امامِ عزیمت امام احمد بن حنبلؒ اور دار و رَسَن کا معرکہ

مولانا ابوالکلام آزاد

تیسری صدی کے اوائل میں جب فتنۂ اعتزال و تعمق فی الدین اور بدعۃ مضلۂ تکلم یا مفلسفہ والحراف از اعتصام بالسنہ نے سر اٹھایا، اور صرف ایک ہی نہیں بلکہ لگاتار تین عظیم الشان فرمانرواؤں یعنی مامون، معتصم اور واثق باللہ کی شمشیر استبداد و قہر حکومت نے اس فتنہ کا ساتھ دیا، حتٰی کہ بقول علی بن المدینی کے فتنۂ ارتداد و منع زکوٰۃ (بعہد حضرت ابوبکرؓ) کے بعد یہ دوسرا فتنۂ عظیم تھا جو اسلام کو پیش آیا۔ تو کیا اس وقت علماء امت اور ائمہ شریعت سے عالمِ اسلام خالی ہو گیا تھا؟ غور تو کرو کیسے کیسے اساطین علم و فن اور اکابر فضل و کمال اس عہد میں موجود تھے؟ خود بغداد علماء اہل سنت و حدیث کا مرکز تھا مگر سب دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے عزیمۃ دعوۃ و کمال مرتبۂ وراثت نبوت و قیام حق و ہدایت فی الارض والامۃ کا وہ جو ایک مخصوص مقام تھا صرف ایک ہی قائم لامر اللہ کے حصہ آیا یعنی سید المجددین امام الصالحین حضرت امام احمد بن حنبلؒ۔

اپنے اپنے رنگ میں سب صاحب مراتب و مقام تھے لیکن اس مرتبہ میں تو اور کسی کا سانجھا نہ تھا کہ قیام سنت و دین خالص کا قیامت تک کے  لیے فیصلہ ہونے والا تھا اور مامون و معتصم کے جبر و قہر اور بشر مریسی اور قاضی ابنِ ابی داؤد جیسے جبابرہ معتزلہ کے تسلط و حکومت نے علماء حق کے لیے صرف دو ہی راستے باز رکھے تھے۔ یا اصحاب بدعۃ کے آگے سر جھکا دیں اور مسئلہ خلقِ قرآن پر ایمان لا کر ہمیشہ کے لیے اس کی نظیر قائم کریں کہ شریعت میں صرف اتنا ہی نہیں ہے جو رسولؐ بتلا گیا بلکہ اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کہا جا سکتا ہے اور ہر ظن کو اس میں دخل ہے، ہر رائے اس پر قاضی و امر ہے، ہر فلسفہ اس کا مالک و حاکم ہے ’’یفعل ما یشاء و یختار‘‘ ۔ اور یا پھر قید خانے میں رہنا، ہر روز کوڑوں سے پیٹا جانا اور ایسے تہ خانوں میں قید ہو جانا کہ ’’لا یرون فیہ الشمس ابدا‘‘ کو قبول کر لیں۔

بہتوں کے قدم تو ابتدا ہی میں لڑکھڑا گئے۔ بعضوں نے ابتدا میں استقامت دکھلائی لیکن پھر ضعف و رخصت کے گوشے میں پناہ گیر ہو گئے۔ عبد اللہ بن عمر القواریری اور حسن بن عماد امام موصوف کے ساتھ ہی قید کیے گئے تھے مگر شدائد و محن کی تاب نہ لا سکے اور اقرار کر کے چھوٹ گئے۔ بعضوں نے روپوشی اور گوشہ نشینی اختیار کر لی کہ کم از کم اپنا دامن تو بچا لے جائیں۔ کوئی اس وقت کہتا تھا ’’لیس ھذا زمان بکاء تضرع و دعا کدعاء الغریق‘‘ یعنی یہ زمانہ درسو اشاعت علوم و سنت کا نہیں ہے یہ تو وہ زمانہ ہے کہ بس اللہ کے آگے تضرع و زاری کرو اور ایسی دعائیں مانگو جیسی سمندر میں ڈوبتا ہوا شخص دعا مانگے۔ کوئی کہتا تھا ’’احفظوا السانکم دعا لجوا قلبکم و خذوا ما تعرفوا و دعوا ما تنکروا‘‘ اپنی زبانوں کی نگہبانی کرو، اپنے دل کے علاج میں لگ جاؤ، جو کچھ جانتے ہو اس پر عمل کیے جاؤ اور جو برا ہو اس کو چھوڑ دو۔ کوئی کہتا ’’ھذا زمان السکوت و ملازمۃ البیوت‘‘ یہ زمانہ خاموشی کا زمانہ ہے اور اپنے اپنے دروازوں کو بند کر کے بیٹھ رہنے کا۔

