اسلام میں عورتوں کے حقوق

مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمود صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے درج ذیل انٹرویو میں اسلام میں عورتوں کے حقوق اور ذمہ داریوں پر روشنی ڈالی ہے۔ یہ انٹرویو ماہنامہ ’’چلمن‘‘ لاہور کے مدیر جناب فرید الدین احمد نے لیا اور ’’چلمن‘‘ کے اگست ۱۹۷۳ء کے شمارہ میں شائع ہوا۔

سوالات

پچھلے چھبیس سال میں جہاں ہم نے پاکستان میں اور بہت سے مسائل کو پیدا کیا اور پروان چڑھایا، وہاں ملک میں خواتین کے عدمِ تحفظ و احترام کا مسئلہ بھی ایک نہایت سنگین صورت اختیار کر چکا ہے۔ راہ چلتی عورتوں اور طالبات کو تنگ کرنا اور آوازے کسنا ایک عام بات ہو گئی ہے۔ اخبارات میں روزانہ خواتین کے اغوا، بے حرمتی اور حقوق تلفی کی خبریں اب معمول بن چکی ہیں اور ہمارے ضمیر مردہ ہو چکے ہیں۔ اب جبکہ ملک میں پہلی بار ایک عوامی دستور نافذ ہو چکا ہے، پاکستانی خواتین کے ذہن میں بجا طور پر یہ سوال ابھر رہا ہے کہ وہ عورت جو کبھی ہمارے معاشرے میں عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھی اور محفوظ و مامون تھی، آج اس کی یہ بے قدری کیوں ہو رہی ہے؟ اس کے ساتھ ہی خواتین کے ذہن میں یہ سوال بھی ابھر رہا ہے کہ افراد، قوم اور سیاسی رہنماؤں کی نظروں میں ان کے تحفظ اور تقدس کے مسائل کو کوئی اہمیت بھی حاصل ہے یا نہیں؟ 

خواتین کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے ان ہی مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے ملک کی چار فعال سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں سے پانچ سوال کیے:

  1. عورت معاشرے کی بقا اور اعلیٰ اقدار کی آئندہ نسلوں میں ترویج و ترقی کی ضامن ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں عورت کا تقدس اور احترام ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اخبارات میں روزانہ خواتین کی حق تلفی اور بے حرمتی کی خبریں ہماری قومی غیرت اور حمیت کا مذاق اڑاتی ہیں۔ ان حالات میں عورت کا تقدس اور تحفظ بحال کرنے کے لیے آپ کے ذہن میں کیا عملی تجاویز ہیں؟
  2. آج کل لڑکیوں اور لڑکوں کو تقریباً ایک ہی نصاب کے تحت تعلیم دی جا رہی ہے۔ کیا آپ اس سے مطمئن ہیں؟ اگر نہیں تو آپ کے خیال میں لڑکوں کے تعلیمی نصاب میں کن بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے؟
  3. ہمارے معاشرے میں عورت عام طور پر مرد کی محتاج اور مرہونِ منت ہے۔ اس کی اپنی کوئی انفرادی حیثیت نہیں۔ بہ حیثیت ایک مسلمان آپ اس صورت حال کو مناسب خیال کرتے ہیں؟ آپ کے خیال میں عورت کو بہتر معاشی تحفظ کس طرح فراہم کیا جا سکتا ہے؟
  4. مغربی ممالک کی دیکھا دیکھی اب ہمارے ملک میں بھی مردوں اور عورتوں میں دفاتر وغیرہ میں شانہ بشانہ کام کرنے کا رجحان پیدا ہو رہا ہے۔ آپ عورتوں اور مردوں کے دائرہ کار میں کچھ فرق روا رکھتے ہیں یا مرد و وزن کی اس آزادانہ ہم دوشی کو مناسب خیال کرتے ہیں؟
  5. تجارتی اشیا کے اشتہارات میں عورتوں کی تصاویر کا عام رواج ہوتا جا رہا ہے۔ آپ اسے کن وجوہ کی بنا پر مناسب یا نامناسب خیال کرتے ہیں؟

