عصری تقاضے اور اسلام کی تعبیر وتشریح

پروفیسر میاں انعام الرحمن

کسی قوم کی کمزور تاریخ یا پھر اپنی عظیم تاریخ کا کمزور شعور تخلیقی صلاحیتوں کو مردہ اور سارے نظامِ اقدار وخیال کو تتر بتر کر دیتا ہے۔ عالمی مسلم معاشرہ اسی المیے کا شکار ہے۔ اسلام کی عصری تقاضوں سے ہم آہنگ تعبیر وتشریح بیک وقت دو محاذوں پر کام کرنے سے ممکن ہے‘ داخلی اور خارجی۔ درج بالا پہلے فقرے کے تناظر میں داخلی محاذ پر زیادہ سنجیدگی اور مشقت کی ضرورت ہے۔ اگر ہم کتاب اور سنت‘ احادیث نبوی اور اسلام کے ابتدائی عہد میں دعوت کے اسلوب پر طائرانہ نظر دوڑائیں تو اسلامی اسپرٹ بہت زیادہ سوشل معلوم ہوگی۔ اسلام کی دعوتی اور توسیعی سرگرمیاں‘ چاہے ان کا رخ خود مسلم معاشرہ کے داخل کی طرف ہو یا خارج میں کوئی غیر مسلم مخاطب ہو‘ ہمیشہ سوشل منہاج کی حامل رہی ہیں۔ سیاست‘ معیشت‘ تمدن‘ ثقافت‘ علوم وفنون وغیرہ ان سب کا خمیر سوشل رویے سے ہی اٹھا تھا۔ سوشل رویے کی تہذیب اور اٹھان میں دو طرح کی نفسیات کام کرتی ہے‘ انفرادی اور گروہی۔ نظری اعتبار سے ممکن ہے کہ ہم اپنی سہولت کے پیش نظر اور نت نئے پہلوؤں کو اجاگر کرنے کے لیے ان کو علیحدہ علیحدہ ڈسکس کریں لیکن عملی اعتبار سے علیحدگی کی حتمی لائن کھینچنا ناممکن ہے۔ ابن خلدون شاید واحد مسلم مفکر ہے جس نے تاریخ کی ’’سماجی طرح‘‘ کی بنیاد ڈالی اور مسلم تاریخ کو معتبر کرنے کے ساتھ ساتھ نقد وانتقاد کے کئی پہلو متعارف کرائے۔ اپنے عہد میںیہ بہت بڑا کارنامہ تھا۔ ہماری نااہلی کی وجہ سے اب بھی یہ ایک کارنامہ ہے۔ اگر ہم ابن خلدون کے بعد تفہیم تاریخ کے تسلسل کو قائم نہیں رکھ سکے تو کم از کم اتنا تو کر سکتے ہیں کہ اس کے اصول تاریخ کو اپنے عہد کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کریں۔ اگر ایسا ہو سکے تو عصر حاضر میں اسلام کی تعبیر وتشریح کے لیے درکار تاریخی شعور کچھ نہ کچھ حاصل ہو جائے گا۔ تاریخی شعور کے بغیر کوئی بھی تخلیقی سرگرمی سطحی اور عارضی ثابت ہوگی کیونکہ اس کی عدم موجودگی سے معاشرے سے معیار غائب ہو جاتے ہیں‘ اوٹ پٹانگ تُک بندیاں راہ پا جاتی ہیں‘ زمینی حقائق نظر انداز کر دیے جاتے ہیں‘ عقائد ’’جذبات نما‘‘ بن جاتے ہیں‘ انفرادی اور گروہی زندگی نصب العین اور راہ عمل سے یکسر خالی ہو جاتی ہے۔ تاریخی شعور سے عاری کوئی بھی معاشرہ زندہ معاشرہ نہیں کہلا سکتا کہ آرزوؤں کی شکست کا عمل تیز ہو جاتا ہے اور شکستِ آرزو شکستِ زیست کا باب ثابت ہوتی ہے۔

