نہیں‘‘ والے خانے میں فاختہ کی تصویر شائع کی جاتی بلکہ زیادہ بہتر یہ تھا کہ ’’ہاں‘‘ والے خانے میں بوٹوں کی اور ’’نہیں‘‘ والے خانے میں کتاب کی تصویر شائع کی جاتی۔ یہ ضروری نہیں تھا کہ کتاب پر ’’دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ بھی لکھا جاتا۔

صدر محترم! ریفرنڈم پر میرا اور میرے ’’ہم خیالوں‘‘ کا جواب حاضر خدمت ہے جو ہاں میں ہے۔ ہاں! پاکستان کو آئیڈیل ازم کی ضرورت ہے۔ ہاں جی ہاں‘ پاکستان کو آئیڈیل ازم کی ضرورت ہے۔ 


آراء و افکار

(مئی ۲۰۰۲ء)

مئی ۲۰۰۲ء

جلد ۱۳ ۔ شمارہ ۵

تحریک ختم نبوت کے مطالبات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

قافلہ معاد
ادارہ

جی ہاں! پاکستان کو آئیڈیل ازم کی ضرورت ہے
پروفیسر میاں انعام الرحمن

مقاصد تشریع کا ایک مختصر جائزہ
مولانا منتخب الحق

دینی قوتیں: نئی حکمت عملی کی ضرورت
ڈاکٹر محمد امین

دستور سے کمٹمنٹ کی ضرورت
پروفیسر میاں انعام الرحمن

سر سید کے مذہبی افکار پر ایک نظر
گل محمد خان بخمل احمد زئی

غزوۂ بدر کی سیاسی واقتصادی اہمیت
پروفیسر محمد یونس میو

تیل کی طاقت
کرسٹوفر ڈکی

مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ کا حادثہ وفات
امین الدین شجاع الدین

آہ! حضرت مولانا مفتی رشید احمدؒ
حافظ مہر محمد میانوالوی

جناب ڈاکٹر محمود احمد غازی کا مکتوب گرامی
ڈاکٹر محمود احمد غازی

تلاش

Flag Counter