یورپ میں اٹھارویں صدی کا زمانہ وہ زمانہ ہے جب کہ وہاں کے اکثر لوگوں کے دل سے خوفِ خدا کا آخری پیج بھی مارا جا چکا تھا، اس سے پہلے یورپ میں وہی فطری تقسیمِ کار تھی کہ مرد کمائے اور عورت گھر کا انتظام کرے، اور چونکہ اس زمانے میں جاگیری نظام رائج تھا اور تمدن کا نیا ڈھانچہ وجود میں نہ آیا تھا، اس لیے زیادہ تر لوگ زراعت پیشہ تھے، ادھر زندگی کا معیار بھی سادہ تھا اور زندگی گزارنے کے لیے بہت زیادہ سرمایہ کی ضرورت نہ تھی، اس لیے مرد نے اس تقسیم کار کو بدلنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔
اٹھارویں صدی میں جب مشین ایجاد ہوئی تو یورپ کے اندر صنعتی انقلاب رونما ہوا جس نے اہلِ یورپ کی زندگی کے ہر شعبے پر بڑے گہرے اثرات مرتب کیے۔ جاگیری نظام نے دم توڑ دیا اور سرمایہ داری نظام (Capitalistic System) نے اس کی جگہ لے لی، شہروں میں بڑے بڑے کارخانے کھلنے لگے، اور دیہاتی آبادیاں جو جاگیرداروں کے ظلم و ستم سے تنگ آچکی تھیں، شہروں کی طرف منتقل ہونا شروع ہو گئیں۔
اس پورے نظامِ معیشت کی تبدیلی کا اثر یہ ہوا کہ عام لوگوں کا معیارِ زندگی بھی بڑھنے لگا، ہر شخص کو سوسائٹی میں اپنا وقار باقی رکھنے کے لیے کافی سرمایہ کی ضرورت پیش آئی، چنانچہ پیسہ کمانے کی ہر ممکن کوشش کی جانے لگی، وقت کی رفتار کے ساتھ طرزِ بود و باش بدلتا رہا، ضروریاتِ زندگی بڑھتی ہی چلی گئیں، اس لیے حصولِ زر کی دوڑ شدید سے شدید تر ہوتی گئی۔
ان حالات میں مغربی مرد کی خود غرض طبیعت، جو ہمیشہ سے بغیر کوئی قربانی دیے عورت سے نفع اٹھاتی چلی آئی تھی، یہ برداشت نہ کر سکی کہ جو سرمایہ اس کی اپنی ضروریات کے لیے بہ مشکل مہیا ہوتا ہے اس میں عورت کو بھی حصہ دار بنائے، اور اس کے لیے یا تو اپنی ضروریات میں کمی کرے یا مزید پیسہ حاصل کرنے کے لیے اپنی جان پر اور بوجھ ڈالے۔ نظامِ معیشت اور طرزِ تمدن کے اس غیر معمولی انقلاب کے بعد مرد کو عورت کا گھر میں رہنا دو وجہ سے بری طرح کھلنے لگا:
- ان میں سے ایک تو اس کی وہ ہوس ناک طبیعت تھی جو عورت سے جدا ہونا پسند نہ کرتی تھی۔ جاگیری نظام کے زمانے میں عورت کا گھریلو کام کرنا اور گھر میں رہنا اس کے لیے اس لیے نقصان دہ نہ تھا کہ اس کی بیرونی مشغولیات ایسی نہ تھیں جن کی بنا پر اسے عورت سے دور رہنا پڑے۔ لیکن جب پوری زندگی کا ڈھانچہ ہی تبدیل ہو گیا تو اب مرد کا کام صرف ہل جوتنا یا دوکانداری کرنا نہ تھا، بلکہ صنعت اور تجارت کے غیر معمولی فروغ کی وجہ سے اسے دن رات کارخانوں اور دفتروں میں رہنا ہوتا تھا، اسے اس کام کے لیے دور دراز کے سفر کرنے پڑتے تھے، جس کے لیے عورت سے دور رہنا لازمی تھا۔
