لندن (پ پ) پرنس آف ویلز چارلس نے اسلام اور مغرب کے درمیان مفاہمت کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ جمعہ کے روز ولٹن پارک کے قیام کے ۵۰ سال مکمل ہونے کے سلسلے میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا اسلام نے ہمارے اردگرد کی دنیا کے تقدس کا زیادہ مربوط نظریہ برقرار رکھا ہے۔ اسلامی روایات کا احترام کر کے مغرب اپنی روایات کو تلاش کر سکتا ہے اور اس طرح دونوں عقیدوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں مدد مل سکتی ہے۔ زیادہ تعداد میں مسلمان اساتذہ کو مقرر کر کے انگریز بچوں کو اسلامی اقدار کے بارے میں زیادہ معلومات فراہم کی جا سکتی ہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں جب شہزادہ چارلس نے، جو آکسفورڈ سنٹر فار اسلامک سٹڈیز کے سرپرست بھی ہیں، اسلامی اقدار کو سربلند کرنے کی بات کی ہے۔ ۱۹۹۲ء میں بھی انہوں نے اسلام اور مغرب کے درمیان مفاہمت کی بات کی تھی۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ میرا تبصرہ روحانی امور سے متعلق ہے، اسلام کی سیاسی اور سماجی اقدار کا تجزیہ نہیں۔ سائنس نے ہماری سوچ پر اجارہ داری حاصل کر لی ہے۔ ہم مغرب میں رہنے والے اب اس کے خطرناک نتائج سے آگاہ ہو رہے ہیں۔ ہم اپنے ماحول کی سالمیت اور پوری کائنات سے متعلق سوچ سے عاری ہو چکے ہیں۔ سائنس نے دنیا کے بہت سے حقائق ہم پر واضح کر دیے ہیں، وہ سب کچھ بتانے سے قاصر ہے۔
انہوں نے کہا کہ خدا محض ایک حساب دان نہیں۔ انہوں نے فرانسس بیکن کے مقولے کو دہرایا کہ اللہ ان لوگوں کو قائل کرنے کے لیے معجزے نہیں کرے گا جو گھاس کے پتے کے اگنے اور بارش برسنے کے معجزے محسوس نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کو دو عظیم عقیدوں کے درمیان پھر سے پل دریافت کرنے کی ضرورت ہے اور یہ پل ہماری انسانیت کا اظہار ہے۔ انہوں نے کہا عظیم تاریخ دان ابن خلدون شہری منصوبہ بندی کے بارے میں سمجھتا تھا کہ شہری زندگی اور روحانی آسودگی تہذیب کی اہم بنیاد ہے۔ کیا ہمارے شہروں میں کبھی ایسا میل ملاپ پیدا ہو سکتا ہے؟
(روزنامہ نوائے وقت اسلام آباد ۱۶ دسمبر ۱۹۹۶ء)