دنیا میں جنسی سیلاب پھیلانے، جنسی تعلیم کو لازمی اور عام کرنے، اسقاطِ حمل کو آسان اور جائز بنانے، کنڈوم کے استعمال کو فروغ دینے، اور ہم جنس پرستی کو قابلِ قبول بنانے کے پروگرام کو قانونی شکل دینے کے لیے ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہو رہی ہے۔ یہ کانفرنس ایک اسلامی ملک مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں ہو رہی ہے اور اس بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام اقوامِ متحدہ نے کیا ہے۔ کانفرنس کی مہتمم پاکستان کی ڈاکٹر نفیسہ صادق ہیں۔
اگرچہ کانفرنس کا عنوان ’’آبادی پر کنٹرول اور ترقی‘‘ تجویز کیا گیا ہے اور کانفرنس سے پہلے اقوام متحدہ نے ایک سو تیرہ صفحات پر مشتمل جو ایجنڈا تمام حکومتوں کے لیے جاری کیا ہے، اس میں ’’ترقی‘‘، ’’معیشت کے پھیلاؤ‘‘، اور ’’بنیادی انسانی حقوق کی حفاظت‘‘ جیسی اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں، لیکن ایک مبصر کے بقول
’’یہ مغرب کے نیو ورلڈ آرڈر کے تحت تیسری دنیا خصوصاً اسلامی ممالک میں جنسی سیلاب پھیلانے اور جنسی انقلاب برپا کرنے کا منصوبہ ہے، جسے مغرب اپنے دوسرے بے کار منصوبوں کی طرح روبہ عمل لانے کے لیے اقوام متحدہ کو استعمال کر رہا ہے۔‘‘
بین الاقوامی اسلامی تنظیموں، اسکالرز، ماہرینِ تعلیم، علماء اور دانشوروں نے قاہرہ کانفرنس کے ایجنڈے کی شدید مخالفت کی ہے۔ مصر میں واقع عالمِ اسلام کی قدیم اور سب سے مقتدر درسگاہ الازہر کے علماء، رابطہ عالمِ اسلامی، مسلم نوجوانوں کی بین الاقوامی تنظیم نے قاہرہ کانفرنس کے ذریعے اقوام متحدہ کے پیش کردہ پروگرام کو اسلامی معاشروں پر مغربی طرز کے جنسی حقوق کا قانون (Bill of Sexual Rights) مسلط کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔ مغربی دانشور، فلاسفر اور سیاستدان ایک عرصے سے دنیا پر مغرب کی برتری کو مسلمان عوام کی بڑھتی ہوئی آبادی کی طرف درپیش چیلنج سے نپٹنے کی جن تدابیر کو اختیار کرنے کا ذکر کرتے رہے ہیں، وہ اقوام متحدہ کے اس پروگرام میں ہر طرح سے مربوط نظر آتی ہیں۔
کانفرنس کے لیے جاری کردہ ایجنڈے کا بغور مطالعہ کیا جائے اور ’’آبادی پر کنٹرول اور ترقی‘‘ کے نام پر استعمال کی گئی خوبصورت اصطلاحات کے بین السطور اصل پروگرام کو پڑھا جائے تو مسلمانوں کے اعتراضات کی نوعیت اور ان کا جواز مکمل طور پر سمجھ میں آجاتا ہے۔
ا۔ جنسی تعلیم کا پھیلاؤ
کانفرنس کے پروگرام کے مطابق اقوام متحدہ کے ممبر ممالک پر لازم قرار دیا گیا ہے کہ وہ جنسی تعلیم کو عام کرنے اور اس پھیلاؤ میں حائل تمام قانونی، سماجی اور معاشرتی رکاوٹوں کو دور کریں۔ بین الاقوامی برادری پر زور دیا گیا ہے کہ نوجوانوں (لڑکوں اور لڑکیوں) کے جنسی تعلیم کے متعلق حقوق کو وسیع کریں اور ان کی حفاظت کریں۔