عصر حاضر میں اسلام کی تعبیر وتشریح کے داخلی منہاج کے لیے پہلا قدم ’’صحیح سوال‘‘ کرنا ہے۔ اکثر سننے اور پڑھنے میں آتا ہے کہ کتاب وسنت سے دوری کی وجہ سے مسلمان زوال کا شکار ہو گئے ہیں۔ یہ بیانیہ اور واقعاتی انداز ہے۔ درحقیقت یہی انداز ہمارے زوال کا سبب ہے۔ سوال اس طرح ہونا چاہیے کہ ’’ہم کتاب وسنت سے کیوں دور ہو گئے ہیں؟‘‘ اس سوال کے جواب میں کوئی سنجیدہ‘ جامع‘ تجزیاتی کتاب شاید ہی ملے۔ اگر کچھ کتب مل بھی جائیں تو ان کا جواب بیانیہ اور واجبی سا ہوگا کہ ہم نے مغرب کی اندھا دھند پیروی شروع کر دی ہے‘ مغربی ثقافت کی یلغار سے ہم منتشر ہو گئے ہیں‘ علوم وفنون میں غیر مسلموں کی ترقی سے ہم بہت مرعوب ہو گئے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس قسم کے واقعات میں محض نشان دہی کی گئی ہے جیسا کہ سوال میں نشان دہی کی گئی ہے کہ ہم کتاب وسنت سے دوری کی وجہ سے زوال کا شکار ہیں۔ اگر پڑھنے والا ہوش مند قاری ہے تو ایسے جوابات سے اس کا رد عمل زیادہ سے زیادہ ایک لمحے کی زیر لب مسکراہٹ ہوگا۔ مجھے مسکراہٹ کی اہمیت سے انکار نہیں ہے لیکن اسلام کی تعبیر وتشریح کے لیے درکار جوابات کے لیے یہ ناکافی ہیں۔ ایسے سوالات اور ان کے تسلی بخش جوابات بنیاد فراہم کرنے کے باوجود تعمیم کے زمرے میں آئیں گے۔ مشقت تو ہوگی لیکن کچھ درکار (Required) سوالات بھی تلاش کرنا ہوں گے۔ یہ تلاش تبھی موثر ثابت ہوگی اگر ہم اپنے زمانے کے حدود اربعہ‘ ساخت اور رجحانات کی بابت کماحقہ آگاہ ہوں گے۔ محدود با خبری ہمیں راستے سے ہٹا (Detract)سکتی ہے۔ ایسے سوالات کی نوعیت بھی اگرچہ تعمیمیت کی حامل ہوگی لیکن ا سکی جڑیں عصر حاضر سے مخصوص ہوں گی۔ مثلاً:

۱۔ کیا کسی الہامی مذہب کا زندگی کے تمام پہلوؤں پر محیط ہونا ممکن ہے؟

۲۔ اگر ممکن ہے تو کیا عصر حاضر میں اس کی ضرورت ہے؟

۳۔ اگر ضرورت بھی ہے تو اس کے ادعائی ثمرات کیسے حاصل کیے جا سکتے ہیں؟

۴۔ آئیے مل کر کسی ایسے مذہب کی دریافت کا سفر شروع کریں‘ اس عہد کے ساتھ کہ سفر کی صعوبتوں سے بھاگیں گے نہیں۔ دورانِ سفر میں باہمی اختلاف کا امکان موجود رہے گا۔ آئیے یہ بھی طے کر لیں کہ کسی اختلاف کو اس طرح پیش نہیں کریں گے جس سے سفر متاثر ہو اور قافلے کی ٹوٹ پھوٹ کا امکان ہو۔

داخلی منہاج پر کیے گئے ایسے سوالات عصری تقاضوں کو Address کریں گے۔ نتیجے میں پیدا ہونے والے ثمرات محض داخلی نوعیت کے نہیں ہوں گے بلکہ خارجی محاذ پر مسلمانوں کے لیے موثر ہتھیار ثابت ہوں گے۔

بعض اصحاب کی رائے ہے کہ اسلامی دعوت کی ’’کلیت‘‘ کا اظہار مناسب نہیں کہ حکمت عملی کا تقاضا یہی ہے۔ مولانا محمد عیسیٰ منصوری ماہنامہ الشریعہ کے نومبر ۲۰۰۱ء کے شمارے میں رقم طراز ہیں کہ

’’۱۹۹۴ء میں امریکہ میں عالمی مذاہب کانفرنس ہوئی جو ہر سو سال بعد منعقد ہوتی ہے۔ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں دنیا کے ہر چھوٹے بڑے مذہب کے پیروکاروں کو اپنے مذہب کا تعارف پیش کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ اس کانفرنس میں شرکت کرنے والی ایک علمی شخصیت نے اس کانفرنس کا ایک نہایت قابل غور نکتہ تحریر کیا ہے۔ وہ یہ کہ کانفرنس میں دوسرے مذاہب پر گفتگو کے دوران لوگ سنجیدہ رہتے اور بغور سنتے مگر جونہی اسلام کے تعارف کا موقع آجاتا‘ وہ جارحانہ انداز اختیار کر لیتے۔ لوگوں کے اس رویے کا سبب بتاتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ دیگر مذاہب کے نمائندے اپنے مذہب کو فرد کی تعمیر کی حیثیت سے پیش کرتے یعنی ان کا مذہب فرد کے اعمال وعقائد میں کیا تبدیلی چاہتا ہے۔ اس کے برعکس اسلام کانمائندہ اپنی بات یہاں سے شروع کرتا کہ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے ....... تو سامع پر فوری اثر یہ مرتب ہوگا کہ وہ سمجھے گا کہ مسلمان ہم پر سیاسی بالادستی واقتدار کے خواہاں ہیں۔‘‘

