سچ کڑوا ہوتا ہے، یہ ہر دور کی مانی ہوئی حقیقت ہے۔ عرصۂ دہر میں جب بھی کوئی سچائی ابھری، ہر زمانے کے حق ناشناس لوگوں نے اس پر زبانِ طعن دراز کی بلکہ بسا اوقات مقابلے کی ٹھان لی۔ کیسے ممکن تھا کہ دنیا کی سب سے بڑی صداقت کا ظہور ہو اور وہ بغیر کسی پس و پیش کے تسلیم کر لی جائے۔ یہ صداقت سرزمینِ عرب سے ابھری تو ایک زمانہ اس کے درپے آزار ہو گیا۔ اپنے آپ کو منوانے کے لیے حقیقتِ ابدی کو مہینوں نہیں سالوں لگے تاہم
؏ حقیقت خود منوا لیتی ہے مانی نہیں جاتی
تئیس سال میں یہ عظیم صداقت مانی گئی اور اس شان سے مانی گئی کہ دنیا انگشت بدنداں رہ گئی
؏ فلک گفت احسن ملک گفت زہ
آفتابِ نبوت جلوۂ طراز ہوا تو اس کی جلوہ ریزیوں نے ایک عالم کو منور کر دیا مگر اس چمکتے اجالے میں بھی بعض شیرہ چشم اسلاف کی اندھی تقلید، ہوائے نفس اور سوسائٹی کی رسومِ باطلہ کے اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہے۔ صرف یہی نہیں کہ وہ اس تیرگی میں بھٹک رہے تھے بلکہ وہ اس خورشیدِ جہاں تاب کو اپنی پھونکوں سے بجھانے پر اتر آئے تھے۔ ان عقل کے اندھوں کو کیا معلوم تھا کہ
؏ پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
یریدون لیطفؤوا نور اللہ بافواھھم واللہ متم نورہ ولو کرہ الکافرون (الصف ۸)
(وہ (کفار) چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے مونہوں سے بجھا دیں (درآنحالیکہ) اللہ اپنے نور کو مکمل کر کے رہے گا خواہ یہ بات کافروں کو ناگوار ہی کیوں نہ گزرے۔)
سرورِ عالمؐ کی مکی زندگی کے تیرہ برس میں کفار و مشرکین نے انتہائی کوشش کی کہ وہ نخلِ اسلام کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکیں، جب آقائے دو جہاںؐ نے مدینے کو مستقر بنایا تو یہود و منافقین نے اپنی ناپاک سازشوں سے شجرِ اسلام کے استیصال میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔ وہ بے بصر نہیں جانتے تھے کہ اس درخت کے مالی نے اسے ہر طرح کی آندھیوں اور طوفانوں سے محفوظ و مصون رکھنے کا عہد کر رکھا ہے
انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحٰفظون۔ (الحجر ۹)
(ہم نے یہ نصیحت اتار دی ہے اور بے شک ہم اس کے نگہبان ہیں۔)
کج فکر معاندین اس نکتے کو سمجھنے سے قاصر تھے کہ جب ایک عظیم الشان انسان کو مامور کیا جا رہا ہے تو کیا اس انسانِ کامل کو دشمنوں کے قبضے میں دے کر اس کی ماموریت کو معرضِ خطر میں ڈال دیا جائے گا۔ دشمنوں کا مامور من اللہ کو ہلاک کرنا اصل میں اللہ کی ماموریت کو کھلا چیلنج ہے، اس لیے آمر نے مامور کی حفاظت کی پوری پوری ذمہ داری کا اعلان فرما دیا
واللہ یعصمک من الناس۔ (المائدہ ۶۷)
(اور اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا)۔
اسی فکری نارسائی کی بنا پر کبھی ایسا ہوا کہ ایک شخص نے انفرادی سطح پر سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے خاتمے کی کوشش کی جیسے مکی دور میں عقبہ بن ابی معیط نے حضورؐ کے گلے میں چادر لپیٹ کر اس زور سے بل دیا کہ گردن مبارک بھنچ گئی۔ قریب تھا کہ دم گھٹ جائے، اتنے میں صدیق اکبرؓ آ پہنچے، عقبہ کو دھکے دے کر الگ کیا اور یہ آیت پِڑھی:
اتقتلون رجلا ان یقول ربی اللہ وقد جاءکم بالبینات (مومن ۲۸)
(کیا تم ایسے شخص کو مار ڈالتے ہو جو یہی تو کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور وہ تمہارے پاس روشن دلائل لے کر آیا ہے۔)
کبھی آپ کو گرفتار کر کے اعدائے اسلام کے قبضے میں دینے کی کوشش بھی کی گئی اور یہ گرفتاری جان لیوا بھی ثابت ہو سکتی تھی جیسے سفرِ ہجرت میں سراقہ بن مالک بن جعشم نے تعاقب کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گرفتار کرنا چاہا۔ شعبِ ابی طالب میں تین سال کی محصوری پورے معاشرے کی طرف سے ہلاکتِ رسولؐ ہی کا ایک حربہ تھا۔ لیکن ان تخریبی سرگرمیوں اور اسلام دشمن کارروائیوں میں سب سے زیادہ گھناؤنے اور مکروہ جرم وہ تھے جو سرورِ کائنات کے قتل کے ناپاک منصوبوں کی صورت میں ظاہر ہوئے۔ ادھر دشمنانِ بداندیش قتل کے منصوبے سوچتے، سازشی میٹنگیں ہوتیں، قاتلانہ حملے کیے جاتے، ادھر شانِ رحمۃ للعالمین اور زیادہ نکھر کر سامنے آتی۔ خنجر بدست قاتل خلقِ محمدیؐ کے گھائل ہو کر لوٹتے۔ شکاری خود شکار ہوتے اور کارکنانِ قضا و قدر پکار اٹھتے
؏ لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا
پہلا منصوبہ
کتبِ سیرت میں یہ واقعات بکھرے پڑے ہیں۔ ان سطور میں انہیں اجزائے پریشاں کو یکجا کیا جا رہا ہے۔ ابھی کوئی چالیس مرد اور گیارہ عورتیں حلقہ بگوش اسلام ہوئی تھیں۔ نبوت کا چھٹا سال تھا۔ ایک روز جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کی چیرہ دستیوں اور مسلمانوں کی کمزوری کے پیشِ نظر بارگاہِ ایزدی میں دعا کی
اللھم اید الاسلام بابی الحکم بن ھشام او بعمر بن الخطاب۔
دعا درِ اجابت تک پہنچی۔ ادھر عمر بن خطاب (جو اس وقت تک مسلمانوں کے سخت دشمن تھے) کی بہن فاطمہ اور بہنوئی سعید بن زید مشرف باسلام ہو چکے تھے۔ عمر اس راز سے واقف نہ تھے، وہ تلوار لٹکائے ہوئے کوہِ صفا کے دامن میں دارِ ارقمؓ کی طرف اس ارادے سے چلے کہ آج محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی زندگی کا خاتمہ کرنے جاتا ہوں۔ راستے میں نعیمؓ بن عبد اللہ سے ملاقات ہوئی۔ یہ بھی درِپردہ مسلمان ہو چکے تھے، تیور دیکھ کر نیت کا فتور بھانپ گئے، پوچھا کہاں کا ارادہ ہے؟ عمر نے مدعا بیان کیا۔ نعیم بولے، پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر تم یہ کام کر بھی گزرے تو کیا بنی عبد مناف تمہیں یونہی زندہ چھوڑ دیں گے۔ دوسرے یہ کہ پہلے اپنے گھر کی خبر تو لو، تمہاری بہن اور بہنوئی حلقہ بگوش اسلام ہو چکے ہیں۔ عمرؓ کے غیض و غضب کی انتہا نہ رہی، فورًا لوٹے، بہن کے گھر آئے، اندر سے تلاوتِ کلامِ الٰہی کی آواز سنائی دی، دروازہ کھٹکھٹایا تو انہوں نے حضرت خباب بن الارتؓ کو الگ کر دیا، اوراق چھپا لیے۔ عمر نے آ کر پوچھا تو یہ طرح دے گئے، اس پر وہ بہنوئی پر پل پڑے، بہن بیچ میں آئیں تو ان کو بھی لہولہان کر دیا۔ پانی سر سے گزر گیا تو دونوں میاں بیوی نے کھل کر کہہ دیا
قد اسلمنا و اٰمنا باللہ ورسولہ فاصنع بذالک۔
