ورلڈ اسلامک فورم کے زیر اہتمام ’’اسلام کا خاندانی نظام اور مغربی ثقافت‘‘ کے موضوع پر ایک سیمینار اسلامک اکیڈیمی مانچسٹر میں علامہ ڈاکٹر خالد محمود کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے سربراہ مولانا عبد الحفیظ مکی مہمان خصوصی تھے اور ورلڈ اسلامک فورم کے راہنماؤں مولانا زاہد الراشدی، مولانا محمد عیسیٰ منصوری، مولانا مفتی برکت اللہ اور مولانا محمد عمران خان جہانگیری کے علاوہ مولانا حافظ محمد اقبال رنگونی، مولانا محمد قاسم، مولانا اخلاص الرحمان، مولانا ثمیر الدین قاسمی اور دیگر راہنماؤں نے خطاب کیا۔
علامہ خالد محمود نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خاندانی نظام کا جو تصور اسلام نے دیا ہے وہی فطری ہے اور قرآن کریم نے مرد اور عورت کی جسمانی ساخت اور صلاحیتوں کے مطابق ان میں حقوق و فرائض کی جو تقسیم کر دی ہے، اس کو اپنائے بغیر معاشرے میں کوئی خاندان صحیح مقام حاصل نہیں کر سکتا۔
مولانا عبد الحفیظ مکی نے کہا کہ ہم اپنی نئی پود کی تربیت اور ذہن سازی سے غفلت برت رہے ہیں اور ہمیں اپنے اس طرز عمل پر نظر ثانی کرنا ہو گا۔
مولانا زاہد الراشدی نے کہا کہ مغرب کے دانش ور اپنے خاندانی نظام کی تباہی سے پریشان ہیں اور بنیادوں کی طرف واپسی اور خاندانی اقدار کی طرف رجوع کا نعرہ لگا رہے ہیں، لیکن جن اسباب نے مغرب کو خاندانی نظام کی برکات سے محروم کیا ہے، ہمیں ان کی طرف دھکیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
مولانا محمد عیسیٰ منصوری نے کہا کہ مغرب کے خاندانی نظام کی بنیاد خواہشات اور لذت پرستی پر ہے، اس لیے انسانی خواہشات کی طرح ان کی بنیاد پر قائم ہونے والی سوسائٹی بھی کسی قسم کے کنٹرول سے بالا تر ہو گئی ہے۔
مولانا مفتی برکت اللہ نے کہا کہ خاندانی نظام کی بحالی مغرب کا سب سے بڑا مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔
مولانا سمیر الدین قاسمی نے کہا کہ اسلام نے نکاح کو انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت اور طلاق کو ناپسندیدہ ترین چیز قرار دیا ہے۔
مولانا محمد اقبال رنگونی نے کہا کہ اسلام نے نوجوان بچوں اور بچیوں کے اخلاق و کردار کی کڑی نگرانی اور بوڑھے ماں باپ کی خدمت اور ادب و احترام کا حکم دیا ہے اور یہی فطرت کا اصل تقاضا ہے۔
مولانا اخلاص الرحمٰن نے کہا کہ مسلم ممالک میں مغربی ممالک کی امداد سے چلنے والی غیر سرکاری تنظیمیں ہمارے عقائد اور معاشرتی اقدار کے خلاف کام کر رہی ہیں اور ان پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
(بشکریہ جنگ لندن ۲۱ نومبر ۱۹۹۲ء)