جہاں تک دیگر مذاہب کے جارحانہ رویے کا تعلق ہے تو اس پر اکتفاکروں گا کہ کفار ملت واحدہ ہیں۔ جہاں تک پیغام کی اجتماعیت کا تعلق ہے تو میراخیال ہے کہ اسلام اور دیگر مذاہب میں بنیادی فرق ہی یہی ہے ورنہ بعض دوسرے مذاہب کے لوگ بھی موحد ہیں‘ ان کا کوئی نہ کوئی نبی بھی ہے اور آسمانی صحیفہ بھی‘ اگرچہ تحریف شدہ۔ چونکہ دیگر مذاہب میں سیاست واجتماعیت کے حوالے سے کلیدی راہنمائی موجود نہیں اس لیے ناواقفیت کی فضا میں ان کا رویہ جارحانہ ہو جاتا ہے۔ ان کا مذہبی شعور یہ ماننے پر ہی تیار نہیں ہوتا کہ مذہب ضابطہ حیات بھی ہو سکتا ہے۔ ضرورت ان کے مذہبی شعور کو Address کرنے کی ہے نہ کہ اپنے پیغام کی آفاقیت پر کمپرومائز (Compromise)کرنے کی۔ اگر وہ محدود مذہبی شعور کے سبب سے نہیں تو خوف کی فضا میں جارحیت کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں ان کا خوف دور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں دیکھنا چاہیے کہ ان کا خوف کس نوعیت کا ہے۔ میرے نقطہ نظر سے پیغام کی آفاقیت کو برقرار رکھتے ہوئے پیرایہ اظہار اور اسلوب میں تبدیلی سے ان کا خوف کم ہو سکتا ہے۔ کمپرومائز اسلوب کی حد تک ہو سکتا ہے۔ جہاں تک خوف کے مکمل خاتمے کا تعلق ہے تو آپ کمپرومائز کی انتہا پر بھی چلے جائیں تو وہ ختم نہیں ہوگا۔ یہ ایک عام سا نفسیاتی نکتہ ہے۔

موصوف مقالہ نگار اجتماعی ہیئت اور سیاست وریاست کی نفی کرتے ہوئے فرد پر بہت زور دیتے ہیں‘ اگرچہ حکمت عملی کے تحت۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کوئی ’’فرد‘‘ ہوتا بھی ہے؟ جیسا کہ میں نے بہت ابتدائی سطور میں اشارہ کیا ہے۔ پھر اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ عصر حاضر تو عالمی گاؤں (Global Village) جیسے رجحانات سے عبارت ہے۔ ضرورت اسلام کے اجتماعی نظام کے مکاشفے کی ہے نہ کہ فردیت کی۔ آئیے مغرب کے سماجی نظام کی روشنی میں اس ’’ضرورت‘‘ کا مختصراً جائزہ لیں:

کسی طرز معاشرت سے ہی زندگی کے دیگر پہلوؤں کی ہیئت کا تعین ہوتا ہے لہذا کسی ملک کے سیاسی‘ معاشی اور دیگر نظاموں کے مطالعہ سے اس ملک کے سماجی نظام کی مخصوص نہج کا تقریباً کلی ادراک بآسانی ہوجاتا ہے۔ دیگر نظام ہائے زندگی اپنے خالق یعنی طرز معاشرت کے عکاس ثابت ہوتے ہیں۔ اگر کسی ملک کی معیشت کا رخ منفی ہے تو لامحالہ قصور وار متعلقہ ملک کا مخصوص سماجی نظام ہی ہوگا۔

اگر ہم مغرب کے اقتصادی وسیاسی نظام ہائے زندگی کا جائزہ لیں تو ان میں مضمر منفیت چھپی نہیں رہتی۔ ان نظاموں کے استحصالی پہلو سے دنیا آگاہ ہے۔ اس منفیت کو دور کرنے کی اصلاحی کوششیں اگر صرف متعلقہ نظاموں تک محدود رہیں تو نہ صرف سطحی شمار ہوں گی بلکہ بے سود ثابت ہوں گی کیونکہ ان نظاموں کی منفیت مخصوص سماجی نظام کی مرہون منت ہے۔ اس سماجی نظام کو ایڈریس کر کے ہی اصلاح احوال کی امید کی جا سکتی ہے۔