(فرید الدین احمد)

جوابات

(۱) مولانا مفتی محمود صاحب نے عورت کے تحفظ اور تقدس کے بارے میں میرے سوال کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: 

اسلام میں عورتوں کے رہن سہن کے چار بنیادی اصول متعین ہیں۔ ان اصولوں کی غرض و غایت ہی یہ ہے کہ معاشرے سے فحاشی اور بدکرداری کا خاتمہ ہو جائے اور عورت کو معاشرے میں اس کا جائز مقام و منزلت اور احترام میسر آسکے۔ مثلاً‌:

  1. ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ عورت کا اپنے شوہر یا کسی اور محرم کے بغیر اکیلے سفر کرنا ناجائز ہے۔ عورت کے تنہا سفر کی ممانعت اس حد تک ہے کہ عورت حج جیسا فریضہ بھی خاوند یا محرم (باپ، بیٹا، بھائی) کے بغیر ادا کرنے کی مجاز نہیں۔
  2. اسی طرح کسی اجنبی غیر محرم عورت پر قصداً نظر ڈالنا بھی ممنوع ہے۔ اگر اتفاقاً‌ ایک نظر پڑ جائے تو دوبارہ نظر پر قابو رکھنا مومن کا فرض ہے۔ ایک حدیث شریف میں آتا ہے کہ ’’ایک نظر کے پیچھے دوسری مت ڈالو‘‘۔
  3. تیسرا اصول یہ ہے کہ غیر محرم عورتوں اور مردوں کو ہاتھ ملانے کی اجازت نہیں ہے۔ اسی طرح غیر محرم عورت کے جسم کے کسی بھی حصے کو چھونا منع ہے۔ سوائے اس صورت کے جب تشخیصِ مرض یا جان بچانے کے لیے ایسا کرنا ناگزیر ہو۔
  4. چوتھے اصول کے تحت عورت کا غیر محرم کے ساتھ تنہائی میں بیٹھنا منع ہے۔ یہ اصول مرد اور عورت دونوں کو یکساں طور پر پابند کرتے ہیں اور دونوں پر ان کا احترام لازم ہے۔ اس بات کی وضاحت ایک حدیث شریف سے ہوتی ہے کہ ایک مرتبہ ایک نابینا صحابی حضور کی دو ازواج مطہراتؓ کے سامنے گھر میں تشریف لائے۔ حضورؐ نے منع فرمایا تو بیویوں نے عرض کی کہ حضورؐ یہ تو نابینا ہیں۔ اس پر حضورؐ نے فرمایا ’’کیا تم بھی نابینا ہو؟‘‘ 

غرض بود و باش اور رہن سہن کے یہ چار بنیادی اصول معاشرے کی تمام فحاشیوں اور بداعمالیوں کے راستوں کو بند کر دیتے ہیں۔ 

اس کے علاوہ اسلام نے عورت کے تمام حقوق، اس کے روز مرہ کے اخراجات، رہائش، علاج اور تمام ضروریات کی تکمیل کی ذمہ داری مرد کے ذمہ ڈال دی ہے۔ چنانچہ ایک مسلم معاشرے میں عورت کو اپنے معاش کے سلسلے میں ادھر ادھر جانے اور بازاروں میں پھرنے اور اجنبیوں سے ملنے کی قطعاً‌ ضرورت نہیں۔ 

