علماء کرام پورے اعتماد اور دلجمعی کے ساتھ مغربی ثقافت کا مقابلہ کریں
ورلڈ اسلامک فورم کے چوتھے سالانہ تعلیمی سیمینار کی رپورٹ

ورلڈ اسلامک فورم کا چوتھا سالانہ تعلیمی سیمینار ۲۴ اکتوبر ۱۹۹۶ء کو جامعہ الہدیٰ نوٹنگھم برطانیہ میں منعقد ہوا جس میں مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں کی دینی تعلیم کی ضروریات کا جائزہ لیا گیا اور اس میں مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والے علماء کرام اور دانشوروں نے شرکت کی۔ 

سیمینار کی پہلی نشست کی صدارت ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی نے کی اور سعودی عرب کے ممتاز دانشور ڈاکٹر محمد المسعری نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔ جبکہ دوسری نشست کی صدارت جامعہ اسلامیہ نیوارک کے شیخ الحدیث مولانا فضل رحیم نے کی اور پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر خالد علوی بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے۔ 

سیمینار میں مسلمانوں کے لیے الگ اسکولز کی ضرورت، دینی جامعات کے نظام، اور قرآن کریم کی تعلیم کے شام کے مکاتب کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا اور اس سلسلہ میں مختلف تجاویز طے کی گئیں۔ 

سیمینار کے مقررین اور بحث میں حصہ لینے والوں میں ورلڈ اسلامک فورم کے سیکرٹری جنرل مولانا عیسیٰ منصوری، مدنی ٹرسٹ کے چیئرمین ڈاکٹر اختر الزمان غوری، المہاجرون کے امیر الشیخ عمر بکری محمد، مولانا امداد الحسن نعمانی، مولانا قاری تصور الحق، مولانا رضاء الحق سیاکھوی، مولانا محمد قاسم، مولانا اور نگزیب، فیض اللہ خان اور جناب رفعت لودھی شامل ہیں۔ 

سیمینار میں جامعہ الہدیٰ کے پرنسپل مولانا ضیاء الحق سیاکھوی نے جامعہ کے قیام کا پس منظر بیان کرتے ہوئے بتایا کہ جامعہ الہدیٰ کا قیام اسی مقصد کے لیے عمل میں لایا گیا ہے کہ دینی تعلیم کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کر کے ایک متوازن نظام تعلیم سامنے لایا جائے، اور عالم اسلام کی معروف علمی شخصیت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی سرپرستی میں جامعہ نے اپنی تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گذشتہ ہفتے کے دوران جامعہ میں طالبات کی پہلی کلاس کا آغاز ہو گیا ہے اور مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نے لکھنو سے فون پر پہلا سبق پڑھا کر کلاس کا افتتاح کیا ہے۔ جبکہ دیگر شعبوں میں دینی تعلیم اور دعوتِ اسلام کا مربوط پروگرام طے کیا جا رہا ہے اور ہمارا بنیادی ہدف جامعہ الہدیٰ کو اسلام کی دعوت اور تعلیم کا ایک مثالی مرکز بنانا ہے۔ 

ورلڈ اسلامک فورم کے تعلیمی پروگرام ’’اسلامک ہوم سٹڈی کورس‘‘ کے ڈائریکٹر مولانا اورنگزیب نے کورس کی سالانہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ انگلش اور اردو میں دینی تعلیمات کے اس دو سالہ خط و کتابت کورس میں اس وقت برطانیہ اور دیگر ممالک کے پندرہ سو کے لگ بھگ طلبہ اور طالبات شریک ہیں، اور اسے برطانیہ کے تعلیمی حکام نے بھی اسلامک سٹڈی کے او لیول کے کورس کے طور پر تسلیم کر لیا ہے، جو کہ یورپ میں اسلامک سٹڈی کے کسی پروگرام کے سرکاری سطح پر قبول کیے جانے کا پہلا موقع ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ پروگرام ورلڈ اسلامک فورم نے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ دعوۃ اکیڈیمی کے تعاون سے شروع کیا ہے اور انتظامی طور پر اس کے تمام امور کا مدنی ٹرسٹ ذمہ دار ہے اور اس کے دفاتر جامعہ الہدیٰ نوٹنگھم میں کام کر رہے ہیں۔