’’ہم تو مسلمان ہو گئے ہیں اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لا چکے ہیں، آپ سے جو کچھ ہو سکے کر دیکھیئے۔‘‘
اب عمرؓ پسیجے، دل کی دنیا بدل چکی تھی، منصوبۂ قتل خاک میں مل گیا۔ قبولیت ِاسلام کا میلان دکھایا، آیاتِ الٰہی سننے کی فرمائش کی۔ بہن نے غسل کروا کر کپڑے بدلوائے، حضرت خباب بن الارتؓ بھی نکل آئے، اس سوز سے قرآن پڑھا کہ عمرؓ کی تقدیر پلٹ گئی۔ سورہ حدید تلاوت کی جا رہی تھی۔ ساتویں آیت پر ہی جب ’’امنوا باللہ ورسولہ‘‘ تک پہنچے تو عمر جنہیں فاروقِ اعظم بننا تھا بے اختیار پکار اٹھے
اشھد ان لا الٰہ الا اللہ واشھد ان محمدا رسول اللہ۔
تھوڑی ہی دیر بعد عمرؓ مرادِ رسولؐ بن کر سرِ تسلیم خم کیے دارِ ارقم ؓ کی جانب بڑھ رہے تھے۔ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم چند اصحابؓ کی معیت میں یہیں تشریف رکھتے تھے۔ حضراتِ حمزہؓ، ابوبکرؓ، علیؓ اور دیگر شائقینِ اولین خدمتِ اقدس میں حاضر تھے۔ شمشیر بدست قاتل پیغامِ نبوی (قرآن) کا گھائل ہو چکا تھا۔ کسی نے بند دروازے سے جھانک کر دیکھا، سہمے ہوئے انداز میں عرض کیا، یا رسول اللہ! عمرؓ آ رہا ہے۔ حمزہؓ بولے، اگر خیر کی نیت سے آیا ہے تو آنے دو ورنہ اس تلوار سے اس کا سر قلم کر دیں گے۔ یہ آن پہنچے۔ اجازت ملی، اندر آ گئے۔ سرورِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے زور سے چادر کھینچ کر آنے کا سبب دریافت فرمایا۔ سر نیہوڑائے ہوئے عمرؓ بولے
یا رسول اللہ جئتک لاؤمن باللہ و برسولہ و بما جاء من عند اللہ۔
’’یا رسول اللہ! اللہ اور اس کے رسول اور قرآن پر ایمان لانے کی غرض سے حاضر ہوا ہوں۔‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نعرۂ تکبیر بلند کیا، فضائے مکہ نعرہ ہائے تکبیر سے گونج اٹھی، کعبے میں اذان و نماز کا اہتمام ہوا۔
دوسرا منصوبہ
سرزمینِ مکہ تخمِ ایمان کی نشوونما کے لیے زرخیز ثابت نہ ہوئی۔ وہ شاخِ ہاشمی جسے ایک روز برگ و بر پیدا کرنے تھے مکہ مکرمہ کی ناخوشگوار فضا میں پنپ نہ سکی تو ؎
عقیدۂ قومیت مسلم کشود
ازوطن آقائےؐ ہجرت نمود
نبوت کے تیرہویں سال اکثر مسلمان راہِ خدا میں اپنے گھر کو خیرباد کہہ کر کوئی پونے تین سو میل دور یثرب میں جا مقیم ہوئے تھے۔ قریش محسوس کر رہے تھے کہ ایک دن رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی مکہ چھوڑ دیں گے۔ اس خطرے کے پیشِ نظر مکہ کے پبلک ہال دارالندوہ میں ایک خصوصی اور ہنگامی اجلاس ہوا جس میں ایک بہت بڑی سازش کا منصوبہ بنایا گیا۔ اس میٹنگ میں ایک دو نہیں مکے کی غیر مسلم اکثریت کے سارے ہی نمائندے شریک تھے۔ دوسروں کے علاوہ قریش کے سات قبیلوں کے چودہ سربرآوردہ لیڈر پیش پیش تھے۔ ان کی تفصیل یوں ہے:
(۱) بنو نوفل سے طعیمہ بن عدی، جبیر بن مطعم، اور حوث بن عامر بن نوفل
(۲) بنو عبد الشمس سے عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، اور ابو سفیان بن حرب
(۳) بنو عبد الدار بن قصی سے نفر بن حارث بن کلدہ
(۴) بنو اسد بن عبد العزٰی سے ابو البختری بن ہشام، زمعہ بن اسود بن عبد المطلب، اور حکیم بن حزام
