تکنیکی ترقی اور ای کامرس سے گلوبل رجحانات کو مسلسل تقویت مل رہی ہے۔ اگرچہ اس وقت بھی لوگوں کی اکثریت اپنی اپنی ریاستوں سے گہری وابستگی رکھتی ہے لیکن یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ قومی ریاست روایتی طاقت کی حامل نہیں رہی۔ اس وقت اس کی جیسی صورت سامنے آ رہی ہے، اسے Post-sovereign nation state سے موسوم کیا جا سکتا ہے۔ اکیسویں صدی کی گلوبل دنیا میں قومی ریاست کا زیادہ سے زیادہ کردار Night-watching state کا ہی ہوگا۔
کارل مارکس اور فریڈرک اینگلس نے ۱۸۴۸ء میں ہی گلوبلائزیشن کی نشان دہی ان الفاظ میں کر دی تھی کہ
In place of old local and national seclusion and self-sufficiency, we have intercourse in every direction .......
لیکن یقیناًان دونوں کے لیے گلوبلائزیشن کے اس تناسب کا تصور کرنا بھی محال تھا جس سے آج پوری دنیا دوچار ہے۔ اس وقت چالیس ہزار کے لگ بھگ Transnational Corporations کراس بارڈر معیشت کو فروغ دے رہی ہیں۔ ان میں سے سرفہرست چار سو کارپوریشنیں گلوبل پرائیویٹ سیکٹر کے ٹوٹل آؤٹ پٹ کا تقریباً نصف سنبھالے ہوئے ہیں۔ اشیا اور خدمات (Goods & Services) میں عالمی تجارت تقریباً سات کھرب ڈالر سالانہ ہے اور یہ عالمی تجارت، قومی معیشتوں کے مجموعے سے تقریباً تین گنا زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی کرنسی کی مارکیٹوں میں بھی انتہائی تیزی سے بڑھاوا دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ۱۹۷۳ ء میں قومی سرحدوں کے پار روزانہ بیس بلین ڈالرز حرکت کرتے تھے۔ ۱۹۸۶ ء میں ۲۰۷ بلین ڈالرز، ۱۹۹۲ ء میں ۸۲۰ بلین ڈالرز اور ۱۹۹۸ ء میں ۵ء۱ ٹرلین ڈالرز سے بھی اوپر۔
مذکورہ اعداد وشمار اور جائزے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ گلوبلائزیشن کے دو نمایاں پہلو ہیں ۱۔ قومی ر یاست کاخاتمہ، ۲۔ مارکیٹ کی بنیاد پر کراس بارڈر معیشت کا فروغ۔ صاف بات تو یہ ہے کہ اس دوسرے پہلو کی بدولت ہی قومی ریاست خاتمے کے قریب پہنچی ہے۔ یوں سمجھیے کہ گلوبلائزیشن اہل مغرب کا آخری انقلابی پراجیکٹ اور ان کے معاشی وسیاسی نظاموں کی ’’ثابت شدہ اعتباریت‘‘ کا حتمی پھیلاؤ ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مارکسسٹ اکانومی کی طرح مارکیٹ اکانومی بھی بے دین ہے، فرد کی نفی کرتی ہے اور انسان کو پیداواری اور صرف کرنے والے کی حیثیت سے دیکھتی ہے۔ دونوں میں مذہب کو پرانی اور فرسودہ چیز سمجھا جاتا ہے جو ’’انفرادی‘‘ ہو سکتا ہے اور ’’اجتماعی طاقت‘‘ سے محروم ہو کرآخر کار میدان سیاست سے ہمیشہ کے لیے رخصتی ہی جس کا نصیب ٹھہرے گی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مارکیٹ بنیادوں پر قائم متنوع علاقائی تقاضوں کو بھی ہڑپ کیا جا رہا ہے۔
آدم سمتھ نے Self-interest اور معیار زندگی کو بہتر بنانے کی خواہش کو ’’خوشحالی اور ڈومیسٹک امن‘‘ کی علامت قرار دیا تھا۔ یعنی لوگوں کو آگے بڑھنے کی حرص دینا بہت آسان ہے بجائے یہ کہ جذبات کی مناسب management کی جائے۔ مغرب میں مذہبی فکر کے انخلا اور مذکورہ مادی و افادی فلسفیانہ رجحانات نے ہی مارکیٹ لبرل ازم کی بنیادیں استوار کیں اور زندگی کے ہر شعبے کے لیے Economic Mode of Thinking کو رائج کر دیا۔ مغرب کے معاشی خبط کا اندازہ اس امر سے کیا جا سکتا ہے کہ وہاں ’’مہذب اور نارمل لائف‘‘ کا شعور آمدنی کی اونچی سطح کے گرد گھومتا ہے۔ وہاں یہ دیکھا جاتا ہے کہ لوگ کس طرح اپنا وقت ’’مارکیٹ اور بے مارکیٹ‘‘ سرگرمیوں میں صرف کرتے ہیں۔ ایک مغربی تجزیہ نگار کے مطابق:
"Profit not religion, is the spirit of this spiritless world where one must overwork in order to live."