معاشی منفیت کچھ ا س طرح سے ہے کہ 

۱۔ سودی نظام

۲۔ دولت کا ارتکاز

۳۔ اور اخلاقیات اور معاشی سرگرمیوں میں بعداس نظام کی نمایاں خصوصیات ہیں۔

سیاسی منفیت اس طرح سے ہے کہ

۱۔ جمہوریت ہی آئیڈیل نظام ہے۔

۲۔ جب ریاست اور حکومت میں فرق روا نہیں رکھا جاتا تھا تو حکمران طبقہ کہتا تھا ’’میں ریاست ہوں‘‘۔ آج ریاست اور حکومت میں فرق ہونے سے حکمران طبقہ کہتا ہے ’’میں عوام ہوں‘‘۔ اگر عمیق نظر سے جائزہ لیں تو دونوں باتوں میں صرف لفظی ہیر پھیر ہے کیونکہ مقتدر طبقہ دونوں جگہ مخصوص ہے۔

۳۔ قومی مفاد ہر چیز پر مقدم اور زیادہ عزیز ہے۔

سماجی منفیت کچھ اس طرح سے ہے کہ

۱۔ انفرادیت پسندی کی انتہا ہے۔

۲۔ یہی انفرادیت پسندی جب اجتماعی سطح پر ظاہر ہوتی ہے تو ایک قوم بھی قوموں کی برادری میں صرف اپنا انفرادی مفاد ہی عزیز رکھتی ہے۔ قومی مفاد کی عفریتی اصطلاح کسی قوم کے انفرادیت پسندانہ رجحانات کو مرتکز کرنے میں بہت معاون ثابت ہوتی ہے۔

۳۔ یہی انفرادیت پسندی فرد کی سطح پر دولت کے ارتکاز کا باعث بنتی ہے کہ محروم اور کمزور طبقے میں خوف کی ایک عجیب سی فضا قائم کر دیتی ہے۔

۴۔ انفرادیت پسندی کی وجہ سے مقابلے کا رجحان ضروری ہو جاتا ہے کہ اس مقابلے میں اخلاقیات منہ لپیٹ کر ایک طرف پڑی رہتی ہے۔

مختصراً ہم کہہ سکتے ہیں کہ مغرب کے سماجی نظام میں موجود انفرادیت پسندی کی انتہا سے اقتصادی وسیاسی شعبہ ہائے زندگی میں جملہ مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ انفرادیت پسندی کے زہر اور اس کے مضمرات کی منفیت نے ہی مغرب کے سماجی نظام کو ایک مخصوص نہج پر ڈال رکھا ہے جس کے سنگین نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔ مغرب کا تدریسی وتربیتی نظام بنیادی مرکز کی حیثیت سے اس مخصوص سماجی نظام کو پروان چڑھا رہا ہے۔ طلبا کو زندگی کی دوڑ میں آگے نکلنے کے داؤ پیچ سکھائے جاتے ہیں۔ تربیتی لیپا پوتی کے ذریعے سے ان کا مخصوص ذہن بنایا جاتا ہے۔ یہ مخصوص ذہن معاشرے کے اندر سب سے آگے نکلنے کے لیے کسی کو خاطر میں نہیں لاتا اور اجتماعی سطح پر کسی دوسری قوم کو پرکاہ کی اہمیت نہیں دیتا۔ اگر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ ذہن Accommodating (دوسروں کا لحاظ کرنے والا) نہیں ہے۔ اجتماعی سطح پر دوسری اقوام کو Accommodate کرنے پر تیار نہیں اور فرد کی سطح پر معاشرے کے دیگر افراد کو Accommodateکرنے پر تیار نہیں۔ لہذا اس مخصوص ذہن کا اخلاقیات یا زندگی کے آئیڈیلز سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہوتا۔ یہی مخصوص ذہن زندگی کے ہر شعبے میں اپنے مخصوص انداز سے کوئی نہ کوئی گل کھلاتا رہتا ہے۔ محروم طبقوں کی بغاوت کے پیش نظر اپنی مخصوص تربیت کی وجہ سے گل کھلانے کا عمل ’’تہذیبی دائرے‘‘ میں کیا جاتا ہے۔ یہ تہذیبی دائرہ وہی ہوتا ہے جو یہ لوگ پراپیگنڈے کے ذریعے سے لوگوں کے ذہنوں میں ڈال دیتے ہیں اور اسے قبول کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ صورت احوال میں کیسے تبدیلی کی جا سکتی ہے؟ ظاہر ہے کہ ایسی طرز معاشرت کی بنیاد رکھنا ہوگی جس میں انفرادیت پسندانہ رجحانات شدید نہ ہوں۔ اس کے لیے اس مخصوص ذہن کو بدلنا ہوگا اور اس مخصوص ذہن کو تدریسی وتربیتی نہج میں تبدیلی پیدا کر کے ہی بدلا جا سکتا ہے کیونکہ وہ اسی مخصوص تدریسی وتربیتی نہج کی پیداوار ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ درست نہج کون سی ہے؟ اس کا تعین کیسے کیا جا سکتا ہے؟ انسانی زندگی کے وہ کون سے آئیڈیلز ہیں جنہیں سماج میں رائج کیا جانا چاہیے؟ ان کی تلاش کے لیے ہمیں انسانی شخصیت سے ہی کچھ نہ کچھ اخذ کرنا ہوگا۔