- دوسری وجہ وہی تھی کہ چونکہ معیارِ زندگی (Standard of living) کے بلند ہونے کی وجہ سے اسے اپنے مصارف کا برداشت کرنا ہی مشکل تھا، اس لیے اسے اپنے ساتھ ایک اور فرد کے لیے بھی محنت و مشقت اٹھانا اپنے نفس پر ایک غیر ضروری بوجھ محسوس ہونے لگا۔
ان دونوں مشکلات کا حل اسے ایک ہی نظر آیا کہ اب کسی طرح عورت کو بھی کمانے کے کام پر آمادہ کرو، تاکہ حصولِ زر کی مشکلات بھی ختم ہوں اور عورت کے ہر قدم پر ساتھ رہنے سے اس نفسانی جذبے کی بھی تسکین ہو جو رگ وپے میں پیوست ہو چکا ہے۔
لیکن اگر یہ بات سیدھے سادے طریقے سے عورت سے کہی جاتی تو وہ مرد کی اس انسانیت سوز خود غرضی سے خبردار ہو جاتی کہ وہ ایک طرف تو ہر قدم پر عورت کے وجود سے اپنی جنسی آگ کو ٹھنڈا کرنا چاہتا ہے، دوسری طرف جب اس عورت کے لیے روٹی کے چند ٹکڑے مہیا کرنے کا مرحلہ آتا ہے تو اسے یہ کام دوبھر معلوم ہوتا ہے۔ عورت یہ سوچتی کہ مرد کو اپنی جسمانی تکالیف کا تو اتنا احساس ہے کہ وہ ان کی وجہ سے عورت کو گھر سے نکالنا چاہتا ہے، مگر اسے اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے یہ خیال بھی نہیں آتا کہ عورت جیسی صنفِ نازک روپیہ کمانے اور گھر کا انتظام کرنے کے دونوں کام کس طرح کرے گی؟
اپنی اس خود غرضی پر پردہ ڈالنے کے لیے مغربی مرد کی عیاری نے جو ہمرنگ زمیں جال تیار کیا وہ اس قدر نظر فریب تھا کہ بیچاری عورت آج تک اس جال میں پھنسی ہوئی ہونے کے باوجود اس کی دلفریبی میں مگن ہے۔ اسی نظر فریب جال کا دلکش اور معصوم نام ’’تحریکِ آزادئ نسواں‘‘ ہے۔ مرد نے اپنی اس خود غرضی پر عمل کرنے کے لیے آزاد خیالی (Liberalism) کا سہارا لیا، اور وہ لبرلسٹ جو عرصہ دراز سے یورپ کی معاشی، اقتصادی، اخلاقی اور مذہبی زندگی میں انقلاب لانا چاہتے تھے، اس کام کے لیے موزوں ترین ثابت ہوئے۔ چنانچہ انہوں نے اس مقصد کے لیے ’’عورتوں کی آزادی‘‘ کا نعرہ لگایا اور عام مطالبہ کیا کہ عورت کو گھر کی چار دیواری میں محصور رکھنا اس پر ظلم ہے حالانکہ مرتبہ کے لحاظ سے اس میں اور مرد میں کوئی فرق نہیں، اسے مردوں کے دوش بدوش ہر کام میں حصہ لینا چاہیے، حصولِ معاش کے معاملہ میں اسے مرد کا محتاج ہونے کی بجائے مستقل بالذات (Independent) ہونا چاہیے۔
یہ نعرہ چونکہ ہر اس مرد کی دلی آواز تھا جو نئے طرزِ زندگی کے بعد عورت کا گھر میں رہنا اپنی حرص و ہوس کی وجہ سے برا سمجھ رہا تھا، چنانچہ لبرل پارٹی کی یہ آواز یورپ کے ہر خطے سے اٹھنی شروع ہو گئی۔ بیچاری عورت مرد کی اس مکارانہ چال کو نہ سمجھ سکی اور اس نے بخوشی گھر کو خیر باد کہہ کر مرد کی حرص و ہوس کو نہایت اطمینان سے پورا کر دیا۔
