یہ محض اتفاق کی بات نہیں ہے کہ برطانیہ کی ثقافت کو اس وقت عروج حاصل ہوا جب وہاں اخلاقی قدروں اور معاشرتی ذمہ داریوں کا احساس پایا جاتا تھا۔ انیسویں صدی کے شروع میں ناجائز پیدائش کی شرح حیران کن حد تک زیادہ تھی۔ کچھ سروے رپورٹوں کے مطابق یہ شرح ۱۲ فیصد تھی۔ صدی کے اواخر تک یہ شرح کم ہو کر ۳ سے ۴ فیصد ہو گئی۔
اس کی توجیہ بالکل سادہ ہے۔ وکٹورین عہد میں بے راہروی کی مذمت کی جاتی تھی اور مضبوط مسیحی اقدار کے پیمانے پر معاشرے کو پرکھا جاتا تھا۔ خاندان اور معاشرے کو ہر قیمت پر تحفظ فراہم کیا جاتا تھا۔ کوئی بھی ایسی چیز جس سے انہیں خطرہ لاحق ہو، معاشرہ میں بری سمجھی جاتی تھی۔ کھلے عام بے حیائی کی ممانعت کر کے معاشرتی وقار کو تحفظ فراہم کیا گیا۔ یوں مضبوط خاندان اور مضبوط معاشرہ وجود میں آیا۔ ایک طلاق یافتہ آدمی کو سرکاری دفاتر کے لیے غیر موزوں تصور کیا جاتا تھا۔
۱۹۶۰ء کے عشرہ میں برطانیہ میں صورتحال اس کے بالکل برعکس تھی۔ وہ معاشرہ جو قدرے قدامت پسند معاشرہ تھا، جنس، منشیات اور راک اینڈ رول کلچر کا شکار ہو گیا، جس میں نہ صرف برائی کی طرف سے چشم پوشی برتی گئی بلکہ کھلے بندوں اس کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ یہ وہ وقت تھا جب نوجوانوں نے بزرگوں کے خلاف بغاوت کر دی اور یوں خود کو اس حکمت سے محروم کر لیا جو نسل در نسل منتقل ہوتی ہے۔ اس کا فوری نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ برائی فیشن کا حصہ بن گئی۔ منشیات، آزاد جنسی تعلقات، عیاشی اور بدکاری رواج پا گئے۔ طلاق کی شرح میں اضافہ ہو گیا اور گھریلو ناچاقیاں انتہا کو پہنچ گئیں۔ اس وقت برطانیہ میں طلاق کی شرح ۵۰ فیصد ہے۔ برطانیہ میں ۳۳ فیصد اور امریکہ میں ۳۵ فیصد بچے شادی کے بغیر ہی جنم لیتے ہیں۔
اس موجودہ تکلیف وہ صورتحال کے ذمہ دار ذرائع ابلاغ ہیں جو بے راہ روی کو پھیلا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر Pretty Women باکس آفس پر ہٹ ہوئی۔ موجودہ دور کی امریکی فلموں میں اس نے ایک کلاسک کا مقام حاصل کر لیا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ معاشرہ کس حد تک ابتری کا شکار ہو چکا ہے۔ My Fair Lady میں سنڈریلا، جو ایک خوبصورت پریوں کی کہانی تھی (جس میں ایک رئیس ایک غریب لڑکی کے عشق میں گرفتار ہو جاتا ہے) کو موجودہ زمانے کی ضرورت کے مطابق تبدیل کر لیا گیا ہے۔ اب ایک امریکی مالدار شخص ایک بازاری عورت کے قدموں میں گرتا ہے۔ دوسری اسی قسم کی فلمیں انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ تشدد، جرائم، جنگ اور آزادانہ جنسی تعلقات کو فروغ دے رہی ہیں۔
جمہوریت معاشرہ میں جو آزادی لاتی ہے اس کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے اور اسے جو جی چاہے وہی کرنے کی آزادی سمجھا جا رہا ہے۔ امریکہ میں فحش نگاری کا ایک ارب (Billion) روپے کا کاروبار ہے جو موسیقی کے کاروبار کے بعد سب سے زیادہ آمدنی دینے والا کاروبار ہے۔ خاندان کے ٹوٹنے کے بہت دور رس عواقب ہیں۔ مثال کے طور پر امریکہ میں ۸۰ فیصد کالے بچے بغیر شادی کے پیدا ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے کالوں میں جرائم کی شرح بہت زیادہ ہے اور وہ تعلیمی لحاظ سے سب سے پیچھے ہیں۔ اس کے برعکس اسی ملک میں ایشیائی لوگوں میں، جو اپنے خاندانی نظام کے لیے مشہور ہیں، طلاق کی شرح سب سے کم ہے اور تعلیمی میدان میں یہ سب سے آگے ہیں (تعلیمی میدان میں کامیابی کے لحاظ سے پہلی دو پوزیشنیں پاکستانیوں کی ہوتی ہیں)۔
