مسیحیو فورٹ کا کہنا ہے کہ بچے دستر خوان سے آداب و اقدار سیکھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ جب رسمی تناول طعام کی بجائے ٹی وی ڈنر کا آغاز ہوا تو ۱۹۶۲ء ہی میں قوم کے زوال کا آغاز ہو گیا تھا۔ ۱۹۶۲ء میں کنبے کی تباہی شروع ہو گئی۔ یہ وہ سال تھا جب مجرد افراد نے تیار کھانے (Vesta range of ambient) شروع کیے۔ آج ملک بھر میں ان کے بعد آنے والے فریجوں کی فریجیں اور فریزر کے فریزر چٹ کر رہے ہیں۔
دلیل دی جا سکتی ہے کہ زوال تو بہت پہلے ۱۹۳۶ء میں اس وقت شروع ہو گیا تھا جب ٹیلی ویژن نے پہلا اعلان کیا تھا۔ لیکن اس کی تکمیل اس وقت تک نہ ہوئی تھی جب تک کہ غذائی ٹیکنالوجی نے ٹمٹماتی سکرین کے سامنے بیٹھ کر کھانے کی سہولت فراہم نہ کی تھی اور کمپنیوں نے اپنے پسندیدہ پروگرام سے پہلے یا بعد اکٹھے مل بیٹھ کر کھانا نہیں چھوڑ دیا تھا۔ ایسا فی الفور نہیں ہو گیا۔ ٹی وی دیکھتے ہوئے کھانے کا رواج ۱۹۶۰ء کی دہائی کے آخر تک رہا۔ لیکن اس وقت چھوٹی اسکرین کی دلکشی بہت زیادہ ہو گئی۔ اوقاتِ طعام کو ٹی وی پروگراموں تک محدود کر دینے کے امکان کا مطالبہ ہونے لگا۔ ہم ٹی وی دیکھنے میں کھانے پینے کو دخیل نہیں کرنا چاہتے تھے۔ Birds age یو کے میں پہلی کمپنی تھی جس نے اس بنیادی تبدیلی کی نشاندہی کی اور ۱۹۶۹ء میں یو کے کا پہلا ٹی وی ڈنر بھنا ہوا گوشت مہیا کیا۔
Algy نے The importance of earnest میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ہفتہ میں ایک مرتبہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ کھانا کافی ہے۔ مشکل یہ ہے کہ آج کل اکثر لوگ ایک ہفتے میں بھی ایسا نہیں کرتے۔ سکول کے بچوں کے حالیہ جائزوں سے معلوم ہوا کہ گزشتہ ہفتے تین میں سے ایک بچے نے بھی اپنے والدین کے ساتھ مل کر کھانا نہیں کھایا۔ در حقیقت اتنے کنبے باقی ہی نہیں رہے۔ صرف پچیس فیصد گھر ایک میاں بیوی اور ۲.۴ بچوں پر مشتمل ہیں۔ یہ ۱۳ فیصد انحطاط ۱۹۷۱ء سے ہے۔ سن ۲۰۰۰ء میں یہ اور بھی کم رہ جائیں گے۔ اس بات پر اتفاق رائے ہے کہ ہم اس وقت اخلاقی اور معاشرتی بحران سے گزر رہے ہیں۔
مجرم بچے، غیر ذمہ دار والدین، بڑھتے ہوئے جرائم، قید خانے کا نظریہ پیش کرنے والے سکول، بظاہر اچھے نظم کے نمونے دکھائی دیتے ہیں۔ خاموشی سے سیاستدانوں کی قبول کی گئی رشوت، کاروبار کی نااہلیت، جس پر بہت زیادہ معاوضہ دیا جاتا ہے۔ ذاتی ذمہ داری کی کمی (سیاستدانوں اور کاروباری رہنماؤں میں) وغیرہ بحران کے مختلف نمونے ہیں۔
یہ نقطۂ نگاہ بھی نشوونما پاتا دکھائی دیتا ہے کہ یہ برائیاں کسی بھی درجے کی بھی کیوں نہ ہوں، خاندان کے معاشرتی یونٹ کی حیثیت سے انحطاط پر قابلِ مذمت ہیں۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ والدین اپنے بچوں کو ضابطوں کا پابند بنانے کی ذمہ داری قبول نہیں کرتے، اور بچے خاندان کو اپنی معاشی اور معاشرتی قدروں کے ماخذ کی حیثیت سے نہیں دیکھتے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ ایک نسل سے دوسری نسل کو تجربہ اور اقدار کی کوئی منتقلی نہیں ہو رہی۔ ہر نسل اب اپنی اس کمی کو خود پورا کرتی نظر آتی ہے۔
ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ ہمیشہ سے ایسا نہ تھا، پھر گزشتہ نسلوں نے اچھے برے کے احساس اور ایک برادری کی ذمہ داری کے ساتھ نشوونما پائی؟ جواب یہ ہے کہ ٹی وی ڈنر سے پہلے کے زمانے میں جب خاندان اکٹھے کھانے پر بیٹھا کرتے تھے، اکٹھے مل کر کھانے کا رواج، خاندانی روابط میں ایسا فورم پیش کرتا جو دوسری کوئی سرگرمی پیش نہ کرتی تھی۔ ممکن ہے کہ آپ اپنے والدین یا بھائی بہنوں کو زیادہ پسند نہ کرتے ہوں، ممکن ہے آپ ان سے نفرت کرتے ہوں، ممکن ہے گھر پر پکانا ظلم سمجھا جاتا ہو، لیکن ناشتے، دوپہر کے کھانے، چائے یا شام کے کھانے کے علاوہ اور کونسی رسمی صورتحال ہے جو ایسا موقعہ فراہم کرے جس سے آپ اپنے جذبات کا اظہار کر سکیں اور دوسرے آپ کے لیے اظہارِ جذبات کر سکیں۔ ایسے حالات میں تو مکمل خاموشی بھی خیالات کے منتقل کرنے کی ایک صورت بن جاتی ہے ؏
خاموشی گفتگو ہے بے زبانی ہے زباں میری
اکثر خاندانوں کے لیے کھانا یا دستر خوان مباحثہ گاہ بن گیا۔ کاٹنے، چبانے، ایک دوسرے سے نمک وغیرہ لینے، ایک شائستگی کا رکھ رکھاؤ پیدا کیا۔ خوش اطواریوں ہی سے مرد اور عورت شائستہ بنتے تھے۔ اہلِ برطانیہ میں ہمیشہ بڑوں اور بچوں کو الگ الگ رکھنے کا احساس موجود رہا ہے۔ معاشرتی تحرکات کو بڑی احتیاط سے منظم کیا جاتا رہا ہے تاکہ فریقین متصادم نہ ہوں۔
تاہم بچوں سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ کم از کم کچھ وقت ہی کے لیے بڑوں کے ساتھ رہیں، نگاہوں میں رہیں، خواہ ان کی بات نہ سنی جائے۔ اور اب تو نہ وہ سامنے ہوتے ہیں اور نہ ان کی بات ہی سنی جاتی ہے۔ وہ دباؤ جن کے تحت ہم میں سے اکثر کام کرتے ہیں، وہ اوقات جن میں ہمیں اپنے معاہدات اور معیارِ زیست کو قائم رکھنے کے لیے کام کرنا پڑتا ہے، اور بہت سوں کے لیے وہ مالی مجبوریاں جن کی وجہ سے والد اور والدہ دونوں کو کام کرتا پڑتا ہے۔ ان سب کا مطلب یہ ہے کہ باوجود شدید خواہش کے ہم اپنے بچوں کے ساتھ زیادہ وقت نہیں گزار سکتے۔ اقتصادی برتری کے لیے کوشش کرنا بھی تو ذاتی اور معاشرتی تقاضے رکھتا ہے، وجوہ کچھ بھی ہوں بعض اعداد و شمار قابلِ غور ہیں۔
۱۹۷۱ء سے، جب سے ہم نے ٹی وی ڈنر کی ترغیب کو ناقابلِ مزاحمت پانا شروع کیا، تو اس وقت سے طلاق کی شرح چھ گنا بڑھ گئی ہے۔ تنہا والدین کی تعداد تین گنا ہو گئی ہے، اور پچیس فیصد سے زیادہ گھر تنہا اہلِ خانہ پر مشتمل ہو گئے ہیں۔ ان اعداد و شمار کا یورپ کے کسی دوسرے ملک سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ اٹلی، فرانس، جرمنی، چین اور پرتگال کے اپنے دوسرے مسائل ہوں گے مگر ان ملکوں کے معاشروں کا اندرونی اتصال باقی نہیں رہا۔ ان سب ملکوں میں اکٹھے مل بیٹھ کر کھانے کی رسم کا احترام موجود ہے۔ وہ اس بارے میں بھی بہت محتاط ہیں کہ وہ اکٹھے کیا کھاتے ہیں؟ وہاں حکومتی وزراء اور سول ملازمین میں عدمِ مفاہمت موجود رہے، اس بات پر عدمِ مفاہمت ہے کہ اہلِ یورپ گائے کے گوشت پر اتنی ہنگامہ پروری کیوں کرتے ہیں۔ بلاشبہ زیادہ تناؤ سیاسی ہے۔ مگر بظاہر آلودہ غذا کے خلاف ایک واقعی نفرت ہے۔
