مردوں کے لیے مساوی حقوق کا مطالبہ
ہیل سنکی (رائٹر) یورپی وزراء نے اس بات پر زور دیا ہے کہ مردوں کو خواتین کے مساوی حقوق دیے جائیں تاکہ وہ ایک مکمل فیملی لائف گزار سکیں۔ ۳۵ یورپی ممالک تعلق رکھنے والے وزراء کی فیملی افیئرز کے موضوع پر منعقدہ ایک سہ روزہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جرمن وزیر برائے وومن یوتھ، فیملی اور پنشنرز مس کلاڈیا نولٹ نے کہا کہ خواتین کے حقوق سے متعلق کئی عشروں کی مہم کے بعد اب ماہرین کو مردوں کے کردار اور اسٹیٹس پر تشویش لاحق ہو گئی ہے۔
کونسل آف یورپ کے سیکرٹری جنرل ڈینئل ٹارسکی نے حکومتوں پر زور دیا کہ وہ فیملی معاملات میں مردوں کی فعال شمولیت میں اضافہ کے لیے مزید اقدامات کریں۔ انہوں نے کہا کہ خاندان کے بکھرنے کی صورت میں بچوں کی مالی ذمہ داریوں کا ہار ان کے والدوں پر بھی ڈالا جانا چاہیے۔ انہوں نے واضح کیا اگر خواتین مردوں کی ضرورت محسوس نہ بھی کریں تب بھی مردوں کو خواتین کی اور بچوں کو والدین کی ضرورت ہوتی ہے۔
(روزنامہ جنگ لندن، ۲۹ جون ۱۹۹۵ء)
مریضوں کے ساتھ جنسی تعلقات کی اجازت دی جائے
لندن (پی اے) کارِ مسیحائی انجام دینے والے اب یہ حق مانگنے والے ہیں کہ انہیں اپنے مریضوں کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے کی اجازت دی جائے۔ اور جو ڈاکٹر یہ حق استعمال کریں ان کے خلاف کوئی انضباطی کارروائی نہ کی جائے۔ معالجوں کے خیال میں متعلقہ قانون اب فرسودہ ہو چکا ہے۔
برائن میں برٹش میڈیکل ایسوسی ایشن کے سالانہ اجلاس میں اس پر غور کیا جائے گا کہ آیا مریض و معالج کے درمیان جنسی تعلقات کے قیام کی صورت میں معالج کا لائسنس خودبخود منسوخ ہو جانے کی سزا غیر منصفانہ تو نہیں؟ اجلاس میں پیش کی جانے والی قرارداد میں معالجوں کی تجویز ہے کہ مرتکب ڈاکٹر پر انتہائی سزا لاگو کرنے سے پہلے اے تنبیہ کی جانی چاہیے۔ پی ایم اے کی کونسل تجاویز پر غور کرے گی، بعد ازاں جنرل میڈیکل کونسل قوانین میں کوئی تبدیلی لا سکے گی۔
۱۹۸۶ء سے اب تک ایک سو ڈاکٹر مریضوں سے نامناسب جنسی یا جذباتی تعلقات قائم کرنے پر جی ایم سی کی ڈسپلنری کمیٹی کے سامنے پیش ہو چکے ہیں، جن میں سے پندرہ کے لائسنس معطل یا منسوخ ہوئے اور باقی کا کیریئر تباہ ہو گیا۔
اس قانون کے ناقدین کا کہنا ہے کہ باہمی رضامندی سے تعلقات قائم کرنے والے متعدد ڈاکٹروں کے کیریئر تباہ ہو گئے جبکہ مریضوں کی ہلاکت کے ذمہ دار معالجین کو اس سے کم سزا ملی۔ قرارداد پیش کرنے والے گسسٹن لیسٹر شائر کے جی پی ڈاکٹر مائیکل گردو نے کہا کہ قوانین کے غیر ضروری جوش و خروش سے نفاذ کی وجہ سے مریض بھی متاثر ہوئے ہیں۔ تاہم بعض دیگر کے خیال میں قانون میں ترمیم سے بعض ڈاکٹر ناجائز فائدہ اٹھائیں گے۔
