مذہب اسلام ایک نہایت جامع اور مکمل مذہب ہے جس میں انسان کی زندگی کے مختلف اور متنوع گوشوں پر سیر حاصل ہدایات موجود ہیں۔ انسان اپنی زندگی کے کسی موڑ اور کسی مرحلہ میں کسی ایسی الجھن میں مبتلا نہیں ہوتا جس میں اسلام نے اس کی رہنمائی نہ کی ہو اور عقائد و اعمال اور اخلاق و معاملات کے سبھی پہلوؤں پر حسب ضرورت روشنی نہ ڈالی ہو۔ اس وقت دنیا میں کوئی مذہب ایسا نہیں بتایا جا سکتا جو اپنی جامعیت میں اسلام کے ہم پلہ تو کیا اس کا عشر عشیر بھی ثابت ہو سکے اور صداقت اسلام تو اس پر مستزاد ہے، مگر صد افسوس ہے کہ اس برحق، بہترین اور اعلیٰ مذہب کو مسلمان اپنانے اور اس کے نفاذ سے بھی جی چراتے اور شرماتے ہیں۔
جس کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ مغربی تہذیب کی نحوست نے ان کے دل و دماغ کو ماؤف اور آنکھوں کو خیرہ کر دیا ہے اور خواہشات و اہوا کی آزادی انہیں اسلام کی حدود و قیود پر پابند رہنے کی راہ میں سخت رکاوٹ ڈالتی ہے اور آئے دن اسلام کی نت نئی تعبیریں اور تفسیریں کی جاتی ہیں اور عقل و خرد اور رفتار زمانہ کے ساتھ ساتھ چلنے اور اسلامی اصول و فروع کو اس نہج پر ڈھالنے کے لیے خوشنما اور دلربا الفاظ اور تعبیر سے تلقین کی جاتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ فکر خداداد بھی ایک نعمت ہے مگر اسی حد تک جب تک کہ شریعت کے مطابق ہو، ورنہ بقول علامہ اقبال مرحوم یہ ابلیس کی ایجاد ہے ؎
گو فکرِ خداداد سے روشن ہے زمانہ
آزادئ افکار ہے ابلیس کی ایجاد
انسانی زندگی کے سفر میں ایک مرحلہ نکاح کا بھی آتا ہے جس پر قرآن و حدیث میں کھرے کھرے احکام اور اس کی ترغیب پر صریح ارشادات موجود ہیں۔ کہیں اس کو نصف دین سے تعبیر فرمایا (مشکوٰۃ جلد ۲ ص ۲۶۸) اور کہیں مستطیع کے لیے اس سے اعراض پر سنت سے اعراض کرنے کی وعید فرمائی (بخاری جلد ۲ ص ۷۵۸) اور کہیں یہ ارشاد ہے کہ چار چیزیں حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کی سنتوں میں سے ہیں: حیا کرنا، خوشبو لگانا، نکاح کرنا اور مسواک کرنا (الجامع الصغير جلد ا، ص ۳۷ وقال حسن)
غرضیکہ تکمیل انسانیت کے لیے ازدواجی زندگی کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ اور جب نکاح کرنا اور شرعی دائرہ میں رہ کر میاں بیوی کا گہرا تعلق رضائے الٰہی، اتباع سنت اور تکمیل انسانیت کا ایک بہترین ذریعہ ہے تو اس تعلق کا توڑنا بھی اسی انداز کا مبغوض و ناپسندیدہ امر ہوگا جس قدر کہ وہ محبوب ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں حلال کی ہیں، ان میں طلاق سے زیادہ مبغوض اور کوئی چیز نہیں ہے (الجامع الصغیر جلد ۲ ص ۴۲ و قال حسن و مستدرک جلد ۲ ص ۱۹۶ و قال الحاكم صحیح الاسناد و قال الذہبی صحیح علیٰ شرط مسلم)
اس سے معلوم ہوا کہ طلاق باوجود حلال اور جائز ہونے کے اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک مبغوض ترین چیز ہے اور اللہ تعالیٰ بلا وجہ طلاق پر راضی نہیں ہوتا۔
اور حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس عورت نے بلا کسی مجبوری کے اپنے خاوند سے طلاق کا مطالبہ کیا تو اس پر اللہ تعالیٰ جنت کی خوشبو حرام کر دیتا ہے (الجامع الصغیر جلد ا ص ۱۳۷ و قال حسن و مستدرک جلد ۲ ص ۲۰۰ وقال الحاكم والذہبی صحیح علیٰ شرطہما)
اس صحیح اور صریح روایت سے معلوم ہوا کہ بدون اشد مجبوری کے طلاق کا مطالبہ درست نہیں ہے اور ایسا مطالبہ کرنے والی عورت کو تشدید اور تنبیہ کے طور پر یہ ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ اس پر جنت کی خوشبو بھی حرام کر دیتا ہے چہ جائیکہ وہ جنت میں داخل ہو سکے۔
مگر آخر انسان انسان ہے بعض اشد اور ناگزیر حالات میں مذہب اسلام نے طلاق کی اجازت بھی دی ہے اور اس کی قیود و حدود بھی متعین فرمائی ہیں۔ دور جاہلیت میں سو سو بلکہ ہزار ہزار تک طلاقیں دے کر رجوع کر لینے کا دستور بھی تھا مگر اسلام نے اس کی حد بندی کر دی اور بیوی کے مغلظہ ہونے کا تین طلاقوں میں انحصار کر دیا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے (جس کا خلاصہ یہ ہے) کہ طلاق دو دفعہ کی ہے، اس کے بعد یا تو اچھے طریقہ سے رکھنا مناسب ہے یا عمدہ طریقہ سے چھوڑ دینا اچھا ہے، لیکن اگر اس کے بعد تیسری طلاق بھی دے دی تو اب وہ عورت اپنے سابق خاوند کے لیے حلال نہیں تاوقتیکہ وہ کسی اور خاوند سے نکاح نہ کر لے۔