(۵) بنو مخزوم سے ابوجہل بن ہشام
(۶) بنو سہم سے منیہ بن حجاج اور منبہ بن حجاج
(۷) بنو حمح سے امیہ بن خلف
بھانت بھانت کی بولیاں بولی جانے لگیں، طرح طرح کی تجویزیں زیرغور آئیں، ایک بولا اسے زنجیروں میں جکڑ کر محبوس کر دیا جائے۔ اس پر ایک شیخ صورت ابلیس نے کہا بنی عبد مناف اور پیروانِ اسلام اسے چھڑا لیں گے۔ دوسرے نے مشورہ دیا کہ کیوں نہ اسے جلا وطن کر دیا جائے، پھر وہ جانے اور اس کا کام۔ اس پر پھر بڈھا ابلیس بولا، اس کی شیرینی بیان سے تو تم سب واقف ہو، جلاوطنی سے وہ پورے عرب میں معروف و مقبول ہو جائے گا۔ آخر الامر مخزومی گرگ باراں دیدہ ابوجہل بن ہشام کی یہ تجویز اتفاق رائے سے منظور ہوئی کہ تمام قبائل میں سے چند تجربہ کار تیغ زن چن لیے جائیں اور وہ یکبارگی محمدؐ پر ٹوٹ پڑیں۔ اس طرح بنو عبد مناف کو کسی ایک فرد یا قبیلے کی بجائے تمام قبائل سے ٹکر لینا پڑے گی، وہ ان سے لڑنا تو کیا دیت کا مطالبہ بھی نہیں کر سکیں گے، ان میں ان سے نپٹنے کی ہمت ہی نہیں، ان کے پیروکار بھی سب کو موردِ انتقام نہیں بنا سکیں گے۔
اللہ اللہ دارالندوہ میں یہ سازش کی جا رہی ہے اور رب ذوالجلال اس سازش کی ناکامی کا بھرپور اعلان فرما رہے ہیں:
واذ یمکر بک الذین کفروا لیثبتوک او یقتلوک او یخرجوک، ویمکرون ویمکر اللہ، واللہ خیر الماکرین (الانفال ۳۰)
(اور کفار جب آپؐ کے خلاف تدبیریں سوچ رہے تھے کہ آپ کو قید کر دیں یا قتل کر ڈالیں یا جلاوطن کر ڈالیں، وہ داؤ پر تھے اللہ ان کے داؤ کو غلط کر رہا تھا، اور اللہ چالوں کو سب سے بہتر ناکام بنانے والا ہے۔)
ادھر اس منڈلی نے یہ تجویز پاس کی، ادھر سرور عالمؐ نے باشارۂ وحیٔ الٰہی ہجرت کا ارادہ فرمایا۔ حضرت ابوبکرؓ کو ان کی درخواست پر شرفِ معیت بخشنے کے لیے پہلے ہی مطلع فرما دیا۔ عم زاد حضرت علیؓ سے ارشاد فرمایا، آج میری خضری سبز چادر اوڑھ کر میرے بستر پر سو رہنا اور صبح کے وقت یہ امانتیں ان کے مالکوں کے سپرد کر کے مدینے چلے آنا۔
جب رات کی تاریکی چھائی تو معاندینِ مکہ کی شمشیرباز ٹولی مجوزہ پروگرام کے تحت اپنی ڈیوٹی پر آن حاضر ہوئی۔ خانۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا محاضرہ کر لیا۔ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم ایک تہائی رات گزرنے پر سورہ یس کی تلاوت کرتے ہوئے باہر نکلے۔ محاصرین پر گویا مدہوشی طاری ہو گئی، حضورؐ آیت پر پہنچے تو زبانِ مبارک سے یہ الفاظ نکلے:
وجعلنا من بین ایدیھم سدًا ومن خلفھم سدًا فاغشینھم فھم لا یبصرون (یس ۹)
(ہم نے ایک دیوار ان کے آگے کھڑی کر دی اور ایک دیوار ان کے پیچھے، ہم نے انہیں ڈھانک دیا ہے، انہیں اب کچھ نہیں سوجھتا)
ایک مٹھی خاک محاصرین کے سروں پر پھینکی اور باہر نکل آئے۔ حضرت ابوبکرؓ کے گھر پہنچے جو پہلے سے چشم براہ تھے، یہاں سے شہر مکہ سے جنوبی جانب غارِ ثور میں پہنچ گئے۔ یہ ناپاک منصوبہ بھی ناکام ہو گیا۔ کیوں نہ ہوتا، خدائے عزوجل نے اپنے محبوب کی محافظت کا خود بندوبست فرما دیا تھا۔
تیسرا منصوبہ
