عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ مسیحؑ تیسرے دن مُردوں میں سے جی اٹھے تھے۔ عیسائی اس واقعہ کی یاد میں جو تہوار مناتے ہیں اسے ایسٹر کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں ایسٹر کو عیدِ قیامت مسیحؑ یا عید پاشکا بھی کہتے ہیں۔ عیسائیت کی تاریخ میں یہ سالانہ منایا جانے والا پہلا اور قدیم ترین تہوار ہے۔ رومن کاتھولک جریدہ رقمطراز ہے:
’’قیامت مسیحؑ کی عید کو انگریزی میں ایسٹر کہتے ہیں۔ انگریزوں کے مسیحی ہونے سے پہلے وہ لوگ موسمِ بہار کی دیوی مانتے تھے اور اس دیوی کا نام ایسٹر تھا۔ مسیحیوں نے اس دیوی کو بھلا دینے کے لیے موسمِ بہار میں آنے والی مسیحی عید کا نام ایسٹر رکھ دیا اور یوں لفظ ایسٹر کے نام تبدیل ہو گئے۔ موسمِ خزاں یا پت جھڑ میں درختوں کے پتے جھڑ جاتے ہیں اور وہ مُردہ سےمعلوم ہوتے ہیں، لیکن موسمِ بہار میں نئے پتے نکل آتے ہیں گویا درختوں میں پھر زندگی آجاتی ہے۔ اس مشابہت کی بنا پر مسیحؑ کے پھر زندہ ہونے کی عید کو ایسٹر کہنے لگے۔ یہ عید ۲۵ مارچ سے ۲۵ اپریل تک کسی اتوار کو منائی جاتی ہے۔‘‘ (پندرہ روزہ کاتھولک نقیب لاہور ایسٹر نمبر ۱۹۸۶ء)
تاریخِ کلیسا میں لکھا ہے:
’’لفظ ایسٹر، اوسٹارا سے نکلا ہے جو صبح کی روشنی یا موسمِ بہار میں سورج کی واپسی کی جرمن دیوی تھی۔‘‘ (نشر ۱۴۵)
یعنی قدیم بت پرستی موسمِ بہار کی دیوی ایسٹر کا تہوار منایا کرتے تھے۔ مسیحیوں نے ان کے زیراثر مسیح کے مر کر جی اٹھنے کی یاد کو ایسٹر کے نام سے منانا شروع کر دیا۔ اتفاق سے یہ دن بھی موسمِ بہار ہی میں آتا ہے۔ خرگوش زیادہ بچے پیدا کرنے کی وجہ سے موسمِ بہار کے مشابہ سمجھا جاتا تھا۔ مسیحی انڈے کو مسیحؑ کی قبر کے مماثل سمجھ کر ایسٹر کے دن خرگوش اور رنگے ہوئے یا سجائے ہوئے انڈے ایک دوسرے کو تحفتاً پیش کرتے یا ان سے کھیلتے ہیں۔ یہ دونوں رسوم بت پرست اقوام سے ماخوذ ہیں۔ تفصیلات کے لیے دیکھیں:
The Encyclopedia of Religion Editor in Chief Mircea Eliade 1987 Vol. 4 P. 558 Col. 1
ازروئے بائیبل یہودی مہینہ ابیب یا منسیان کی چودہ تاریخ کو مصلوب ہوئے تھے۔ یہودی مہینے چاند کے حساب سے ہوتے ہیں، تاہم سارے شمسی سال میں گردش نہیں کرتے۔ مخصوص یہودی تقویم کی وجہ سے ابیب کی چودھویں تاریخ ۲۱، ۲۲ یا ۲۵ مارچ سے ۲۱ یا ۲۵ اپریل کے درمیان پڑتی ہے۔ یہودی ماہ ابیب موسمِ بہار کے انگریزی مہینوں مارچ اپریل میں پڑتا ہے۔ (مختلف ممالک میں ایسٹر مختلف دنوں کو منایا جاتا تھا)۔ مذکورہ تاریخوں اور اتوار کا تعین صدیوں کی بحث و تمحیص اور سوچ بچار کے بعد کیا گیا تھا۔ پہلے یہ تہوار آٹھ دن منایا جاتا تھا۔ گیارہویں صدی کے بعد تین دنوں تک محدود رہ گیا۔ ایسٹر پہلے چالیس روزے رکھنے کا رواج مسیحی کلیسا کے دوسرے دور ۳۱۳ء تا ۵۹۰ء میں پڑا۔ (نشر ۱۱۹)
القصہ مسیحیوں نے سورج پوجا کے زیراثر بت پرستیوں کا یہ تہوار اپنا لیا تھا۔ البتہ کاتھولک نقیب کا یہ کہنا غلط ہے کہ ’’مسیحیوں نے اس دیوی کو بھلا دینے کے لیے موسمِ بہار میں آنے والی عید کا نام ایسٹر رکھ دیا‘‘۔ کیونکہ اگر ایسٹر دیوی کو بھلانا مقصود ہوتا تو اس عید کا نام پھر سے ایسٹر نہ رکھتے، مسیح کے نام سے موسوم کرتے۔ اس تمام بیان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایسٹر مسیح کی یاد میں نہیں منایا جاتا بلکہ ایسٹر دیوی کی یاد کو تازہ رکھنے کی عید ہے۔