جبکہ تمام اصحابِ کار و طریق کا یہ حال ہو رہا تھا اور دین الخالص کا بقا و قیام ایک عظیم الشان قربانی کا طلب گار تھا تو غور کرو کہ صرف امام موصوفؒ ہی تھے جن کو فاتح و سلطان عہد ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ انہوں نے نہ تو دعاۃ فتن و بدعۃ کے آگے سر جھکایا نہ روپوشی و خاموشی و کنارہ کشی اختیار کی اور نہ بند حجروں کے اندر کی دعاؤں اور مناجاتوں پر قناعت کر لی بلکہ دین خالص کے قیام کی راہ میں اپنے نقش و وجود کو قربان کر دینے اور تمام خلف امت کے لیے ثبات و استقامت علی السنۃ کی راہ کھول دینے کے لیے بحکم ’’فاصبر اولو العزم من الرسل‘‘ اٹھ کھڑے ہوئے۔ ان کو قید کر دیا گیا۔ قید خانے میں چلے گئے۔ چار چار بوجھل بیڑیاں پاؤں میں ڈالی گئیں۔ پہن لیں۔ اسی عالم میں بغداد سے طرطوس لے چلے اور حکم دیا گیا کہ بلا کسی کی مدد کے خود ہی اونٹ پر سوار ہوں اور خود ہی اونٹ سے اتریں۔ اس کو بھی قبول کر لیا۔ بوجھل بیڑیوں کی وجہ سے ہل نہیں سکتے تھے، اٹھتے تھے اور گر پڑتے تھے۔ 

عین رمضان المبارک کے عشرہ اخیر میں، جس کی طاعت اللہ کو تمام دنوں کی طاعات سے زیادہ محبوب ہے، بھوکے پیاسے جلتی دھوپ میں بٹھائے گئے، اور اس پیٹھ پر جو علوم و معارفِ نبوت کی حامل تھی لگاتار کوڑے اس طرح مارے گئے کہ ہر جلاد دو ضربیں پوری قوت سے لگا کر پیچھے ہٹ جاتا اور پھر نیا تازہ دم جلاد اس کی جگہ لے لیتا۔ اس کو بھی خوشی خوشی برداشت کر لیا مگر اللہ کے عشق سے منہ نہ موڑا اور راہِ سنت سے منحرف نہ ہوئے۔ تازیانے کی ہر ضرب پر بھی جو صدا زبان سے نکلتی تھی وہ نہ تو جزع و فزع کی تھی اور نہ شور و فغاں کی،  بلکہ وہی تھی جس کے لیے یہ سب کچھ ہو رہا تھا یعنی ’’القرآن کلام اللہ غیر مخلوق‘‘۔ اللہ اللہ یہ کیسی مقام دعوۃ کبرٰی کی خسروی و سلطانی تھی اور وراثۃ و نیابۃ نبوۃ کی ہیبت و سطوۃ کہ خود المعتصم باللہ، جس کی ہیبت و رعب سے قیصر روم لرزاں و ترساں رہتا تھا، سر پر کھڑا تھا، جلادوں کا مجمع چاروں طرف سے گھیرے ہوئے تھا اور وہ بار بار کہہ رہا تھا ’’یا احمد! واللہ انی علیک الشفیق، وانی لا شفق علیک کشفقتی علی ھارون ابنی و واللہ لئن اجابنی لا طلقن عنک بیدی ما تقول‘‘ یعنی واللہ میں تم پر اس سے بھی زیادہ شفقت رکھتا ہوں جس قدر اپنے بیٹے کے لیے شفیق ہوں، اگر تم خلق قرآن کا اقرار کر لو تو قسم خدا کی ابھی اپنے ہاتھوں سے تمہاری بیڑیاں کھول دوں۔