ہم سمجھتے ہیں اگر معاشرہ ان اسلامی اصولوں کی بنیاد پر استوار ہو جائے تو اس وقت معاشرے میں پھیلی ہوئی بدکرداری اور عورتوں کی حقوق تلفی کے قریباً‌ ننانوے فیصد واقعات کا سدباب ممکن ہے۔ لیکن اگر کوئی مرد یا عورت پھر بھی ان حدود کو پھلانگ کر کسی غیر معمولی جرم کا ارتکاب کرے تو اس کے لیے اسلام نے سخت سزائیں مقرر کی ہیں۔ مثلاً‌ شادی شدہ عورت یا مرد اگر اخلاقی بے راہ روی کا ارتکاب کریں تو ان کے لیے اسلامی سزا جسے ’’حد‘‘ کہتے ہیں یہ ہے کہ دونوں کو سنگسار کر دیا جائے۔ اور مجرم اگر غیر شادی شدہ ہوں تو انہیں سو سو کوڑے لگائے جائیں۔ اس غیر معمولی سخت سزا کا اثر یہ ہوتا ہے کہ اس سزا کو دیکھنے والے عبرت حاصل کرتے ہیں اور مارے دہشت کے پھر اسلامی حد تجاوز کرنے کی ہمت نہیں کرتے۔ 

اس وقت میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے اس ملک پاکستان اور دیگر تمام ممالک میں بھی نہ تو ان اسلامی اصولوں کی تعلیم دی جاتی ہے، نہ ان کا پروپیگنڈا (تشہیر) کیا جاتا ہے، اور نہ ہی ان اصولوں کے مطابق بچوں اور نوجوانوں کی تربیت کی جاتی ہے۔ 

معاشرہ سراسر غیر اسلامی ہے۔ عورتیں بناؤ سنگھار کر کے عمدہ لباس زیب تن کر کے بازاروں میں اکیلی بغیر کسی محرم کے بے پردہ نکلتی ہیں۔ بسوں، ہوائی جہازوں اور ریل گاڑیوں میں بغیر محرم کے سفر کرتی ہیں۔ ہمسایوں کے گھروں میں وقت بے وقت بلا جھجھک جاتی ہیں۔ ان کے ساتھ خلوت میں بیٹھنے میں عار محسوس نہیں کرتیں اور ان سے بلا تکلف راز و نیاز کی باتیں کرتی ہیں۔ جب معاشرہ اسلامی اصولوں کے بالکل بر عکس مخالف سمت میں چل پڑا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ بد نتائج رونما نہ ہوں جس سے آج پوری انسانیت شرمندہ ہے اور اپنا سر پیٹ رہی ہے۔ 

اس وقت عملی طور پر عورتوں کے تقدس اور تحفظ کو بحال کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ حکومت اسلامی قانون کے اصولوں پر ملک کا قانون وضع کرے۔ میں وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس کے بعد معاشرے کے تمام نقصان دہ جراثیم اور رجحانات ہلاک ہو جائیں گے اور موجودہ معاشرتی بیماریاں مکمل طور پر دم توڑ دیں گی۔ شاید اس زمانے کے جدید تعلیم یافتہ لوگ جن کے ذہن یورپ کی بے ہنگم تعلیم اور آزادی سے متاثر ہیں، میری اس رائے سے اتفاق نہ کریں، لیکن حقائق کو اگر عمیق نگاہ سے دیکھا جائے تو اسلام کی طرف رجوع کیے بغیر یہ حالات درست نہیں ہو سکتے۔

(۲) لڑکیوں کی تعلیم کے مسئلہ پر روشنی ڈالتے ہوئے مفتی صاحب نے فرمایا: 

آج کل مسلمانوں میں بنیادی خرابی یہ ہے کہ وہ معاشرتی اصول یورپ سے درآمد کرتے ہیں اور اپنے عظیم دین، دینِ اسلام کی طرف نظر نہیں کرتے۔ اسلام نے زیورِ علم سے آراستہ ہونا عورت اور مرد دونوں کے لیے یکساں طور پر ضروری قرار دیا ہے اور حصولِ علم دونوں کا فرض ہے۔ چنانچہ احادیث کے ذخیرہ میں بکثرت روایتیں حضورؐ کی ازواج مطہراتؓ اور دوسری صحابیاتؓ سے مذکور ہیں کہ عورتیں بھی دینی مسائل پوچھنے کے لیے حضورؐ کے پاس آیا کرتی تھیں اور حضورؐ بعض اوقات عورتوں کے لیے علیحدہ مجلسِ علم قائم فرمایا کرتے تھے تاکہ عورتوں سے متعلق معاملات و مسائل انہیں سمجھائیں۔ ایک مرتبہ حضورؐ نے فرمایا: ’’انصار کے قبیلے کی عورتیں بہت ہی اچھی عورتیں ہیں، حیا ان کے دینی مسائل معلوم کرنے میں حائل نہیں ہوتی۔‘‘