یعنی ایک طرح سے مارکیٹ لبرل ازم کے نام پر انسانیت کو روندا جا رہا ہے حالانکہ ایسے لبرل ازم میں ’’لبرٹی‘‘ نام کو بھی نہیں۔ اس طرح مارکیٹ لبرل ازم کی تھیوری مارکیٹ تھیوری کے قریب پہنچ جاتی ہے کہ اس کے ذریعے دیگر معاشرتی قدروں اور اداروں کی ساخت اور نوعیت کا تعین ہوگا۔ حالانکہ "A society of free work, of enterprise and of participation" کے مقولے کا تقاضا ہے کہ مارکیٹ کو معاشرتی اور ثقافتی قوتیں کنٹرول کریں اور اس کی ساخت اور نوعیت کا تعین کریں لیکن گلوبلائزیشن (جو کہ مارکیٹ بنیادوں پر ہو رہی ہے) میں یہ عنصر مفقود ہے اور برملا کہا جا رہا ہے کہ مارکیٹ لبرل ازم کی موجودہ تعریف کے سوا اور کوئی طریقہ یا نظریہ ’’جدیدیت‘‘ پر پورا نہیں اترتا اور جلد یا بدیر دنیا کے تمام معاشرے ’’یکساں اقدار و نظریات‘‘ کے حامل ہو جائیں گے۔ اس تناظر میں قومی ریاستیں مجبور ہو رہی ہیں کہ Market-Friendly پالیسیاں تشکیل دیں اگرچہ عوام کے مفادات متاثر بھی ہوتے ہوں۔ یورو زون ممالک کو ہی دیکھ لیجئے (جو ترقی یافتہ اور طاقتور ہیں) ان کی مالیاتی پالیسی کا کنٹرول اب یورپین سنٹرل بنک کے ہاتھوں میں ہے۔ اس طرح ان ممالک کے قومی سنٹرل بینکوں کی بیوروکریسی کا کردار ثانوی حیثیت کا رہ گیا ہے، اگرچہ ان ممالک نے گلوبلائزیشن کو ’’ایڈریس‘‘ کرنے کے لیے ہی ’’یوروزون‘‘ تشکیل دیا ہے اور ان کی کارکردگی تسلی بخش ہے۔
موجودہ گلوبل دنیا کے لیے ماہرین سیاسیات فی الحال چار متبادل گورننس ماڈلز پر بحث کر رہے ہیں :
۱۔ (Adam Smith Revisited) اس نظریے کے مطابق ریاست اور دوسرے سیاسی اداروں کو چاہیے کہ جس حد تک ممکن ہو ’’مارکیٹ‘‘ کو کم سے کم ڈسٹرب کریں اور Trust the market کے اصول پر پالیسیاں مرتب کریں۔
۲۔ دوسرے ماڈل کو Fragmentation کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے مطابق ریاستیں آخر کار اپنے ’’قومی کردار‘‘ کی طرف لوٹ جائیں گی۔ گلوبلائزیشن کامیاب نہیں ہوگی کیونکہ معاشی‘ سیاسی اور ثقافتی بنیادوں پر انتشار پوری دنیا میں جڑ پکڑ لے گا۔
۳۔ تیسرے ماڈل کو Pax Americana کہا جاتا ہے۔ اس کے مطابق دنیا میں موجود تشتت اور انتشار پر ریاست ہائے متحدہ امریکہ (USA) کے ذریعے قابو پا لیا جائے گا۔ مسائل اور مشکلات کا حل ’’امریکی لیڈرشپ کے تحت امریکی انداز‘‘ میں ممکن ہو سکے گا۔
۴۔ آخری متبادل ماڈل Global Coordinationہے۔ اس ماڈل میں ریاستیں‘ علاقائی ادارے اور بین الحکومتی تنظیمیں اپنا اپنا کردار ادا کریں گی۔ اس نظام میں قومی حکومتیں نہ صرف برقرار رہیں گی بلکہ ریجنل گورننس انسٹی ٹیوشنز اور اقوام متحدہ کی رفاقت میں کام کریں گی۔
مذکورہ چاروں نظریات میں سے کوئی بھی اپنی گرفت اتنی مضبوط نہیں کر سکا کہ باقی تینوں خارج از بحث قرار پائیں، البتہ پہلا اور تیسرا ماڈل چھائے ہوئے نظر آتے ہیں۔
گلوبلائزیشن اور جمہوری رویہ
اکیسویں صدی کے عالمی نظام میں گلوبلائزیشن کے در آنے سے جمہوری رویے کو خاصا نقصان پہنچا ہے۔ سرسری جائزہ لینے سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ اب ووٹر کے ’’ووٹ‘‘ کی زیادہ اہمیت نہیں رہی۔ ووٹر جانتا ہے کہ اس کا ووٹ ‘ موجودہ پیچیدہ اور گلوبلائزڈ دنیا میں ’’انقلابی کردار‘‘ ادا کرنے سے قاصر ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں ریڈیکل تحریکات کی جو لہر نظر آرہی ہے، شاید اس کا ایک سبب ووٹر کی ’’بے توقیری‘‘ بھی ہے۔ جمہوری رویے کو زیادہ نقصان Superiority of the market over the state کے نظریے نے پہنچایا ہے۔ قومی ریاستوں میں اگرچہ شہریوں کو مفید جمہوری حقوق میسر رہیں گے لیکن معاشی امور میں ان کی حیثیت پرکاہ کی بھی نہیں ہوگی۔ اگرچہ بعض ماہرین کہتے ہیں کہ قومی ریاستیں دولت کو احسن طریقے سے تقسیم نہیں کر سکیں اس لیے دنیا کی اکثریتی آبادی غربت کا شکار ہے‘ گلوبلائزیشن کے عمل سے اور قومی ریاستوں کے کمزور ہونے سے دنیا کی اکثریتی آبادی ’’خوشحال‘‘ ہو جائے گی۔ لیکن واقعاتی شہادت ان ماہرین کی منطق کے خلاف ہے کیوں کہ گلوبلائزیشن سے امیر اور غریب کی ’’آمدنی کا فرق‘‘ تیزی سے بڑھ رہا ہے اور عالمی سطح پر عوام کے احتجاج سے عالمی منڈی کے کرتا دھرتا پالیسی سازوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی کیونکہ انہیں کون سا ووٹ لینے ہوتے ہیں۔