کہتے ہیں بچے کی معصومیت لاشعوری ہوتی ہے۔ بچہ دانستہ یا کسی باقاعدہ پلان کے تحت معصومانہ گفتگو وحرکات نہیں کرتا۔ یہ اس سے خود بخود ہو جاتا ہے کیونکہ بچے پر شعور کی لیپا پوتی نہیں ہوتی۔ لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ انسانی فطرت کی اپج فقط بچے میں جھلکتی ہے۔ معاشرت کی درستگی اسی اپج کو بچے کی بعد کی زندگی میں سمونے پر منحصر ہے۔ 

مغربی معاشروں میں ایسا نہیں ہوتا کہ اس لاشعور کو ہی شعور میں ڈھالا جائے کیونکہ انسانی فطرت کی اپج کو اپنے بنائے ہوئے مصنوعی تربیتی نظام سے دبانے کی بھرپور اور خاصی کامیاب کوشش کی جاتی ہے۔ اس طرح ایک مخصوص شعوری لیبل شخصیت پر چسپاں کر دیا جاتا ہے۔ جب تک یہ شعوری لیبل موجود رہتا ہے‘ فرد اس کے مطابق ہی زندگی کی سرگرمیاں جاری رکھتا ہے۔ بڑھاپے میں قویٰ کمزور ہوجانے سے اس شعوری تربیت کا اثر قدرے مدہم پڑ جاتا ہے اور دوبارہ بچپن والا لاشعور جھانکنے لگتا ہے۔ شاید اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ بوڑھے بچوں کی مانند ہوتے ہیں۔ بہرحال بچپن کے بعد اور بڑھاپے سے پہلے کے عہد کا طویل دورانیہ جو مخصوص منفی تربیتی نہج کے زیر اثر گزرتا ہے‘ ا س کی باقیات کسی بھی بوڑھے میں بچے جیسی اپج نہیں رہنے دیتیں لیکن اتنا ضرور ہے کہ جوانی کے ایام کی مانند لاشعور مکمل دبا بھی نہیں رہتا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ جدید عہد میں انسانی شخصیت کے دو ادوار یعنی بچپن اور بڑھاپا ہی اس کے ’’اپنے‘‘ ادوار ہیں۔ اور سب سے فعال اور سرگرم دور بد ترین سمجھا جا سکتا ہے کیونکہ مخصوص تربیتی نظام کی منفیت کی وجہ سے لاشعور کو بڑھاوا دینے کا بندوبست نہیں کیا جاتا۔ اس کے بجائے زندگی کو مسائل کا شکار کرنے والے خود ساختہ ‘ مصنوعی اور انتہائی سطحی نوعیت کے مقاصد کے تحت شعور کی مخصوص تربیت کی جاتی ہے کیونکہ ان مسلط کردہ شعوری محرکات ومقاصد کا ’’لاشعور‘‘ سے تطابق نہیں ہوتا اس لیے انسانی شخصیت ایک مستقل اضطرابی کیفیت سے دوچار ہو جاتی ہے۔ اس عدم مطابقت کا نتیجہ یہ ہے کہ مغرب میں نفسیاتی مسائل کی نئی جہتیں منظر عام پر آ رہی ہیں۔

