ذیابیطس یعنی پیشاب میں شکر آنا، دمہ، فالج، جوڑوں کا درد، بواسیر خونی وغیرہ کے مریض آج کل کثرت سے دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ یہ امراض پہلے بھی تھے مگر حیرانگی اس بات کی ہے کہ جدید دور میں ایک ایک پہلو پر سینکڑوں مفکرین اور ڈاکٹرز یا سائنس دان غوروفکر کر رہے ہیں مگر یہ امراض ؏ ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ کی عکاسی کر رہے ہیں۔
ذیابیطس اور بلڈپریشر پچھلی دہائی سے پاکستان میں تیزی سے پھیلے اور بجائے ختم ہونے کے اپنے ساتھ ایک اور عذاب ایڈز کی شکل میں لائے۔ ذیابیطس کا ذکر قدیم کتب میں نہایت پاکیزگی سے ملتا ہے۔ قدماء نے کیمیا عقل اور فکر کی خوردبین سے اس کے ہر پہلو پر روشنی ڈالی ہے۔ اطباء قدیم کا یہ معینہ مسلک اور اسوہ حسنہ رہا ہے کہ انہوں نے ہر مرض کے سبب کو تفصیل سے مخلوقِ خدا کے سامنے پیش کیا پھر علامات کو لکھ کر بال کی کھال تک اتاری۔ مثلاً شکر کیونکر خارج ہوتی ہے۔ قدماء نے غدد لعابیہ، بانقراس، جگر اور دماغ کا خصوصیت سے ذکر کیا ہے۔ غدد لعابیہ کا یہ فائدہ ہے کہ جو غذا کھائی جاتی ہے اس سے نشاستہ کے اجزاء میں تبدیل ہو کر شکر کی صورت اختیار کر کے جزوِ بدن بننے کے قابل ہوتی ہے جسے مالٹوز کہا جاتا ہے۔ پھر یہ نشاستہ معدے سے ہوتا ہوا انتڑیوں میں پہنچتا ہے وہاں بانقراس سے تین قسم کے خمیر ملتے ہیں جس سے یہ باریک ترین رگوں (عروق یا ساریقا) کے ذریعے جگر میں پہنچ کر ایک قسم کی شکر میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اسے گلائی کوجن یا شکر انگوری کہتے ہیں۔
یہ شکر جگر میں جمع رہتی ہے اور بوقتِ ضرورت تھوڑی تھوڑی خون میں مل کر حرارت بدنی پیدا کرتی رہتی ہے۔ پھر اس شکر کا کچھ حصہ عضلات میں بھی موجود رہتا ہے مگر حرکت کی وجہ سے ایک گیس جسے کاربانک کہتے ہیں اور کچھ حصہ پانی کا بنتا ہے۔ اب پانی تو پسینہ کے ذریعے خارج ہو جاتا ہے اور گیس تنفس کے ذریعے خارج ہوتی رہتی ہے۔ اس طرح شکر کا یہ فارمولا بھی ذہن میں آیا کہ یہ پانی اور کاربن کا مرکب ہے۔ چنانچہ شکر کو لوہے کے برتن میں گرم کریں تو اس کا پانی جل کر اڑ جائے گا اور کوئلہ کاربن کی شکل میں رہ جائے گا۔ یہی عمل ہمارے بدن میں قدرت نے بانقراس کے ذمہ لگا دیا۔ بانقراس سے جو رطوبت نکلتی ہے خون میں شامل ہو کر اس کا نظام ٹھیک رکھتی ہے۔