لیکن اس پیکر حق، اس مجسمۂ سنت، اس موید بالروح القدس، اس صابر اعظم کما صبر اولوالعزم من الرسل کی زبان صدق سے صرف ہی جواب نکلتا تھا ’’اعطونی شیئا من کتاب اللہ او سنۃ رسولہ حتٰی اقول بہ‘‘ اللہ کی کتاب میں سے کچھ دکھلا دو یا اس کے رسول کا کوئی قول  پیش کر دو تو میں اقرار کر لوں۔ اس کے سوا میں  کچھ نہیں جانتا ؎

چو غلام آفتابم ز آفتاب گویم
نہ شبم نہ شب پرستم کہ حدیث خواب گویم

اگر اس چراغ تجدید و مصباح عزیمۃ دعوۃ کی روشنی مشکوٰۃ نبوۃ سے مستمیز نہ تھی تو پھر یہ کیا تھا کہ جب معتصم ہر طرح عاجز آ کر قاضی ابن ابی داؤد وغیرہ علماء بدعت و اعتزال سے کہتا ’’ناظر و کلموہ‘‘ اور وہ کتاب و سنت کے میدان میں عاجز آ کر اپنے اوہام و ظنون باطلہ کو باسم عقل و رائے پیش کرتے کہ سر تا سر بونانیات ملعونہ سے ماخوذ تھے تو وہ اس کے جواب میں بے ساختہ بول اٹھتے ’’ما ادری ما ھذا؟‘‘ میں نہیں جانتا یہ کیا بلا ہے ’’اعطونی شیئًا من کتاب اللہ او من سنۃ رسولہ حتی اقول‘‘۔ اس تمام کائنات ہستی میں میرے سر کو جھکانے والی صرف دو ہی چیزیں ہیں۔ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت، اس کے سوا نہ میرے لیے  کوئی دلیل ہے نہ علم۔

امام موصوفؒ کو جب قید کر کے طرطوس روانہ کیا گیا تو ابوبکر الاحول نے پوچھا ’’ان عرضت علیک السیف تجیب؟‘‘ اگر تلوار کے نیچے کھڑے کر دیے گئے تو کیا اس وقت مان لو گے؟ کہا، نہیں۔ ابراہیم بن مصعب کوتوال کہتا ہے کہ میں نے کسی انسان کو بادشاہوں کے آگے احمد بن حنبلؒ سے بڑھ کر بے رعب نہ پایا۔ ’’یومیذ ما نحن فی عینیہ الّا کامثال الذباب‘‘ ہم عمال حکومت ان کی نظروں میں مکھیوں سے زیادہ وقعت نہیں رکھتے تھے اور یہ بالکل حق ہے۔ جن لوگوں کی نظروں میں جلالِ الٰہی سمایا ہو وہ مٹی کی ان پتلیوں کو، جنہوں نے لوہا تیز کر کے کاندھے پر ڈال رکھا ہے یا بہت سا سونا چاندی اپنے جسم پر لپیٹ لیا ہے، کیا چیز سمجھتے ہیں؟ ان کو تو خود اقلیمِ عشقِ الٰہی کی سروری و شاہی اور شہرستان صدق و صفا کا تاج و تخت حاصل ہے۔