میرے خیال میں انسان اور جانور میں بنیادی فرق شاید یہی ہے کہ انسان لاشعوری آئیڈیلز کو باقاعدہ شعور میں ڈھالنے پر قادر ہے۔ یوں سمجھیے کہ جو سادگی اور خلوص کسی بچے میں خود بخود موجود ہوتے ہیں‘ جوان ہونے پر بچہ اس سادگی اور خلوص کو اپنے پورے شعور کے ساتھ قبول کرے اور مثبت معاشرتی عمل کی بنیادرکھے‘ تب بات بنتی ہے۔ جس انسان کا شعور‘ لاشعور سے جتنی زیادہ مطابقت رکھے گا‘ وہ انسان اتنا ہی زیادہ انسان ہوگا۔

ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر طرز معاشرت کو نفسیاتی اعتبار سے ڈسکس کیا جائے اور فردکی میکانکی اور Calculated تربیت کے بجائے لاشعور کے آئیڈیلز کو ہی شعور کی سطح پر پھیلا دیا جائے تو نتیجتاً پیدا ہونے والے معاشرے کے خمیر سے جو دیگر نظام ہائے زندگی اٹھیں گے‘ وہ افراد میں اخوت اور بھائی چارے کے جذبات پروان چڑھانے کے ساتھ ساتھ قوموں کے درمیان امن اور رواداری کی ایک نئی نہج کی بشارت ثابت ہوں گے۔

کتاب اللہ اور اسوۂ رسول اس سلسلے میں ہماری رہنمائی شرح وبسط سے کرتے ہیں۔ بچے کی معصومیت‘ سادگی‘ خلوص‘ سچائی‘ دیانت داری‘ محبت اور ایثار وغیرہ کا ایک طرز معاشرت کے طور پر بھرپور شعوری اظہار رسول پاک ﷺ کے دست مبارک سے تشکیل پانے والے معاشرے میں ملتا ہے۔ بلاشبہ اس نہج سے صحابہ کرامؓ کی اجتماعی زندگی کا مطالعہ بہت دل چسپ اور نتیجہ خیز ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے لیے عمل کی نئی راہیں کھول سکتا ہے۔

یہاں ایک اہم نکتے کا بیان بے محل نہ ہوگا۔ قیام پاکستان کے وقت ہمارے لیے موقع تھا کہ اسلام کی آفاقیت اور بین الاقوامیت کا عملی نمونہ پیش کرتے۔ کٹا پھٹا پاکستان Blessing in disguise کے مصداق مشرقی اور مغربی وحدتوں میں تقسیم ہونے کی وجہ سے عالمگیریت اور آفاقیت کی نہج کا آغاز کر سکتا تھا۔ مشرقی اور مغربی پاکستان الگ الگ جغرافیے کے باوجود اسلام کے نقطہ اتصال پر غیر جغرافیائی ہوتے۔ آنے والے دنوں میں او آئی سی اسی غیر جغرافیائی اتصال کی توسیع ہوتی۔ اس اعتبار سے پاکستان دنیا کا پہلا ملک ہوتا جہاں بین الاقوامی طرز حکومت کا تجربہ کیا جاتا۔ لیکن ہوا کیا؟ اس کے بالکل الٹ۔ کیونکہ بیسیویں صدی میں اسلام کی Orientation مجہولی رہی ہے یا رد عملی۔ (اگرچہ اسے اسلام کے بجائے مسلمانوں کی Orientation کہنا زیادہ بہتر ہوگا لیکن چونکہ مسلمان اسے بطور اسلام پیش کرتے رہے ہیں اس لیے ایسا لکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں) اب مجہولی رویہ قوم پرستی کے جذبے اور نظریے سے سرشار تھا اور رد عملی رویہ دونوں جغرافیوں کو ایک جغرافیہ بنانے پر مصر تھا۔ دونوں کی اپروچ اسلام سے میل نہ کھاتی تھی۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس وقت سے پہلے فکری سطح پر اسلام کی اجتماعی ہیئت پر کام ہو چکا ہوتا تو کیا پاکستان اور مسلم ورلڈ کا مستقبل روشن نہ ہوتا؟ ہو سکتا ہے کہ عالمی گاؤں کے سیاسی ومعاشرتی سیٹ اپ کے لیے ہم نظیر کا کام بھی دیتے۔ میرا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ عصر حاضر میں اسلام کی تعبیر وتشریح کرتے وقت ہمیں زمینی حقائق مد نظر رکھنے چاہییں۔ موضوع کا انتخاب کرتے وقت ہماری اپروچ موضوعی (Subjective) کے بجائے معروضی (Objective) ہونی چاہیے۔ فرد کی اہمیت اپنی جگہ مسلم لیکن عصر حاضر کا تقاضا ہے کہ ہم اسلام کی ہیئت اجتماعی کی نوک پلک سنوارتے ہوئے تعبیر وتشریح کے نئے افق ظہور میں لائیں۔