ان تمام باتوں سے معلوم ہوا کہ علم حاصل کرنا اسلام کی رو سے مرد اور عورت دونوں کے لیے یکساں طور پر ضروری ہے۔ یہاں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ علم سے مراد کیا ہے؟ علم سے مراد ہمیشہ وہ تعلیم ہوتی ہے جو طالب علم کی اصلاح اور تربیتِ اخلاق کے لیے ضروری ہو، اور انسان میں زندگی کو خدا کے حکم کے مطابق احسن طریق پر گزارنے کی صلاحیت پیدا کرے۔ چنانچہ اس قسم کے علوم کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

  1. وہ علم جو مرد اور عورت مشترک طور پر حاصل کر سکیں۔ جیسے عقائد کی تعلیم، اخلاق کی تعلیم، عبادات و روز مرہ معاملات کی تعلیم، اسلامی احکام کی تعلیم وغیرہ۔ یہ تعلیم پرائمری کے درجہ تک بچوں اور بچیوں کو مشترک طور پر دی جا سکتی ہے۔
  2. تعلیم کا دوسرا حصہ صرف عورتوں کے لیے مخصوص ہے۔ اس میں حیض و نفاس کے مسائل، خاوند کے ساتھ کس طرح بود و باش رکھی جائے، گھریلو مسائل، صحت کی حفاظت اور دیکھ بھال کے مسائل، بچوں کو دودھ پلانے کے مسائل، امور خانہ داری مثلاً‌ کھانا پکانے کے مختلف طریقے، سلائی کا کام، گھر کی دیکھ بھال، غرض گھر کی دنیا سنبھالنے کے تمام پہلو اس میں شامل ہیں۔ ان تمام باتوں کا جاننا عورتوں کے لیے ضروری ہے اور اس کے لیے انہیں اصولی اور عملی دونوں طرح کی تربیت دینی ضروری ہے۔ تمام نصاب اور کتابیں ان ہی ضروریات کو سامنے رکھ کر مرتب کرنی چاہئیں۔
  3. تعلیم کا تیسرا شعبہ مردوں کے لیے مخصوص ہے۔ اس میں فنِ سپہ گری اور تمام قسم کی پیشہ ورانہ تعلیم و تربیت شامل ہے۔ جس کے ذریعہ انسان کائنات کے ذرائع اور وسائل پر قابو حاصل کر کے انہیں خدا کی منشا اور خوشنودی کی خاطر استعمال کر سکے۔ زراعتی ماہرین، انجینئر، ڈاکٹر، سائنسدان، اور دیگر تمام شعبوں کے ماہرین اور کارکن اس ذیل میں آجاتے ہیں۔

اب اگر علوم کی اس تقسیم کی روشنی میں موجودہ نظامِ تعلیم کو دیکھا جائے تو معاملہ بالکل الٹ نظر آتا ہے:

  • ابتدائی درجوں میں جہاں لڑکیوں اور لڑکوں کو مخلوط طور پر مشترک نصاب کے تحت تعلیم دی جا سکتی ہے، عموماً لڑکیوں اور لڑکوں کو الگ الگ سکولوں میں پڑھایا جاتا ہے۔ 
  • اور جب معاملہ ثانوی تعلیم کا آتا ہے، انہیں وہ علوم مشترک اور مخلوط طریقے سے پڑھائے جاتے ہیں جو ہر لحاظ سے انہیں علیحدہ پڑھانے چاہئیں۔ 

