مسلم اجتماعیت کے ناگزیر تقاضے

مولانا ابوالکلام آزاد

جناب ابو سلمان شاہجہانپوری کی تصنیف ’’تحریک نظم جماعت‘‘ سے ایک انتخاب۔

ترتیب و انتخاب: مولانا سراج نعمانی، نوشہرہ صدر


۱۹۱۶ء کے لیل و نہار قریب الاختتام تھے جب اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے یہ حقیقت اس عاجز پر منکشف کی اور مجھے یقین ہو گیا کہ جب تک یہ عقدہ حل نہ ہو گا ہماری کوئی سعی و جستجو کامیاب نہ ہو گی۔ چنانچہ اسی وقت سے سرگرم سعی و تدبیر ہو گیا (ص ۳۱)۔

۱۹۱۶ء کی بات ہے کہ مجھے خیال ہوا کہ ہندوستان کے علماء و مشائخ کو عزائم و مقاصدِ وقت پر توجہ دلاؤں، ممکن ہے چند اصحابِ رشد و عمل نکل آئیں۔ چنانچہ میں نے اس کی کوشش کی لیکن ایک شخصیت کو مستثنٰی کر دینے کے بعد سب کا متفقہ جواب یہی تھا کہ یہ دعوت ایک فتنہ ہے ’’اِئْذَنْ لِّیْ وَلَا تَفْتِنِّیْ‘‘۔ یہ مستثنٰی شخصیت مولانا محمود الحسن دیوبندیؒ کی تھی جو اَب رحمتِ الٰہی کے جوار میں پہنچ چکی ہے (ص ۵۴)۔

۱۹۱۴ء میں جب میں نے ہندوستان کے بعض اکابر علماء و مشائخ کو عزم و سعی کی دعوت دی، بعض سے خود ملا اور بعض کے پاس مولوی عبید اللہ سندھیؒ کو بھیجا تو اکثر نے بعینہٖ یہی بات کی تھی جو آپ (مولانا محی الدین قصوری) کہہ رہے ہیں کہ علماء و مشائخ کی اتنی بڑی تعداد ملک میں موجود ہے کسی نے بھی آج تک یہ دعوت نہیں دی، اب سواد اعظم کے خلاف یہ قدم کیوں اٹھایا جا رہا ہے؟ (ص ۵۴)

پروگرام

۱۹۱۴ء سے ۱۹۱۸ء تک کے حوادثِ عالم کا سیلاب اگرچہ نہایت مہیب اور بہت مشکل تھا کہ ارادے اور فیصلے کی دیواریں اس کے مقابلے میں قائم رہ سکیں، عنایت الٰہی کی دستگیری سے میں نے اپنے ارادے اور عزم کو اس وقت بھی پوری طرح قائم و استوار پایا اور ایک لمحے کے لیے بھی میرے دل پر  مایوسی کو قبضہ نہ ملا۔ واقعات کی خطرناکی اور ناکامی میرے دل و جگر کو چیرا دے سکتی تھی اور حوادث کی غم گینی اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر سکتی تھی لیکن وہ اس یقین و عزم کو نہیں نکال سکتی تھی جو اس کے ریشے ریشے میں بسا ہوا ہے اور صرف اسی وقت نکل سکتا ہے جب دل بھی سینے سے نکل جائے۔ وہ زمین کی پیداوار نہیں کہ زمین کی کوئی طاقت اسے پامال کر سکے، وہ آسمان کی روح ہے ’’تَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمُ الْمَلَائِکَۃُ اَن لَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا‘‘ آسمان کی بلندیوں سے اتری ہے۔ پس نہ تو زمین کی امیدیں اسے پیدا کر سکتی ہیں اور نہ زمین کی مایوسیاں اسے ہلاک کر سکتی ہیں۔

۱۹۱۸ء کے اواخر میں میں رانچی کے ایک گوشۂ عزلت میں بیٹھا ہوا ایک نئی امید کی تعمیر کا سروسامان دیکھ رہا تھا اور گویا دنیا نے ایک دروازے کے بند ہونے کی صدائیں سنی تھیں مگر میرے کان ایک نئے دروازے کے کھلنے پر لگے ہوئے تھے ؎

تفاوت است میان شنیدن من و تو
تو بستن در، و من فتح باب می شنوم

۱۹۱۸ء کے رمضان المبارک کا پہلا ہفتہ اور اس کی بیدار و معمور راتیں تھیں کہ جب میں نے ان ہی ہاتھوں سے امیدوں اور آرزوؤں کے نئے نقشوں پر لکیریں کھینچیں (ص ۶۰)۔