مارکیٹ بنیادوں پر گلوبلائزیشن کے مسلسل پھیلاؤ سے جمہوریت کی پسپائی کو مدنظر رکھتے ہوئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ عوام اور ووٹرز سیاسی کی بجائے سماجی اداروں کے ذریعے اپنی آواز کو موثر کریں۔ اس سلسلے میں غیر حکومتی تنظیموں کی ذمہ داری بہت بڑھ گئی ہے۔ اب یہ انہی تنظیموں کا کام ہے کہ عالمی رجحانات کے مضمرات کو بھانپتے ہوئے شہریوں کو بحیثیت Consumers متحرک اور منضبط کریں کیونکہ فقط Consumers ہی مارکیٹ اکانومی کے فرعونوں کے لیے موسیٰ ؑ ثابت ہو سکتے ہیں۔ کسی ملٹی نیشنل کمپنی کی پراڈکٹ کے Worldwide consumers انضباط اور ڈسپلن کے تحت ’’یکساں پالیسیاں‘‘ اختیار کر کے متعلقہ کمپنی کا ’’دماغ‘‘ ٹھکانے پر لا سکتے ہیں۔ اس سے یہ نکتہ مترشح ہوتا ہے کہ گلوبلائزیشن کے غیر جمہوری اور غیر انسانی رویے کو کنٹرول کرنے کے لیے ہر قوم کے شہریوں کا ’’ماوراے سرحد‘‘ باہمی رابطہ اشد ضروری ہے۔
آج کی قومی حکومتیں Supranational Associations کی طاقت کے سامنے بے بس ہیں اور آئی ایم ایف‘ ورلڈ بینک‘ نیٹو‘ یورپی کمیشن وغیرہ فیصلہ سازی عموماً ’’بند دروازوں‘‘ کے پیچھے کرتے ہیں۔ ان کے ’’جواب دہ‘‘ ہونے کا سوچنا بھی محال ہے کہ مذکورہ ایجنسیوں کی تشکیل میں قومی ریاست کے ’’شہریوں‘‘ کا کوئی کردار نہیں۔ لہٰذا شہریوں کی رضامندی اور نارضامندی سے ان کی پالیسیاں ’’متاثر‘‘ نہیں ہوتیں۔ ان عوامل کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہی بعض سنجیدہ تجزیہ نگار Cosmopolitan Modes of Democracy کی بات کر رہے ہیں کہ
۱۔ اقوام متحدہ کی فیصلہ سازی کی اہلیت میں اضافہ کیا جائے۔
۲۔ جنرل اسمبلی کے کردار کو موثر کیا جائے۔
۳۔ سلامتی کونسل سے ویٹو پاور ختم کی جائے۔
۴۔ مسلمہ انسانی حقوق کا تحفظ اور دفاع کیا جائے۔
۵۔ ریجنل اور گلوبل پارلیمنٹس کی داغ بیل ڈالی جائے۔
۶۔ عالمی اداروں کی ہر سطح پر علیحدگی اختیارات(Separation of Powers) کو متعارف کرایا جائے تاکہ اختیارات کے ارتکاز سے آمرانہ رجحانات نہ پنپ سکیں۔
گلوبلائزیشن اور وفاقیت
جن ممالک میں جمہوری اور وفاقی نظام ہے، وہ سیاسی حوالے سے بھی گلوبلائزیشن سے شدید متاثر ہو رہے ہیں۔ مثلاً ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں میساچوسٹس (وفاقی اکائی) نے برما پر تجارتی پابندی عائد کرنے کی کوشش کی۔ اسی طرح کیلی فورنیا اور نیویارک سٹی نے دو سوئس بینکوں پر پابندی لگا دی تاوقتیکہ معاملات طے نہ پا گئے۔ حالات کا یہ رخ دیکھتے ہوئے واشنگٹن (وفاقی حکومت) نے واویلا کیا کہ ایسے رجحانات سے ہماری خارجہ پالیسی متاثر ہو رہی ہے۔ اسی طرح کینیڈا (جو ایک وفاقی ریاست ہے) میں بھی اٹاوہ (وفاقی حکومت) اور کیوبک (وفاقی اکائی) میں اختلافات سامنے آئے۔
گلوبلائزیشن وفاقی ریاستوں پر کیسے اثر انداز ہو رہی ہے، اس کا اندازہ اس امر سے بھی ہو جاتا ہے کہ ۱۹۷۰ ء میں بین الاقوامی تجارتی اکھاڑے میں صرف چار امریکی ریاستوں (وفاقی اکائیوں) کے دفاتر تھے۔ اب تقریباً چالیس پینتالیس ریاستوں (وفاقی اکائیوں) کے تقریباً تیس (۳۰) ممالک میں ۱۸۰ سے بھی زائد دفاتر ہیں۔ کینیڈا کے صوبے اس اعتبار سے زیادہ فعال ہیں۔ جرمن Londer (وفاقی اکائی) اور سوئس Canton (وفاقی اکائی) کے ساتھ ساتھ آسٹریلوی ریاستیں (وفاقی اکائیاں) بھی بین الاقوامی سرگرمیوں میں کافی فعال ہیں۔ حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ بعض وحدانی ممالک (فرانس‘ جاپان) کی ذیلی حکومتیں بھی بین الاقوامی سرگرمیوں میں حصہ لے رہی ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ وحدانی ممالک کی اکثریت بھی جلد یا بدیر اپنے آپ کو وفاقی سانچے میں ڈھال لے گی۔ برطانیہ میں بھی (جو کہ ایک وحدانی ملک ہے) Devolution Act عمل میں آچکا ہے۔ اسی طرح بلجیم جو ۱۸۳۰ء میں عالمی طاقتوں کے درمیان بطورBuffer State وحدانی ملک کی صورت میں نمودار ہوا‘ نئی ضروریات کے تحت پر امن تبدیلی سے گزر کر وفاقی ملک بن گیا۔ ان مثالوں کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ باور کرایا جائے کہ گلوبلائزیشن سے اگر ایک طرف قومی سرحدیں بے معنی ہو رہی ہیں تو دوسری طرف مقامی رجحانات بھی فروغ پا رہے ہیں۔ وحدانی ممالک کو وفاقی انداز اپنانا پڑ رہا ہے اور وفاقی ممالک اپنی اکائیوں کو مزید اختیارات دے رہے ہیں۔ ہماری رائے میں سوویت یونین‘ چیکوسلواکیہ اور یوگوسلاویہ میں ’’وفاقی نظام‘‘ اس لیے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا کیونکہ اس میں ’’وفاقی رجحانات‘‘ کو پھلنے پھولنے کا موقع نہیں دیا گیا تھا۔ حالانکہ عالمی رجحان یہ تھا کہ وحدانی ممالک بھی ’’مقامی رجحانات‘‘ کو نرمی سے ایڈریس کر رہے تھے اور نئی ضروریات کے مطابق خود کو ڈھال رہے تھے۔
