کہا جاتا ہے کہ ہندوستان کی وہ بابرکت زمین ہے جس میں حضرت آدم علیہ السلام کا آسمان سے نزول ہوا تھا۔ گویا اس لحاظ سے ہندوستان کی زمین وہ اشرف قطعہ ہے جس کو سب سے پہلے نبیؑ کے مبارک قدموں نے روندا جس پر ہزارہا سال گزر چکے تاآنکہ آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا دور نزدیک ہوا۔ اس وقت سرزمینِ ہند میں بدکرداری، اخلاقی پستی اور دنارت کا یہ عالم تھا کہ مندروں کے محافظ اور مصلحینِ قوم بداخلاقی کا سرچشمہ تھے جو ہزاروں اور لاکھوں ناآزمودہ کار لوگوں کو مذہب کے نام اور شعبدہ بازی کے کرشموں سے خوب لوٹتے اور مزے سے عیش اڑاتے تھے (آر سی دت ج ۴ ص ۲۸۳)۔ راجوں اور مہاراجوں کے محلات میں بادہ نوشی کثرت سے رائج تھی اور رانیاں حالتِ خمار میں جامۂ عصمت و ناموس اتار ڈالتی تھیں (ایضاً ص ۳۴۳)۔ سڑکوں اور شاہراہوں پر آوارہ گرد اور جرائم پیشہ افراد کا ہر وقت مجمع لگا رہتا تھا (ایضاً ص ۴۶۹)۔
اس کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ کوئی شریف انسان اور خصوصیت سے باحیا عورتوں کا وہاں سے گزرنا وبالِ جان سے کم نہ تھا اور ہر وقت جان و عزت کا خطرہ درپیش رہتا تھا۔ دیوداسیوں اور عورتوں کی بداخلاقی اور جنسی جنون کی دل سوز حرکات اور حالات پڑھنے اور سننے سے بھی شرم محسوس ہوتی ہے اور کوئی شریف اور باحیا انسان ان کو پڑھ کر اپنے نفس کو آمادہ نہیں پاتا الّا یہ کہ دل پر جبر کر کے پڑھے تو اور بات ہے (ملاحظہ ہو سفرنامہ ابوزیدؒ ص ۱۳۰ اور احسن تقاسیم مقدسیؒ ص ۴۸۳)
جوا اس حد تک رائج تھا کہ سونے اور چاندی کے سکے اور زیورات کا تو کیا کہنا، عورتیں بھی جوئے میں ہاری جاتی تھیں اور ازدواجی تعلقات میں ایسی بے راہ روی اختیار کر لی گئی تھی کہ ایک ایک عورت کے کئی کئی شوہر ہوتے تھے۔ اور ان کی روحانیت کا یہ حال تھا کہ بعض فرقوں میں عورتیں مردوں کو اور مرد عورتوں کو ننگا کر کے ان کی شرمگاہوں کی پوجا کرتے تھے (ستیارتھ پرکاش سمولاس گیارہ ص ۳۶۷ طبع لاہور)۔ شاید وہ یہ خیال کرتے ہوں گے کہ شرمگاہ ہی دنیا کی جڑ اور منبع نسلِ انسانی ہے لہٰذا اس بابرکت اور کثیر المنفعت چیز کی پوجا کیوں نہ ہو؟ اور ایسے مردوں اور عورتوں کے ان کے نزدیک خاص القاب ہوتے تھے، چنانچہ لکھا ہے کہ
’’اور جب کسی عورت یا دیشیا کو یا کسی مرد کو ننگا کر کے اور ان کے ہاتھ میں تلوار کر ان کی جائے نہانی کی پرستش کرتے ہیں تو عورت کا نام دیوی اور مرد کا نام مہادیو رکھتے ہیں۔‘‘ (ستیارتھ پرکاش ص ۳۶۸)
شوہر کے مرنے پر بعض عورتوں کو خود ان کے باپ اور بھائی اعزہ و اقارب زندہ نذرِ آتش کر دیتے تھے اور اس شنیع کارروائی کو اپنی اصطلاح میں وہ ’ستّی‘‘ کہتے تھے۔ اور اس کی حکمت اور فلسفہ یہ بیان کرتے تھے کہ یہ عورت اپنے خاوند کے فراق کو گوارہ نہیں کر سکتی اور اس کی محبت و الفت میں اپنی جانِ عزیز کو اس پر قربان کر دینے کے لیے بطیب خاطر رضامند ہے۔ ممکن ہے بعض شوریدہ سر عورتیں اس قومی اور آبائی رسم کی وجہ سے اس کو قربانی ہی تصور کرتی ہوں مگر حتی الوسع موت کو کون پسند کرتا ہے؟ ان کی اس ظالمانہ رسم کا بعض مسلمان اور خدا رسیدہ صوفی شاعروں نے بھی تذکرہ کیا ہے، چنانچہ حضرت امیر خسروؒ یوں ارشاد فرماتے ہیں کہ ؎
خسروا در عشق بازی کم زہندو زن مباش
کز برائے مردہ می سوزند جان خویش را
اور جناب بیدل پشاوریؒ یوں کہتے ہیں کہ ؎
باتو میگویم مباش اے سادہ دل ہندو پسر
در طریق جاں سپاری کم زہندو دخترے
اور برہمنوں نے اپنی قلبی تسکین اور سہولت کے لیے یہ چند نفس پسند قوانین وضع کئے اور تراشے تھے:
- برہمن کو کسی حالت میں خواہ وہ کتنے ہی سنگین جرائم کا مرتکب رہ چکا ہو، سزائے موت نہیں دی جا سکتی۔
- کسی اونچی ذات کا مرد اگر کسی نیچی ذات کی عورت سے زنا کرے تو کوئی حرج نہیں۔
- کسی بودھ راہبہ تک کی عصمت دری کی سزا میں معمولی جرمانہ کافی ہے۔
- اگر کوئی اچھوت ذات کا شخص کسی اعلیٰ ذات والے کو چھو لے اور ہاتھ لگا دے تو اس کی سزا موت ہے۔
- اگر کوئی نیچی ذات والا اپنے سے اونچی ذات والے کو مارے تو اس کے اعضاء کاٹ دیئے جائیں، اور اگر اس کو گالی دے تو اس کی زبان قطع کر دینی چاہیئے، اور اگر اسے تعلیم دینے کا دعوٰی کرے تو گرم تیل اس کے منہ میں ڈالنا چاہیئے (آرسی دت کی قدیم ہندوستان ص ۳۴۲)
یہ اصول و ضوابط اور قوانین تھے اہلِ ہند کے جس میں اچھوت اقوام کے لیے خیرخواہی کا ادنٰی جذبہ اور ان کی ہمدردی کا ایک حرف بھی موجود نہ تھا۔ جو بزبانِ حال شاید برہمنوں کے ان خودساختہ ملکی اور قومی قوانین پر آنسو بہاتے ہوئے یہ کہتے ہوں گے ؎
تم جو دیتے ہو نوشتہ وہ نوشتہ کیا ہے
جس میں ایک حرفِ وفا بھی کہیں مذکور نہیں