درج بالا سطور میں‘ میں نے پیرایہ اظہار اور اسلوب کی تبدیلی کی بھی بات کی ہے۔ اسلوب کی تبدیلی فقط کمپرومائز کے لیے نہیں بلکہ عصری تقاضوں کے مطابق اسلام کی تفہیم کے لیے بھی ضروری ہے۔ اسلام کی تعبیر وتشریح عصری اسلوب کی متقاضی ہے۔ عصری اسلوب سے میری کیا مراد ہے؟ ایک مثال سے وضاحت کرتا ہوں۔ میرے دوست پروفیسر محمد اکرام شعبہ اسلامیات سے منسلک ہیں۔ ان کا ایم اے کا مقالہ ’’منکرین حدیث کے اعتراضات کا جائزہ‘‘ کے عنوان سے تھا۔ انہوں نے پڑھنے کے لیے عنایت کیا۔ میں نے ’’بزور ناتوانی زندہ ام‘‘ کے عنوان سے اپنے تاثرات لکھ کر پیش کیے۔ درج ذیل عبارت انہی تاثرات سے لی گئی ہے:

’’چھاپے خانے کی ایجاد سے انسان کا حافظہ بتدریج کمزور ہونا شروع ہوا۔ انسان نے ’’یاد‘‘ رکھنے کی اپنی خصوصیت چھاپے خانے کو منتقل کر دی۔ پھر کمپیوٹر آیا جو حافظے کو معدوم کرنے کی کوشش میں ہے۔ ترقی کی کئی دوسری اقسام بھی انسان کی بعض خصوصیات کے خاتمے کا باعث بن رہی ہیں۔ اس سے انسان کی اندرونی شخصیت کھوکھلی ہوتی جا رہی ہے۔ مغربی انسان زیادہ کھوکھلا ہے۔ اس کا داخلی وجود آہستہ آہستہ تقریباً معدوم ہوتا جا رہا ہے۔ مغرب کے مشہور نقاد ٹی ایس ایلیٹ نے غیر شعوری طور پر شاعرانہ اظہار کو جذبات یا شخصیت کے اظہار کے بجائے ’فرار‘‘ قرار دیتے وقت اس کھوکھلے پن کو بیان کیا ہے۔ اس طرح مغربی ادب بھی معدومیت کو فروغ دے رہا ہے۔

مسلمانوں کے ہاں اس سے مختلف صورت دیکھنے میں آتی ہے۔ چھاپہ خانے اور کمپیوٹر کی ایجاد کے باوجود مسلمانوں نے حفظ قرآن کی روایت ترک نہیں کی۔ اگر حفظِ قرآن کا مقصد حفاظت قرآن تھا تو آج وہ مقصد دوسرے ذرائع سے پورا ہو ہی رہا ہے۔ مذہبیت سے قطع نظر حفظ قرآن کی روایت برقرار رکھنا درحقیقت اپنی ایک انسانی خصوصیت سے دست برداری کے خلاف انکار اور بغاوت ہے۔ حفظ قرآن کی روایت ایک انسانی خصوصیت یعنی یاد اور حافظے کا تسلسل ہے اور اس تسلسل کا امین ’’مسلم اجتماعی لاشعور‘‘ ہے۔ ...... علم حدیث ایک وسیع علم ہے۔ اس کی تفہیم کے ضمن میں مختلف نقطہ ہائے نظر ہو سکتے ہیں۔ ان میں سے ایک تاریخ سے وابستگی بھی ہے۔ بڑی بوڑھیوں کے قصے کہانیوں والی تاریخ نہیں اور نہ آنکھیں بند کر کے کی جانے والی وابستگی بلکہ تجزیے پر مبنی شعوری وابستگی۔ اس وابستگی کا منطقی نتیجہ مقدمہ ابن خلدون ہے۔ ’’مقدمہ‘‘ کوئی مسلمان ہی تخلیق کر سکتا تھا کیونکہ غیر مسلم معاشرے میں علم حدیث کی طرز کا کوئی علم موجود نہیں۔ اگر علم حدیث کی نوعیت پر غیر جانب داری سے غور کریں تو یہ علم بھی ’’مسلم اجتماعی لاشعور‘‘ کا تراشیدہ معلوم ہوتا ہے۔ بلاشبہ علم حدیث داخلی مضبوطی کا خارجی اظہار ہے۔‘‘