رائل کالج آف جنرل پریکٹیشنرز کے ترجمان نے کہا کہ معالج اور مریض کے درمیان جنسی تعلق نہیں قائم ہونے چاہئیں اور اس معاملے کو زیر بحث نہیں لایا جانا چاہیے تاکہ عوام الناس یہ تاثر نہ لے سکیں کہ یہ معاملہ بحث کے لیے کھلا ہے۔
نیوزی لینڈ میں معالج مریض تعلقات کے بارے میں کی گئی بعض اسٹڈیز میں سے ایک کے مطابق دو تہائی ڈاکٹروں نے اعتراف کیا ہے کہ وہ جنسی طور پر اپنے مریض کی جانب راغب ہوئے اور ہر پچیسواں ڈاکٹر اپنے مریض کے ساتھ جنسی طور پر ملوث ہوا۔
پی ایم اے کے سینئر افسر نے کہا میں اپنے طلبا کو بتاتا ہوں کہ اکثر ڈاکٹر مریضوں سے تعلقات رکھتے ہیں اور مریض اسے پسند کرتے ہیں۔
مریضوں سے جنسی تعلقات سے متعلق ڈاکٹروں کے مطالبہ کے بعد برطانیہ میں ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے اور ریڈیو و اخبارات پر فون کر کے لوگ اس مطالبہ کے حق اور مخالفت میں اپنی آرا کا اظہار کر رہے ہیں۔ بعض افراد نے کہا ہے کہ اگر ڈاکٹروں کو اس طرح کی کوئی اجازت دی گئی تو ڈاکٹری کا مقدس پیشہ بدنام ہو گا۔
(روزنامہ جنگ لندن، ۲۴ جون ۱۹۹۶ء)
شوہر، مرد یا عورت؟
لندن (سٹاف رپورٹر) اپیل کورٹ نے ایک جوڑے کو سترہ سال بعد اس وقت طلاق کی اجازت دی ہے جب بیوی کو یہ علم ہوا کہ اس کا شوہر دراصل ایک عورت ہے۔ عدالت نے فیصلہ دیا ہے کہ ان کی شادی ’’دھوکہ‘‘ پر مبنی تھی۔ عدالت کو بتایا گیا کہ ’’خاوند‘‘ ہم بستری کے لیے پلاسٹر آف پیرس کا بنا عضو استعمال کرتا تھا لیکن بیوی نے ہمیشہ اسے مرد سمجھا۔ اس جوڑے کے دو بچے ہیں اور یہ بچے کسی اور کے عطیہ کیے گئے مادہ حمل سے ہوئے ہیں کیونکہ اس کے خاوند نے شادی کے وقت اسے بتایا تھا کہ اس نے ضبطِ تولید کا آپریشن کرایا ہے۔ اس شخص نے آپریشن کے ذریعے اپنی چھاتیاں بھی ختم کرا دی تھیں۔ دونوں کے درمیان طلاق کی کارروائی اس وقت شروع ہوئی جب بیوی نے اس پر مرد نہ ہونے کا الزام لگایا۔ چنانچہ ایک عدالت نے طلاق کی اجازت دے دی اور چار لاکھ پونڈ کے گھر میں حصہ سے بھی محروم کر دیا۔
’’مرد‘‘ یہ کیس اپیل کورٹ میں لے گیا، عدالت کو بتایا گیا کہ میاں بیوی کے درمیان جب تنازعہ کھڑا ہوا تو بیوی نے ایک سراغ رساں کی خدمات حاصل کیں جس نے اس کا برتھ سرٹیفکیٹ نکال لیا جس سے پتہ چلا کہ وہ پیدائشی طور پر عورت ہے۔ عدالت نے فیصلہ دیا ہے کہ ’’مرد‘‘ نے شادی کے وقت عورت کو دھوکہ دیا۔ اپیل کورٹ نے ماتحت عدالت کا فیصلہ بحال رکھا ہے۔
(روزنامہ جنگ لندن، ۱۹ جولائی ۱۹۹۶ء)
شاہی خاندان کی شادیاں