۱۷ رمضان المبارک ۲ھ کو میدانِ بدر میں کفر و اسلام کا پہلا معرکۂ کارزار گرم ہوا۔ مسلمانوں کو عظیم فتح ہوئی۔ قریش خائب و خاسر لوٹے۔ ان کے دل و دماغ میں شکست خوردگی کے بعد بغض وعناد کا الاؤ جل رہا تھا۔ کہاں غلامانِ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم پر جور و جفا کے پہاڑ توڑنا اور کہاں یہ ذلت آمیز ەزیمت
؏ہر شخص جل رہا تھا عداوت کی آگ میں
عمیر بن وہب اور صفوان بن اُمیہ بھی انہی معاندین اور آتشِ زیرپا لوگوں میں سے تھے جن کے لواحقین یا تو میدانِ بدر میں کام آئے یا بحالتِ اسیری تھے۔ دونوں بدر کے اگلے روز مکہ سے باہر ایک ویران جگہ میں ملے۔ صفوان کا باپ امیہ مقتولین بدر میں سے تھا اور عمیر کا بیٹا وہب مدینے میں بنی زریق کے رفاعہ بن رافع کا قیدی تھا۔ آتشِ غضب و عداوت میں جلتا ہوا عمیر بولا، اگر مجھ پر قرض نہ ہوتا اور مجھے اپنے اہل و عیال سے فراغت ہوتی تو میں مدینے جا کر محمدؐ کا کا سر قلم کر دیتا۔ صفوان جو قتلِ پدر کا زخم کھائے ہوئے پہلے ہی بھرا بیٹھا تھا، جھٹ بول اٹھا، میں تیرا قرض چکا دوں گا اور تاحیات تیرے بال بچوں کی کفالت کروں گا، تو یہ کام کر گزر۔ دونوں یہ باتیں مکمل تنہائی میں کر رہے تھے، چنانچہ رازداری کا عہد و پیمان ہوا۔ عمیر نے اپنی تلوار تیز کی اور سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے ارادے سے مدینے کی راہ لی۔
مدینے پہنچا تو مسجد نبویؐ کے سامنے اونٹ بٹھایا۔ ادھر حضرت عمرؓ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ فتح بدر کے بارے میں فضلِ خداوندی پر بات چیت کر رہے تھے۔ اونٹ کے بلبلانے سے عمیر کو دیکھا، دیکھتے ہی سمجھے کہ یہ شیطان بے سبب نہیں آیا، ضرور اس کی نیت میں فتور ہے۔ اس کی تلوار کے قبضے کو سنبھال گردن سے پکڑ کر بارگاہِ نبوت میں پہنچے۔ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اسے چھوڑ دو۔ پھر اس سے آنے کا سبب دریافت فرمایا۔ بولا، اپنے بیٹے وہب بن عمیر کی رہائی کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ پھر استفسار فرمایا، آمد کی اصل وجہ کیا ہے؟ پھر وہ ٹال گیا۔ اس پر بصیرتِ نبویؐ کا اعجاز رنگ لایا۔ فرمایا، کیا تم اور صفوان بن امیہ سنسان جگہ میں بیٹھے قریش کے اصحاب القلیب کی باتیں نہیں کر رہے تھے؟ پھر تو نے صفوان بن امیہ سے نہیں کہا تھا کہ اگر مجھ پر قرض کا بار نہ ہوتا اور اہل و عیال کا بار نہ ہوتا تو میں محمدؐ کو قتل کر دیتا اور اس نے ذمہ اٹھا لیا تھا۔ عمیر بول اٹھا ’’اشھد انک رسول اللہ‘‘ یا رسول اللہ ہم آپ کی سماوی خبروں کی تکذیب کیا کرتے تھے مگر یہ بات تو میرے اور صفوان کے علاوہ کسی تیسرے شخص کو معلوم نہ تھی، ’’فالحمد للذی ھدانی للاسلام‘‘۔
چوتھا منصوبہ