گویا بچپن کے معصوم دنوں میں انہیں الگ رکھنا ضروری سمجھا جاتا ہے اور جوانی کے پُرجوش اور جذباتی طور پر نازک ترین دور میں آگ اور پانی کو اکٹھا کر کے کڑے امتحان و آزمائش میں مبتلا کر دیا جاتا ہے۔ نتائج ہم سب کے سامنے ہیں۔ ہونا یہ چاہئے کہ پرائمری تک مشترک تعلیم کے بعد مرد اور عورت کو ان کی تعلیم کے مخصوص شعبوں میں تقسیم کر دیا جائے۔

(۳) عورت کی معاشرے میں انفرادی حیثیت اور ان کے معاشی تحفظ کے ضمن میں مولانا مفتی محمود صاحب نے فرمایا:

اسلام نے عورتوں اور مردوں کو مساوی حقوق دیے ہیں۔ لیکن کیونکہ عورتوں میں دفاعی قوت نسبتاً‌ کم ہوتی ہے اور مردوں کو ان کے محافظ کی حیثیت حاصل ہے، اس لیے مردوں کا درجہ ذرا فائق ہے۔ تاہم اس سے عورت کی انفرادیت اور اس کے حقوق کا تحفظ ہرگز متاثر نہیں ہوتا۔ 

مردوں کی اس برتری کے احساس کی نوعیت بالکل ویسی ہی ہے جیسی کسی ملک کی فوج کو ملک کی دفاعی قوت ہونے کی وجہ سے ایک برتری حاصل ہوتی ہے۔ یہ ایک فطری بات ہے اور آپ غیر مسلم معاشروں میں بھی دیکھیں تو وہاں بھی آپ کو کوئی عورت فیلڈ مارشل نظر نہیں آئے گی۔ لیکن جہاں مسئلہ حقوق کا ہے تو وہاں 

  • عورت مکمل طور پر اپنے مال کی مالک اور مختار ہے۔ اس پر اپنے مال کی زکوٰۃ اور صدقہ وغیرہ کی ذمہ داری بالکل مرد کی طرح عائد ہے، اور مرد کو عورت کے مال میں تصرف کا کوئی حق حاصل نہیں۔ 
  • عاقل اور بالغ عورت اپنے نکاح کے معاملے میں بھی خودمختار ہے۔ اس کا باپ یا سرپرست اس کی مرضی کے خلاف اس کا نکاح کسی شخص سے نہیں کر سکتا۔
  • وراثت میں بھی عورت باقاعدہ طور پر حصہ دار ہے، البتہ اس کا حصہ مرد کی نسبت نصف ہے۔ لیکن اس سے عورت کی حق تلفی مراد نہیں ہے بلکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی ایک خاص حکمت کار فرما ہے۔ اس لیے کہ لڑکی کا نکاح ہو جاتا ہے تو اس کے تمام اخراجات اور ضروریات کی ذمہ داری ایک مرد کے کاندھوں پر ہو جاتی ہے۔ جبکہ ایک مرد کو نکاح کے بعد اپنی ہونے والی بیوی اور بچوں کے تمام اخراجات اٹھانے ہوتے ہیں۔ مرد کی اسی ذمہ داری کا لحاظ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ورثہ میں اس کا حصہ عورت سے دو گنا رکھا ہے۔ لیکن عورت کو ورثہ سے یکسر محروم نہ کر کے اسے بھی معاشرے پر محض ایک بوجھ بننے سے صاف بچا لیا ہے۔
  • اسلام نے عورت کے حقوق پورے کرنے پر قدم قدم پر زور دیا ہے۔ اسی لیے نکاح کے وقت مہر مقرر کرنے کی ہدایت بھی ہے۔ ایک حدیث شریف میں ہے: ’’تم جو مال اپنے بچوں کو کھلاتے ہو یا خود کھاتے ہو وہ سب صدقہ ہے۔ حتیٰ کہ وہ لقمہ جو تم اپنی بیوی کے منہ میں رکھتے ہو، وہ بھی صدقہ ہے‘‘۔ اس حدیث شریف میں بیوی کا ذکر خصوصی طور پر موجود ہے جو عورت کے حقوق کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ اسی طرح ایک حدیث شریف میں ہے کہ ’’تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہے‘‘۔ 

