عرب کے لوگ اکثر مشرک و بت پرست تھے اور خداوند کی توحید اور انبیاء کی نبوت اور قیامت کے آنے کا بالکل انکار کرتے تھے اور ان میں سے بعض کچھ افراط و تفریط کرتے تھے، اس لیے قرآن کے اندر مذکورہ تینوں امور کا بکثرت ذکر آیا ہے نیز تکرار و قصص کے اور بھی کئی اسباب ہیں۔
سبب اول
یہ کہ قرآن مجید فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے بھی معجزہ ہے اس لیے ان میں ان قصص کو اللہ تعالیٰ نے بار بار ذکر کیا ہے، کہیں طویل اور کہیں مختصر، اور ہر جگہ ان کو بلاغت کے اعلیٰ درجہ پر رکھا اور پچھلی دفعہ سے زیادہ لطف مہیا کیا۔ یعنی اگر قرآن بشر کا کلام ہوتا تو اس بات سے عاری ہوتا (گویا یہ امر اعجازِ قرآن کی دلیل ہے)۔
سبب دوم
یہ کہ مخالفین کو صاف کہا گیا تھا کہ اگر تم کو کچھ شک ہو تو ایک ہی سورت کی مقدار ایسا کلام بنا کر دکھاؤ۔ تو احتمال تھا کہ وہ کہتے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو جو الفاظ آتے تھے ان کو اس نے استعمال کر لیا (یعنی اس کو اور الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہے لہٰذا کلامِ الٰہی نہیں ہے)۔ یا یہ کہتے کہ ہر ادیب کا اندازِ بیاں جدا جدا ہوتا ہے، اگر ہم ایک کا انداز اپنا نہیں سکے تو کیا ہوا؟ (یعنی اس (محمدؐ) نے بھی ایک ہی طریقہ اپنایا ہے جو دوسرے ادیبوں سے جدا ہے، تو اگر ہم ایک ہی طریقہ نہ اپنا سکے تو کیا قیامت آن پڑی۔ لیکن قرآن کریم میں قصص کو مختلف اندازوں میں بیان کرنے سے رفع ہو گیا۔ یا یہ کہتے یہ قصہ ہے اور قصص میں بلاغت کا دائرہ تنگ ہوتا ہے اور اس نے ایک دفعہ اس کو جو بلاغت سے بیان کیا ہے سو اتفاقاً ہوا ہے ورنہ ایسا اور الفاظ میں بیان نہ کر سکے گا۔ لیکن جب تکرارِ قصص ظاہر ہوا اور اندازِ بیان میں تشتت واقع ہوا تو ان تینوں اعتراضات کی جگہ نہ رہی۔
سبب سوم
یہ ہے کہ بعض اوقات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم قوم مخالف کی شرارت اور ایذاء سے ملول ہو جاتے تھے۔ سورہ حجر میں ہے:
وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّکَ یَضِیْقُ صَدْرُکَ بِمَا یَقُوْلُوْنَ۔ (آیت ۹۷)
ترجمہ: ’’اور ہم جانتے ہیں کہ آپ کا دل تنگ پڑتا ہے ان کی باتوں سے‘‘۔
لہٰذا اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تسلی کے لیے ان قصص کو نقل فرماتے ہیں۔ سورۂ ہود میں ہے:
وَکُلًّا نَقُصُّ عَلَیْکَ مِنْ اَنْبَآءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِہٖ فُؤَادَکَ وَجَآءَکَ فِیْ ھٰذِہِ الْحَقُّ وَ مَوْعِظَۃً وَّذِکْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ۔ (آیت ۱۲۰)
ترجمہ: ’’ہم آپ پر جتنے بھی قصے انبیاء کے بیان کرتے ہیں سو اس کے ساتھ ہم آپ کے دل کو مضبوط کرتے ہیں اور اس میں آپ کو حق بات ملی ہے اور مؤمنوں کے واسطے نصیحت‘‘۔
اس لیے اکثر مقامات پر وقت موجود کے مناسب اسی قدر نقل ہوتا ہے جو تسلی کے لیے کافی ہو اور کچھ نہ کچھ سابقہ ذکر زیادہ مذکور ہوتا ہے۔
سبب چہارم
یہ ہے کہ گزرے ہوؤں کا حال آنے والوں کے لیے نصیحت قبول کرنے اور عبرت پکڑنے کا وسیلہ ہوتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ اکثر جگہوں میں مسلمانوں کو نصیحت فرماتے ہیں اور منکرین کو عبرت دلاتے ہیں۔ جب مومنوں کو کافروں کے ہاتھوں سے اذیت پہنچتی ہے یا جب کوئی گروہ نیا نیا مسلمان ہوتا ہے تو ان قصوں میں سے کسی کا نقل کرنا مناسب حال ہوتا ہے تو ان کی نقل ظہور پذیر ہوتی ہے۔
(از ازالۃ الشکوک ج ۱ ص ۱۳۲ تا ۱۳۴)
انتخاب و تسہیل: حافظ محمد عمار خان ناصر