پھر مرد نے اپنی اس چال سے بڑے بڑے کام لیے، جب عورت بازاروں میں نکلی اور دفتروں میں داخل ہوئی تو مرد نے اپنی ہوسناک نگاہوں کی تسکین کے علاوہ اس کے ذریعے اپنی تجارت بھی خوب چمکائی، دوکانوں اور ہوٹلوں کے کاؤنٹروں پر، دفتروں کی میزوں پر، اخبار و اشتہار کے صفحات پر، اس کے ایک ایک عضو کو سرِ بازار رسوا کیا گیا اور گاہکوں کو اس کے ذریعہ دعوت دی گئی کہ آؤ اور ہم سے مال خریدو۔ یہاں تک کہ وہ عورت جس کے سر پر فطرت نے عزت و آبرو کا تاج رکھا تھا اور جس کے گلے میں عفت و عصمت کے ہار ڈالے تھے، دوکان کی زینت بڑھانے کے لیے شو کیس اور مرد کی تھکاوٹ دور کرنے کے لیے ایک تفریح کا سامان بن کر رہ گئی۔
یک زوجی کا افسانہ
اسی دوران عورت کو اسی حال پر خوش رکھنے اور اسے تسلی دینے کے لیے نت نئے افسانے گھڑے گئے جس سے عورت کو یہ محسوس ہوا کہ واقعی ہمارے مرد ہمارے بڑے ہمدرد ہیں اور ہمیں ظلم سے نجات دلانا چاہتے ہیں۔ انہی افسانوں میں سے ایک افسانہ کا سرِعنوان ’’تعددِ ازواج کی برائی‘‘ ہے۔ مغربی مرد جانتا تھا کہ سوکن عورت کی کمزوری ہے، اور جو شخص اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرے، عورت اسے اپنا حقیقی خیر خواہ اور سچا ہمدرد سمجھ سکتی ہے۔ چنانچہ انہوں نے ان اقوام پر جن کے یہاں تعددِ ازواج رائج اور عام تھا، طعن و تشنیع شروع کی کہ دیکھو یہ قومیں عورت پر کتنا ظلم کرتی ہیں کہ اسے سوکنوں کی وجہ سے مرد کے جور و ستم سہنے پڑتے ہیں، اور ہم کتنے منصف ہیں کہ ہمارے یہاں تعددِ ازواج جائز ہی نہیں، ہم ایک ہی بیوی پر قناعت کرتے ہیں۔
اب ان سے کوئی یہ پوچھنے والا نہ رہا کہ اگر تم ایسے ہی صابر اور قانع ہو تو تمہارے ہر ہوٹل، ہر نائٹ کلب، ہر پارک اور ہر تفریح گاہ پر تمہاری ایک نئی ’’بیوی‘‘ کیسے پیدا ہو جاتی ہے؟ ہم نے جو ’’تحریکِ آزادئ نسواں‘‘ کی بنیاد مرد کی خود غرضی کو قرار دیا ہے، اگر واقعہ ایسا نہیں تو کوئی ہمیں بتلائے کہ یہ لبرل ازم کوئی نئی چیز تو نہ تھی، یورپ میں اس وسیع المشربی کا راگ تو کم و بیش پندرہویں صدی سے الاپا جا رہا تھا۔
تاریخ شاہد ہے کہ اٹھارویں صدی سے تین سو سال پہلے یہ لبرلسٹ تمام فکری، اخلاقی، مذہبی، معاشرتی، سیاسی اور معاشی بندشوں کو توڑنے کے لیے ان تمام میدانوں میں تجدید و اصلاح کا پرچم لے کر اٹھے تھے۔ اس عرصہ میں انہوں نے صدیوں کے بنے اور جمے ہوئے دائروں سے باہر قدم نکالنے کے لیے پادریوں اور جاگیرداروں سے بڑی بڑی لڑائیاں لڑیں، کلیسا کے پرخچے اڑائے، جاگیری نظام کی دھجیاں بکھیریں، جب یہ زندگی کے ہر شعبے میں تجدید و اصلاح کے نعرے لگا رہے تھے، اس وقت ان کے دل میں عورت کی ’’مظلومیت‘‘ اور گھر میں محصور ہونے کے تصور نے کیوں درد پیدا نہیں کیا؟ اس وقت انہیں یہ خیال کیوں نہ آیا کہ ہم عورت کو اس ظلم سے نجات دلائیں، جب کہ یہ کام جاگیری نظام کا تختہ الٹنے اور کلیسا کا وقار تہس نہس کرنے سے کہیں زیادہ آسان تھا …، عورت کے مقید ہونے کا درد تین سو سال کے بعد اٹھارویں صدی ہی میں کیوں پیدا ہوا جب کہ صنعتی انقلاب آ چکا تھا؟
