برصغیر میں فرنگی استعمار کے تسلط کے دوران عیسائی تبلیغی مشنریوں کا اس خطہ میں سرگرم عمل ہونا کسی سے مخفی نہیں ہے۔ پادری فنڈر نے، جو کہ ایک امریکن نژاد کیتھولک پادری تھا، ان مشنریوں کی تحریک میں خصوصی کردار سرانجام دیا۔ مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ کے ساتھ اس پادری کا زبردست مناظرہ ہوا جس میں اس نے بائبل میں تحریف وغیرہ کا اقرار مجمع عام کے سامنے کر لیا۔ لیکن عیسائی مشنریوں نے اپنے اس سنہری دور میں اہم کامیابیاں حاصل کیں اور اس طرح انگریز اپنے اصل مقصد کو پورا کرنے کے لیے اپنی پروردہ عیسائی مشنریوں کے قدم برصغیر میں جما کر چلا گیا۔
ان مشنریوں کی تبلیغ کے مختلف طریقہ کار ہیں جن میں سے ایک مؤثر ذریعہ ’’بائیبل کارسپانڈنس سکولز‘‘ کے عنوان سے بائیبل کی تشریح و توضیح پر مبنی لٹریچر عوام الناس تک پہنچانے کا ہے۔ اس ذریعہ سے آدمی کو آہستہ آہستہ گمراہی کی طرف دھکیلا جاتا ہے اور سادہ لوح اور دین سے بے بہرہ لوگ گمراہی کے اس عمیق گڑھے میں گرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ہندوستان میں ان سکولز اور اداروں کی کارکردگی کے بارے میں ڈاکٹر اے ایم شرگون رقمطراز ہیں:
’’ایک اور کوشش جو بہت سے ممالک میں لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہی ہے وہ بائیبل کارسپانڈنس کورس ہیں۔ ہندوستان میں یہ طریقہ اخباروں کے ذریعہ بشارتی کام سے شروع ہوا۔ اس کے اخبار ’’ہندو‘‘ اور دہلی کے اخبار ’’ہندوستان ٹائمز‘‘ میں مختلف مضامین اور اشتہار دیے گئے اور جن میں مذہب کے متعلق سوالات درج تھے اور مسیحیت کے بارے میں بھی کچھ نہ کچھ لکھا گیا اور پڑھنے والوں کو دعوت دی گئی کہ اگر وہ اس کے بارے میں کچھ اور دریافت کرنا چاہتے ہوں تو بائیبل کارسپانڈنس کورس میں شامل ہو جائیں۔ ’’ہندوستان ٹائمز‘‘ میں ایسٹر کے متعلق ایک اعلان کی وجہ سے ایک سو عرضیاں ان لوگوں کو وصول ہوئیں جو اس کورس میں شامل ہونا چاہتے تھے۔ ولور (Vilor) میں ڈاکٹر سٹینلی جونس کی میٹنگوں کے بعد ۴۵۰ درخواستیں وصول ہوئیں۔ یہ تحریک پھیلی اور زور پکڑتی گئی یہاں تک کہ اب یہ کورس ہندوستان اور سری لنکا میں تقریباً نو (۹) زبانوں میں دیے جا رہے ہیں۔ جنوبی ہندوستان کی کلیسا کے بشپ نیوبیگن (New Bagan) کہتے ہیں کہ مجھے کئی بائیبل کارسپانڈنس کورسوں کے بارے میں علم ہے، ان میں سے ایک کے تقریباً بارہ ہزار ممبر ہوں گے۔ یہ کورس بہت احتیاط سے تیار کیے جاتے ہیں اور اکثر اوقات مکمل ہونے کے لیے کئی کئی مہینے لگ جاتے ہیں۔ اگر کوئی طالب علم محض تجسس کی وجہ سے یہ کورس شروع کرے تو وہ اکثر اسے پورا نہیں کر سکتا، کہیں اگر وہ یہ تمام کورس ختم کر لے تو اس کی زندگی پر ضرور ایک گہرا اثر پڑے گا۔ ایسے ایک طالب علم نے حال ہی میں ہمیں لکھا ہے ’’میں ہندو تھا لیکن اب خداوند یسوع مسیح پر ایمان لے آیا ہوں اور بتسمہ پا لیا ہے‘‘۔ ایک اور چٹھی میں ایک ہائی سکول کے لڑکے نے کچھ اور کتابیں منگوائیں اور لکھا کہ امتحان ختم ہونے کے بعد میں ذاتی طور پر لکھنا چاہتا ہوں‘‘۔ یہ کورس بالکل ہی بائیبل سے لیے گئے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ یہ لوگوں کی توجہ انجیل کی طرف لگانے کا بہترین ذریعہ ہیں۔‘‘ (بشارت عالم میں بائیبل کا درجہ۔ مصنفہ اے ایم شرگون۔ مترجمہ مسز کے ایل ناصر ۔ مطبوعہ ۱۹۵۶ء ص ۲۰۹ و ۲۱۰)
