آج سے ۴۲ سال قبل جب ہندوستان کی تقسیم کے فارمولے پر دستخط کیے گئے تو یہ ضابطہ بھی متفقہ طور پر طے کیا گیا کہ وہ ریاستیں جو انگریز کی عملداری میں شامل نہیں اور جن پر مستقل طور پر راجے اور دیگر حکمران حکمرانی کر رہے ہیں، ان میں جس ریاست میں ہندو اکثریت میں ہوں مگر حاکم مسلمان ہوں وہ ہندوستان میں شامل ہوں گی، اور جہاں جہاں مسلمان اکثریت میں ہوں اور حاکم ہندو ہو وہ پاکستان میں شامل ہوں گی۔ ہندوستان نے اپنی روایتی مکاری سے کام لیتے ہوئے اس اصول کی دھجیاں فضائے آسمانی میں بکھیر دیں اور یوں مناور، جوناگڑھ، حیدرآباد، گوا اور کشمیر پر قبضہ جما لیا۔
اکتوبر ۱۹۴۷ء میں جب وادیٔ کشمیر میں مہاراجہ ہری سنگھ کی عیاری اور ہندوستان کے غاصبانہ قبضہ کے خلاف کشمیر مجاہدین اٹھ کھڑے ہوئے اور قبائلی مسلمانوں نے ان کی مدد کے لیے وادی پر یلغار کی تو ہندوستان کی بزدل افواج کے پاؤں اکھڑ گئے۔ مجاہدین سری نگر کے ہوائی اڈے تک پہنچ گئے اور یہ حسین وادی آزادی سے چند قدم دور رہ گئی کہ بعض ناعاقبت اندیش لیڈروں نے ہندوستان کی چیخ و پکار پر جنگ بندی قبول کر لی اور اقوام متحدہ کے دامِ فریب میں آ کر نام نہاد رائے شماری کی قرارداد کو قبول کر لیا گیا۔ یوں ایک کروڑ بیس لاکھ مسلمانوں کو پھر سے غلامی کی زنجیروں میں دھکیل دیا گیا، تاہم وادی کا ایک حصہ جسے ایک تہائی حصہ قرار دیا جا سکتا ہے، ہندوستان کے پنجۂ استبداد سے آزاد کرا لیا گیا، اس آزاد حصے کو آج کل ’’آزاد جموں و کشمیر‘‘ کہا جاتا ہے۔
وادیٔ کشمیر کے لوگوں کو اسلام سے گہری محبت ہے اور بیشتر لوگ اسلامی احکام کے پابند ہیں۔ ۱۹۴۷ء سے ۱۹۷۲ء تک مختلف حکومتیں آزاد کشمیر میں برسرِ اقتدار رہیں اور اپنی اپنی بساط کے مطابق کسی حد تک ریاست کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی مگر پاکستان کی وزارت اور کشمیر کے بزرجمہروں نے ان کی ایک نہ چلنے دی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ صحیح طریقہ سے اسلامی قوانین کی تنفیذ ناممکن ہو گئی۔
مجاہدِ اول سردار محمد عبد القیوم خان کا دورِ حکومت
۱۹۷۲ء میں سردار محمد عبد القیوم خان ایک منتخب حکمران کی حیثیت سے آزادکشمیر کی صدارت پر متمکن ہوئے اور اپنی جرأتمندانہ قیادت کے نتیجے میں وزارتِ امورِ کشمیر کی بالادستی سے نجات حاصل کی اور فوری طور پر ریاست کو صحیح اسلامی خطوط پر استوار کرنے کے لیے نظامِ افتاء کو ازسرِنو زندہ کیا جسے سابقہ حکومت نے مفلوج کر کے رکھ دیا تھا۔ تمام تحصیلوں اور اضلاع میں تحصیل مفتی اور ضلع مفتی مقرر کیے گئے۔ جیلوں میں مفتیوں کی اسامیاں تخلیق کی گئیں اور یوں اسلامی نظام کی طرف پیشرفت کا آغاز ہوا۔
نظامِ قضا کا قیام
۱۹۷۵ء میں ایک قانون کے ذریعے پوری ریاست میں اسلامی حدود نافذ کر دی گئیں اور چوری، زنا، ڈکیتی، قذف، شراب نوشی، قتل کے جرائم کے لیے شرعی سزاؤں کا نفاذ عمل میں لایا گیا۔ چونکہ پہلے سے جاری نظامِ عدالت انگریزی قوانین کے سند یافتہ ججوں پر مشتمل تھا اس لیے شرعی حدود کے نفاذ کے بعد ان حضرات کے لیے فیصلے کرنا ممکن نہ تھا۔ چنانچہ علماء کرام کو ان کے اصلی کام یعنی منصبِ قضا پر فائز کیا گیا اور ہر فوجداری عدالت میں سب جج (تحصیل قاضی) اور سیشن جج (ضلع قاضی) دو افراد پر مشتمل بینچ قائم کر دیے گئے۔ جہاں دینی علوم کے ماہر علماء کرام اور انگریزی قانون کے ماہر جج صاحبان مل کر انتہائی محبت، خلوص اور برابری کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں اور کبھی بھی ججوں اور قاضیوں کے درمیان کوئی ٹکراؤ کسی احساسِ برتری یا کمتری کی بنیاد پر نہیں ہوا۔