چنانچہ بانقراس یا اس سے نکلنے والی ہارمون میں خرابی ہو گئی تو شکر گردوں سے آنی شروع ہو جاتی ہے۔ یہی عمل شوگر کہلاتا ہے۔ اگر جگر کا عمل خرابی سے دوچار ہو جائے تو بھی شوگر کا مرض لاحق ہو گا کیونکہ شکر انگوری یعنی گلائی کوجن کو جگر اپنے اندر جمع رکھتا ہے، جب جگر کا عمل خراب ہوا تو شکر براہ راست پیشاب سے خارج ہونا شروع ہو گی۔ دماغ کا ایک خاص مقام ہے جسے طب کی زبان میں بطن چہارم کہتے ہیں، اگر سوئی چبھوئی جائے تو شوگر آنا شروع ہو جاتی ہے۔ اس مقام کو شوگر پنکچر کہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس مقام کا تعلق جگر کے ساتھ اعصاب کے ذریعے ملا ہوا ہے۔ اس حصہ میں چوٹ بھی لگنے سے شوگر آنا شروع ہو جاتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ جگر کی رگیں کشادہ ہو کر جگر میں خون زیادہ پہنچتا ہے جس سے جگر اپنا کیمیائی عمل نہیں کر سکتا اور شوگر آنا شروع ہو جاتی ہے۔ کبھی جگر کلاہ گردہ یا امعا پر چوٹ لگ جائے تو بھی شکر آ جاتی ہے۔
اس کی پانچ بڑی علامات قدیم حکماء نے بیان فرمائی ہیں (۱) پیشاب کی کثرت (۲) شکر کا آنا (۳) پیاس کی شدت (۴) بھوک کی زیادتی (۵) جسم کا لاغر ہوتے جانا، اس کا انجام کارسل ہی ہوا کرتا ہے۔
غذا میں مواد شکریہ و نشاستہ موقوف کر دیں، ہر قسم کا گوشت خوب کھائیں۔ بقراط کا یہ زریں قول ہے کہ کسی عضو خاص کا استعمال اس عضو کو قوت بخشتا ہے چنانچہ ایلوپیتھی میں اسی اصول کے تحت انسولین کا انجکشن لگایا جاتا ہے جو بانقراس (لبلبہ) کے اجزاء سے تیار کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ طبِ یونانی اور ایلوپیتھی دونوں طبیں افیون کے مرکبات پر متفق ہیں اس لیے افیون کا جوہر کوڈبن قابل تعریف خیال کیا جاتا ہے مگر طب یونانی میں اس کا بالکل معمولی استعمال بتایا گیا ہے۔ یہی حال جامن کا ہے۔ ہم تو عصاری جامن استعمال کرتے ہیں، اسی کو ڈاکٹر حضرات ایکسٹریکٹ جمیل لیکوئیڈ کی شکل میں مریض کے لیے اکسیر خیال کرتے ہیں۔ ڈایابین کا جزو اعظم یہی جامن ہی ہے۔
ذیل میں ایک نسخہ جو ہمہ صفت موصوف ہے، خلقِ خدا کی بہبود کے لیے پیشِ خدمت ہے، بنائیں اور مخلوقِ خدا کو فائدہ پہنچائیں۔
(۱) ھو الشافی ۔ گلو خشک، برگ جامن، خستہ جامن، اصل السوس مقشر، صمغ عربی، کتیرا، تخم نیلوفر، گاؤ زبان، گل سرخ، گل ارمنی، انار کے پھول، تخم خشخاش سفید، صندل سفید، کشتہ قلعی، کشتہ مرجان، مردارید تاسفۃ۔ یہ تمام ایک ایک تولہ۔ افیون خالص دو ماشہ، سب کو سفوف بنا کر چھ ماشہ خوراک صبح یا شام ہمراہ پانی کھائیں۔
(۲) اگر فی الحال پیشاب کی زیادتی ہے اور شوگر کی بیماری ابتدائی حالت میں ہے تو صرف حرمل کا سفوف بنا کر (یعنی اس کے بیج) صبح شام تین تین ماشہ دودھ سے کھائیں۔ فوری طور پر پیشاب رک کر شوگر کو بھی افاقہ ہو گا۔
(۳) نامی گرامی اطباء یہ بوٹیاں استعمال کا کر فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ جامن، گرٹا ربوٹی، کریلا، بیہڑے، ہلدی، شہتوت کے پتے اور بوٹی سدا بہار۔