لندن (سٹاف رپورٹر) ملکہ ایلزبتھ شاہی نظام میں اصلاحات نافذ کرنے پر غور کر رہی ہیں۔ ان کے پیش نظر ایک پانچ نکاتی پروگرام ہے جس پر عملدرآمد کی صورت میں شہنشاہیت کی موجودہ شکل مکمل طور پر تبدیل ہو جائے گی۔ ملکہ جن تجاویز پر غور کر رہی ہے ان کے تحت چرچ آف انگلینڈ کے سربراہ کے طور پر ان کا رول ختم ہو جائے گا، اور کیتھولک مذہب رکھنے والوں کی شاہی خاندان میں شادی کی اجازت مل جائے گی۔ ملکہ سول لسٹ بھی ختم کرنے کے حق میں ہیں جبکہ وہ قانون میں تبدیلی کر کے ملکہ یا بادشاہ کے پہلے بچے کو، خواہ وہ لڑکی ہی کیوں نہ ہو، تخت کا وارث بنانا چاہتی ہیں۔ اسی طرح وہ سرکاری شاہی خاندان کی تعداد بھی محدود کرنا چاہتی ہیں۔
یہ تمام تجاویز ایک خفیہ کمیٹی نے تیار کی ہیں جس میں ملکہ، پرنس فلپ، ان کے بچے اور رائل فیملی کے چند افراد کے علاوہ ڈاؤننگ سٹریٹ کے حکام شامل ہیں۔ کمیٹی کا نام ’’وے آئیڈ گروپ‘‘ ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ملکہ انقلابی تبدیلیوں کے حق میں ہیں تاکہ شہنشاہیت ۲۱ویں صدی میں بھی پنپ سکے۔ سول لسٹ پر ان دنوں ۸ ملین پونڈ سالانہ سرکاری خزانہ سے خرچ ہوتے ہیں جو شاہی خاندان کے اخراجات کے لیے ہیں۔ ان کو ختم کرنے کے عوض شاہی خاندان کے سینئر ارکان کو رائل اسٹیٹس سے مخصوص آمدنی دی جائے گی۔
لیکن ملکہ یا بادشاہ کی حیثیت بطور سربراہ چرچ آف انگلینڈ ختم کرنے اور شاہی خاندان کو رومن کیتھولک سے شادی کی اجازت سے کئی آئینی مسائل کھڑے ہو سکتے ہیں۔ اس شادی پر پابندی ۱۷۰۱ء کے ’’ایکٹ آف سیٹلمنٹ‘‘ کے تحت لگائی گئی تھی۔ بکنگھم پیلس نے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ ملکہ نے ایک اسٹریٹجک پالیسی کمیٹی قائم کی ہے جو اصلاحات پر غور کر رہی ہے۔ محل کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ شہنشاہیت کے ایک ہزار سال تک زندہ رہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ خود کو تبدیلیوں میں ڈھالتی رہتی ہے۔
ملکہ ایلزبتھ بادشاہت کے نظام میں جن تبدیلیوں پر غور کر رہی ہیں ان میں سب سے اہم دو پہلو ہیں: ایک جانشینی کا مسئلہ اور دوسرا تخت کے وارث کی کیتھولک لڑکی سے شادی ہے۔ جانشینی کا موجودہ سلسلہ گیارہویں صدی سے چلا آ رہا ہے۔ موجودہ قانون کے تحت اگر پرنس چارلس اور ان کے دو بیٹے پرنس ولیم اور ہیری مر جاتے ہیں تو پرنس چارلس کے چھوٹے بھائی پرنس اینڈریو تخت کے وارث بنیں گے۔ لیکن قانون میں تبدیلی سے پرنسیس این تخت نشین ہو سکیں گی۔ تخت کے وارث کی کیتھولک عورت سے شادی پر پابندی کا قانون ۲۹۵ سال پرانا ہے۔ اس قانون کے تحت تخت کا وارث یہودی، مسلمان یا بدھ لڑکی سے تو شادی کر سکتا ہے لیکن کیتھولک لڑکی سے اس کی شادی نہیں ہو سکتی۔
(روزنامہ جنگ لندن، ۲۰ اگست ۱۹۹۶ء)
رومن کیتھولک چرچ اور جنسی آزادی