قتلِ مرتد
اس سلسلہ میں بھی حکومتِ آزاد کشمیر نے اپنے اختیارات کی حد تک بے حد کوشش کی مگر اس وقت پاکستان میں برسرِ اقتدار گروپ نے قانونِ ارتداد نہ نافذ ہونے دیا۔ اور قارئین کو یاد ہو گا کہ آزادکشمیر اسمبلی نے ۱۹۷۴ء میں قادیانیوں کے خلاف جو قرارداد منظور کی تھی اس پر پاکستان کے اس وقت کے حکمرانوں کا کیا ردعمل تھا اور کس طرح آزادکشمیر کے منتخب صدر کی رہائشگاہ کو گھیرے میں لے لیا گیا تھا، اس تمام دباؤ کے باوجود اس وقت ’’مسلم کانفرنس‘‘ کی حکومت نے اسلامی قوانین نافذ کیے۔
دوسرا مرحلہ
آزادکشمیر کی منتخب حکومت بنوکِ شمشیر برطرف کر دی گئی اور یوں ۱۹۷۵ء کے اواخر سے لے کر ۱۹۸۵ء تک مختلف نامزد حکمران آزاد کشمیر پر حکمران رہے۔ مگر خدا کے فضل و کرم سے اسلامی قوانین جوں کے توں نافذ رہے اور کسی گروہ کو ان قوانین کے معطل کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔
۱۹۸۳ء کے بعد دوسرا مرحلہ آیا جب پھر مسلم کانفرنس بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی اور سردار سکندر حیات کی سرکردگی میں حکومت تشکیل دی گئی۔ مجاہد اول سردار محمد عبد القیوم خان صدر منتخب ہوئے۔ مسلم کانفرنس حکومت کے اولین مقاصد میں یہ بات شامل تھی کہ جو کام ۱۹۷۵ء میں رہ گیا تھا اسے موجودہ چہار سالہ مکمل کیا جائے گا۔ چنانچہ اس چہار سالہ میں مزید اسلامی اقدامات کیے گئے۔ مڈل اور ہائی اسکولوں میں قراء کی تعداد میں اضافہ کیا گیا۔ آزاد جموں و کشمیر اسمبلی نے ۱۹۸۹ء کے سیشن میں متفقہ طور پر شریعت بل پاس کیا جس کے نتیجے میں ریاست کی تمام عدالتوں کو شریعت کے مطابق فیصلے کرنے کا پابند کر دیا گیا۔ عوام الناس کو یہ حق دیا گیا کہ وہ کسی بھی فیصلہ یا قانون کو خلافِ شریعت قرار دینے کے لیے شریعت کورٹ کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔
شعبۂ افتاء کا قیام
نظامِ قضا اور افتاء کو مستقل بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے قضاۃ کو عدلیہ کے تابع کر دیا گیا اور محکمہ امور دینیہ کے زیرانتظام شعبۂ افتاء کا قیام عمل میں لایا گیا۔ شعبۂ افتاء کا قیام ریاستی مسلمانوں کی اہم ضرورت تھی جس کے لیے حکومت نے اٹھارہ لاکھ روپے کی خطیر رقم منظور کی، اور ہر ضلع میں گریڈ ۱۸ کا ایک ضلع مفتی مقرر کیا گیا اور ہر تحصیل میں گریڈ ۱۷ کا تحصیل مفتی مقرر کیا گیا۔ اس طرح آزادکشمیر کی سولہ تحصیلوں میں سولہ علماء دین بطور تحصیل مفتی مقرر کیے گئے اور پانچ اضلاع میں پانچ علماء دین بطور ضلع مفتی مقرر کیے گئے۔
انتخاب
مجاہد اول سردار محمد عبد القیوم خان چونکہ بذات خود محکمہ افتاء کے قیام میں دلچسپی لے رہے تھے اس لیے انہوں نے مفتیوں کے انتخاب میں بھی بلند معیار کو ملحوظ رکھا۔ انہوں نے خود اپنی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی جس کے ارکان میں مولانا محمد یوسف (شیخ الحدیث دارالعلوم پلندری) اور مولانا سید مظفر حسین شاہ ندوی جیسے متبحر علماء دین شامل تھے۔ چنانچہ اس انتخابی کمیٹی نے تقریباً دو سو علماء میں سے ۱۶ کو بطور تحصیل مفتی منتخب کیا اور ضلع مفتی کے انتخاب کے لیے مصروف اور تجربہ کار علماء جو تعلیمی اعتبار سے اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک تھے ان کو ضلع مفتی کے منصب کی پیشکش کی گئی۔ تحصیل مفتی صاحبان میں بعض حضرات نہ صرف درسِ نظامی کے فارغ التحصیل ہیں بلکہ مروجہ طریقۂ تعلیم میں ایم اے بھی ہیں۔ ضلع مفتی صاحبان میں اکثریت درسِ نظامی کے فارغ التحصیل بھی ہیں اور ساتھ ساتھ ایم اے، ایل ایل بی اور عرصۂ دراز تک منصبِ افتاء پر فائز رہنے والے علماء بھی ہیں، اور بعض غیر ملکی یونیورسٹیوں سے ایل ایل بی، ایل ایل ایم کی اسناد کے حامل ہیں۔