اس کے علاوہ مغرب میں خاندانی نظام کو جس چیز نے نقصان پہنچایا وہ آزادئ نسواں کا وہ پہلو ہے جس میں یہ تصور کر لیا گیا کہ عورت بالکل مرد جیسی ہے۔ اس طرح مامتا کی قدر و قیمت کم ہو گئی ہے یہاں تک کہ اسے ظلم و جبر سمجھا جانے لگا۔ جب عورت معاندانہ رویہ اختیار کرنے کی بجائے مسابقانہ رویہ اختیار کرتی ہے تو لا محالہ خاندان متاثر ہوتا ہے۔ کتب جیسا کہ Fight fire with fire جو مرد اور عورت کے درمیان جنگ کی تعلیم دیتی ہے، امریکہ میں ۹۳ء میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب تھی۔ اس کتاب نے اس مخالفت کی آگ کو ہوا دینے کے سوا کچھ نہیں کیا۔
ہم پاکستانی خوش قسمت ہیں جہاں ہمارے دیگر تمام ادارے تباہی کا شکار ہو چکے ہیں، خاندانی نظام ابھی باقی ہے۔ ہم اس معاملہ میں بھی خوش قسمت ہیں کہ ہماری مملکت ایک نظریاتی مملکت ہے جو اسلام کے نام پر قائم ہوئی اور بے راہروی کے خلاف سیکولر جمہوریتوں کی طرح بے دست و پا نہیں ہے۔ مثال کے طور پر فحش نگاری اور ہم جنس پرستی جیسی برائیاں جو مغربی ممالک میں قانونی تحفظ حاصل کر چکی ہیں، اسلام میں ممنوع قرار دی گئی ہیں کیونکہ یہ خاندانی نظام کے لیے زہر قاتل ہیں۔
ہمارے خاندانی نظام کو ایک چھوٹے مگر انتہائی بارسوخ جنونی مغرب کے دلدادہ لوگوں کے گروہ سے خطرہ لاحق ہے، ان کا نعرہ ہے کہ مغرب کی تقلید کرنا ہی حقیقت میں ترقی کرنا ہے۔ اور یہ کہ اسلام از پاکستانی ثقافت قدامت پرست اور دقیانوسی ہے۔ ذرائع ابلاغ، بیوروکریسی اور تدریس اس چھوٹے سے گروہ کے قبضہ میں ہے۔ چونکہ یہ اسلام اور پاکستانی ثقافت کو مغرب کی آنکھ سے دیکھتے ہیں، بنیاد پرستی سے لے کر حقوق نسواں، ایڈز، منشیات، انسانی حقوق تک ہر نعرہ باہر سے آیا ہے اور ان کے غیر اہم پہلوؤں پر زور دیا جاتا ہے اور ان سے متعلقہ حقیقی مسائل اکثر نظر انداز ہو جاتے ہیں۔ اس گروہ کی وجہ سے ایک چھوٹا گروہ پیدا ہو گیا ہے جو مغرب کی ہر چیز سے نفرت کرتا ہے۔ ان دونوں انتہا پسند گروہوں نے اکثریت کے لیے متوازن سماجی بحث کے لیے حالات کو مشکل بنا دیا ہے۔
پاکستان میں عورتوں کو ہمیشہ ہی ان کے حقوق حاصل نہیں ہوتے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے معاشرہ میں جہاں صرف ایک قانون چلتا ہے، جنگل کا قانون، جہاں کمزور کے کوئی حقوق نہیں ہوتے۔ وہ عورتیں جو اپنے حقوق سے محروم ہیں زیادہ تر ایسے طبقہ سے تعلق رکھتی ہیں جہاں مردوں کے حقوق بھی بہت کم ہیں۔ لیکن ہمارے اعلیٰ طبقہ میں عورتوں کو جو مقام حاصل ہے وہ اس سے کہیں زیادہ ہے جو مغرب کی عورتوں کو حاصل ہے۔ ہمارے ملک کی وزیراعظم ایک خاتون ہیں جبکہ امریکہ میں آج تک کوئی عورت چیف ایگزیکٹو نہیں بنی۔ جب ہمارے اعلیٰ طبقہ کی ایک خاتون کی چند سال قبل بے حرمتی کی گئی تو اس کی وجہ سے حکومت تک خطرے میں پڑ گئی۔ اس کا موازنہ امریکہ میں سالانہ دس لاکھ بے حرمتی کے ہونے والے واقعات سے کریں۔