لندن (پی اے) رومن کیتھولک آرچ بشپ پر ایڈز سے بچاؤ کے تعلیمی پیک کی توثیق کرنے پر وٹیکن کی طرف سے سخت تنقید کی گئی ہے کیونکہ اس پیک میں کنڈوم کے استعمال کا مشورہ دیا گیا ہے۔ روم کے اسقف ہائے اعظم نے سینٹ اینڈریو اور ایڈنبرا کے آرچ بشپ کیتھ او برائن سے کہا ہے کہ وہ اس تعلیمی پیک پر سے اپنی توثیق واپس لیں` اس پیک کو تمام کیتھولک اسکولوں سے بھی واپس لیا جائے۔ یہ پیک دو کیتھولکوں نے تحریر کیا ہے۔
آرچ بشپ او برائن نے وٹیکن کے حکم پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا، تاہم چرچ کی طرف سے کہا گیا کہ انہوں نے اپنی توثیق واپس لے لی ہے۔ اسکاٹش کیتھولک میڈیا کے ڈائریکٹر ٹامکونلی نے کہا کہ کیتھولک چرچ جنسی عمل کو صرف شادی تک محدود کرتا ہے اور اس میں شادی کے بغیر جنسی عمل کی اجازت نہیں۔ اس لیے کنڈوم کا استعمال کیتھولک چرچ کی نظر میں ہمیشہ غلط رہا ہے۔
(روزنامہ جنگ لندن، ۱۳ نومبر ۱۹۹۵ء)
پادری کا مریدنی کے ساتھ فرار
گلاسگو (نمائندہ جنگ، طاہر انعام شیخ) سکاٹ لینڈ کا ایک پادری جس کی ایک ہفتے سے پراسرار گمشدگی کے متعلق چرچ کے حلقوں میں نہایت تشویش پائی جاتی تھی، اس کے اچانک غائب ہونے کا معمہ حل ہو گیا ہے۔ پتہ چلا ہے کہ آرگائل اینڈ آئی لینڈز کے ۵۵ سالہ رومن کیتھولک بشپ راڈرک کے اپنی ایک مرید خاتون تین بچوں کی ۴۰ سالہ ماں کے ساتھ گزشتہ کئی سالوں سے خفیہ تعلقات تھے۔ عورت کی رازدان سہیلیوں کے مطابق وہ آپس کی ملاقاتوں کے علاوہ ٹیلی فون پر بھی کئی کئی گھنٹے اظہارِ عشق کرتے رہے۔ فادر راڈرک اس خاتون کی مالی مدد بھی کیا کرتا تھا، اب دونوں باہمی رضامندی کے ساتھ نئی زندگی بسر کرنے کے لیے دنیا کی آنکھوں سے اوجھل ہو گئے ہیں۔
راڈرک کی اچانک گمشدگی پر چرچ کے حلقوں میں زبردست پریشانی پائی جاتی تھی اور اس کے لیے اکثر مقامات پر دعائیہ تقریبات منعقد ہو رہی تھیں۔ پادری کے مطلقہ عورت کے ساتھ فرار ہونے کی خبر منظر عام پر آنے کے بعد اس کے عقیدت مندوں، رومن کیتھولک کمیونٹی اور چرچ کے حلقوں میں افسردگی پائی جاتی ہے۔ اوبن میں چرچ لیڈروں کی ایک ہنگامی میٹنگ منعقد ہو رہی ہے جس میں اس نئی صورتحال پر غور کیا جائے گا۔ چرچ لیڈر ابھی تک پادری راڈرک کی خفیہ رہائش سے لاعلم ہیں۔ اگر متعلقہ پادری نے چرچ کے اعلیٰ حکام سے فوری رابطہ قائم نہ کیا تو ایڈنبرا اور سینٹ اینڈریوز کے آرچ بشپ وقتی طور پر اس کے چرچ کی ذمہ داریاں ادا کریں گے۔
دریں اثنا ایک ہفتے تک لاپتہ رہنے والے سکاٹ لینڈ کے رومن کیتھولک بشپ نے استعفیٰ دے دیا ہے اور اپنے ایک بیان میں معافی اور دعاؤں کی اپیل کی ہے۔
(روزنامہ جنگ لندن، ۱۷ ستمبر ۱۹۹۶ء)
پادریوں کو شادی کی اجازت دی جائے