یکم جنوری ۱۹۲۰ء کو جب مجھے چار سال کی نظربندی سے رہا کیا گیا تو میں اپنی آئندہ زندگی، زندگی کے کاموں اور طریق و اسلوب کی نسبت خالی الذہن نہ تھا اور نہ اپنے ارادے کے بہنے کے لیے کسی سیلاب کا منتظر تھا۔ میں نے ہمیشہ بہنے کی جگہ چلنے کی کوشش کی ہے ۔۔۔ میں نے فیصلہ کر لیا کہ آئندہ مجھے کیا کرنا چاہیئے اور میری مشغولیت کا عنوان و طریق کیا ہو گا (ص ۵۷)۔

نقشۂ کار

(۱) رفقاء و طالبین کی ایک جماعت کی تعلیم و تربیت

(۲) تصنیف و تالیف

(۳) جماعتی اعمال یعنی تنظیم جماعت

چنانچہ جنوری ۱۹۲۰ء میں جب میں نظربندی کے گوشۂ قید و بند سے نکلا تو دو سال پیشتر کا یہ نقشۂ عمل میرے سامنے تھا اور اس لیے نہ تو مجھے واقعات کی رفتار کا انتظار تھا نہ مزید غوروفکر کا، بلکہ صرف شغل عمل ہی شروع کر دینا تھا۔ میں نے آئندہ کے لیے جن امور کا ارادہ کیا تھا ان میں ایک بات یہ بھی تھی کہ رانچی سے نکلتے ہی کسی عزلت میں رفقاء و طالبین کی ایک جماعت لے کر بیٹھ رہوں گا اور اپنی زبان و قلم کی خدمات میں مشغول ہو جاؤں گا۔ تصنیف و تالیف کے علاوہ جو جماعتی اعمال پیشِ نظر تھے ان کے لیے بھی سیر و گردش اور نقل و حرکت کی ضرورت نہ تھی، قیام و استقرار ہی مطلوب تھا۔ چنانچہ اس بناء پر رہائی کے بعد سیدھا کلکتہ کا قصد کیا۔ اگرچہ تمام ملک سے پیغام ہائے طلب و دعوت آ رہے تھے اور ہر طرف نظربندوں کی رہائی پر ہنگامہ تہنیت و تبریک گرم تھا لیکن میں کہیں نہ جا سکا اور سب سے عذر خواہ ہوا (ص ۶۱)۔

مولانا آزاد کی دعوتِ اتحاد و تنظیم پر طبقاتی ردِعمل

جدید تعلیم یافتہ طبقے کا ردعمل

مولانا سید سلیمان ندوی مرحوم نے جمعیۃ علماء ہند کے اجلاس کلکتہ میں یہ خدشہ ظاہر فرمایا تھا کہ

’’تعلیم یافتہ حضرات کو شبہ ہے کہ علماء اس پردے میں اپنی کھوئی ہوئی وجاہت کو دوبارہ قائم کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:

’’۱۹۸۰ء میں معارف میں اس تحریک کو اٹھایا گیا اور اصلاحات کے سلسلہ میں اس کو پیش کیا گیا۔ پھر ۱۹۲۰ء میں یورپ سے واپسی کے بعد چاہا کہ اس کو تمام ہندوستان کا مسئلہ بنا دیا جائے مگر اس عہد کی جدید تعلیم کے علمبرداروں نے اس کو کسی طرح نہ چلنے دیا۔‘‘ (ص ۱۰۳)

پیروں کا کردار

مولانا آزاد کے خلیفہ اور سندھ میں اجتماعیت کے داعی شاہ سائیں مرحوم نے سندھ کی حد تک سندھ پیروں اور مشائخ کو متحد اور متفق کرنے کے لیے اَن تھک کوشش کی جسے علی محمد راشدی کے الفاظ میں پڑھیئے:

’’شاہ سائیں کا خیال تھا کہ ان سادہ لوحوں (پیروں) کو انگریز مداری کے بندر کی طرح نچائے گا۔ انہیں عوامی مصلحت اور مقاصد کے خلاف استعمال کرے گا۔ پھر جب یہ سوا اور بدنام ہو جائیں گے تو ہاتھ کھینچ لے گا۔۔۔ وہ چاہتے تھے کہ پیروں کو سرکار اور عام لیڈروں کے چکروں سے نکال کر عوام کے قریب رکھا جائے اور آزادی کی جدوجہد اور عوامی زندگی میں ان سے کام لیا جائے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ پیر سرکاری دلّال بن کر عوام سے دور، سیاسی بصیرت سے بے بہرہ، خدمت قومی سے معطل، اور مریدوں کی صرف نذر کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھ لیں ۔۔۔ اپنی تحریک کی ناکامی پر افسوس کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ اس فرقے کو تو بھیک کی عادت پڑ گئی ہے اور سچے پیر انتقال کر گئے۔ ان کی جگہ گداگر بیٹھتے جا رہے ہیں۔ گداگروں کا کیا اخلاق ہوتا ہے، کسی دن بڑوں کی قبریں بھی بیچ دیں گے۔‘‘ (ص ۱۷۱)

علماء سو کا اعتراف

مولانا آزاد مرحوم اپنی تحریک کی ناکامی کا ذمہ دار علماء سو کے جمود اور وقت کی عدم مساعدت کو قرار دیتے ہیں۔ ایک خط میں لکھتے ہیں:

میں اپنے پندرہ سال کے طلب و عشق کے بعد وقت کی عدم مساعدت و استعداد کا اعتراف کرتا ہوں ۔۔۔ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ موجودہ طبقہ علماء سے میں قطعاً مایوس ہوں اور اس کو قوانین اجتماع کے بالکل خلاف سمجھتا ہوں کہ ان کے جمود میں کسی طرح کا تقلب و تحول پیدا ہو۔ (ص ۱۰۱)

مولانا آزاد مرحوم کی نظر میں قائد و امام کی خصوصیات

ایک صاحبِ نظر و اجتہاد دماغ کی ضرورت ہے جس کا قلب کتاب و سنت کے غوامض سے معمور ہو۔ وہ اصولِ شرعیہ کو مسلمانانِ ہند کی موجودہ حالت پر ان کے توطنِ ہند کی حدیث العہد نوعیت پر، ایک ایک لمحے کے اندر متغیر ہو جانے والے حوادثِ جنگ و صلح پر ٹھیک ٹھیک منطبق کر لے، اور پھر تمام مصالح و مقاصدِ شرعیہ و ملیہ کے تحفظ و توازن کے بعد فتوٰی جاری کرتا رہے۔ آج ایک ایسے عازم امر کی ضرورت ہے جو وقت اور وقت کے سروسامان کو نہ دیکھے بلکہ وقت اپنے سارے سامانوں سمیت اس کی راہ تک رہا ہو۔ مشکلیں اس کی راہ میں گردوغبار و خاکستر بن کر اڑ جائیں اور دشواریاں اس کے جولانِ قدم کے نیچے خس و خاشاک بن کر پس جائیں۔ وہ وقت کا مخلوق نہ ہو کہ وقت کے حاکموں کی چاکری کرے، وہ وقت کا خالق و مالک ہو اور زمانہ اس کی جنبشِ لب پر حرکت کرے۔ اگر انسان اس کی طرف سے منہ موڑ لیں تو وہ خدا کے فرشتوں کو بلا لے۔ اگر دنیا اس کا ساتھ نہ دے تو وہ آسمان کو اپنی رفاقت کے لیے نیچے اتار لے۔ اس کا علم مشکوٰۃ نبوت سے ماخوذ ہو۔ اس کا قدم منہاجِ نبوت پر استوار ہو۔ اس کے قلب پر اللہ تعالیٰ حکمتِ رسالت کے تمام اسرار و غوامض اور معالجہ اقوام و طبابت، عہد و ایام کے تمام سرائر و خفایا اس طرح کھول دے کہ وہ صرف ایک صحیفہ کتاب و سنت اپنے ہاتھ میں لے کر دنیا کی ساری مشکلوں کے مقابلے اور ارواح و قلوب کی ساری بیماریوں کی شفاء کا اعلان کر دے ’’وَمَا ذٰلِکَ عَلَی اللہِ بِعَزِیْز‘‘ (ص ۳۴)۔