پاکستانی خواتین کی تحریک امریکی خواتین کی تحریک سے مختلف ہے۔ یہاں کی اس جدوجہد کا حل تعلیم (خصوصاً خواتین کی تعلیم) اور انصاف کے ذریعے ممکن ہے۔ ہمارے پہلے ہی سے تقسیم شدہ معاشرہ میں جنس کی جنگ کی کوئی گنجائش نہیں ہے، جو ان لوگوں کی پیدا کردہ ہے جو بدخواہ تو نہیں ہیں مگر راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں۔
مزید برآں ہمیں اپنی خاندانی اقدار کی حفاظت کی خاطر پریس کی آزادی کے جال میں پھنس کر ایسی کہانیاں شائع نہیں کرنی چاہئیں جو جنسی ہیجان پیدا کرتی ہیں اور معاشرہ میں ناشائستگی پھیلاتی ہیں۔ اسلام، وکٹورین فلسفہ کی طرح، اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ فرد کو اپنے اور دوسروں کے عیبوں پر پردہ ڈالنا چاہیے۔ برطانوی شاہی خاندان کو اپنی جنسی بے راہروی کا عوام کے سامنے اعتراف کر کے کیا حاصل ہوا؟ وکٹورین عہد میں بھی شاہی خاندان میں یہی کچھ ہوتا تھا، مگر اپنے گناہوں پر پردہ ڈال کر انہوں نے اپنے وقار کو بھی قائم رکھا اور معاشرہ کا بھی تحفظ کیا۔ اسلام میں بدکاری کی واضح طور پر ممانعت ہے لیکن اس بات کی گنجائش بھی رکھی گئی ہے، کیونکہ انسان فطری طور پر کمزور ہے، کہ اگر وہ خاندان اور معاشرہ کے لیے کوئی غلطی کر بیٹھے تو وہ اس بات کا چرچا نہ کرے کیونکہ اس طرح کرنے سے وہ برائی معاشرہ میں قابلِ قبول بن جائے گی۔
ہماری حکومت مغربی دنیا پر یہ ثابت کرنے کے لیے کہ ہم بنیاد پرست نہیں ہیں، اس حد تک مشتاق ہے کہ اس نے ہمیں محض مغربی دنیا کے مقلد کی حیثیت سے ۲۱ویں صدی میں لے جانے کے لیے انہیں کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ ٹی وی پر ایم ٹی وی (TV) اور زی ٹی وی (Zee TV) کے گھنیا چربے یوں پیش کیے جاتے ہیں گویا وہ ہماری ثقافت کا حصہ ہوں۔ ہمیں یقیناً اپنے نوجوانوں کو کولہے مٹکانے کے علاوہ بھی کچھ دینا ہو گا۔ ٹی وی ڈراموں میں ہم ایک عجیب مخلوط نسل کی ثقافت کا نمونہ دیکھتے ہیں جو بھارتی اور مغربی ثقافت کا آمیزہ ہے۔ کیا ہمارے ٹی وی کو، جو عوام کے پیسے سے چلتا ہے، یہ پتہ نہیں کرنا چاہئے کہ کتنے فیصد عوام ایسے تماشوں کو پسند کرتی ہے۔ ہمارے ٹی وی کے اہلکاروں کا رویہ ویسا ہے جیسا کہ مغرب زدہ لوگوں کا، جو یہ سمجھتے ہیں کہ متوسط طبقہ اور دیہاتی عوام بہت دقیانوسی ہیں اور انہیں تہذیب سکھانے کی ضرورت ہے۔
قائد اعظم محمد علی جناح کے مطابق پاکستان کے قیام کی واحد وجہ مسلمانوں کی الگ واضح اقدار اور ثقافت رکھنے والی قومیت تھی۔ میرے خیال میں پاکستانی برقی ذرائع ابلاغ بھارت کی نقل کر کے ان کی بات کو غلط ثابت کر رہے ہیں۔ ایران میں انقلاب اس لیے آیا کہ وہاں کے ایک مغرور حکمران نے سوچا کہ ترقی کی واحد راہ مغرب کی تقلید ہے۔ اس قدر فراخ دلی سے ایک دوسرے تمدن کو اپنا کر انہوں نے اپنی بے حسی کا ثبوت دیا ہے اور اکثریت کے جذبات کی توہین کی ہے۔ اگر ہم پاکستان میں ایک بڑے معاشرتی انقلاب سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں ایران کی مثال سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔
بلاشبہ مغرب کی بہت باتیں قابل ستائش بھی ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ ہم نے مغرب کے جن اطوار کو اپنایا ہے، وہ ہمارے لیے نہ صرف یہ کہ سود مند نہیں ہیں بلکہ ہمارے اس واحد ادارے کی تباہی کا باعث بن جائیں گے جو ابھی تک قائم ہے یعنی ہمارا خاندانی نظام۔
(روزنامہ جنگ لندن، جمعہ ۲۳ رجب المرجب ۱۴۱۶ھ ۱۵ دسمبر ۱۹۹۵ء)