لندن (پی اے) کیتھولک چرچ پر پھر دباؤ پڑ رہا ہے کہ وہ پادریوں کے غیر شادی شدہ ہونے کا قانون منسوخ کرے۔ سروے کے مطابق کیتھولکس کی اکثریت پادریوں کے شادی شدہ ہونے کے حق میں ہے۔ چرچ کے حلقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو یقین ہے کہ یہ قانون جو صدیوں سے متنازع ہے، آخر کار بدل جائے گا۔ سروے ویکلی کیتھولک ہیرالڈ نے ایسے موقع پر کیا ہے جب بشپ راڈرک رائٹ کے حالیہ افیئر سمیت متعدد سکینڈل سامنے آئے ہیں۔ ۱۸ ماہ قبل کیتھولک ٹائمز نے بھی ایسا ہی سروے کیا تھا جس کے نتائج بھی ایسے ہی برآمد ہوئے تھے۔ کیتھولک ہیرالڈ نے میں سال قبل بھی سروے کیا تھا جس کے نتائج کے مطابق ہر تین رائے دہندگان میں سے صرف ایک قانون میں تبدیلی کا حامی تھا۔
(روزنامہ جنگ لندن، ۳ نومبر ۱۹۹۶ء)
ہم جنس پرستوں کا بچہ
گلاسگو (طاہر انعام شیخ، نمائندہ جنگ) سائنس کی ترقی نے جہاں نوع انسانی کے لیے بے شمار سہولتیں پیدا کی ہیں وہاں اس کے غلط استعمال سے پوری معاشرتی قدریں تہ و بالا ہو سکتی ہیں۔ سکاٹ لینڈ میں دو ہم جنس پرست مردوں کے ہاں بچی کی پیدائش کے بعد اس کی پرورش کے معاملے میں ہنگامہ برپا ہو گیا ہے۔ بلی زیک اور مارٹن ایڈمز جو کہ ایڈنبرا کے ایک شاندار مکان میں کئی سال سے ازدواجی زندگی بسر کر رہے تھے، ان کو یوں تو زندگی کی سبھی آسائشیں میسر تھی لیکن اولاد کی کمی ان کو ہمیشہ کھٹکتی رہتی۔ اس گھمبیر مسئلے کا حل انہوں نے یوں نکالا کہ بلی زیک نے ہزاروں پونڈ خرچ کر کے امریکہ کی ایک عورت کو اپنے سپرم دے کر کرائے کی ماں بننے پر آمادہ کر لیا۔ اور مصنوعی طریقے سے جو بچی پیدا ہوئی، اس کا نام دونوں مردوں بلی زیک اور مارٹن آدمز کے نام پر سارہ کلیر آدم زیک رکھا گیا۔ والدین جو بچی کی پیدائش پر نہایت خوش تھے، اس خبر کے عام ہوتے ہی چھ ہفتے کی بچی کو لے کر کہیں روپوش ہو گئے ہیں اور ایڈنبرا میں ان کے گھر کے باہر رالپر سٹریٹ میں میڈیا والوں کا جمگھٹا لگا ہوا تھا۔
اس طریقہ پیدائش اور بچی کی پرورش میں پیش آنے والی فطری مشکلات کے پیش نظر چرچ لیڈروں، ممبران پارلیمنٹ، سماجی اداروں اور سوشل ورکرز نے سخت اعتراضات کیے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ دونوں مرد مل کر بھی ماں کی فطری کمی کو پورا نہیں کر سکیں گے۔ محلے کی ایک عورت نے اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ دونوں مرد علاقے کی شہرت نہیں بلکہ بدنامی کا باعث بنے ہیں۔
(روزنامہ جنگ لندن، ۳ ستمبر ۱۹۹۶ء)
ٹیچر کے خلاف ہنگامہ