عیسائیت میں بنیادی طور پر طلاق کا تصور موجود نہیں ہے۔ جبکہ یہ عورت کا حق ہے کہ نباہ نہ ہو اور وہ شوہر سے الگ ہونا چاہے تو ہو جائے۔ ہندو مت میں بھی عورت کو بنیادی حقوق حاصل نہیں ہیں، یہاں تک کہ وہ ورثہ میں بھی حصہ دار نہیں ہے۔ نکاح ثانی کا مسئلہ بھی ہندوؤں کے ہاں موجود نہیں، یہیں سے یہ بدعت مسلمانوں میں بھی آگئی تھی۔ جبکہ حضورؐ نے خود بیواؤں سے شادی کر کے بیوہ عورتوں کی حق تلفی کا قصہ ہی ختم کر دیا تھا۔ 

غرض اسلام عورتوں کے حقوق کے بارے میں بہت واضح اصول اور قوانین رکھتا ہے جو انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں، اور دنیا کے کسی بھی اور نظامِ حیات سے زیادہ مکمل اور عورت کی انفرادیت اور ان کی شخصیت کے تحفظ کے ضامن ہیں۔

(۴) (عورتوں اور مردوں کے دائرہ کار میں فرق کے بارے میں مفتی صاحب نے فرمایا): 

جہاں تک عورت اور مرد کے دائرہ کار اور تقسیم کار کا تعلق ہے تو مغرب میں عورت نے یہ فرق ختم کیا۔ وہاں عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے نکل پڑیں۔ معاشرے میں بے راہ روی پھیلی۔ ہزار میں سے نو سو ننانوے باپوں کو یہ یقین نہیں رہا کہ ان کے بچوں میں سے کون سا ان کا ہے اور کون سا ان کا نہیں۔کنواری مائیں اور غیر قانونی بچے معاشرے کا پیچیدہ ترین مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔ مانع حمل تدابیر اور ادویات کے آزادانہ استعمال نے زنا کو عام کر دیا ہے۔ اخلاقیات کا کوئی تصور نوجوان نسلوں کے ذہنوں میں نہیں رہا۔ یورپ اب اس صورت حال سے تنگ آچکا ہے۔ ان کے سامنے واپسی کا کوئی راستہ نہیں۔ 

میں یقین سے کہتا ہوں کہ آج اگر ہم مسلمان اپنی اصلاح کر لیں اور یہ غیر مسلم ہمیں دیکھ کر اسلام کا مطالعہ کر لیں تو اسے فوراً‌ اپنا لیں، کیونکہ انسانیت کی بقا اور نجات اسلام کے نظامِ حیات میں ہی ممکن ہے۔ اسلام کے نظامِ حیات میں زندگی واضح طور پر دو حصوں میں منقسم ہے:

  1. گھر کے اندر کی زندگی۔ 
  2. گھر سے باہر کی زندگی۔ 

یہ دونوں شعبہ ہائے زندگی اپنی نوعیت اور دائرہ کار کی حیثیت سے بالکل الگ اور یکساں طور پر اہم ہیں۔ گھر کے اندر انتظام و انصرام اور خاندان کی دیکھ بھال عورت کی ذمہ داری ہے۔ جبکہ گھر سے باہر کی ذمہ داری اور گھر کے اخراجات کی فراہمی مرد کی ذمہ داری ہے۔ 