ابوالعباس الرتی سے حافظ ابن جوزیؒ روایت کرتے ہیں کہ جب رقہ میں امام موصوف قید تھے تو علماء کی ایک جماعت گئی اور اس قسم کی روایت و نقول سنانے لگی جن سے بخوفِ جان تقیہ کر لینے کی رخصت نکلتی ہے۔ امام موصوف نے سب سن کر جواب دیا ’’کیف تضعون بحدیث جناب؟ ان من کان قبلکم کان ینشر احدھم بالمنشا رثم لا یصدر ذالک عن دینہ۔ قالوا فیئسنا منہ‘‘ یعنی یہ تو سب کچھ ہوا مگر بھلا اس حدیث کی نسبت کیا کہتے ہو کہ جب صحابہؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مظالم و شدائد کی شکایت کی تو فرمایا تم سے پہلے ایسے لوگ گزر چکے ہیں جن کے سروں پر آرا چلایا جاتا تھا اور جسم لکڑی کی طرح چیر ڈالے جاتے تھے مگر یہ آزمائشیں بھی ان کو حق سے نہیں پھرا سکتی تھیں۔ ابوالعباس کہتے ہیں کہ جب ہم نے یہ بات سنی تو مایوس  ہو کر چلے آئے کہ ان کو سمجھانا بیکار ہے، یہ اپنی بات سے پھرنے والے نہیں۔

یہ جو میں بار بار کہہ رہا ہوں کہ عزیمۃ دعوۃ، عزیمۃ دعوۃ تو یہ ہے عزیمۃ دعوۃ اور یہ ہے وراثت و نیابت مقام ’’فاصبر کما صبر اولو العزم من الرسل‘‘ کا اور یہ ہے ان ایام فتن کا صبر اعظم و اکبر جن کی نسبت ترمذی کی روایت میں فرمایا ’’الصبر فی ھن کالقبض علی البحمر‘‘ تو یہی وہ لوگ ہیں جو اگر چاہیں تو گوشہ رخصت و بیچارگی میں امن و عافیت کے پھول چن سکتے ہیں لیکن وہ پھولوں کو چھوڑ کر دہکتے ہوئے انگارے پکڑ لیتے ہیں اور اسی لیے ان کا اجر و ثواب بھی ’’مثل اجر خمسین رجلاً یعملون مثل عملکم‘‘ کا حکم رکھتا ہے۔

مانا کہ ضعیفوں اور درماندوں کے لیے رخصت و گلوخلاصی کی راہیں بھی باز رکھی گئی ہوں لیکن اصحابِ عزائم کا عالم دوسرا ہے، ان کی ہمت عالی بھلا میدان عزیمۃ و اسبقیۃ بالخیرات کو چھوڑ کر تنگنائے رخصت و ضعف میں پناہ لینا کب گوارہ کر سکتی ہے؟ جوانانِ ہمت اور مردانِ کارزار اس ننگ کو کیوں قبول کرنے لگے کہ کمزوروں اور درماندوں کی لکڑی کا سہارا پکڑیں؟ جن کے لیے اس میں سلامتی ہے ہوا کرے گی مگر ان کے لیے تو ایسا کرنا ہمت کی موت ہے، ایمان کی پامالی ہے اور عشق کی جبینِ عزت کے لیے داغ ننگ و عار سے کم نہیں۔ ’’حسنات الابرار سیئات المقربین‘‘ رخصۃ و عزیمۃ کی تفریق اور اعلیٰ و ادنٰی کا امتیاز اصحابِ عمل کے لیے ہے نہ کہ اصحابِ عشق کے لیے۔ عشق کی راہ ایک ہی ہے اور اس میں جو کچھ ہے عزیمۃ ہی عزیمۃ ہے۔ ضعف و بیچارگی کا تو ذکر ہی کیا، وہاں رخصت کا نام لینا بھی کم از معصیت نہیں ؎

ملتِ عشق از ہمہ دین ہا جداست
عاشقاں را مذہب و ملّت خداست

ضرب تازیانہ کے لیے حکم دیا تو وہ علماء اہل سنت بھی دربار میں موجود تھے جو شدۃِ محن و مصائب کی تاب نہ لا سکے اور اقرار کر کے چھوٹ گئے۔ ان میں سے بعض نے کہا ’’من صنع من اصحابک فی ھذا لامر ما تصنع‘‘ خود تمہارے ساتھیوں میں سے کس نے ایسی ہٹ کی جیسی تم کر رہے ہو؟ امام احمدؒ نے کہا، یہ تو کوئی دلیل نہ ہوئی ’’اعطونی شیئا من کتاب اللہ و سنۃ رسولہ حتی اقول بہ‘‘۔ عین حالتِ صوم میں کہ صرف پانی کے چند گھونٹ پی کر روزہ رکھ لیا تھا تو تازہ دم جلادوں نے پوری قوت سے کوڑے مارے یہاں تک کہ تمام پیٹھ زخموں سے چور ہو گئی اور تمام جسم خون سے رنگین ہو گیا۔