میرا ذاتی نقطہ نظر یہی تھا کہ اب حفظ قرآن کی شاید ضرورت نہیں ۔لیکن حیران تھا کہ یہ روایت نہ صرف جاری ہے بلکہ کسی حلقے کی طرف سے کوئی تنقید بھی سننے میں نہیں آ رہی۔ جب میں نے غور کیا کہ ایسا کیوں ہے تو درج بالا نکات ذہن میں آئے۔ اس طرح اپنی ہی کی ہوئی عصری تعبیر وتشریح سے حفظ قرآن کی روایت کے چند نئے امکان ظاہر ہوئے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ تعبیر وتشریح کیسے ممکن ہوسکی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ ’’دانتوں کی کمزوری تہذیب کی علامتوں میں سے ہے۔‘‘ کیونکہ جب انسان نے آگ دریافت نہیں کی تھی تو کچا گوشت کھاتا تھا جس کی وجہ سے اس کے دانت بہت مضبوط تھے لیکن آگ کی دریافت کے ساتھ ہی اس کے دانتوں کی مضبوطی میں کمی آنی شروع ہو گئی کیونکہ اب دانتوں کو زیادہ کام نہیں کرنا پڑتا تھا۔ اس بات سے میں نے اخذ کیا کہ چھاپہ خانہ حافظے کی کمزوری کا سبب ہے کیونکہ اب حافظے کو زیادہ کام نہیں کرنا پڑتا۔ پھر سوال یہ تھا کہ کیا مسلمانوں نے دانستہ اس بات کو محسوس کرتے ہوئے حفظ قرآن کی روایت برقرار رکھی ہے؟ میرا خیال تھا کہ ایسا نہیں ہے۔ اس کا جواب مجھے ژونگ کی وضع کردہ ایک اصطلاح ’’اجتماعی لا شعور‘‘ سے مل گیا جس کا موجودہ سیاق وسباق میں ورژن ’’مسلم اجتماعی لاشعور‘‘ کر دیا۔ تعبیر وتشریح کی یہی اپروچ عصری اسلوب ہے۔

عصری تقاضوں کے مطابق اسلام کی تعبیر وتشریح کے پیش نظر حافظے کی بابت بحیثیت بنیادی انسانی ضرورت بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔ میں صرف اتنا کہوں گا کہ اگر انسان کا حافظہ معدوم ہو جائے تو وہ قرآن مجید کا بھی مخاطب نہیں رہتا۔

اب بحث کے آخری نکتے کی طرف آتا ہوں۔ اگر آپ حافظے والی عبارت پر نظر دوڑائیں تو ٹی ایس ایلیٹ کا نام نظر آئے گا۔ ژونگ کا بھی ذکر ہوا۔ دانتوں کی کمزوری والا فقرہ غالباً ول ڈیورنٹ کا ہے۔ اب آپ اندازہ کریں کہ ایک پیراگراف لکھنے کے دوران میں ان تین افراد کی فکر شامل حال رہی۔ ظاہر ہے کہ ان کے علاوہ بھی بہت سی تحریریں جو میں پڑھ چکا ہوں‘ غیر شعوری طور پر ممد ومعاون رہیں۔ یہاں میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم مسلمان‘ بالخصوص راسخ العقیدہ مسلمان‘ ڈارون‘ ژونگ‘ فرائیڈ‘ آئن سٹائن وغیرہ سے گھبراتے کیوں ہیں؟ ہم گوناگونی‘ تنوع کو اپنے مطالعے کا حصہ کیوں نہیں بناتے؟ دینی مدرسوں کے سلیبس سے لے کر ان کے رسائل تک ہر جگہ یک رنگی پائی جاتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اسلام کی تفہیم عصری اسلوب کے بغیر ناممکن ہے اور عصری اسلوب وسیع المشربی کا تقاضا کرتا ہے۔ رومی‘ عطار‘ سنائی اور حافظ‘ سعدی اور بے شمار ایسے ادیب اور مفکر ہیں جو ان افکار‘ خیالات اور میلانات کی بدولت پیدا ہوئے جو حجاز میں نہ تب موجود ہو سکتے تھے اور نہ اب پیدا ہو سکتے ہیں۔ ہمیں بھی اسلام کی تعبیر وتشریح کے لیے روایتی خول سے نکلنا ہوگا تاکہ مسلم معاشرہ زندہ معاشرہ بن کر ارتقا پذیر رہے اور اپنے اظہار کی نت نئی جولانیوں سے حیات کو جاوداں رکھے۔

اسلام اور عصر حاضر

(فروری ۲۰۰۲ء)

تلاش

Flag Counter