شادی کے بغیر جنسی تعلق کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔ ہر ایک اس حقیقت سے باخبر ہے کہ مغربی درس گاہوں میں جنسی تعلیم نصاب کا کسی نہ کسی صورت میں لازمی حصہ ہے، کئی مغربی ممالک میں یہ سیکنڈری اسکول سے شروع ہوتی ہے جبکہ بعض معاشروں میں اس کا اہتمام نچلی سطح سے کیا جاتا ہے۔ لہٰذا اقوام متحدہ کا اپنے ممبر ممالک پر جنسی تعلیم کو قائم کرنے اور اسے پھیلانے پر زور ان معاشروں کے لیے ہے جہاں یہ تعلیم ابھی نصاب کے طور پر رواج نہیں پا سکی، اور ظاہر ہے کہ اسلامی ممالک کی درس گاہیں، مسلمان طلباء اور طالبات اس کا نشانہ ہیں۔ اپنی فلموں، گانوں اور دیگر پروگراموں کے ذریعے مغربی ذرائع ابلاغ دن رات ’’جنسی کلچر‘‘ کے فروغ میں مصروف ہیں۔ اب وہ اسے مسلم معاشروں میں اتنی بنیادی سطح پر لازمی تعلیم کے ذریعے لے جانا چاہتے ہیں کہ مغربی جنس پرستی کی حامل تہذیب کے بارے میں کسی بھی سطح پر کوئی مزاحمت باقی نہ رہے۔ اور آج کے طالب علم کل جب عملی دنیا میں قدم رکھیں تو وہ اس کلچر کے سب سے بڑے علمبردار ہوں۔
اقوام متحدہ کی آڑ میں مغرب نہ صرف اساتذہ کے ذریعے جنسی تعلیم کا انتظام کرنے پر زور دے رہا ہے بلکہ ممبر ممالک سے یہ بھی مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ جدید ذرائع ابلاغ خصوصاً ٹی وی کو اس کام میں لائیں اور تفریح کے نام پر پیش کیے جانے والے پروگراموں میں بھی جنسی تعلیم کو فروغ دیا جائے۔ سب سے زیادہ خطرناک مطالبہ یہ ہے کہ طالب علموں کے لیے جنسی تعلیم کا حصول ایک حق کے طور پر تسلیم کیا جائے اور جس طرح باقی انسانی حقوق کی حفاظت کی جاتی ہے، اسے بھی وہی درجہ دیا جائے۔
۲۔ شادی کے بغیر جنسی تعلق کی حوصلہ افزائی اور کنڈوم کلچر کا فروغ
اقوام متحدہ کانفرنس کے ذریعے حکومتوں کو حکم دے رہا ہے کہ وہ
’’فرد اور جوڑوں کے لیے مانع حمل ادویات کے حصول، ان کے بارے میں معلومات، خاندانی منصوبہ بندی کی نسبت مشورے اور ہدایات کے حصول کو حق کے طور پر تسلیم کریں اور انہیں آسان بنائیں۔‘‘
یہ بھی کہا گیا ہے کہ
’’حکومتیں نوجوانوں (مرد اور عورت) کی جنسی خواہشات کی تکمیل میں مثبت اور ذمہ دارانہ انداز میں مدد فراہم کریں۔‘‘
یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ اس حکم میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ یہ مدد شادی شدہ جوڑوں کو، یا رشتۂ ازدواج میں منسلک مرد اور عورت کو فراہم کی جائے۔ اس حکم کا صاف مقصد یہ ہے کہ حکومتیں جنسی بے راہ روی کو اور جنسی تعلق کو اسی طرح عام کریں جس طرح مغربی معاشروں میں یہ عام ہے۔ عورت اور مرد کو کھلی چھٹی دی جائے کہ وہ اپنی اپنی خواہشات کے مطابق شادی کے بغیر جس طرح چاہیں آزادانہ طور پر جنسی تعلق قائم کریں اور معاشرے میں انہیں کوئی پوچھ کچھ کرنے والا نہ ہو۔ بلکہ حکومت ان کی اس روش کو ان کا بنیادی حق تسلیم کرتے ہوئے قانونی تحفظ فراہم کرے، اور ساتھ اس بات کا بھی پوری طرح اہتمام کرے کہ انہیں مانع حمل ادویات آسانی سے فراہم ہوں، اور آزادانہ جنسی سرگرمیوں کے بارے میں کوئی معلومات درکار ہوں یا ہدایات چاہئیں تو وہ انہیں مل سکیں۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے کہ کنڈوم کی فراہمی کو آسان اور عام بنایا جائے۔ اقوام متحدہ کا حکم یہ ہے کہ
’’کنڈوم ہر جگہ موجود ہو، سستا ہو اور لازمی ادویات کی فہرست میں شامل ہو۔‘‘
حکومتوں پر یہ بھی لازمی قرار دیا گیا ہے کہ وہ اس بات کا خاص اہتمام کریں کہ
’’قابلِ اعتماد اور محفوظ لیکن سستے کنڈوم کی سپلائی اور تقسیم میں کوئی کمی نہ رہنے دی جائے۔‘‘