کعب بن اشرف یہودی جو مدینے میں سرورِ عالمؐ کا بدترین دشمن تھا، یہودیت کا پرجوش حامی و مبلغ تھا، بڑا قادر الکلام شاعر تھا، بدر میں مشرکین مکہ کی عبرت ناک شکست کے بعد مکے جا کر مقتولین بدر کے مرثیے پڑھ پڑھ کر مرد و زن کو رلاتا اور آمادۂ انتقام کرتا۔ واپس مدینے آیا تو سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف دریدہ دہنی کو اپنا شعار بنا لیا۔ نابکار جگہ جگہ ہجوِ رسولؐ کرتا۔ اس کے دل میں اس قدر بغض و عناد بھرا ہوا تھا کہ اس نے قصد کیا کہ چپکے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرا دے مگر قرآن کے اس فیصلے ’’ولا یحیق المکر السیئ الا باھلہ‘‘ (بری چال چلنے والے ہی کو لے بیٹھتی ہے) کے مصداق خود ہی محمد بن مسلمہؓ کے ہاتھوں کیفر کردار کو پہنچا۔
پانچواں منصوبہ
حادثہ فاجقہ بئرمعونہ (صفر ۴ھ) کے بعد حضرت عمرو بن امیہؓ الضمری جب مدینے کی راہ میں ایک درخت کے نیچے آرام کر رہے تھے، قبیلۂ بنی عامر کے دو شخص اسی درخت کے نیچے آ کر ٹھہر گئے۔ عمرو بن امیہؓ شہدائے بئرمعونہ کے غم سے نڈھال بھی تھے اور بنی عامر کی قساوت پر غصے سے بھرے ہوئے بھی۔ انہوں نے ان دونوں کو دشمن جان کر موت گھاٹ اتار دیا حالانکہ حضورؐ ان دونوں کو جان کی امان دے چکے تھے۔ جب اس واقعہ کی اطلاع سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی تو بئر معونہ میں اس قبیلے کے مظالم کے باوجود فرمایا ان کی دیت مجھے ادا کرنا ہو گی۔ قبیلۂ بنی عامر یہود کے قبیلۂ بن نضیر کا حلیف تھا۔ چنانچہ سرور عالمؐ یہود کے قبیلہ بنی نظیر میں اس غرض سے تشریف لے گئے کہ ان سے قبیلہ بنی عامر کے خون بہا کے بارے میں استفسار فرمائیں کہ ان کے ہاں دیت کا دستور ہے۔ حضورؐ کی تشریف آوری پر بنی نضیر نے اس سلسلے میں بظاہر مثبت رویے کا اظہار کیا اور کہا کہ جس طرح حضورؐ چاہیں اسی طریقے سے دیت ادا کر دیں۔
پھر یہ نابکار الگ ہوئے اور مشورہ کیا کہ اس سے اچھا موقع کیا ملے گا؟ حضورؐ دیوار کے قریب ہیں، کوئی دیوار پر چڑھ کر پتھر لڑھکا دے۔ بدبخت عمرو بن حجاش بن کعب نے اس کام کا بیڑا اٹھا لیا۔ وہ کوٹھے پر چڑھا ہی تھا کہ سرورعالمؐ نے فراستِ نبوی اور اطلاع غیبی سے معلوم کر لیا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ آپؐ اس جگہ سے فی الفور ہٹ گئے، اٹھے اور واپس مدینہ تشریف لے آئے۔ اس سفر میں حضرات ابوبکرؓ، عمرؓ اور علیؓ بھی شرف ہمسفری سے مشرف تھے۔ کعب بن اشرف کے ناپاک منصوبے کے بعد قتلِ رسولؐ کا یہ منصوبہ بھی خاک میں مل گیا۔
چھٹا منصوبہ
مشرکین مکہ غزوۂ احزاب ۵ھ تک اپنے کس بل دکھاتے رہے مگر اس جنگ نے ان کی سیاسی طاقت قریب قریب ختم کر دی۔ مگر اب مدینے کے یہودی اور منافق سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے بدترین دشمن تھے۔ کعب بن اشرف کے انفرادی اور بنی نضیر کے اجتماعی منصوبۂ قتل کے بعد یہود نے ایک اور منصوبہ بنایا۔ ۷ھ میں خیبر فتح ہوا۔ حضورؐ ابھی خیبر ہی میں تشریف رکھتے تھے کہ سلام بن مشکم یہودی کی بیوی زینب بنت الحرث نے پورے فتورِ نیت سے حضورؐ کی دعوت کی، بکری کا گوشت پکایا اور اس میں زہر ملا دیا۔ یہ تک معلوم کر لیا کہ حضورؐ بکری کے گوشت کا کونسا حصہ زیادہ پسند فرماتے ہیں۔ چنانچہ اس حصے کو زیادہ مسموم کر دیا۔ جب حضورؐ نے کھانا تناول فرمانے کے لیے دستِ مبارک بڑھایا تو اعجازِ نبوت کی اثر آفرینی سے گوشت کے زہریلا ہونے کا راز آپؐ پر منکشف ہو گیا، فی الفور کھانے سے دست کش ہو گئے۔ ایک روایت میں ہے کہ تھوڑا سا چکھا بھی تھا۔