جو عورت گھر سے نکل کر دفتروں کلبوں میں جا پہنچتی ہے اس کا گھر، گھر نہیں ویرانہ ہوتا ہے۔ اور جو مرد باہر کی ذمہ داریاں چھوڑ کر گھر بیٹھ جاتا ہے، وہ مرد نہیں نکھٹو، نکما اور بے حیا ہوتا ہے اور اپنے فرائض سے اغماض برتتا ہے۔ اسلام کی رو سے عورت اور مرد کی ذمہ داریوں کی اس واضح تقسیم کے بعد میرا خیال ہے، آپ کے سوال کا واضح جواب سامنے آ جاتا ہے۔ اگر ہمیں اپنے نسب محفوظ رکھنے ہیں تو ہمیں یورپ کی اس انسانیت کش ڈگر کو یکسر ترک کرنا ہوگا۔

(۵) تجارتی اشیا کے اشتہارات میں عورتوں کی تصاویر کے سوال پر مفتی محمود صاحب نے قدرے توقف کے بعد ارشاد فرمایا: 

تجارت کی بنیاد صداقت اور امانت پر ہے۔ ایک حدیث شریف ہے کہ ’’تاجر سچا بھی ہو اور ایماندار بھی‘‘۔ 

جب تاجر خائن، جھوٹے، بے ایمان ہو جائیں، مال دکھانے کا اور ہو، دینے کا اور، تو ایسے کاروبار میں برکت نہیں رہتی۔ ایسی صورت میں اپنی کمائی بڑھانے کے لیے وہ دیگر ناجائز ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔ چنانچہ بڑے بڑے ہوٹلوں میں ظاہری چمک دمک اور شیطانی کشش پیدا کرنے کے لیے نوجوان لڑکیاں مسافروں کی خدمت کے لیے مقرر کی جاتی ہیں۔ اور اشیائے صَرف کے اشتہارات پر عورت کی تصویر چھاپ کر اس کی عظمت اور حرمت کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ جہاں کوئی چیز اصل اور ملاوٹ سے پاک نہ ہو، وہاں نقل پر عورت کی تصویر لگا دی جاتی ہے۔ یہ سب مذموم اور مروود حرکات ہیں۔

(مطبوعہ ہفت روزہ ترجمانِ اسلام لاہور، ۷ ستمبر ۱۹۷۳ء)

دین اور معاشرہ

(جنوری ۱۹۹۷ء)

جنوری ۱۹۹۷ء

جلد ۸ ۔ شمارہ ۱

شادی، سوشل کنٹریکٹ یا سنت نبویؐ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

نکاح و طلاق کی شرعی حیثیت
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

اسلام میں نکاح و طلاق کا تصور
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

اسلامی قانون اور مغربی قوانین ایک تقابلی جائزہ
مولانا مفتی فضیل الرحمٰن ہلال عثمانی

خاندانی نظام
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

خاندانی نظام کا تحفظ
عمران خان

اسلام میں عورتوں کے حقوق
حضرت مولانا مفتی محمود

آزادئ نسواں کا پس منظر اور نتائج
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

پاکستانی ثقافت اور نئی نسل
ارشاد احمد حقانی

جنسی انقلاب اور اقوام متحدہ
جاوید اقبال خواجہ

خواتین کی عالمی کانفرنسوں کے اصل مقاصد
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اسلام اور عورت کا اختیار
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

نکاح میں سرپرست کے اختیار کے متعلق لاہور ہائی کورٹ کے نام ایک خط
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

خاندان کے اکٹھے مل کر کھانے کی ضرورت
پروفیسر غلام رسول عدیم

حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ
قاری حماد الزہراوی

شہزادہ چارلس کی دوسری شادی اور چرچ آف انگلینڈ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مغربی معاشرہ کی چند جھلکیاں
میڈیا

علماء کرام پورے اعتماد اور دلجمعی کے ساتھ مغربی ثقافت کا مقابلہ کریں
ادارہ

خاندانی نظام کی بحالی مغرب کا سب سے بڑا مسئلہ ہے
روزنامہ جنگ

تعارف و تبصرہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ہم اپنی سوچ پر سائنس کی اجارہ داری کے خطرناک نتائج سے آگاہ ہو رہے ہیں
شہزادہ چارلس

اسلام ہی انسانی مسائل کا بہترین حل ہے
شہزادہ چارلس

مطبوعات

شماریات

Flag Counter