سیمینار کے شرکاء نے اسلامک ہوم سٹڈی کو اس پروگرام میں مثبت پیشرفت پر اطمینان کا اظہار کیا اور او لیول کے بعد اے لیول پر کورس کو آگے بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا، جس پر طے پایا کہ اسلامی تعلیمات کے اس خط و کتابت کورس کو ڈگری کلاسز تک آگے لے جایا جائے گا۔ چنانچہ اے لیول پر کورس کے نصاب اور دیگر تفصیلات کے تعین کے لیے ڈاکٹر محمد المسعری اور مولانا اورنگزیب پر مشتمل کمیٹی مقرر کی گئی جو اس سلسلہ میں تمام ضروری امور کا جائزہ لے کر رپورٹ پیش کرے گی۔

پروفیسر ڈاکٹر خالد علوی نے قرآن کریم کی تعلیم کے شام کے مکاتب کے بارے میں ایک جامع رپورٹ پیش کی جس میں مسلمان بچوں کو دین سے وابستہ کرنے کے لیے اس کام کو انتہائی ضروری، مفید اور نتیجہ خیز قرار دیتے ہوئے شام کے مکاتب کے نظام و نصاب کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلہ میں تین باتوں پر توجہ دینے کی زیادہ ضرورت ہے:

  1.  ایک یہ کہ بچوں کو دن کا زیادہ حصہ اسٹیٹ اسکولز کے ماحول میں رہنے کا موقع ملتا ہے اور شام کو وہ صرف دو گھنٹے مسجد یا مکتب میں گزارتے ہیں، اس لیے لازماً‌ وہ اسکول کے ماحول کے اثرات زیادہ قبول کرتے ہیں۔ 
  2. دوسری بات یہ کہ جس کشش اور سہولتوں کا اہتمام اسٹیسٹ اسکولوں میں موجود ہے، شام کے دینی مکاتب کا ماحول اس سے قطعی طور پر مختلف ہوتا ہے، اور طلبہ کی تعداد کے لحاظ سے اساتذہ کی تعداد بھی بہت کم ہوتی ہے۔ 
  3. اور تیسری بات یہ کہ ہر مکتب فکر اور علاقے سے تعلق رکھنے والے حضرات نے اپنے اپنے مکاتب میں الگ الگ نصاب مقرر کر رکھے ہیں اور ان کی ترجیحات ایک دوسرے سے مختلف ہیں، جس کی وجہ سے ان مکاتب میں تعلیم پانے والے بچوں میں ذہنی ہم آہنگی اور فکری وحدت پیدا کرنے کا مقصد پورا نہیں ہو رہا۔ 

سیمینار میں اس رپورٹ کا تفصیل کے ساتھ جائزہ لینے کے بعد مولانا قاری تصور الحق اور جناب فیض اللہ خان پر مشتمل کمیٹی مقرر کی گئی جو شام کے دینی مکاتب میں پڑھائے جانے والے مختلف نصابوں کو جمع کر کے ان کا جائزہ لے گی، ان سب کو سامنے رکھ کر ایک مشترکہ نصاب کا خاکہ مرتب کرے گی، اور مختلف مکاتبِ فکر کے علماء کرام اور تعلیمی ماہرین سے رابطہ کر کے مشترکہ نصاب پر اتفاق رائے حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔ اس کے کمیٹی ویک اینڈ کے ہفتہ وار تعلیمی مکاتب کا بھی جائزہ لے گی اور ان کے نظام و نصاب کے بارے میں رپورٹ مرتب کرے گی۔ 

ورلڈ اسلامک فورم کے سیکرٹری جنرل مولانا محمد عیسیٰ منصوری نے مغربی ممالک میں قائم ہونے والے دینی جامعات کے نصاب و نظام کا تفصیلی جائزہ لیا اور اپنی رپورٹ میں بتایا کہ علماء و خطباء، ائمہ مساجد، مدرسین، اور دینی ماہرین کی تیاری کے لیے ان جامعات کی ضرورت ہے اور سوسائٹی میں ان کا کردار مسلّم ہے، لیکن ان کے نصاب کو آج کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت بڑھتی جا رہی ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ جس طرح عملی اور اجتماعی زندگی میں دین اور سیاست کی تفریق ہمارے دورِ زوال کی پیدا کردہ ہے اور ہم ہر سطح پر اس کے نقصانات بھگت رہے ہیں، اسی طرح تعلیم میں بھی دین اور دنیا کی تفریق زوال اور ادبار کی علامت ہے۔ اور پہلی صدیوں میں ہماری درسگاہوں میں دینی علوم اور دنیاوی علوم کی کوئی تفریق نہیں ہوتی تھی۔ 