موجودہ وقت کسی ایسے مردِ راہ کا طالب ہے جو صاحبِ عزم و امر ہو اور اس لیے نہ ہو کہ دوسروں کی چوکھٹ پر ہدایت و راہنمائی کے لیے سر جھکائے بلکہ دوسرے اس لیے ہوں تاکہ راہنمائی کے لیے اس کا منہ تکیں اور جب وہ قدم اٹھائے تو اس کے نقشِ قدم کو دلیلِ راہ بنائیں ۔۔۔ وہ اپنے اندر مصباح ہدایت کی روشنی رکھتا ہو جو باہر کی تمام روشنیوں سے بے پروا کر دے (ص ۲۹۷)۔ یہ کام صرف ایک صاحبِ نظر و اجتہاد کا ہے جس کو قوم نے بالاتفاق تسلیم کر لیا ہو۔ وہ وقت اور حالت پر اصولِ شریعت کو منطبق کرے گا۔ ایک ایک جزئیہ حوادث و واقعات پر پوری کاروانی اور نکتہ شناسی کے ساتھ نظر ڈالے گا۔ امت و شرع کے اصولی مصالح و فوائد اس کے سامنے ہوں گے۔ کسی ایک گوشے ہی میں ایسا مستغرق نہ ہو جائے کہ باقی تمام گوشوں سے بے پروا ہو جائے۔

؏  حَفِظْتَ شَیْئًا وَ غَابَتْ عَنْکَ اَشْیَآء

سب سے بڑھ کر یہ کہ اعمال مہمہ امت کی راہ میں منہاجِ نبوت پر اس کا قدم استوار ہو گا اور ان ساری باتوں کے بعد علم و بصیرت کے ساتھ ہر وقت، ہر تغیر، ہر حالت کے لیے احکامِ شرعیہ کا استنباط کرے گا (ص ۳۶)

کاش مجھ میں ایسی قوت ہوتی یا وہ شے موجود ہوتی جس کی مدد سے میں تمہارے مقفل قلوب کے پٹ کھول سکتا تاکہ میری آواز تمہارے کانوں میں نہیں بلکہ تمہارے دل میں سما سکتی اور تم اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ سکتے (ص ۹۵)۔

جماعتی زندگی کی خصوصیات

کتاب و سنت نے جماعتی زندگی کے تین رکن بتائے ہیں:

(ا) تمام لوگ کسی صاحبِ علم و عمل پر جمع ہو جائیں اور وہ ان کا امام ہو۔

(ب) جو کچھ وہ تعلیم دے ایمان و صداقت کے ساتھ قبول کریں۔

(ج) قرآن و سنت کے ماتحت اس کے جو احکام ہوں ان کی بلا چون و چرا تعمیل و اطاعت کریں۔ سب کی زبانیں گونگی ہوں، صرف اسی کی زبان گویا ہو۔ سب کے دماغ بیکار ہو جائیں، صرف اسی کا دماغ کارفرما  ہو۔ لوگوں کے پاس نہ زبان ہو نہ دماغ، صرف دل ہو جو قبول کرے، صرف ہاتھ پاؤں ہوں جو عمل کریں (ص ۳۰)۔

اجتماعیت کے قیام کے لیے شیخ الہند سے رابطہ

شیخ الہندؒ سے ملاقات

مولانا ابوالکلام فرماتے ہیں: حضرت مولانا محمود الحسنؒ سے میری ملاقات بھی دراصل اسی طلب و سعی کا نتیجہ تھی، انہوں نے پہلی ہی صحبت میں کامل اتفاق ظاہر فرمایا تھا اور یہ معاملہ بالکل صاف ہو گیا تھا کہ وہ اس منصب کو قبول کر لیں گے اور ہندوستان میں نظم جماعت کے قیام کا اندازہ کر لیا جائے گا۔ مگر افسوس ہے کہ بعض زود رائے اشخاص کے مشورے سے مولانا نے اچانک سفرِ حجاز کا ارادہ کر لیا اور میری کوئی منت سماجت بھی انہیں سفر سے باز نہ رکھ سکی (ص ۳۲)۔

شیخ الہندؒ کی تائید

مولانا عبد الرزاق ملیح آبادیؒ فرماتے ہیں:

’’میں نے شیخ الہندؒ سے (فرنگی محل لکھنؤ میں) تنہائی میں ملاقات کی۔ رسمی باتوں کے بعد ہندوستان میں مسلمانوں کی امامت کا تذکرہ چھیڑا۔ شیخ الہندؒ نے فرمایا، امامت کی ضرورت مسلّم ہے۔ عرض کیا، حضور سے زیادہ کون اس حقیقت کو جانتا ہے کہ اس منصب کے لیے وہی شخص موزوں ہو سکتا ہے جو زیادہ سے زیادہ ہوش مند، مدبر اور ڈپلومیٹ ہو، جس کی استقامت کو نہ تو کوئی تشویش متزلزل کر سکے نہ کوئی ترہیب۔۔۔ شیخ الہندؒ نے اتفاق ظاہر کیا تو عرض کیا کہ آپ کی رائے میں اس وقت امامت کا اہل کون ہے؟ یہ بھی اشارۃً کہہ دیا کہ بعض لوگ اس منصب کے لیے خود آپ کا نام لے رہے ہیں اور بحمد اللہ اہل بھی ہیں۔ شیخ بڑی معصومیت سے مسکرائے اور فرمایا، میں ایک لمحے کے لیے بھی تصور نہیں کر سکتا کہ مسلمانوں کا امام بنوں۔ عرض کیا کہ کچھ لوگ مولانا عبد الباری صاحب (فرنگی محلی) کا نام لے رہے ہیں۔ موصوف کا تقوٰی و استقامت مسلّم ہے مگر مزاج کی کیفیت سے آپ بھی واقف ہیں۔ شیخ نے سادگی سے جواب دیا، مولانا عبد الباری کے بہترین آدمی ہونے میں شبہ نہیں مگر منصب کی ذمہ داریاں کچھ اور ہی ہیں۔ عرض کیا، اور مولانا ابوالکلام آزاد کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ شیخ نے متانت سے فرمایا، میرا انتخاب بھی یہی ہے، اس وقت مولانا آزاد کے سوا کوئی شخص ’’امام الہند‘‘ نہیں ہو سکتا‘‘۔

مولانا مناظر احسن گیلانی لکھتے ہیں:

’’ایک دفعہ جیسا کہ میں نے سنا ہے لاہور میں دیوبند کی جماعت کے سربرآوردہ حضرات نے مولانا ابوالکلام آزاد کی بیعت کے ساتھ رضامندی کا اعلان کر دیا تھا۔ خیال آتا ہے کہ مولانا انور شاہ (کاشمیری)، مولانا شبیر احمد (عثمانی) اور مولانا حبیب الرحمٰن (دیوبندی) جیسی ممتاز ہستیوں کی طرف سے اس رضامندی کا اعلان کیا جا چکا تھا مگر اعلان سے آگے بات نہ بڑھی۔‘‘ (ص ۸۵)

شیخ الہند

مولانا مرحوم ہندوستان کے گذشتہ دور کے علماء کی آخری یادگار تھے، ان کی زندگی اس دور حرمان و فقدان میں علماء حق کے اوصاف و خصائل کا بہترین نمونہ تھی۔ ان کا آخری زمانہ جن اعمالِ حقہ میں بسر ہوا وہ علماء ہند کی تاریخ میں ہمیشہ یادگار رہیں گے۔ ستر برس کی عمر میں، جب ان کا قد ان کے دل کی طرح اللہ کے آگے جھک چکا تھا، عین جوارِ رحمت میں گرفتار کیا گیا اور کامل تین سال تک جزیرہ مالٹا میں نظربند رہے۔ یہ مصیبت انہیں صرف اس لیے برداشت کرنی پڑی کہ اسلام اور ملتِ اسلام کی تباہی و بربادی پر ان کا خدا پرست دل صبر نہ کر سکا اور انہوں نے اعدائے حق کی مرضات و ہوا کی تسلیم و اطاعت سے مردانہ وار انکار کر دیا۔ فی الحقیقت انہوں نے علماء حق و سلف کی سنت زندہ کر دی اور علماء ہند کے لیے اپنی سنت حسنہ یادگار چھوڑ گئے۔ وہ اگرچہ اب ہم میں موجود نہیں ہیں لیکن ان کی روحِ عمل موجود ہے اور اس کے لیے جسم کی طرح موت نہیں (۱۳۶)۔

شیخ الہندؒ کی فراست

جمعیۃ علماء ہند کا دوسرا سالانہ اجتماع ۱۹، ۲۰، ۲۱ نومبر ۱۹۲۰ء کو دہلی میں شیخ الہندؒ کی وفات سے ایک ہفتہ قبل ہوا تھا۔ صدارت شیخ الہندؒ کی تھی جبکہ ۵۰۰ سے زائد علماء نے اس میں شرکت کی تھی۔ اس اجتماع کا اہم مسئلہ امیر الہند کا انتخاب تھا۔ شیخ الہند اس انتخاب کے لیے ازحد بے چین تھے اور چاہتے تھے کہ یہ انتخاب اسی موقعہ پر کر لیا جائے۔ مولانا عبد الصمد رحمانی صاحب لکھتے ہیں کہ