اقوام متحدہ نے ترقی یافتہ ملکوں پر زور دیا ہے کہ وہ ترقی پذیر ممالک کو اعلیٰ قسم کے کنڈوم بنانے کی ٹیکنالوجی کی منتقلی کا اہتمام کریں۔ اقوام متحدہ کنڈوم کے پھیلاؤ میں کس قدر سنجیدہ ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ اگلے چند سالوں میں دنیا بھر میں کنڈوم کو عام کرنے کے لیے ۳۴ بلین ڈالر خرچ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ موجودہ عیسوی صدی کے آخر تک پروگرام اس بجٹ کو اور زیادہ بڑھانے کا ہے۔ صرف ’’کنڈوم بجٹ‘‘ کے لیے رقم کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اصل پروگرام کیا ہے اور مغرب نے دنیا کے معاشروں کو کس راہ پر لگانے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔
۳۔ اسقاطِ حمل کو آسان اور جائز بنانا
اگرچہ کنڈوم کے فروغ اور اس کے استعمال پر زور، مانع حمل ادویات کی با آسانی فراہمی کے بعد نسلِ انسانی کی افزائش کوئی مسئلہ نہیں رہنا چاہیے، لیکن اقوام متحدہ کا پروگرام یہ ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی انسان رحمِ مادر میں پرورش پانے والے بچے کو ختم کرنا چاہیں، انہیں نہ صرف اس کی آزادی ہونی چاہیے بلکہ انہیں اس کام کی تکمیل میں حکومتیں ہر طرح سے مدد فراہم کریں۔ اس لیے حکومتوں سے کہا گیا ہے کہ وہ
’’اس بات کا پوری طرح خیال رکھیں کہ صحت کے بنیادی پروگرام میں اسقاطِ حمل شامل ہو۔‘‘
عورتوں کو یہ قانونی حق دیا جا رہا ہے کہ وہ جب چاہیں اپنا حمل ختم کرا سکیں، اور اس کے لیے انہیں معلومات، مشورے اور ڈاکٹر و ادویات کی سہولت حاصل ہونی چاہیے۔ اقوام متحدہ صاف لفظوں میں ممبر ممالک خصوصاً اسلامی ممالک (اس لیے کہ مغربی ممالک میں یہ سہولیات موجود ہیں) کو حکم دے رہا ہے کہ وہ اسقاطِ حمل کو جائز اور قانونی قرار دیں اور اس کے لیے ہر ممکن مدد فراہم کریں۔ ماں کے پیٹ میں ایک معصوم کو قتل کرنا اسلامی تعلیمات کے صریحاً خلاف ہے، اور اب اقوام متحدہ کا حکم یہ ہے کہ مسلمان حکومتیں اس ’’جرم‘‘ کی پوری طرح اعانت کریں۔ اسقاطِ حمل کے نتیجے میں عورتوں کے لیے جو جسمانی اور ذہنی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں اقوام متحدہ کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ ان کا مقصد تو ’’جنسی انقلاب‘‘ کے ثمرات کو محفوظ کرنا اور معاشرے خصوصاً اسلامی سوسائٹی میں سوشل بریک ڈاؤن پیدا کرنا ہے۔
۴۔ ہم جنس پرستی کو قابلِ قبول بنانا
مغربی معاشروں میں ہم جنس پرستی کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔ اس معاملے میں ان معاشروں کی ’’ترقی‘‘ کا یہ عالم ہے کہ برطانیہ میں ایک خاتون ممبر نے پارلیمنٹ میں بل پیش کیا کہ ہم جنس پرستوں کی قانونی عمر کو ۲۱ سال سے کم کر کے ۱۶ سال کر دی جائے، جبکہ پارلیمینٹ نے ۱۶ اور ۲۱ کے درمیان ۱۸ سال کی عمر کا درمیانی راستہ اختیار کیا۔ ہالینڈ میں یہ حد ۱۲ سال کی ہے۔
اب اقوام متحدہ کے ذریعے مغرب اپنی اختیار کردہ ان جنسی اقدار کو اسلامی ممالک میں پھیلانا چاہتا ہے۔ قاہرہ کانفرنس کے مطابق ممبر ممالک کے لیے لازم ہے کہ وہ
’’فرد کو اس آزادی کی ضمانت دیں کہ وہ اپنی جنسی خواہشات کے لیے متبادل جنسی طرزِ زندگی اختیار کر سکیں۔‘‘