گلاسگو (نمائندہ جنگ، طاہر انعام شیخ) سکاٹ لینڈ میں ایک سکول کی نوجوان لڑکیوں نے اپنے ایک مرد استاد کے خلاف ہڑتال کر دی ہے کیونکہ اس نے اپنی کلاس میں عریاں قسم کے لباس پہننے سے منع کیا تھا۔ واقعات کے مطابق کرک لینڈ ہائی سکول کے مذکورہ استاد نے اپنی شاگرد لڑکیوں سے کہا کہ ان کے جنسی جذبات ابھارنے والے منی سکرٹ اور تنگ شرٹ سے جسم کے پوشیدہ حصے غیر ضروری طور پر نمایاں ہو رہے ہیں لہٰذا وہ اس قسم کا لباس پہن کر سکول آیا کریں جس سے شرم و حیا اور تقدس قائم رہے۔ لیکن نوجوان لڑکیاں اپنے استاد کے ان ریمارکس پر اتنی ناراض ہوئیں کہ کلاس میں چالیس کی چالیس لڑکیاں احتجاج کرتے ہوئے باہر نکل آئیں اور کہا کہ وہ اس وقت تک کلاس میں واپس نہیں جائیں گی جب تک کہ اس استاد کو ملازمت سے برطرف نہیں کر دیا جاتا۔ لڑکیوں کا موقف تھا کہ ان کا لباس سکول کی یونیفارم پالیسی کے بالکل مطابق ہے۔ ایک پندرہ سالہ طالبہ نے کہا کہ یہ استاد کیا چاہتا ہے کہ ہم اس گرمی کے موسم میں لمبی پتلون اور جرسی پہن کر آئیں۔ صورتحال پر قابو پانے کے لیے پولیس طلب کر لی گئی ہے اور طلبہ کے نمائندوں و سینئر اساتذہ کے درمیان مذاکرات شروع ہو گئے ہیں۔
(روزنامہ جنگ لندن، ۲۸ ستمبر ۱۹۹۶ء)
عورتوں کے لیے گاڑیاں بنانے کا مطالبہ
لندن (جنگ نیوز) خاتون ڈرائیور خطرناک ہوتی ہیں، کم از کم اپنے لیے۔ یہ بات تازہ ترین سرکاری تحقیق میں معلوم ہوئی ہے۔ سنڈے ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں مانچسٹر یونیورسٹی کے ’’ڈرائیورز بی ہیورل یونٹ‘‘ کے لیکچرر ڈاکٹر ائیو اسٹریڈلنگ کے حوالے سے بتایا ہے کہ خاتون ڈرائیوروں کو کار کے حادثات میں زخمی ہونے کا خطرہ مردوں کے مقابلے میں ۴۰ فیصد زیادہ ہوتا ہے اور اس کی وجہ اسٹیرنگ وہیل پر ان کی ضرورت سے زیادہ توجہ ہوتی ہے۔ خواتین گاڑی چلاتے ہوئے بہت محتاط ہوتی ہیں۔ دوسری طرف گاڑی کی ساخت خواتین کی جسمانی ساخت سے مطابقت نہیں رکھتی۔ یہ معاملہ اب ڈرائیونگ کے ماہرین کے درمیان شدت سے زیر بحث ہے۔ ڈاکٹر اسٹریڈلنگ نے کہا کہ خواتین دھیمی رفتار سے گاڑی چلانا چاہتی ہیں، انہیں حادثات کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے اسی لیے وہ حادثات کا زیادہ شکار بھی ہوتی ہیں۔ ریسرچ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ خواتین کے لیے علیحدہ گاڑیاں بنائی جائیں جن کی تیاری میں ان کی جسمانی ساخت کا خیال رکھا جائے۔
(روزنامہ جنگ لندن، ۲ اکتوبر ۱۹۹۷ء)
سکول یا قحبہ خانے؟
لندن (جنگ نیوز) برطانیہ میں نو عمر بچیوں کے ماں بننے کا تناسب یورپ میں سب سے زیادہ ہے۔ شیڈو منسٹر ہیریٹ ہرمن کے حاصل کردہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق انگلینڈ اور ویلز سکول گرلز کے حاملہ ہونے کے لحاظ سے سرفہرست ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ برطانوی والدین اپنے بچوں سے زیادہ اوپن نہیں ہیں اور اس سلسلے میں ان کی رہنمائی نہیں کرتے۔