مذکورہ تمام گفتگو کو پیش نظر رکھیں تو درج ذیل نکات اخذ ہوتے ہیں :
۱۔ گلوبلائزیشن تیزی سے نہ صرف قدم بڑھا رہی ہے بلکہ جما بھی رہی ہے اور چند کمپنیاں‘ کارپوریشنیں عالمی معیشت کو کنٹرول کرنے کی پوزیشن میں آرہی ہیں۔
۲۔ قومی ریاستوں میں ’’مرکزیت‘‘ ختم ہو رہی ہے اور مقامی عناصر کو فروغ مل رہا ہے۔ مرکزیت ختم ہونے سے ریاستیں گلوبلائزیشن پر ’’چیک‘‘ نہیں رکھ سکتیں۔ رہے مقامی عناصر‘ تو وہ چونکہ الگ الگ ہیں اس لیے ان کی آواز اتنی موثر نہیں ہو سکتی کہ گلوبلائزیشن پر اس کے اثرات مرتب ہو سکیں۔ مثلاً صوبہ پنجاب کی ’’عالمی تجارت‘‘ میں آخر کیا حیثیت ہو سکتی ہے؟
۳۔ درج بالا دو نکات سے مترشح ہوتا ہے کہ گلوبلائزیشن ’’آمرانہ اور وحدانی‘‘ انداز میں آگے بڑھ رہی ہے۔ یعنی اس میں Unity تو موجود ہے لیکن خطرہ ہے کہDiversity نہ ہونے کے برابر ہوگی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ گلوبلائزیشن میں بھی مقامی رجحانات کو جگہ دی جائے ورنہ یہ اپنی موت آپ اسی طرح سے مر جائے گی جس طرح سوویت یونین‘ چیکو سلواکیہ اور یوگوسلاویہ کے آمرانہ اور نام نہاد وفاقی (حقیقت میں انتہائی وحدانی) نظام مقامی رجحانات کو شامل نہ کرنے کی وجہ سے ناکامی سے دوچار ہوگئے۔ یعنی گلوبلائزیشن کو Federalize کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس طرح عالمی سطح پر Unity in Diversity دیکھنے کو مل سکے گی۔
سوال یہ ہے کہ گلوبلائزیشن میں ’’وفاقی عنصر‘‘ کیسے شامل کیا جا سکتا ہے جبکہ قومی ریاستیں بے بس اور مقامی حکومتیں گلوبلائزیشن کے سامنے بے حیثیت ہیں؟ ہماری رائے میں علاقائی اتحاد (Regional Integration) کے ذریعے گلوبلائزیشن کو Federalize کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً یورپی یونین کو ہم Federating Voice کہہ سکتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی ریاستیں باہمی اختلافات کو پس پشت رکھتے ہوئے علاقائی اتحاد کو فروغ دیں۔ ویسے بھی آنے والے زمانے میں قومی سرحدیں ’’بے معنی ‘‘ ہونے سے ’’باہمی اختلافات‘‘ بھی بے معنی ہو جائیں گے تو کیوں نہ مستقبل کو بھانپتے ہوئے بروقت ہی گلوبلائزیشن کو لگام دی جائے اس سے پہلے کہ اس میں ’’وحدانی عنصر‘‘ بہت مضبوط اور پائدار ہو جائے۔
اس وقت یورپی یونین کے ساتھ ساتھ آسیان اور نیفٹا بھی فعال ہو رہی ہیں۔ یعنی یورپی یونین کی Federating Voice نے دنیا کے دوسرے خطوں کو بھی مہمیز کیا ہے۔ دنیا کی تشکیل نو (Restructuring) کے اس عبوری دور میں ایسا رجحان خوش آئند ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا جنوبی ایشیا کے عوام کی قسمت میں غربت‘ افلاس‘ پسماندگی مستقل طور پر لکھ دیے گئے ہیں؟ ہمارا اشارہ ’’سارک‘‘ کی طرف ہے۔ سارک کی موجودہ ساکھ اور ماضی کی کارکردگی کا جائزہ لینے سے کم از کم ’’اندازہ‘‘ تو یہی ہوتا ہے کہ گلوبل دنیا میں ’’سارک‘‘ بطور Federating Voice شمار نہیں ہوگی۔ گلوبلائزیشن اور علاقائی اتحادات کی سیاست میں جنوبی ایشیا کے خطے کی وہی حیثیت ہوگی جو کسی وفاقی ملک میں کسی کمزور وفاقی اکائی کی ہوتی ہے۔
اس امر کی شدید ضرورت محسوس ہو رہی ہے کہ ایشیا کے دو خطوں (جنوبی ایشیا‘ وسطی ایشیا) کی علاقائی تنظیموں کو زیادہ منظم اور زیادہ فعال کیاجائے۔ سارک کے ساتھ ساتھ پاکستان کے لیے ’’ایکو‘‘ بھی اہمیت کی حامل علاقائی تنظیم ہے ۔ اگرچہ اس امر کا غالب امکان موجود ہے کہ وسطی ایشیا میں امریکہ کی فوجی موجودگی اس تنظیم کی فعالیت میں رکاوٹ کا باعث ہے لیکن پھر بھی علاقے کے مختلف ممالک اور اقوام کو تدبر و فراست سے مستقبل کی پلاننگ کرنی ہوگی تاکہ وسطی ایشیا کا خطہ بھی گلوبلائزیشن کے نظام میں Federating Voice بن کر اپنے عوام کے مفادات کا تحفظ کر سکے۔ وطن عزیز جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کے سنگم پر ہونے کے ناطے زیادہ اہم کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ جاندار اور موثر کردار ادا کرنے کے لیے ہمیں سب سے پہلے اپنے ’’داخلی ڈھانچے‘‘ کی طرف توجہ دینی ہوگی۔ دستور پسندی کو رواج دینے کے ساتھ ساتھ وفاقی اکائیوں کے اختیارات میں نہ صرف اضافہ کرنا ہوگا بلکہ انہیں اس قدر با اعتماد بنانا ہوگا کہ وہ بھی دیگر ممالک کی وفاقی اکائیوں کی مانند‘ عالمی تجارتی اکھاڑے میں اتر سکیں۔
عالمی منڈی میں زراعت کی صورت حال