اس ’’آزادی‘‘ کا صاف مقصد معاشرے کے اندر ہم جنس پرست مردوں اور عورتوں کو اس بات کی کھلی اجازت دینا ہے کہ وہ مرد وزن کے قدرتی رشتے سے ہٹ کر غیر فطری طرزِ زندگی اختیار کر سکیں، اور معاشرہ اور حکومت انہیں اس کی نہ صرف سہولت فراہم کرے بلکہ انہیں اس کے لیے تحفظ فراہم کرے۔ اور جو ممالک اس لائن کو اختیار کرنے سے پہلو تہی کریں، اقوام متحدہ ان پر اقتصادی پابندیاں عائد کر سکے۔
اب تک ہم نے اقوام متحدہ کے جن احکامات کا جائزہ لیا ہے ان کا تعلق اگرچہ مسلم معاشروں سے خصوصی بنتا ہے، تاہم تیسری دنیا کے اور بھی بہت سے ممالک اس دائرے میں شامل ہیں جن کی معاشرتی اور سماجی اقدار مغرب سے مختلف ہیں، اور جنہیں اقوام متحدہ کے ذریعے الٹ پلٹ کر کے مغربی طرزِ زندگی سے بدلنے کی واضح کوشش کی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لاطینی امریکہ کے بعض ممالک کے رہنماؤں اور چرچ لیڈروں نے قاہرہ کانفرنس کے بعض پہلوؤں کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ تاہم اس کانفرنس کے چند ایک پہلو ایسے ہیں جو بالکل اور واضح طور پر مسلم معاشروں کے لیے مخصوص کیے گئے ہیں۔
اسلام میں خاندانی زندگی پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے اور معاشرے میں انتہائی بنیادی اکائی قرار دے کر اسے مضبوط سے مضبوط تر بنانے پر زور دیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ نے قاہرہ کانفرنس کے ذریعے اس زندگی پر کاری ضرب لگانے کا پروگرام بنایا ہے۔ ممبر ممالک سے کہا گیا ہے کہ وہ عورتوں کو اس بات کی آزادی فراہم کریں کہ وہ ’’روایتی طریقوں سے ہٹ کر اپنی آمدنی کے ذرائع اختیار کر سکیں‘‘۔ اور اس بات کا بھی اہتمام کرنے کے لیے کہا گیا ہے کہ ’’عورتوں پر گھریلو ذمہ داریوں کا بوجھ کم ہو سکے‘‘۔ مسلمانوں کے قانونِ وراثت پر براہ راست حملہ کرتے ہوئے ممبر ممالک سے کہا گیا ہے کہ وہ ’’عورتوں کو ہر طرح کے برابر حقوق فراہم کریں‘‘۔ شادی کے لیے کم از کم عمر کی حد مقرر کرنے کی تجویز بھی اقوام متحدہ کے ایجنڈے میں شامل ہے۔
شادی اور خاندانی زندگی کے ادارے بین الاقوامی سطح پر کبھی اس طرح کی یلغار کی زد میں نہیں آئے تھے جس طرح کا سیلاب اب اقوام متحدہ کے ذریعے مسلم معاشروں کے دروازوں پر آپہنچا ہے۔ جنسی تعلیم کے نتیجے میں جنسی خواہشات کی آگ مسلمان سوسائٹی کو جس طرح گھیرے میں لے گی، اور مانع حمل ادویات کی موجودگی اور کنڈوم کی فراہمی اس کے شعلے کے لیے جس ہوا کا کام دیں گی، وہ ہمارے خاندانی ڈھانچے کو جلا کر راکھ کر دے گی۔
اس کے نام پر خوبصورت اصطلاحوں کے پردے میں عورت کے لیے ’’جنسی غلامی‘‘ کی زندگی تجویز کی جا رہی ہے اور یہ خوامخواہ کا ہوّا نہیں ہے، مغربی ممالک ’’جنسی انقلاب‘‘ کے نتیجے میں غیر شادی شدہ ماؤں کی روز افزوں تعداد، ناجائز بچوں کی بڑھتی ہوئی فوج، طلاق کی شرح میں بے پناہ اضافے، اور امن و امان کی جس خراب صورتحال سے دوچار ہیں، وہ اب اسلامی ممالک کو برآمد کرنے کا پروگرام روبہ عمل لا رہے ہیں۔ سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ سب کچھ ’’ترقی اور آبادی کے کنٹرول‘‘ کے نام سے کیا جا رہا ہے۔ ترقی پذیر ممالک سے کہا جا رہا ہے کہ چونکہ ہماری آبادی بڑھ رہی ہے اور تمہارے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ تم اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کو فیلڈ کر سکو، اس لیے آبادی میں اضافے کو روکنے کے لیے مغربی جنسی ذرائع اختیار کرو۔
