لندن (سلطان محمود) انگلستان کے ولی عہد شہزادہ چارلس کی اسلام میں بڑھتی ہوئی دلچسپی اور رغبت سے مغربی ممالک کے مذہبی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے اور انہوں نے چارلس کے اس رویہ کو جواز بنا کر ان کے خلاف بھرپور مہم کا آغاز کر دیا ہے۔
پرنس چارلس، جنہوں نے حال ہی میں خلیجی ریاستوں کا سرکاری دورہ کیا تھا، کے قریبی حلقوں کے مطابق چارلس مسلمانوں کے طرزِ زندگی اور اسلام حکم (اسلامی احکام) سے بہت متاثر ہوئے ہیں اور اسلامی نظریہ کا مطالعہ کر رہے ہیں۔
لندن کی مضافاتی کاؤنٹی سیکس کے ٹاؤن ہال میں برطانوی دانشوروں، سائنسدانوں، ماہرین تعلیم اور سرکردہ مذہبی سکالروں کے غیر معمولی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے پرنس چارلس نے کھل کر اسلامی عظمت کا اعتراف کیا۔ انہوں نے اسلام کی پیروی کو حیاتِ انسانی کے موجودہ تمام مسائل اور محرومیوں کا بہترین حل قرار دیا۔
پرنس چارلس کے اس غیر متوقع استدلال سے عیسائی سامعین ششدر رہ گئے اور ہال میں کھسر پھر شروع ہو گئی، لیکن چارلس نے اسے نظر انداز کرتے ہوئے اور خطاب جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اسلام بے شک اللہ کا ایک محبوب مذہب ہے، اگر دنیا میں ذہنی آسودگی، روحانی تسکین اور سکون کے ساتھ ساتھ آخرت میں اللہ کے حضور اپنی نجات چاہتے ہیں تو اسلام کا راستہ اپنانے سے یہ مقاصد حاصل ہو سکتے ہیں۔
چارلس نے مغربی دنیا کے مادہ پرست اور سرمایہ دارانہ نظام کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ رویہ استحصال اور عوام میں عدمِ مساوات کی خرافات کو فروغ دینے کا سبب ہے۔ (جہاں تک) میری دانست اور فکر کا تعلق ہے تو میرے نزدیک اس وقت اسلام ہی ایسا ضابطۂ حیات ہے جو مساوات، انسانی برابری، اور معاشرتی انصاف کی منزل دکھاتا ہے، اور اس منزل پر پہنچ کر ہی انسان کے لیے پر سکون زندگی کا حصول ممکن ہے۔ اگر ہم اپنی روز مرہ کی زندگی کے لیے اسلام کی ان خوبیوں سے استفادہ کریں تو یہ دنیا تمام انسانوں کے لیے جنت ثابت ہوگی۔
برطانیہ کے مذہبی رہنماؤں (عیسائی) اور خصوصاً یہودی لابی نے پرنس چارلس کے اسلامی فلسفوں کی حمایت میں تقریر کا سخت نوٹس لیا اور انہوں نے اپنے اخباری بیانات میں برطانوی ولی عہد کو یاد دلایا ہے کہ وہ کسی اسلامی ملک کے نہیں بلکہ برطانیہ کے ہونے والے بادشاہ ہیں۔ یاد رہے کہ پچھلے دنوں شہزادی ڈیانا کے بارے میں سننے میں آیا تھا کہ وہ اسلامی فکر کی قائل ہو چکی ہیں۔
(روزنامہ نوائے وقت، ۱۶ دسمبر ۱۹۹۶ء)