اعداد و شمار کے مطابق ۱۵ سے ۱۹ سال کی ہزار میں سے ۳۳ لڑکیاں حاملہ ہو جاتی ہیں جن کی بڑی تعداد نے ۱۷ سال کی عمر میں پہلی بار جنسی عمل کر لیا ہوتا ہے۔ اسکاٹ لینڈ اور السٹر میں یہ شرح بالترتیب ۳۲ اور ۲۹ ہے۔ یہ شرح ہالینڈ میں سب سے کم ہے جہاں اس عمر کی صرف ۴ فی ہزار لڑکیاں حاملہ ہوتی ہیں۔ باقی ممالک میں یہ شرح کچھ یوں ہے: فرانس (۸.۸) ڈنمارک (۹.۱) بلجیم(۹.۳) اٹلی (۹.۸) جرمن (۱.۴۶) فن لینڈ (۱۲.۴) اسپین (۱۳.۴) آئرلینڈ (۱۶.۲) آسٹریلیا (۲۱.۳) یونان (۲۱.۸) پرتگال (۲۴.۶) اور شمالی آئرلینڈ (۲۹.۳)
(روزنامہ جنگ لندن، ۴ ستمبر ۱۹۹۶ء)
کم عمر ماؤں کی شادیاں
لندن (جنگ نیوز) امریکہ میں شادی سے قبل جنسی تعلقات کے نتیجے میں ماں بننے والی نو عمر لڑکیوں اور ان کے بوائے فرینڈز کو شادی کے بندھن میں باندھا جا رہا ہے۔ امریکی ریاست کیلفورنیا کی اورنج کاؤنٹی میں حالیہ مہینوں میں ۱۵ ایسی لڑکیوں کی سوشل سروس کی جانب سے ان کے بچوں کے باپوں سے شادی کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ ان میں سے بعض لڑکیوں کی عمر صرف ۱۳ سال ہے۔ کاؤنٹی کے سوشل سروسز ڈپارٹمنٹ کے سربراہ لیری لیمین کے مطابق اس اسکیم کا مقصد لڑکیوں کی زندگی تباہ ہونے سے بچانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کا مقصد پیسوں کی بچت نہیں بلکہ کم عمر ماؤں کی تعداد میں کمی لانا ہے۔ واضح رہے کہ کیلفورنیا میں ملک بھر میں سب سے زیادہ کم عمر لڑکیاں مائیں بنتی ہیں۔ بعض حلقوں نے اس اسکیم پر اعتراض کیا ہے تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ کم عمر لڑکیوں کو حاملہ کرنے کے ذمہ داروں کو ان کے بچوں کا باپ بننے کی ذمہ داری بھی قبول کرنی چاہیے۔
(روزنامہ جنگ لندن، ۱۰ ستمبر ۱۹۹۶ء)
کھلے بندوں شراب نوشی پر پابندی کا مطالبہ
لندن (سٹاف رپورٹر) حکومت پولیس کو اختیارات دے رہی ہے کہ وہ ۱۸ سال سے کم عمر کے نوجوانوں سے، جو سرِعام الکحل استعمال کرتے ہیں، شراب ضبط کرے اور ان کے نام اور ایڈریس لے۔ یہ تجویز ہوم آفس کے ایک مشاورتی پیپر میں پیش کی گئی ہے۔ ہوم آفس کے وزیر مملکت ٹموتھی کرک ہوپ کا کہنا ہے کہ شراب کے نشہ میں لوگوں کی پراپرٹی پر حملہ کرنے اور عوامی جگہوں پر گڑبڑ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا اکثر لوگ کم عمر بچوں کی شراب نوشی کے خلاف ہیں، خصوصاً جب ہنگامہ کرتے ہیں انہیں شدید تکلیف ہوتی ہے۔ پولیس نے ان تجاویز کو سراہا ہے اور وہ لیبر پارٹی کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرے گی کیونکہ لیبر پارٹی بھی لا اینڈ آرڈر کے سلسلہ میں سختی کی قائل ہے۔ حکومت کی تجاویز کے تحت سرعام شراب نوشی پر ممانعت ہوگی۔