خود کہتے ہیں کہ جب ہوش آیا تو چند آدمی پانی لائے اور کہا پی لو مگر میں نے انکار کر دیا کہ روزہ نہیں توڑ سکتا۔ وہاں سے مجھ کو اسحاق بن ابراہیم کے مکان میں لے گئے، ظہر کی نماز کا وقت قریب آ گیا تھا۔ ابن سماعہ نے کہا، تم نے نماز پڑھی حالانکہ خون تمہارے کپڑوں میں بہہ رہا ہے؟ یعنی دم جاری و کثیر کے بعد طہارت کہاں رہی؟ میں نے جواب دیا ’’قل صلی عمر وجرحہ یثعب دما‘‘ ہاں مگر میں نے وہی کیا  جو حضرت عمرؓ نے کیا تھا، صبح کی نماز پڑھا رہے تھے اور قاتل نے زخمی کیا مگر اسی حالت میں انہوں نے نماز پوری کی۔

ابن سماعہ کے جواب میں حضرت امامؒ نے حضرت عمرؓ کی جو نظیر پیش کی تو یہ ان کی تسلی کے لیے بس کرتی تھی، مگر میں کہتا ہوں کہ جو خون اس وقت امام احمد بن حنبلؒ کے زخموں سے بہہ رہا تھا گر وہ خون ناپاک تھا اور اس کے ساتھ نماز نہیں ہو سکتی تو پھر دنیا میں اور کون سی چیز ایسی ہے جو انسان کو پاک کر سکتی ہے اور کون سا پانی ہے جو طاہر و مطہر ہو سکتا ہے؟ اگر یہ ناپاک ہے تو دنیا کی تمام  پاکیاں اس ناپاکی پر قربان! اور دنیا کی ساری طہارتیں اس پر سے نچھاور۔ یہ کیا بات ہے کہ پاک سے پاک اور مقدس سے مقدس انسان کی میت کے لیے بھی غسل ضروری ٹھہرا مگر شہیدانِ حق کے لیے یہ بات ہوئی کہ ان کی پاکی شرمندۂ آب غسل نہیں ’’لم یصل علیھم ولم لیغسلھم‘‘ بلکہ ان کے خون میں رنگے ہوئے کپڑوں کو بھی ان سے الگ نہ کیجئے۔ ’’یدفنوا فی ثیابھم ودمائھم‘‘ اور اسی لباس میں گلگوں و خلعت رنگین میں وہاں جانے دیجئے جہاں ان کا انتظار کیا جا رہا ہے اور جہاں خون و عشق کے سرخ دھبوں سے بڑھ کر شاید اور کوئی نقش و نگار عمل مقبول و محبوب نہیں۔ ’’عند ربھم یرزقون۔ فرحین بما اٰتاھم اللہ‘‘ ؎

خونِ شہیداں راز آب اولی تر است
ایں گناہ از حد ثواب اولی تر است

اللہ اللہ! یہاں طہارتِ جسم و لباس کا کیا سوال ہے؟ امام احمد بن حنبلؒ نے اپنی تمام عمر میں اگر کوئی پاک سے پاک اور سچی سے سچی نماز پڑھی تھی تو یقیناً وہ وہی ظہر کی نماز تھی۔ ان کی تمام عمر کی وہ نمازیں ایک طرف جو دجلہ کے پانی سے پاک کی گئی تھیں، اور وہ چند گھڑیوں کی عبادت ایک طرف جس کو راہِ ثبات حق میں بہنے والے خون نے مقدس و مطہر کر دیا تھا۔ سبحان اللہ! جس کے عشق میں چار چار بوجھل بیڑیاں پاؤں میں پہن لی تھیں، جس کی خاطر سارا جسم زخموں سے چور اور خون سے رنگین ہو رہا تھا، اسی کے آگے جبینِ نیاز جھکی ہوئی! اسی کے ذکر میں قلب و لسان لذت یاب تسبیح و تحمید! اسی کے جلوۂ جمال میں چشمِ شوق وقف نظارہ و دید! اور اسی کی یاد میں روح مضطر محو سرشار عشق و خود فراموشی!