ہم نے اہلِ مغرب کے ان اعتراضات کو بھی، جو انہوں نے اسلام پر تعددِ ازواج کے سلسلے میں کیے ہیں، اسی عورت کو ورغلانے کا ذریعہ قرار دیا ہے، اگر ہمارا یہ خیال غلط ہے تو ہمیں کوئی یہ سمجھائے کہ اسلام میں تعددِ ازواج کا اصول تو بارہ سو سال سے چلا آتا تھا، اس عرصہ میں کسی نے اس اصول پر اس قدر شد و مد کے ساتھ کیوں اعتراض نہیں اٹھایا؟ بارہ صدیاں گزرنے کے بعد ہی اس اصول میں کون سے کیڑے پڑ گئے تھے جن کی بنا پر اہلِ مغرب کو اس کی تردید کی اس قدر شدت کے ساتھ ضرورت ہوئی؟
ان تمام چیزوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ہم یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہیں کہ ’’تحریکِ آزادئ نسواں‘‘ کا نعرہ مغربی مرد نے محض اپنے ذاتی مقاصد کے لیے لگایا تھا، اس تحریک سے عورت پر کس قدر ظلم ہوا؟ اور اس سے اسے کیا کیا نقصانات پہنچے؟ ان سوالات کا جواب تفصیل چاہتا ہے … اس وقت تو ہمیں محض یہ بتلانا ہے کہ تعددِ ازواج کے خلاف اہلِ مغرب کے اعتراضات صرف اس احساس کمتری کا نتیجہ تھے جو انہیں عورت کے ساتھ اپنے خود غرضانہ سلوک کی وجہ سے پیدا ہوا۔ وہ یہ چاہتے تھے کہ عورت کے دل میں یہ خیال پیدا نہ ہو کہ مردوں نے اپنے ذاتی مقاصد کی وجہ سے آزادئ نسواں کا ڈھونگ رچایا ہے اور عورت کی توجہ ان بہیمانہ حرکات کی طرف مبذول نہ ہو سکے جن کا مظاہرہ شب و روز تفریح گاہوں پر ہوتا رہتا ہے۔ اس لیے انہوں نے یہ ڈنکا پیٹنا شروع کر دیا کہ ہم بڑے صبر و قناعت پر عمل کرنے والے ہیں کہ ایک بیوی سے زیادہ کی کوئی خواہش ہمارے دل میں پیدا نہیں ہوتی، اور دوسری قوموں کی جنسی بھوک اس قدر بڑھی ہوئی ہے کہ وہ عورت کو سوکنوں کے جھنجٹ میں پھنسانا گوارا کر سکتے ہیں مگر اپنی جنسی بھوک پر کوئی کنٹرول نہیں کر سکتے۔
اس سفید جھوٹ کی نشر و اشاعت گوبلز کے اصول پر پوری دنیا میں اس اہتمام سے کی گئی کہ دنیا اسے سچ سمجھنے لگی، مشرقی عورت نے اسی فریب میں آکر اپنے یہاں بھی یک زوجی کے نعرے بلند کرنے شروع کر دیے۔
یورپ اور امریکہ میں یک زوجی کے عبرتناک نتائج
حالانکہ خود مغرب میں یک زوجی کا یہ اصول مرد کے لیے کتنے ہی سامانِ تعیش پیدا کر رہا ہو، عورت کے لیے ایک ایسا عذابِ جان بن چکا ہے کہ ان کی مظلومیت آج اس مظلومیت سے بدرجہا زیادہ ہے جس کا بڑے سے بڑا تصور تعددِ ازواج کی صورت میں کیا جا سکتا ہو۔ یہاں تک کہ وہاں کے منصف مزاج مفکرین عورت کی اس المناک مظلومیت کو محسوس کر کے یک زوجی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