ایک صحابی بشیر بن برا بن المعرور نے ایک لقمہ کھا لیا، کھانے سے فورًا ہاتھ اس لیے نہ کھینچا کہ حضورؐ کے سامنے سوء ادبی ہو گی، وہ موقع پر یا بروایت ایک سال بعد انتقال کر گئے۔ بعد میں حضورؐ نے اس عورت کو بلایا، پوچھنے پر عورت نے گوشت مسموم کرنے کا اقرار کر لیا۔ اس سازش کے اصل مجرموں سے، جو پس منظر میں رہے تھے، پوچھ گچھ کی گئی تو وہ بھی اس ارادۂ قتل کے معترف ہو گئے مگر ایک اچھا سا بہانہ تراش لیا کہ ہم نے ایسا بغرضِ امتحان کیا تھا کہ اگر آپ واقعی اللہ کے سچے رسول ہیں تو آپ کو خبر ہو جائے گی، مگر حقیقت یہ ہے یہ یہود کا خبثِ باطن اور عذرِ گناہ بد تر اَز گناہ تھا۔
ساتواں منصوبہ
سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم ایک روز ایک درخت کے سائے میں استراحت فرما رہے تھے، تلوار ایک شاخ کے ساتھ لٹکا دی تھی، غوث بن الحرت آیا اور چپکے سے تلوار سنبھال لی، بڑی گستاخی سے سرورِ عالمؐ کو بیدار کر کے کہا، اب تمہیں کون بچا سکتا ہے؟ آپؐ نے نہایت اطمینان سے فرمایا، اللہ! وہ رعبِ نبویؐ سے سہم کر گرا۔ حضورؐ نے تلوار سنبھال لی اور یہی سوال اس سے کیا۔ وہ حیرت زدہ رہ گیا، لرزنے لگا، آپؐ نے فرمایا، جاؤ میں بدلہ نہیں لیا کرتا۔
آٹھواں منصوبہ
ہجرت کا آٹھواں سال تھا مکہ فتح ہو گیا ’’جاء الحق و زھق الباطل ان الباطل کان زھوقا‘‘ (الاسراء ۸۱)۔ فضائے مکہ نعرہ ہائے تکبیر سے گونج رہی تھی، ۳۶۰ بت منہ کے بل گر کر ٹوٹ پھوٹ گئے تھے۔ فتح مکہ سے اگلے روز حضور صلی اللہ علیہ وسلم مصروفِ طواف تھے، ایک بداندیش فضالہ بن عمیر نے موقع دیکھ کر قتل کا منصوبہ بنایا۔ شاید اس وقت آپ اکیلے تھے، پوری طمانیت سے طواف فرما رہے تھے۔ فضالہ فتور بھری نیت سے قریب آیا، زبانِ نبوت سے نکلا فضالہ آتا ہے؟ عرض کیا، ہاں۔ فرمایا، تمہارے دل میں کیا ارادہ ہے؟ فضالہ بولا، ذکر الٰہی کر رہا ہوں۔ ملہم بالغیبؐ کے حسین چہرے پر تبسم کی کلیاں مہکیں اور یوں گویا ہوئے، اپنے لیے خدا سے معافی مانگو۔ اور ساتھ ہی اس جانِ رحمت نے اپنا دست مبارک فضالہ کے سینے پر رکھ دیا۔ فضالہ کہتے ہیں کہ مجھے اس قدر سکون و طمانیت ملی اور دل میں حضورؐ کی محبت اس درجہ موجزن ہوئی کہ آپؐ سے بڑھ کر میری نگاہوں میں کوئی چیز محبوب نہ رہی۔
اگلے ہی لمحے وہ دشمنِ جان عاشقِ زار رسولؐ بن کر حلقۂ اسلام میں داخل ہو چکا تھا۔ طواف سے فارغ ہو کر گھر کو چلا تو راہ میں اس کی معشوقہ ملی، پکاری، فضالہ! بات تو سنو۔ فضالہ نے سنی اَن سنی کرتے ہوئے جواب دیا، خدا اور اس کا رسول ایسی باتوں سے منع فرماتے ہیں۔
نواں منصوبہ