اس سے قبل گلاسگو کونسل نے بڑھتے ہوئے تشدد اور ہنگاموں کے پیش نظر کھلے بندوں شراب پر پابندی لگا دی ہے۔ نومبر ۱۹۸۸ء میں کاؤنٹری پہلا شہر تھا جس نے یہ پابندی لگائی، جو لوگ اسے نظر انداز کرتے ہیں انہیں ایک سو پونڈ جرمانہ کیا جاتا ہے۔ پابندی کے پہلے سال جرائم میں ۲۱ فیصد کمی ہوئی۔ ۱۹۸۹ء میں ہاتھ کی سٹی کونسل نے کاؤنٹری کی تقلید کی لیکن اس کے خلاف احتجاج ہوا۔ ۱۹۹۳ء میں گرنیچ لندن کا پہلا برا تھا جس نے سرعام شراب نوشی پر پابندی لگائی۔
(روزنامہ جنگ لندن، ۱۰ ستمبر ۱۹۹۶ء)
ہم جنس پرست ارکان پارلیمنٹ
لندن (سٹاف رپورٹر) برطانوی عوام کی ۷۸ فیصد اکثریت اس حق میں ہے کہ ہم جنس پرست ارکان پارلیمنٹ کھل کر اعتراف کریں کہ ان کا دوسرے مرد سے ’’معاشقہ‘‘ ہے۔ ۶۲ فیصد کی رائے ہے کہ فوج میں جنرل اپنی ہم جنس پرستی کا اعتراف کریں تو لوگ اسے ناپسند نہیں کریں گے۔ چرچ اور مذہبی اداروں میں کام کرنے والے ہم جنس پرستوں کے اعتراف کی حمایت کے حق میں ۲۰ فیصد، ٹیچرز کے حق میں ۷۳ فیصد رائے ہے۔ سروے میں کہا گیا ہے کہ اگر ارکانِ پارلیمنٹ ہم جنس پرستی کا اعتراف کریں گے تو ووٹر ان کے خلاف نہیں جائیں گے۔
(روزنامہ جنگ لندن، ۱۵ دسمبر ۱۹۹۵ء)
چرس پینے کی اجازت دی جائے
لندن (ریڈیو رپورٹ) برطانیہ کے ڈیڑھ سو وکلاء، ڈاکٹروں، اداکاروں اور دیگر سرکردہ شخصیات کی جانب سے ایک عرضداشت ’’ٹائمز‘‘ میں شائع ہوئی ہے جس میں اپیل کی گئی ہے کہ برطانیہ میں چرس پینے کی قانوناً اجازت دی جائے۔ بی بی سی کے مطابق ان شخصیات نے کہا ہے کہ چرس کو غیر قانونی قرار دینا شروع سے ہی ایک غلط فیصلہ تھا، اس لیے اب وقت آگیا ہے کہ معاشرہ انسدادِ منشیات کے قوانین پر معقول انداز میں نظر ثانی کرے۔
ایک اندازے کے مطابق برطانیہ میں ۵۰ لاکھ افراد یا باقاعدہ چرس پیتے ہیں یا اس کے نشے سے روشناس ہو چکے ہیں۔ ان شخصیات کا کہنا ہے کہ یہ نشہ تمباکو اور شراب جتنا خطرناک نہیں۔ بی بی سی کے مطابق ہالینڈ میں چرس اپنے پاس رکھنا کوئی جرم نہیں۔ ایمسٹرڈیم شہر کے کئی کافی ہاؤس ایسے ہیں جہاں سے چرس با آسانی ملتی ہے۔
(روزنامہ جنگ لندن، ۱۳ جنوری ۱۹۹۶ء)
شہزادی کے ساتھ بدکاری کی سزا موت
لندن (سٹاف رپورٹ) ایک برطانوی ماہر قانون نے کہا ہے کہ ایک سابق برطانوی میجر جیمز ہیوٹ کو، جس نے پرنسس ڈیانا سے ہم بستری کا دعویٰ کیا ہے، غداری کے ایکٹ ۱۳۵۱ء کے تحت موت کی سزا ہو سکتی ہے۔ اس ایکٹ کے تحت تخت کے وارث کی بیوی کے ساتھ مباشرت منع ہے۔ ایکٹ کا مقصد یہ تسلی کرنا بھی ہے کہ تخت کا وارث ناجائز اولاد نہیں۔ ماہر قانون مارک سٹیفنز کا کہنا ہے کہ ’’جو شخص بادشاہ یا ملکہ کے سب سے بڑے بیٹے اور تخت کے وارث کی بیوی کے ساتھ اخلاقی حدود کو پھلانگ جاتا ہے وہ غداری کا مرتکب ہوتا ہے، اس کی سزا موت ہے’’۔
(روزنامہ جنگ لندن، ۵ اکتوبر ۱۹۹۴ء)