انہوں نے کہا کہ دینی علوم کی بنیاد قرآن پاک، سنتِ نبوی، اور فقہِ اسلامی پر ہے جن کی مہارت ہر عالم کے لیے شرط ہے، لیکن ان سب کے ساتھ علماء کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ ابلاغ کے جدید ذرائع، زبان اور اسالیب سے واقف ہوں، قوموں کی تاریخ پر ان کی نظر ہو، اور وہ مختلف مذاہب کے عقائد و افکار کے تقابلی مطالعہ سے بہرہ ور ہوں، کیونکہ اس کے بغیر وہ آج کے دور میں اسلام کی صحیح نمائندگی نہیں کر سکتے۔

انہوں نے کہا کہ عقائد، عبادات اور شخصی اخلاق کے بارے میں قرآن و سنت کی تعلیمات پر عبور کے ساتھ ساتھ اجتماعی زندگی کے معاملات مثلاً‌ سیاست، قانون، تجارت، بین الاقوامی معاملات، معیشت، بینکاری، خاندانی نظام اور ثقافت کے بارے میں قرآن و سنت کے تعلیمات پر مہارت بھی علماء کے لیے ناگزیر ہے۔ اور دینی جامعات کو اپنے نصاب و نظام میں وقت کی ان ضروریات کا احساس کرنا ہوگا، ورنہ وہ اسلام کو درپیش آج کے چیلنج کا سامنا نہیں کر سکیں گے۔

انہوں نے کہا کہ آج اسلام اور عالمِ اسلام کو مغربی فلسفہ کی طرف سے جس چیلنج کا سامنا ہے وہ ثقافت اور اجتماعی نظام کے حوالہ سے ہے۔ اور قرآن و سنت میں ان معاملات میں مکمل راہنمائی اور ہدایات موجود ہیں، لیکن ہمارے دینی جامعات کا نصاب و نظام اس سلسلہ میں تہی دامن ہے، جس کی وجہ سے وقت کی ضرورت اور تقاضوں کے مطابق علماء سامنے نہیں آ رہے، اور علماء اور نئی نسل کے درمیان ذہنی خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔

الشیخ عمر بکری محمد نے اپنے خطاب میں اس بات پر زور دیا کہ ہمیں اپنے نوجوانوں کو اسلام کی تاریخ اور اجتماعی زندگی کے بارے میں قرآن و سنت کی تعلیمات سے آگاہ کرنا چاہیے، اور اس سلسلہ میں تعلیم اور میڈیا کے ہر ممکن ذرائع اختیار کرنے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ جو نوجوان کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں انہیں دین سے بے گانہ قرار دے کر چھوڑ نہ دیا جائے بلکہ ان پر زیادہ توجہ دی جائے کیونکہ وہ اس کے زیادہ مستحق ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں کو خلافت، اسلامی معیشت، اور اسلامی وحدت کے تصورات سے روشناس کرائیں اور انہیں مستقبل کے لیے تیار کریں۔ 

ڈاکٹر محمد المسعری نے اپنے خطاب میں علماء کرام پر زور دیا کہ وہ مسلمانوں کو مغربی ثقافت کا شکار ہونے سے بچائیں اور انہیں تعلیم و تربیت کے ذریعے اس ثقافت کے مقابلہ کے لیے تیار کریں۔ 

انہوں نے کہا کہ اسلام کے بارے میں مغرب کے عقلی دلائل کا جواب دینے کی ضرورت ہے، اور ہم اپنی نئی نسل کے ذہن اور عقل تک رسائی حاصل کر کے ہی اسے گمراہی اور مغربی ثقافت میں ضم ہونے سے بچا سکیں گے۔