پاکستان میں کم و بیش پندرہ بائیبل سکولز اپنے تمام تر اشاعتی و تبلیغی وسائل و ذرائع کے ساتھ مصروف العمل ہیں۔ ان کے سنٹرز یہ ہیں: فیصل آباد، لاہور، کراچی، ڈیرہ غازی خان، ڈیرہ اسماعیل خان، ملتان، شکارپور، راولپنڈی، ایبٹ آباد، لاڑکانہ، ملیرپور۔ اخبار میں اشتہار دیا جاتا ہے کہ ’’توریت، زبور اور صحائف الانبیاء کا مطالعہ کیجئے‘‘۔ اور کبھی ’’صحت و ہیلتھ‘‘ کے عنوان سے اشتہار ہوتا ہے۔ سادہ لوح قارئین میں بعض تو سرے ہی سے ان ناموں سے ناواقف ہوتے ہیں اور بعض جن کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتب فلاں فلاں نبی پر نازل ہوئی تھی، وہ تجسس و تعجب کے ساتھ ساتھ ’’بائیبل سکولز‘‘ کو ایک علمی و تبلیغی ادارہ سمجھتے ہوئے فورًا لٹریچر طلب کرتے ہیں۔ لٹریچر میں انتہائی ذہانت سے صرف تبلیغی انداز روا رکھا جاتا ہے۔ بعض مختلف فیہ مسائل مثلاً ’’اسماعیل کی قربانی‘‘ تورات وغیرہ کے بارے میں نظریہ کا کھل کر اظہار نہیں کیا جاتا۔ ویسے بھی یہ ایسے مسائل ہیں جن سے عوام عموماً ناواقف ہوتے ہیں۔ چنانچہ قاری اور طالب علم یکطرفہ معلومات کے باعث لٹریچر کی تعلیم پر پوری طرح ’’راسخ‘‘ ہو جاتا ہے۔ خوبصورت اسناد اور عمدہ کتابیں بطور انعام حاصل کرنے والا طالب علم ’’جال‘‘ میں پھنس جاتا ہے۔ انجیل اور بائیبل عطا کرنے کے خوشنما وعدے تجسس کے مارے قاری کو کسی اور کام کا نہیں چھوڑتے۔ یہ بات واضح طور پر دیکھنے میں آئی ہے کہ مسلم عوام تو رہے ایک طرف بعض علماء بھی بائیبل کے بارے میں بڑے تجسس اور شوق کا شکار ہوتے ہیں اور بلاوجہ بائیبل کو اہمیت دیتے نظر آتے ہیں۔ ایسا شوق و ذوق عیسائیوں میں کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ ہم بجا طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ عیسائیت کے مطالعہ میں نوعمر حضرات بائیبل کو قارون کا خزانہ سمجھتے ہیں اور ناجائز طور پر اس کو قرآن پر ترجیح دیتے ہیں (معاذ اللہ) لیکن جیسے ہی وہ بائیبل کی اصلیت و حقیقت کو سمجھتے ہیں ان کا جوش و جذبہ جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے۔۔۔
مسلم علماء و قائدین اپنے اس عیار و مکار دشمن سے بے خبر ہیں یا اس کی سازشوں سے واقف ہوتے ہوئے بھی اس بارے میں بے حس ہیں۔ عوام کو کیا معلوم کہ بائیبل کیا ہے، اس کا مواد کیا ہے، اس کی تاریخ کیا ہے اور اس کا درجہ کیا ہے۔ ہر آدمی بنی اسرائیل کی تاریک تاریخ سے واقف نہیں ہو سکتا۔ مزید برآں مغربی ممالک کی امداد سے چلنے والے مشنری اداروں کے وظیفہ خوار شاطر اور مکار پادریوں کا گروہ ہر وقت دینِ اسلام کے خلاف سازشیں کرنے میں مصروف رہتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و منقبت کو سرِعام للکارا جاتا ہے جس کی تازہ مثال ۔۔۔ پادری برکت اے خان آف سیالکوٹ کی تصنیف ’’قیامت اور زندگی‘‘ ہے۔۔۔
’’کسی تحصیلدار کو سلام کرتے وقت کہیں گے کہ ڈپٹی کمشنر صاحب سلام! تو وہ تحصیلدار فورًا سمجھ جائے گا کہ اس سلام کرنے والے شخص نے میرا مذاق اڑایا ہے کیونکہ میں ڈپٹی کمشنر نہیں ہوں یہی حال ان لوگوں کا ہے جو اپنے دین کے بارے میں مبالغہ آمیزی کرتے ہیں کہ ہمارے ہادی نبیوں کے سردار ہیں، وہ محبوبِ خدا ہیں، وہ مقصودِ کائنات ہیں، وہ وجۂ تخلیق کائنات ہیں، وہ نبیوں کے سرتاج ہیں، وہ روزِ قیامت شفاعت کریں گے، سب نبی ان کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔ مبالغہ کی حد ہو گئی۔‘‘ (ص ۱۱)
۔۔۔ یہ صورتِ حال علماء کرام اور دینی جماعتوں و اداروں کی خصوصی توجہات کی متقاضی ہے اور یقیناً ہماری دینی و ملی غیرت کے لیے کھلا چیلنج ہے کہ اسلام کے نام پر بننے والے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مسلم اکثریت کی موجودگی میں آقائے نامدار فداہ ابی و امی صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں برسرِعام گستاخی کی جائے اور مسلم نوجوانوں کو گمراہ کرنے کے لیے منظم ادارے سرگرم عمل ہوں، علماء کرام سے بصد ادب گزارش ہے کہ اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں ورنہ نئی نسل کی گمراہی کی ذمہ داری عند اللہ و عند الناس انہی پر ہو گی۔