اس کا مقصد ایک طرف مغربی طرزِ معاشرت کو دوسرے معاشروں خصوصاً اسلامی معاشروں میں عام کرنا، اور دوسری طرف ’’گوری‘‘ نسل کی سیاسی اور اقتصادی برتری کو قائم دائم رکھنا ہے۔ مغربی فلاسفروں جن میں مشہور زمانہ فلاسفی برنائیڈرمل بھی شامل ہیں، اس نظریے کے حامی رہے ہیں کہ رنگدار افراد کی بڑھتی ہوئی آبادی کو روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ان کی شرح پیدائش میں کمی ہو، وگرنہ سفید رنگت کی نسل دنیا سے معدوم ہو جائے گی۔ جبکہ ہنری کسنجر کا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ پاکستان، ترکی، انڈونیشیا، مصر اور بنگلہ دیش جیسے ممالک کی بڑھتی ہوئی آبادی امریکہ کی قومی سلامتی کے لیے اسٹرٹیجک خطرہ ہے۔ مغربی دانشور اس کے لیے ’’پاپولیشن بم‘‘ کی اصلاح استعمال کرتےہیں۔
ترقی پذیر ممالک کے لیے ابھی تک یہ بحث حل طلب ہے کہ آبادی میں اضافہ ان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے یا وسائل کی منصفانہ تقسیم کا؟ پھر ہر ملک میں ان مسائل کی نوعیت جدا ہے۔ خود مغربی ماہرین کے اندازوں کے مطابق دنیا کی ایک چوتھائی آبادی ان ممالک میں رہتی ہے جو دنیا کے تین چوتھائی وسائل پر قابض ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں عموماً انہی ممالک کے مسلط کیے ہوئے حکمران براجمان ہیں جن کے اختیار میں پوری قوم کے وسائل ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک تیسری دنیا کے ممالک سے اپنے قرضوں کے سود کے طور پر ان کی قومی پیداوار کا بیشتر حصہ وصول کر لیتے ہیں۔
اقوام متحدہ جس کا مقصد دنیا میں امن کا قیام تھا، کسی بھی علاقائی جھگڑے کو طے کرانے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ اس لیے بیشتر ممالک کے وسائل کا ایک بہت بڑا حصہ اسلحے کی خریداری کے نام پر ترقی یافتہ ممالک کے خزانوں میں ہر سال منتقل ہو جاتا ہے۔ سیاسی، اقتصادی اور فوجی برتری حاصل کرنے کے بعد اب وہ ان معاشروں میں جو تبدیلی مسلط کرنا چاہتا ہے اس کے لیے اس نے اقوام متحدہ کا سہارا لیا ہے، تا کہ وہ تمام ممالک اور معاشرے جو مغرب کے چنے ہوئے اور آزمائے ہوئے ’’جنسی انقلاب‘‘ کی کسی بھی شق کو رد کریں گے، ان پر اقتصادی پابندیاں عائد کی جائیں گی۔
مسلمان حکومتوں کی طرف سے اقوام متحدہ کی آڑ میں اس مذموم مغربی منصوبے کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھی۔ مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے معاشروں میں مغرب کے تجویز کردہ ’’کنڈوم کلچر‘‘ کو مسلط ہونے سے روکیں۔ وگرنہ غربت، جہالت اور بیماری کے ساتھ جنسی بے راہ روی کا سیلاب ان کے معاشروں کو بہا کر لے جائے گا۔
ایک اسلامی ملک کے دارالحکومت قاہرہ، اور اس پروگرام کو روبہ عمل لانے کے لیے ایک پاکستانی مسلمان خاتون کا انتخاب اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہ سارا منصوبہ مسلمان ممالک کے لیے ترتیب دیا گیا ہے۔ تہذہبی لحاظ سے یہ پروگرام، فلسطین، کشمیر اور بوسنیا میں جاری مسلم نسل کشی سے زیادہ خطرناک ہے۔
(روزنامہ جنگ لندن ۳ ستمبر ۱۹۹۴ء)