اس وقت دنیا میں زرعی مارکیٹوں پر ترقی یافتہ ممالک کے ایک چھوٹے سے گروپ کا قبضہ ہے۔ اکثر ترقی پذیر ممالک کے لیے برآمدی مارکیٹ شمال کے انہی چند ممالک پر مشتمل ہے۔ مشرقی یورپ، مشرق وسطیٰ، افریقہ اور جنوبی امریکہ کے ترقی پذیر ممالک کے لیے یورپی یونین سب سے بڑی زرعی برآمدی مارکیٹ ہے۔ وسطی اور جنوبی امریکہ کے ساتھ ساتھ ایشیا کے کچھ ممالک کے لیے امریکہ اور کینیڈا سب سے بڑی مارکیٹیں ہیں جبکہ جاپان اور کوریا ہم سایہ ممالک کے لیے سب سے بڑی مارکیٹیں ہیں۔ اس طرح اندازہ ہوتا ہے کہ زرعی مارکیٹ تک پہنچ کے اعتبار سے تاریخی روابط، جغرافیائی قربت کے علاوہ Regional Integration Arrangement کا کردار کلیدی ہو چکا ہے۔ چالیس ترقی پذیر ممالک کی زرعی برآمدات کا تجزیہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی برآمدات میں بنیادی اضافہ یورپی یونین، شمالی امریکہ، جاپان، کوریا اور EFTA کی Agricultural Liberalization کا نتیجہ ہے۔ تقریباً ستائیس ممالک کی زرعی برآمدات میں پچاس فی صد کے لگ بھگ اضافہ یورپی یونین کی زرعی Liberalization کی وجہ سے ہوا ہے۔ اسی طرح چین اور تھائی لینڈ کی زرعی برآمدات میں پچاس فی صد اضافہ جاپانی اور کورین زرعی Liberalization کے سبب ممکن ہو سکا ہے۔ مذکورہ تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے لیے شمال کے تمام ممالک کے بجائے چند ممالک بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ اسی طرح یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کی اکثریت کے لیے یورپی یونین کی زرعی مارکیٹ کا زیادہ کھلا ہونا ان کے مشترکہ مفاد کے تحت آتا ہے جبکہ جاپانی، کورین اور امریکہ کی مارکیٹوں سے ایشیا اور مغربی کرے میں واقع ترقی پذیر ممال کا نسبتاً چھوٹا گروپ فوائد حاصل کر سکتا ہے۔
جاپان اور کوریا کی زرعی برآمدی پالیسیوں کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ جاپانی اور کورین مارکیٹوں کا سکیل امریکی اور یورپی یونین کی مارکیٹوں کے اعتبار سے اضافی ہے۔ اس وقت دنیا میں گندم کی برآمد میں ترقی پذیر ممالک کا شیئر صرف پندرہ فی صد ہے۔ پندرہ فی صد میں بھی آدھے سے زیادہ حصہ ارجنٹائن کا ہے۔ اگرچہ جاپان اور کوریا کا گندم کی درآمد میں حصہ گیارہ فی صد ہے لیکن یہ دونوں ممالک اپنی گندم کی کل درآمد میں سے صرف تین فی صد ترقی پذیر ممالک سے حاصل کرتے ہیں۔ اسی طرح یہ دونوں مالک گوشت اور گوشت کی مصنوعات کی عالمی تجارت کا ستائیس فی صد سے زیادہ درآمد کرتے ہیں اور ان درآمدات کا صرف سترہ فی صد ترقی پذیر ممالک سے آتا ہے۔
اگرچہ عالمی زرعی مارکیٹوں میں Liberalization سے ترقی پذیر ممالک کو برآمد کے زیادہ مواقع ملیں گے لیکن گوشت اور دیگر زرعی اجناس کے درآمد کنندگان کے طور پر ان ممالک میں خوراک کی قیمتیں بہت زیادہ بڑھنے کا خطرہ موجود ہے۔ خوراک درآمد کرنے والے ممالک کی اکثریت کم ترقی یافتہ اور غریب ہے لہٰذا وہاں Agricultural Liberalization سے خوراک کی درآمدات کی قیمتوں میں اضافہ ہونے سے نہ صرف فلاح عامہ کے کام متاثر ہوں گے بلکہ یہ ممالک کسی انسانی المیے کا شکار بھی ہو سکتے ہیں۔ چالیس ترقی پذیر ممالک کے ایک گروپ میں تیس ممالک گندم درآمد کرنے والے ہیں جبکہ ان میں سے صرف چار ممالک ایسے ہیں جو گندم اور دوسری زرعی اجناس (چاول کے علاوہ) برآمد کرتے ہیں۔ اکثر ترقی پذیر ممالک کی زرعی درآمدات کا بیس فی صد سے زیادہ گوشت اور غلے پرمشتمل ہوتا ہے۔
چونکہ خوراک کے تحفظ کی کوئی متعین تعریف، جو ہر اعتبار سے قابل قبول ہو، نہیں کی جا سکی اس لیے Cluster method استعمال کرتے ہوئے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ستر سے زیادہ ترقی پذیر ممالک خوراک کے اعتبار سے غیر محفوظ کے درجے میں آتے ہیں۔ ان ممالک کی درآمدات میں غلے اور گوشت کا زیادہ حصہ ہوتا ہے۔ غلے اور لائیو سٹاک کی حفاظت جاپان، کوریا، یورپین یونین اور EFTA میں بھی کافی زیادہ ہوتی ہے لہٰذا ان مصنوعات میں تجارت کو دوسری زرعی اجناس کی بہ نسبت زیادہ درآمدی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ لہٰذا لبرلائزیشن کے نتیجے میں ان اجناس کی قیمتیں دوسری اجناس (مثلاً سبزیاں، پھل وغیرہ) کی نسبت بہت زیادہ ہو جائے گی۔ ایک اندازے کے مطابق اگر تمام قسم کی ڈومیسٹک سپورٹ اور بارڈر پروٹیکشن وغیرہ زراعت کے شعبے میں ختم کر دی جائے تو عالمی سطح پر غلے اور لائیو سٹاک پراڈکٹ کی قیمتیں بالترتیب کم از کم دس فی صد اور پچیس فی صد بڑھ جائیں گی۔ اس کے مضمرات میں اکثر ترقی پذیر ممال کے لیے خوراک کی درآمدی قیمت میں بے پناہ اضافہ بھی شامل ہوگا۔