اس طرح اس دفعہ اس نئے اور تجدیدی شعبہ کے لیے نہایت قابل افراد کا انتخاب عمل میں لایا گیا۔ ان میں بعض لوگ ایسے ہیں جنہیں راقم کی رائے میں اگر شعبہ قضاء میں منتقل کر کے ان کی خدمات شریعت کورٹ کے سپرد کر دی جائیں تو وہ ہائیکورٹ، شریعت کورٹ، سپریم کورٹ میں زیادہ بہتر خدمات انجام دے سکتے ہیں۔
مفتیانِ کرام کے فرائض
حکومتِ آزاد کشمیر کی اسلامائزیشن کی پالیسی کے سلسلہ میں شعبۂ افتاء کے قیام کا اصل مقصد ریاست میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے عمل کو تیز کرنا ہے۔ سینئر مفتی حضرات کے مزید فرائض حسبِ ذیل ہوں گے:
(۱) دعوت و ارشاد، لوگوں میں تبلیغ دین، مجالس دینیہ کا انعقاد، محافلِ سیرت، مقابلہ ہائے حسنِ قراءت کا انعقاد، اتحادِ علماء اور باہمی اخوت یگانگت کا فروغ۔
(۲) ریاست میں نکاحوں کا سلسلہ خطرناک حد تک فتنہ و فساد کا باعث بن گیا تھا اور جھوٹے دعوؤں سے عدالتیں اٹ گئی تھیں۔ چنانچہ اس سلسلہ کو روکنے کے لیے حکومت نے نکاحوں کی رجسٹریشن کا قانون نافذ کیا۔ مفتی صاحبان کو رجسٹرار مقرر کیا گیا ہے جسے مجل (ضلع مفتی)، نائب مجل (تحصیل مفتی) کہا جائے گا۔
(۳) رمضان المبارک میں سرِ عام کھانے پینے پر پابندی کا ایکٹ ریاست میں پہلے ہی نافذ ہے۔ اس پر عملدرآمد کے اختیارات مفتیانِ کرام کو دیے گئے ہیں اور مسودۂ قانونی حکومت کے زیرغور ہے۔
(۴) احکامِ جمعہ پر عملدرآمد کے اختیارات بھی مفتی صاحبان کو دیے گئے ہیں۔
(۵) حکومتِ آزاد کشمیر نے ۱۹۷۲ء سے تمام سرکاری ملازمین کے لیے ہفتہ وار درسِ قرآن کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ پہلے درسِ قرآن پاک جمعرات کو ہوتا تھا، اب ہر سوموار کو دس سے گیارہ بجے تک تمام سرکاری ملازمین کی درس میں حاضری لازمی قرار دی گئی ہے۔ اور سیکرٹریٹ/ہائیکورٹ، ضلعی عدالتوں، تحصیلوں اور بڑے بڑے اداروں میں مفتی صاحبان اور مقامی علماء کرام درس دیتے ہیں۔ اس طرح ریاست کا اسلامی تشخص روز بروز اجاگر ہو رہا ہے اور اس کے مثبت نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔
دینی مدارس کی تنظیم
آزاد کشمیر میں سینکڑوں دینی مدارس کام کر رہے ہیں جن کی تنظیم و ربطِ باہمی کا کام بھی مفتی صاحبان کے سپرد کیا گیا ہے اور ان مدارس کی رجسٹریشن اور سرکاری امداد کے لیے سفارشات بھی مفتی صاحبان کی ذمہ داری ہو گی۔
غرضیکہ آزاد کشمیر کی موجودہ حکومت جناب مجاہد اول سردار عبد القیوم خان اور سردار سکندر حیات کی سربراہی میں اپنی بساط کے مطابق اَن تھک کام کر رہی ہے۔ اور اسی اسلامائزیشن کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب مقبوضہ کشمیر کا مسلمان اس تعمیر و ترقی کو دیکھ کر ہندوستان کے غاصب حکمرانوں کے خلاف میدانِ کارزار میں نکل پڑا ہے اور اب وادیٔ کشمیر آگ اور خون کی لپیٹ میں ہے۔ مگر ہندو بنیئے کی گولیاں آزادی کے جذبے کو سرد نہیں کر سکتیں۔ خدا وہ دن جلد لائے جب وادیٔ کشمیر پر لا الٰہ الا اللہ کا پرچم لہرائے اور پوری وادی اسلامی قوانین کی برکات سے مالامال ہو۔ خدا پاکستان کے حکمرانوں کو بھی توفیق دے کہ وہ اس چھوٹی سی ریاست کی پیروی کریں۔