۹ھ میں جنگِ تبوک سے واپس ہو رہے تھے کہ منافقین نے قتلِ رسولؐ کا منصوبہ بنایا۔ تبوک سے واپسی پر یہ ٹولی آپس میں بڑی زہرناک گفتگو کر رہی تھی۔ باہمی مشورے سے طے یہ کیا گیا کہ جب رات کی تاریکی میں مسلمان پہاڑ سے گزر رہے ہوں تو حضورؐ کو عقبہ سے نیچے گرا کر ہلاک کر دیا جائے۔ بدبخت جلاس بن سوید نے کہا، آج رات ہم محمدؐ کو عقبہ سے گرائے بغیر نہ رہیں گے، چاہے محمدؐ اور ان کے ساتھی ہم سے بہتر ہی ہوں، مگر ہم لوگ بکریاں ہیں اور یہ ہمارے چرواہے بن گئے ہیں، گویا ہم بے عقل ہیں اور یہ سیانے۔ اس نے یہ بات بھی کہی کہ اگر یہ شخص سچا ہے تو ہم گدھوں سے بھی بدتر ہیں۔ ان میں حصن بن نمیر وہ شخص تھا جو صدقے تک کی کھجوریں لوٹ لے گیا تھا اور چور بھی تھا۔ منافق طعیمہ بن ابیرق نے کہا، آج کی رات جاگو تو سلامت رہو گے، تمہارا کوئی کام اس کے سوا نہیں ہے کہ اس شخص کو قتل کر دو۔ مرّہ نے کہا، بس ہم اگر اس ایک شخص کو قتل کر دیں تو سب کو اطمینان ہو جائے گا۔
یہ منافق تعداد میں کل بارہ تھے۔ اہلِ سیر نے ان کے نام گنوائے ہیں۔ ابو عامر جو راہب کہلاتا تھا اور حضرت حنظلہؓ (غسیل الملائکہ) کا باپ تھا، ان کا سردار تھا۔ (۱) عبد اللہ بن ابی (۲) سعد بن ابی سرح (۳) ابا خاطر الاعرابی (۴) عامر (۵) ابو عامر راہب (۶) جلاس بن سوید (۷) مجمع بن جاریہ (۸) ملیح الیتمی (۹) حصن بن نمیر (۱۰) طعیمہ بن ابیرق (۱۱) عبد اللہ بن عیینہ (۱۲) مرہ بن ربیع۔
منصوبۂ قتل یوں تھا کہ جب وہ سازش کر رہے تھے، سرِشام ہی سرورِ عالمؐ نے اشارۂ غیبی اور فراستِ نبویؐ سے ان کی بدنیتی کو بھانپ لیا۔ ارشاد فرمایا، جو کوئی وادی کے کشادہ راستے سے گزرنا چاہے ادھر چلا جائے، مگر خود گھاٹی (عقبہ) سے گزرنے کا ارادہ فرمایا۔ حضرت حذیفہؓ بن یمان ناقہ کو ہانک رہے تھے اور عمار بن یاسرؓ ناقۂ رسولؐ کی نکیل تھامے چل رہے تھے۔ رات تاریک ہو گئی تو یہ بارہ منافق نقاب پوش ہو کر حملہ آور ہوئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آہٹ پا کر حذیفہؓ سے ارشاد فرمایا کہ انہیں آگے آنے سے روکیں۔ حذیفہؓ نے مڑ کر ایک شخص کے اونٹ کی تھوتھنی پر ترکش مارا۔ وہ سمجھے کہ راز فاش ہو گیا۔ جلدی سے مڑے۔ ادھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ناقہ کو تیز ہانکنے کا حکم دیا۔ عقبہ سے سلامت گزر گئے۔ حذیفہؓ سے ان کے نام بیان فرمائے اور یہ بھی فرمایا کہ یہ مجھے قتل کرنا چاہتے تھے مگر عالمِ الغیب نے بروقت مجھے خبردار کر دیا۔
سیرت ابن ہشام میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کو ایک ایک منافق کو بلا کر اس سے استفسار فرمایا، کسی نے معذرت کی، کوئی شرم سے گڑ گیا، بعض مرتد ہو گئے۔ خالقِ کائنات نے انہی کی بابت قرآن کریم میں بدیں الفاظ تبصرہ فرمایا ’’وھمّوا بما لم ینالوا‘‘ (التوبہ ۷۴)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی گئی کہ آپؐ ہر قبیلے کو حکم دیں کہ وہ اپنے منافق کا سر کاٹ کر حضورؐ کی خدمت میں پیش کرے مگر شانِ رحمت للعالمینی آڑے۔ فرمایا، میں پسند نہیں کرتا کہ عربوں میں یہ چرچا ہو کہ محمدؐ نے کچھ لوگوں کو ساتھ لے کر اپنے دشمنوں پر غلبہ پایا پھر ان ساتھیوں کو قتل کر دیا۔ اس شانِ کرم، جانِ عفو اور سراپائے حلم نے ان خون کے پیاسوں کو معاف فرما دیا۔ جان کے بیریوں کو محبتِ فاتحِ عالم نے اپنا بنایا۔ عناد بھرے سینوں کو شفقت و رأفت سے معمور کر دیا۔
وصلی اللہ تعالیٰ علیٰ حبیبہ سیدنا محمد واٰلہ وصحبہ و بارک وسلم۔