کچھ افریقی ممالک چند اجناس کی برآمد پربہت زیادہ انحصار کرتے ہیں مثلاً تمباکو، کافی وغیرہ۔ ان ممالک کے لیے برآمد کے زیادہ مواقع حاصل کرنا ایک زیادہ لبرلائزڈ عالمی مارکیٹ میں ممکن نہیں ہوگا۔ ان ممالک کے لیے ضروری ہوگا کہ اپنی تجارتی ساخت کو diversifyکریں۔
گلوبلائزیشن اور قوموں کا باہمی تجارتی انحصار
عالمی سیاست کے نظریہ سازوں میں یہ بحث زور پکڑ رہی ہے کہ ’’کیا معاشی اعتبار سے باہمی انحصار جنگ کے امکانات کو کم کر تا ہے یا زیادہ‘‘ جاپان‘ چین اور مغربی یورپ کی بڑھتی ہوئی معاشی قوت نے اس سوال کو کافی اہم بنا دیا ہے۔ گیارہ ستمبر کے تاریخی واقعہ کے بعد (اس واقعہ کی وجوہات اور نتائج کو دیکھتے ہوئے) ’’معاشی باہمی انحصار اور جنگ‘‘ قابل توجہ موضوع بن گیا ہے کہ عالمی سیاست کا لبرل مکتبہ فکر معاشی باہمی انحصار کو ایسا عنصر قرار دیتا ہے جس کے سبب جنگ کے امکانات کم سے کم ہو جاتے ہیں کہ جارحیت کا متبادل ’’تجارتی اقدار‘‘ میں ڈھونڈ لیا جاتا ہے۔ لہٰذا جس حد تک ’’باہمی انحصار‘‘ کو فروغ حاصل ہوگا‘ عالمی امن اسی قدر دیرپا ثابت ہوگا۔ اس نقطہ نظر کو حقیقت پسند مکتبہ فکر قابل قبول نہیں گردانتا۔ حقیقت پسندوں کے مطابق باہمی انحصار سے جنگ کے امکانات بڑھتے ہیں، کم نہیں ہوتے کہ باہمی انحصار کا مطلب Vulnerability ہے جس سے ریاستوں کو جارحیت کے لیے پیش قدمی کا ’’محرک‘‘ مل جاتا ہے تاکہ ضروری اشیا اور معدنیات وغیرہ تک ’’مسلسل رسائی‘‘ کو یقینی بنایا جائے جن پر ریاست کی طاقت اور بقا کا دارومدار ہوتا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی قوم یا اقوام کا کوئی گروہ گلوبلائزیشن کی آڑ میں خام مال‘ تیل‘ معدنیات وغیرہ تک اپنی مسلسل رسائی کو یقینی بنانا چاہتا ہے؟ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے درج بالا گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے‘ اگر ہم جنگ عظیم اول کا پس منظر دیکھیں تو لبرل مکتبہ فکر کی تہی دامنی سامنے آجاتی ہے۔ کیونکہ اس وقت مغربی طاقتوں کے درمیان تجارت غیر معمولی سطح پر پہنچ چکی تھی لیکن یہ باہمی تجارت انہیں جنگ کرنے سے نہیں روک سکی ۔ بلکہ اس زیادہ باہمی انحصار کے بعد یہ جنگ وقوع پذیر ہوئی کیونکہ پچھلے تیس سالوں سے باہمی تجارت کی شرح بہت بڑھ چکی تھی۔ ۱۹۲۰ء سے ۱۹۴۰ ء تک کا عرصہ لبرل مکتبہ فکر کو سپورٹ کرتا نظر آتا ہے۔ Protectionism کی خندق کے باعث باہمی انحصار کو زوال آیا تو بین الاقوامی تناؤ اتنی بڑھ گیا کہ دنیا جنگ پر آمادہ ہوگئی، اگرچہ اس وقت بھی دو جارحیت پسند ریاستیں (جرمنی اور جاپان) خام مال کے لیے دوسری ریاستوں بشمول طاقتور ریاستوں پر کافی زیادہ انحصار کر رہی تھیں۔ لہٰذا حقیقت پسند بھی سچے معلوم ہوتے ہیں کہ ناگزیر اشیا تک ’’لازمی رسائی‘‘ کے لیے کشمکش بڑھ جاتی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بیس کی دہائی میں جرمنی اور جاپان دوسری ریاستوں پر زیادہ انحصار کر رہے تھے لیکن انہوں نے جنگ تیس کے عشرے کے اختتام پر چھیڑی جبکہ ان کا انحصار (دوسری ریاستوں پر) کافی حد تک کم ہو چکا تھا۔
بعض تجزیہ نگاروں نے لبرل اور حقیقت پسند مکاتب فکر کی مذکورہ ’’اضافیت‘‘ کو (Theory of Trade Expectations) کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس نظریے کے مطابق ایک نیا (Variable) متعارف کروایا گیا ہے جسے (Expectations of Future Trade) کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے مطابق یہ دیکھا جاتا ہے کہ اگر ریاست جنگ کرنے کا فیصلہ کرلے تو تجارتی آپشن کی مجموعی قدر پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ لہٰذا باہمی انحصار اس وقت امن کی نشوونما کرے گا اگر ریاستوں کو یقین ہو کہ تجارتی شرح‘ مستقبل بعید تک کافی بلند رہے گی۔ اگر بہت زیادہ انحصار کرنے والی ریاستوں کو اندازہ ہو جائے کہ مستقبل میں تجارتی شرح بہت زیادہ گھٹ جانے کے امکانات موجود ہیں تو یقیناًحقیقت پسندوں کے نظریے کے مطابق ایسی ریاستیں جنگ شروع کرنے سے نہیں چوکیں گی کہ انہیں اس معاشی دولت کے کھونے کا خوف لاحق ہوگا جو ان کی طویل المیعاد سلامتی کی پشتیبان ہے۔ ۱۴- ۱۹۱۳ ء میں اعلیٰ باہمی انحصار کے باوجود مستقبل بعید میں ’’متوقع کٹوتی‘‘ کو بھانپتے ہوئے ہی شاید جرمن قائدین نے پہلی جنگ عظیم چھیڑ دی تاکہ خام مال اور مارکیٹوں تک ’’طویل المیعاد رسائی‘‘ ممکن ہو سکے۔