؏ یوں عبادت ہو تو زاہد ہیں عبادت کے مزے

امام موصوف کے لڑکے عبد اللہ کہتے ہیں کہ میرے والد ہمیشہ کہا کرتے ’’رحم اللہ ابا الھیثم اغفر اللہ لابی الھیثم‘‘ خدا ابو الہیثم پر رحم کرے، خدا ابوالہیثم کو بخش دے۔ میں نے ایک دن پوچھا، ابوالہیثم کون ہے؟ کہا جس دن مجھ کو سپاہی دربار میں لے گئے اور کوڑے مارے گئے تو جب ہم راہ سے گزر رہے تھے ایک آدمی مجھ سے ملا اور کہا مجھ کو پہچانتے ہو؟ میں مشہور چور اور عیار ابوالہیثم حداد ہوں۔ میرا نام شاہی دفتر میں ثبت ہے، بارہا چوری کرتے پکڑا گیا اور بڑی بڑی سزائیں جھیلیں۔ صرف کوڑوں کی ہی مار اگر گنوں تو سب ملا کر اٹھارہ ہزار ضربیں تو میری پیٹھ پر ضرور پڑی ہوں گی۔ با ایں ہمہ میری استقامت کا یہ حال ہے کہ اب تک چوری سے باز نہیں آیا جب کہ کوڑے کھا کر جیل خانے سے نکلا، سیدھا چوری کی تاک میں چلا گیا۔ میری استقامت کا یہ حال شیطان کی طاعت میں رہا ہے دنیا کی خاطر۔ افسوس تم پر اگر اللہ کی محبت کی راہ میں اتنی استقامت بھی نہ دکھا سکو اور دین حق کی خاطر چند کوڑوں کی ضرب برداشت نہ کر سکو۔ میں نے جب یہ سنا تو اپنے جی میں کہا اگر حق کی خاطر اتنا بھی نہ کر سکے جتنا دنیا کی خاطر ایک چور اور ڈاکو کر رہا ہے تو ہماری بندگی پر ہزار حیف اور ہماری خدا پرستی سے بت پرستی لاکھ درجہ بہتر ؏

منہ منہ سے اپنے آپ کو کہتا ہے عشق باز
اے روسیاہ تجھ سے تو یہ بھی نہ ہو سکا

مامون و معتصم اور الواثق نے جو کچھ کیا وہ معلوم ہے۔ جعفر المتوکل کا یہ حال ہے کہ اس کی خلافت بدعت و اربابِ بدعت کے زوال و خسران اور سنت و اصحابِ حدیث کے امن و عروج کا اعلانِ عام تھی۔ حافظ ابن جوزیؒ لکھتے ہیں کہ متوکل باللہ ہمیشہ اس فکر میں رہتا کہ کسی طرح پچھلے مظالم کی تلافی کرے۔ ایک بار اس نے بیس ہزار سکے بھیجے اور دربار میں بلایا۔ ایک بار ایک لاکھ درہم بھیجا اور سخت اصرار کیا کہ اس کو قبول کر لیجئے لیکن ہر مرتبہ امام موصوف نے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور کہا میں اپنے مکان میں اپنے ہاتھ سے اس قدر کشت کاری کر لیتا ہوں جو میری ضروریات کے لیے  کافی ہے، اس بوجھ کو اٹھا کر کیا کروں گا۔ کہا گیا کہ اپنے لڑکے کو حکم دیجئے وہ قبول کر لیں۔ فرمایا وہ اپنی مرضی کا مختار ہے۔ لیکن جب عبد اللہ سے کہا گیا تو انہوں نے بھی واپس کر دیا۔ آخر مجبور ہو کر لانے والوں نے کہا کہ خود نہیں رکھنا چاہتے تو امیر المومنین کا حکم ہے قبول کر لیجئے اور فقراء اور مساکین کو بانٹ دیجئے۔ فرمایا میرے دروازے سے زیادہ امیر المومنین کے محل کے نیچے فقیروں کا مجمع رہتا ہے، فقیروں کو ہی دینا ہے تو وہیں دے دیا جائے۔ اس ہنگامے کی کیا ضرورت ہے؟ ایک مرتبہ اسحاق بن ابراہیم کے سخت اصرار سے دس ہزار درہم لے لیے تو اسی وقت مہاجرین و انصار کی اولاد میں تقسیم کر دیے۔ ان کے لڑکے راوی ہیں کہ جب خلیفہ متوکل ان کی تعظیم و تکریم میں حد درجہ غلو کرنے لگا تو انہوں نے کہا ’’ھذا امر اشد علٰی من ذلک، ذلک فتنۃ الدین وھذا فتنۃ الدنیا‘‘ یہ معاملہ تو گزشتہ معاملے سے بھی کہیں زیادہ میرے لیے سخت ہے، وہ دین کے بارے میں فتنہ تھا اور یہ فتنہ دنیا ہے۔