انہوں نے کہا کہ علماء اسلام نے ہر دور میں اسلام کا پیغام دنیا تک پہنچانے کے لیے اس دور کی زبان اور اسلوب کو اختیار کیا ہے، اور آج کی زبان اجتماعی نظام، انسانی حقوق، اور معاشرہ کی مشکلات کے حل کی زبان ہے۔ اس لیے علماء کرام کو چاہیے کہ وہ خود بھی اس زبان اور اسلوب سے آگاہی حاصل کریں اور اپنے مدارس اور جامعات کے طلبہ کو بھی اس کے لیے تیار کریں۔ 

مولانا فضل الرحیم نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سوسائٹی اور سکول سے پہلے ہمارا گھر کا ماحول بچوں کی تربیت گاہ ہوتا ہے، اس لیے ہمیں گھروں کے ماحول کو بہتر بنانے کی طرف بھی توجہ دینا ہوگی۔ کیونکہ بچوں کو گھر کے ماحول میں نماز، تلاوتِ قرآن کریم، اور دینداری کی بجائے بے دینی اور ویڈیو و ٹیلی ویژن کے فحش پروگرام ملیں گے تو باہر کی تربیت و تعلیم ان پر اثر انداز نہیں ہو سکے گی۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم اپنے بچوں کو مسلمان اور دیندار بنانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے خود دیندار بنیں اور گھر کے ماحول کو اسلامی بنائیں۔ 

ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی نے اپنے خطاب میں اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ فورم نے چار سال قبل علماء اور دینی حلقوں کو وقت کے تقاضوں اور ضروریات کا احساس دلانے کی جس فکری مہم کا آغاز کیا تھا، اس کے نتائج سامنے آ رہے ہیں اور بیداری بڑھ رہی ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ اسلام اور کفر کے آج کے فیصلہ کن نظریاتی اور ثقافتی معرکہ میں علماء کرام نظر و فکر اور ابلاغ کے جدید ترین ہتھیاروں مسلح ہوں، اور وہ پورے اعتماد اور دلجمعی کے ساتھ مغرب کی نظریاتی اور ثقافتی یلغار کا مقابلہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس سلسلہ میں تعلیم اور میڈیا کے ذرائع پر یقین رکھتے ہیں اور ان محاذوں پر ہماری جدوجہد مسلسل جاری رہے گی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ 

جامعہ اسلامیہ نیوارک کے مہتمم مولانا محمد کمال خان کی پُرخلوص دعا پر تعلیمی سیمینار اختتام پذیر ہوا۔

ورلڈ اسلامک فورم

(جنوری ۱۹۹۷ء)

جنوری ۱۹۹۷ء

جلد ۸ ۔ شمارہ ۱

شادی، سوشل کنٹریکٹ یا سنت نبویؐ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

نکاح و طلاق کی شرعی حیثیت
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

اسلام میں نکاح و طلاق کا تصور
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

اسلامی قانون اور مغربی قوانین ایک تقابلی جائزہ
مولانا مفتی فضیل الرحمٰن ہلال عثمانی

خاندانی نظام
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

خاندانی نظام کا تحفظ
عمران خان

اسلام میں عورتوں کے حقوق
حضرت مولانا مفتی محمود

آزادئ نسواں کا پس منظر اور نتائج
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

پاکستانی ثقافت اور نئی نسل
ارشاد احمد حقانی

جنسی انقلاب اور اقوام متحدہ
جاوید اقبال خواجہ

خواتین کی عالمی کانفرنسوں کے اصل مقاصد
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اسلام اور عورت کا اختیار
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

نکاح میں سرپرست کے اختیار کے متعلق لاہور ہائی کورٹ کے نام ایک خط
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

خاندان کے اکٹھے مل کر کھانے کی ضرورت
پروفیسر غلام رسول عدیم

حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ
قاری حماد الزہراوی

شہزادہ چارلس کی دوسری شادی اور چرچ آف انگلینڈ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مغربی معاشرہ کی چند جھلکیاں
میڈیا

علماء کرام پورے اعتماد اور دلجمعی کے ساتھ مغربی ثقافت کا مقابلہ کریں
ادارہ

خاندانی نظام کی بحالی مغرب کا سب سے بڑا مسئلہ ہے
روزنامہ جنگ

تعارف و تبصرہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ہم اپنی سوچ پر سائنس کی اجارہ داری کے خطرناک نتائج سے آگاہ ہو رہے ہیں
شہزادہ چارلس

اسلام ہی انسانی مسائل کا بہترین حل ہے
شہزادہ چارلس

مطبوعات

شماریات

Flag Counter