اس وقت وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی جارحانہ کارروائیوں کا جواز مذکورہ خطوط پر تلاش کیا جا سکتا ہے کہ گلوبلائزیشن کے فروغ کے ساتھ ہی امریکی لیڈر شپ اپنی معیشت پر ’’میکرو اثرات‘‘ کی بابت تحفظات کا شکار ہو چکی ہے۔ کیونکہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت کے اتار چڑھاؤ سے امریکی معیشت پر بالواسطہ اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ریاستوں کے مابین تجارتی شرح میں ’’درآمدی جنس‘‘ کی نوعیت کو اہم حیثیت حاصل ہے کہ کسی درآمد کی جانے والی جنس کی ’’کٹوتی‘‘ پر ریاستی قوت اور خوشحالی کو کتنا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ جاپان‘ یورپ اور شمالی امریکہ کی معیشت کا Capital Infrastructure (ٹرانسپورٹیشن سسٹم‘ فیکٹریاں‘ مشینیں وغیرہ) خام مال اور تیل کے بغیر کام نہیں کر سکتا۔ اس طرح تجارت میں تعطل سے ان ممالک کو بھاری قیمت چکانا پڑ سکتی ہے۔ اگرچہ خام مال اور تیل رکھنے والے ممالک کا انحصار بھی ان اشیا کے ’’برآمد‘‘ کرنے پر ہے لیکن اس حوالے سے یہ دیکھا جاتا ہے کہ کسی ریاست کے لیے (درآمد و برآمد کے حوالے سے) متبادل انتظام کی سہولت کس قدر ہے۔ یعنی ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ درآمد کنندگان خام مال اور تیل کہیں اور سے حاصل کر سکتے ہیں یا نہیں۔ اسی طرح برآمد کنندگان خام مال اور تیل کہیں اور بھی کھپا سکتے ہیں یا نہیں۔ دنیا بھر میں صنعت کے مسلسل فروغ سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں برآمد کنندگان کا پلڑا لازماً بھاری ہوگا کہ انہیں ’’سپلائی‘‘ کرنے کے لیے ’’آپشن‘‘ میسر ہوگا۔ اس لیے ترقی یافتہ ممالک کی یہ کوشش ہے کہ ترقی پذیر دنیا میں ’’صنعت حرفت‘‘ تیزی سے فروغ نہ پا سکے تاکہ برآمد کنندگان متوقع متبادل سے محروم ہو جائیں۔ پچھلے چند سالوں سے وطن عزیز میں صرف ’’واپڈا‘‘ کے ہاتھوں ہی صنعت کا جو ’’حشر نشر‘‘ ہوا ہے، اس کا ایک سبب مذکورہ نکتے میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔
بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک اور زاویے سے ہم عالمی رجحانات کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد‘ مشرقی ایشیا اور مغربی یورپ میں امریکی فوجوں کی موجودگی کا کوئی جواز نہیں بنتا تھا۔ جواز پیدا کرنے کے لیے ہی امریکہ نے ’’بدمعاش ریاست‘‘ اور دہشت گردی کی نئی اصطلاحیں متعارف کرائیں۔ امریکہ کی کوشش ہے کہ دنیا کے ہر اہم خطے میں بد معاش ریاستیں پیدا کرتا رہے اور ان ریاستوں سے تحفظ کی خاطر متعلقہ خطوں میں اپنی فوجی موجودگی کا جواز پیدا کرتا رہے کہ امریکہ کی غیر موجودگی میں بد معاش ریاست والے خطے کی ’’دیگر ریاستیں‘‘ اپنے تحفظ کی خاطر ’’ملٹری ایڈوینچر‘‘ کی طرف مائل نہ ہو سکیں۔ خیال رہے کہ کسی ریاست کو اتنی حد تک ہی بد معاش بنایا جاتا ہے کہ بعد میں اپنی دھاک بٹھانے کی خاطر اس کی خاطر خواہ ’’ٹھکائی‘‘ بھی کی جا سکے تاکہ دیگر ممالک امریکہ کی بے محابا ملٹری قوت اور اس کی فراہم کردہ ’’سکیورٹی‘‘ سے مطمئن رہیں۔ اس پالیسی کو (Adult Supervision) کا ’’معتبر‘‘ نام دیا گیا ہے۔ اس سے بہرحال اتنا واضح اندازہ ہو جاتا ہے کہ امریکہ نہیں چاہتا کہ گلوبلائزیشن کے عہد میں کوئی اور قوم یا اقوام کا گروہ امریکہ کی مانند پوری دنیا میں مغربی حوالے سے نقل و حرکت کر کے ’’دخل در معقولات‘‘ کا سبب بنے۔
امریکہ اینڈ کمپنی کو یہ اندیشہ بھی ہے کہ ایشیا میں قومیت پرستی کو تحریک مل سکتی ہے جس سے پورا خطہ Nuclearized ہو سکتا ہے۔ مثلاً شمالی کوریا‘ جنوبی کوریا یا مستقبل کے متوقع متحدہ کوریا کی نیوکلیرائزیشن سے جاپان، اور جاپان سے خائف ہو کر چین، اور چین سے خائف ہو کر بھارت اور تائیوان، اور بھارت سے خائف ہو کر پاکستان Aggressive Nuclearization کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں روس بھی خاموش نہیں بیٹھے گا۔ خیال رہے یہی (Chain) الٹی بھی چل سکتی ہے۔ بہرحال ہر دو صورتوں میں قومیت پرستی کو مزید پشت پناہی ملے گی جس سے گلوبلائزیشن کا عمل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو سکتا ہے اور یہی امر‘ امریکی مفادات کے منافی ہے کہ امریکہ نے تو سرد جنگ کے دنوں سے ہی ’’کیپیٹل ازم پر مبنی گلوبلائزیشن‘‘ کے خواب بنے ہوئے تھے۔