یعنی مصائب و محن کی آزمائش کہیں زیادہ پُراَمن ہے بمقابلہ آزمائش افیم دنیا و دعوۃ طمع و ترغیب کے۔ اور یہ بالکل حق ہے۔ کتنے ہی شہسواران ثبات و استقامت ہیں جو پہلے میدانِ آزمائش سے تو صحیح و سلامت نکل گئے مگر دوسری راہ سامنے آئی تو اول قدم ہی ٹھوکر لگی۔ حالانکہ مردِ کامل وہ ہے جس پر ’’یدعون ربھم خوفاً و طمعاً‘‘ کا مقام ایسا طاری ہو جائے کہ دنیا کا خوف اور دنیا کی طمع دونوں قسم کے حربے اس کے لیے بالکل بیکار ہو جائیں۔

مرسلہ: قاری قیام الدین الحسینی

شخصیات

(مئی ۱۹۹۰ء)

مئی ۱۹۹۰ء

جلد ۲ ۔ شمارہ ۵

مسلم سربراہ کانفرنس ۔ وقت کا اہم تقاضہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مسلم اجتماعیت کے ناگزیر تقاضے
مولانا ابوالکلام آزاد

قرآنِ کریم میں تکرار و قصص کے اسباب و وجوہ
مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ

بعثتِ نبویؐ کے وقت ہندو معاشرہ کی ایک جھلک
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

امامِ عزیمت امام احمد بن حنبلؒ اور دار و رَسَن کا معرکہ
مولانا ابوالکلام آزاد

مولانا آزادؒ کا سنِ پیدائش ۔ ایک حیرت انگیز انکشاف
دیوبند ٹائمز

کیا فرعون مسلمان ہو گیا تھا؟
شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ

دُشمنانِ مصطفٰی ﷺ کے ناپاک منصوبے
پروفیسر غلام رسول عدیم

آزاد جموں و کشمیر ۔ پاکستان میں نفاذِ اسلام کے قافلے کا ہراول دستہ
ادارہ

ایسٹر ۔ قدیم بت پرستی کا ایک جدید نشان
محمد اسلم رانا

مسیحی مشنریوں کی سرگرمیاں اور مسلم علماء اور دینی اداروں کی ذمہ داری
محمد عمار خان ناصر

تہذیبِ جدید یا دورِ جاہلیت کی واپسی
حافظ محمد اقبال رنگونی

پاکستان میں نفاذ اسلام کی جدوجہد اور علماء کرام کی ذمہ داریاں
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

دینی شعائر کے ساتھ استہزاء و تمسخر کا مذموم رجحان
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کا اجلاس
ادارہ

شریعت کا نظام اس ملک میں اک بار آنے دو
سرور میواتی

آپ نے پوچھا
ادارہ

تعارف و تبصرہ
ادارہ

ذیابیطس کے اسباب اور علاج
حکیم محمد عمران مغل

والدین اور اولاد کے باہمی حقوق
حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ

سود کے خلاف قرآنِ کریم کا اعلانِ جنگ
حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ

تلاش

Flag Counter