’’وہ لوگ جو اس میں شریک تھے جانتے ہیں کہ اس وقت شیخ الہندؒ ایسے ناساز تھے کہ حیات کے بالکل آخری دور سے گزر رہے تھے، نقل و حرکت کی بالکل طاقت نہ تھی، لیکن اس کے باوجود ان کو اصرار تھا کہ اس نمائندہ اجتماع میں جبکہ تمام اسلامی ہند کے ذمہ دار اور اربابِ حل و عقد جمع ہیں، امیر الہند کا انتخاب کر لیا جائے اور میری چارپائی کو اٹھا کر جلسہ گاہ میں لے جایا جائے، پہلا شخص میں ہوں گا جو اس امیر کے ہاتھ پر بیعت کرے گا۔‘‘ (ص ۱۳۱)

امیر الہند کون؟

کتاب کے مرتب ابو سلمان شاہجہانپوری آغاز میں ہی جب شیخ الہندؒ کا ذکر مستقل باب میں کرتے ہیں تو اس سے پہلے ان کی یہ تحریر قاری کے سامنے آتی ہے، وہ  لکھتے ہیں کہ

’’تحریک کے امیر کی حیثیت سے شیخ الہند کو پیش کیا گیا ہے۔ بلاشبہ تحریک کے داعی کی حیثیت اور تحریک کی بنیادی اور اہم شخصیت مولانا ابوالکلام آزاد کی تھی لیکن ہندوستان کی امارتِ شرعیہ کی ذمہ داری کے لیے مولانا آزاد کی نگاہِ انتخاب حضرت ہی پر پڑی تھی اور حضرت نے اسے قبول فرما لیا تھا، اس لیے امام الہند کی حیثیت میرے نزدیک شیخ الہند کی ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ بعد میں اپنی نازک صحت کی بنا پر اپنے تئیں حضرت نے اس ذمہ داری سے الگ کر لیا تھا اور مولانا آزاد پر اپنا اعتماد فرما دیا تھا۔‘‘ (ص ۱۰۸)

اسلامی تحریکات اور حکمت عملی

(مئی ۱۹۹۰ء)

مئی ۱۹۹۰ء

جلد ۲ ۔ شمارہ ۵

مسلم سربراہ کانفرنس ۔ وقت کا اہم تقاضہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مسلم اجتماعیت کے ناگزیر تقاضے
مولانا ابوالکلام آزاد

قرآنِ کریم میں تکرار و قصص کے اسباب و وجوہ
مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ

بعثتِ نبویؐ کے وقت ہندو معاشرہ کی ایک جھلک
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

امامِ عزیمت امام احمد بن حنبلؒ اور دار و رَسَن کا معرکہ
مولانا ابوالکلام آزاد

مولانا آزادؒ کا سنِ پیدائش ۔ ایک حیرت انگیز انکشاف
دیوبند ٹائمز

کیا فرعون مسلمان ہو گیا تھا؟
شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ

دُشمنانِ مصطفٰی ﷺ کے ناپاک منصوبے
پروفیسر غلام رسول عدیم

آزاد جموں و کشمیر ۔ پاکستان میں نفاذِ اسلام کے قافلے کا ہراول دستہ
ادارہ

ایسٹر ۔ قدیم بت پرستی کا ایک جدید نشان
محمد اسلم رانا

مسیحی مشنریوں کی سرگرمیاں اور مسلم علماء اور دینی اداروں کی ذمہ داری
محمد عمار خان ناصر

تہذیبِ جدید یا دورِ جاہلیت کی واپسی
حافظ محمد اقبال رنگونی

پاکستان میں نفاذ اسلام کی جدوجہد اور علماء کرام کی ذمہ داریاں
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

دینی شعائر کے ساتھ استہزاء و تمسخر کا مذموم رجحان
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کا اجلاس
ادارہ

شریعت کا نظام اس ملک میں اک بار آنے دو
سرور میواتی

آپ نے پوچھا
ادارہ

تعارف و تبصرہ
ادارہ

ذیابیطس کے اسباب اور علاج
حکیم محمد عمران مغل

والدین اور اولاد کے باہمی حقوق
حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ

سود کے خلاف قرآنِ کریم کا اعلانِ جنگ
حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ

تلاش

Flag Counter