Adult Supervision کے تحت امریکی پالیسی کا دوسرا پہلو یہ ہوگا کہ مشرقی ایشیا میں Japanese- led closed economic block نہ بن سکے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خود امریکہ نے ہی جنگ عظیم دوئم کے بعد‘ جنوبی کوریا اور تائیوان کی پالیسی پر اثر انداز ہوتے ہوئے جاپانی سرمایہ کاری اور تجارت کے لیے دونوں ممالک کے دروازے کھلوادیے تاکہ جاپان ’’ایشیا کی ورکشاپ‘‘ بن سکے۔ اس پالیسی کا پس منظر ۱۹۰۰ ء سے ۱۹۴۵ ء تک اس ملک کی پولیٹیکل اکانومی تھی۔ شمالی اور مشرقی ایشیا میں جاپان کی رسائی ’’خام مال اور مارکیٹ‘‘ تک کافی زیادہ تھی۔ جنگ کے بعد امریکہ کی ذمہ داری بن گئی کہ جاپانیوں کو ’’ملٹری ایڈوینچر‘‘ کی طرف مائل ہونے سے بچانے کے لیے اس کے لیے ’’خام مال اور مارکیٹ‘‘ کا مناسب بندوبست کرے۔ امریکہ کے مشہور ڈپلومیٹ اور مورخ جارج کپتان نے بہت پہلے نشاندہی کر دی تھی کہ جاپان اس امریکی بندوبست کے طفیل ہی مستقبل میں ’’معاشی بلاک‘‘ تشکیل دے سکتا ہے جس میں امریکی اثرات ’’زیرو‘‘ ہوں گے لہٰذا ضروری ہوگا کہ اس ’’خام مال اور مارکیٹ‘‘ پر قبضہ کیا جائے جس پر جاپان کا انحصار ہے۔ اندازہ یہی ہوتا ہے کہ مشرقی ایشیا اور مغربی یورپ کو متوقع حریف خیال کرتے ہوئے امریکہ کی کوشش ہے کہ ہر دو خطے جس خام مال پر انحصار کر رہے ہیں‘ اس خام مال کو ’’اپنے‘‘ قبضے میں لے لیا جائے۔ لہٰذا Expectations of Future Trade کی تھیوری کافی حد تک موجودہ عالمی حالات پر لاگو ہوتی ہے اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ گلوبلائزیشن سے جنگ کے امکانات میں اضافہ ہوا ہے۔
اختتامی کلمات
یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ گلوبلائزیشن سے ’’فرار‘‘ ممکن نہیں اور یہ کہ دنیا کی ترقی کا غالب رجحان بھی اسی سمت میں ہے‘ ہمیں چاہیے کہ معروضی انداز میں اس کا Structure بدلنے کی کوشش کریں۔ گلوبلائزیشن کے لیے کوئی ’’تصوری ڈھانچہ‘‘ تشکیل دیں‘ جس کے مطابق اس میں نام نہاد مارکیٹ لبرل ازم کے پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ ’’مضبوط عدل‘‘ بھی معتبر جگہ پا سکے۔ گلوبل فیصلہ سازی میں ایسے معاشروں اور اقوام کو بھی معقول اور موثر طور پر شریک کیا جائے جن کا مارکیٹ اعتبار سے وزن کم ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دنیا کے درمیان Socialization کی بھی اشد ضرورت محسوس ہوتی ہے ورنہ موجودہ صورت حال میں تو ترقی یافتہ دنیا کا پلڑا کافی بھاری ہے۔ آئی ایم ایف‘ ورلڈ بینک اور عالمی اقتصادی تنظیم کے انتظامی ڈھانچوں اور فیصلہ سازی کے شعبوں میں امیر ممالک کا تناسب غریب ممالک سے بہت زیادہ ہے ۔ اندریں صورت یہ سوال ابھرتا ہے کہ کیا مغربی ممالک جمہوری رویے کو ’’قومی ریاست‘‘ تک محدود سمجھتے ہیں کہ ماوراے ریاست اداروں پر یہ رویہ لاگو نہیں ہو سکتا؟ اہل مغرب کا (Proud of Flesh) کا مظہر رویہ اور اس پر اصرار دیکھ کر شیکسپیئر کے ڈرامے ’’مرچنٹ آف وینس‘‘ کے یہ الفاظ یاد آجاتے ہیں:
".......... take then thy hand,
take then thy pound of flesh
but in the cutting of it --- shed not
one drop of Christian blood."
سوال یہ ہے کہ گلوبلائزیشن کے عمل میں Global Ethics کیوں نہیں سما سکتی؟ اس وقت اگرچہ گلوبل سوشل تحریکات مثلاً ایمنسٹی انٹرنیشنل اور گرین پیس وغیرہ گلوبلائزیشن کے ’’یک رخے‘‘ انداز کو دھچکا لگا رہی ہیں لیکن ان کی آواز اتنی موثر نہیں ہو سکی۔ گلوبل خطرات جیسا کہ ماحولیاتی آلودگی‘ ایڈز‘ کیمیائی ہتھیاروں کا پھیلاؤ اور دہشت گردی وغیرہ سے‘ گلوبلائزیشن کے ’’غیر معاشی عناصر‘‘ پر توجہ دینے کی ضرورت بہت شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ گلوبلائزیشن کی سمت سفر ’’قدرتی‘‘ ہے لیکن ملٹی نیشنل کمپنیاں اسے ’’ہائی جیک‘‘ کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ یہ کمپنیاں ایک ملک سے سرمایہ نکال کر اور دوسرے ملک میں سرمایہ لگا کر ’’ہلچل‘‘ مچا سکتی ہیں۔ اس سلسلے میں مشرقی ایشیا میں ’’کرنسی کے بحران‘‘ کی مثال دی جا سکتی ہے۔ اندریں صورت Global Ethics کا اثر و نفوذ بہت ضروری ہو جاتا ہے۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ گلوبلائزیشن اصل میں ’’اسلامی قدر‘‘ ہے لیکن بنیادی انسانی حقوق اور انسان کی بنیادی ضروریات کی تکمیل جیسے اقدامات کی طرح اہل مغرب نے یہ اسلامی قدر بھی اپنے آپ سے منسوب کر لی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ فروعی مسائل میں الجھنے کی بجائے اسلام کے ’’عالمی پروگرام‘‘ پر بحث و نظر کو فروغ دیں۔ مارکیٹ اکانومی کے غیر انسانی پہلوؤں کی نشاندہی کرتے ہوئے اس کے متوازی ’’اسلامی پروگرام‘‘ پیش کریں۔ خطرہ ہے کہ دنیا بھر میں عوامی سطح پر گلوبلائزیشن کے خلاف رد عمل سے‘ کہیں اسلام کی عالمگیریت بھی ہدف تنقید نہ ٹھہرے۔ اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