بچوں کی مناسب نشوونما کے لیے تربیت و پرورش کی مناسب تدبیر والدین کا فرض ہے۔ ان کی جسمانی صحت کو درست رکھنے کے لیے مناسب کھیل اور تفریح کا انتظام ہونا چاہیے۔ اور ان کو ایسے مواقع سے بچانا ضروری ہے جہاں مار پیٹ یا اعضاء کے ٹوٹنے اور ان کے ضائع ہونے کا غالب گمان یا وہمی احتمال بھی موجود ہو۔
پھر جب وہ سنِ تمیز کو پہنچ جائیں اور تعبیر پر قادر ہو جائیں تو سب سے پہلے ان کو فصیح و بلیغ زبان کی تعلیم دی جائے تاکہ ان کی زبان لکنت اور رکاوٹوں سے صاف ہو جائے۔ انہیں پاکیزہ اخلاق کا خوگر بنایا جائے اور ایسے آداب کی تعلیم دی جائے جو شرفاء اور سرداروں کے لیے مناسب ہیں۔ ذلت و مبانت اور تکبر و تعلّی دونوں کی افراطی و تفریطی طرفوں سے بچائے رکھیں۔ کھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے اور بزرگوں کے سامنے گفتگو کے آداب و اخلاق سے ان کو آگاہ کریں۔
نصابِ تعلیم میں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ بچوں کو ان علوم و فنون کی تعلیم دی جائے جو ان کے لیے معاش و معاد اور دین و دنیا دونوں میں فائدہ پہنچائیں۔
جب بچے حد بلوغ تک پہنچ جائیں تو ان کے دو حق والدین کے ذمہ واجب ہو جاتے ہیں۔ ایک یہ کہ انہیں حلال طریقے سے روزی کمانے کے لیے مناسب پیشے یا ہنر سکھائیں، اور دوسرا حق یہ ہے کہ ان کی شادی کرائیں۔
اولاد پر فرض ہے کہ وہ والدین کی خدمت کریں اور ان کی تعظیم بجا لانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کریں۔ ان کی صوابدید پر عمل کریں اور کبھی ان کے سامنے اُف تک نہ کریں۔ حتی المقدور والدین کی نافرمانی سے بچنا چاہیئے۔
(البدور البازغۃ مترجم ۔ ص ۱۴۲)