خاندانی ذمہ داری کا احساس اس وقت بہت مشکل ہو جاتا ہے جب یہ خیال نہ کیا جائے کہ کھانا آپ کس نوعیت کا پیش کر رہے ہیں۔ ہم غذا تیار کرنے والوں اور خوردہ فروشوں پر اعتماد کرتے ہیں کہ ہماری یہ ذمہ داری وہ اٹھائیں گے (کھانے کے معیاری ہونے کے سلسلے میں) بالکل اسی طرح ہم ریاستی انتظامات، اسکولوں اور اداروں پر اعتماد کرتے ہیں کہ ہماری طرف سے وہ یہ ذمہ داری سنبھالیں۔ ظاہراً دوسروں کے خیال رکھنے کی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کا ریکارڈ کچھ اچھا نہیں ہے۔
ان کے کاموں کی اپنی فہرست ہوتی ہے، اور ہمارے کاموں سے مختلف ہوتی ہے۔ عید فصح اور عشائے ربانی کی علامت ہمارے مفروضہ خدا ترس کی سیاستدانوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ قوم کی صحت پر اچھی غذا کے ثابت شدہ مفید نتائج کے باوجود غذا ان کی، اور زیادہ بات تو یہ ہے کہ ہماری ترجیحات کی فہرست میں بہت ہی نیچے آرہتی ہے۔ اب جبکہ محکمہ صحت نے مجموعی طور پر قوم کے لیے غذائی اہداف مقرر کر دیے ہیں، محکمہ تعلیم کے یکے بعد دیگرے آنے والے سیکرٹریوں نے نصاب کے بڑے مضامین سے باورچی گری کو خارج کر دیا ہے۔ اور اس کی جگہ بعض غیر معروف تکنیک فنون کو جگہ دے دی ہے۔
کیا آپ خیال کر سکتے ہیں کہ فرانسیسی اور اطالوی باورچی گری کو ایک معمولی مضمون سمجھتے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ فرانسیسی حکومت اس امر پر تشویش کا اظہار کر رہی ہے کہ ایک عام فرانسیسی خاندان ۱۹۶۳ء کے مقابلے میں جب کہ وہ اڑھائی گھنٹے کھانے پر اکٹھے گزارتا تھا، اب صرف ۸۰ منٹ اکٹھے گزارتا ہے۔ اور ٹی وی اشتہارات اور سکولوں نے مختلف پروگراموں سے تصحیحی عمل کے ذریعے بچوں کو انہیں ان کا مطبخی ورثہ یاد دلانا شروع کر دیا ہے۔ اگر جمعے کے روز آپ کے بچے لندن میں Lyeell Francais (ایک فرانسیسی ہوٹل کا نام) میں ہوں تو بچہ ہو یا بچی اسے تین چیزوں کا انتخاب کرنا ہوگا: آلو کا سلاد، کھیوے کا سلاؤ، جس کے بعد یا تو کاڈ مچھلی یا دنبے کی تلی ہوئی ٹانگ، جس کے ساتھ کبھی کبھار الغوزہ پھلی بھی ہوتی ہے۔ آخر میں وہ کھانا فروٹ پر ختم کرتا ہے۔ یہ کھانا کھاتے وقت اسے ایک گھنٹہ لگتا ہے۔ کیا کوئی برطانوی سکول کھانے کو یہ اہمیت اور اتنا وقت دے گا؟
ہمارے بچے کھانا بھی وہیں سے سیکھتے ہیں جہاں سے وہ اقدار و اطوار سیکھتے ہیں، یعنی اپنے خاندان سے۔ آج کل انہیں نہایت ناقص غذا ملتی ہے، وہ جہاں سے بھی لیں، یا جہاں سے ان کے والدین کو میسر آجائے۔ یہ کھانا کاروباری وقفے میں فریزر سے نکالا جاتا ہے جس کو مائیکرو ویو میں پھینکا جاتا ہے۔ اگلے وقفے میں حاصل کر لیا جاتا ہے اور بے سوچے سمجھے نگل لیا جاتا ہے۔ اور زیادہ اہمیت کی بات تو یہ ہے کہ ایک دوسرے سے بے نیاز ہو کر کھایا جاتا ہے۔ ہم بہت جلدی جلدی کھاتے ہیں اور پھر فارغ وقت میں پچھتاتے ہیں۔