ایک نامہ نگار نے، یک زوجی کے سبب سے عورتیں جس انسانیت سوز ظلم و ستم کا شکار ہیں، ان کا پول اپنے ایک بیان میں کھولا ہے، جس کے کچھ اقتباسات ہم ذیل میں ہدیۂ ناظرین کرتے ہیں:
’’۱۹۱۴ء اور ۱۹۳۹ء کی عالمگیر جنگوں نے انگلستان میں عورتوں کا تناسب مردوں سے زیادہ کر دیا ہے چنانچہ یہاں اکثر عورتیں شادی کا ارمان دل ہی میں لیے ہوئے بوڑھی ہو جاتی ہیں۔ یوں تو وہ زندگی سے پوری طرح لطف اندوز ہوتی رہتی ہیں لیکن زندگی کا حقیقی سکون انہیں میسر نہیں آتا۔
لندن کے ایک پادری صاحب کہتے ہیں کہ ’’آج کل اگر غلطی سے کسی دوشیزہ کو شادی شدہ سمجھ لیا جاتا ہے تو وہ چند لمحوں کے لیے باغ باغ ہو جاتی ہے۔ اکثر کنواری لڑکیوں نے زندگی کا مقصد ہی شادی سمجھ رکھا ہے۔ وہ شادی کے لیے ماری ماری پھرتی ہیں اور انہیں جو لڑکا بھی مل جاتا ہے، اسے اپنا ممکن شوہر سمجھنا شروع کر دیتی ہیں۔‘‘
پادری صاحب مزید فرماتے ہیں ’’جو دوشیزائیں مسز کہلا سکتی ہیں وہ اپنے آپ کو اعلیٰ و ارفع سمجھنا شروع کر دیتی ہیں اور احساس برتری کے مرض کا شکار ہو جاتی ہیں، وہ ان سہیلیوں کو ذرا نفرت سے دیکھنا شروع کر دیتی ہیں جن کو شوہر نہیں ملتے۔ عام لڑکیاں جب ایک دوسرے سے ملتی ہیں تو سب سے پہلے ان کی نگاہیں دوسری کی انگلی میں شادی کی انگوٹھی تلاش کرتی ہیں۔ ان حالات میں لڑکیاں شادی کے خیال ہی سے محبت شروع کر دیتی ہیں۔‘‘
آگے لندن میں تمام ملک سے لڑکیوں کے کھنچ کھنچ کر جمع ہونے کے اسباب اور وہاں ان کے مشاغل کی تفصیل نامہ نگار یوں بیان کرتا ہے:
’’ گھر میں ماں بوائے فرینڈ سے ملنے پر اعتراض کرتی تھی، یہاں ترقی کے مواقع زیادہ ہیں، منگیتر سے جھگڑا ہو گیا تھا، ایکٹرس بننے کا شوق بھی صاحب زادی کو چراتا ہے، اور کچھ دنیا دیکھنے گھر سے نکل کھڑی ہوتی ہیں، اور پھر یہاں پر سینکڑوں شاخوں والے ’’لائنز‘‘ اور اے بی سی کے سستے کھانے والے ریستوران ہیں جہاں ہزاروں لڑکیاں کام کرتی ہیں۔ ’’دل ورتھ‘‘ اور ’’اسپنسر اینڈ مارکس‘‘ کے وسیع و عریض اسٹوروں میں شاپ گرل بن سکتی ہیں، ہوٹلوں میں ویٹر بن سکتی ہیں، سیکریٹری بن سکتی ہیں، اور فوٹو گرافوں کی ماڈل اور ہندوستانی شہزادوں کے حرم کی زینت۔ ان میں سے اکثر چار پانچ پونڈ سے لے کر سات آٹھ پونڈ فی ہفتہ تک کماتی ہیں جس سے بمشکل اپنا ضروری خرچ چلاتی ہیں۔ اور جنہیں کچھ بچا کر اپنے بوڑھے ماں باپ کو بھی بھیجنا ہوتا ہے، وہ زندہ رہنے کے لیے پوری غذا بھی نہیں کھا سکتیں اور تقریباً تمام ہی شام کو تفریح کے لیے ’’شکار‘‘ کی تلاش میں رہتی ہیں جو انہیں پکچر دکھا دے، ریستوران میں ایک وقت کا کھانا کھلا دے، یا کسی اچھے کافی ہاؤس میں کافی کی ایک پیالی ہی پلا دے۔ اور اس کے لیے انہیں اس آزادی اور دنیا دیکھنے کی ’’قیمت‘‘ ادا کرنی پڑتی ہے۔
یہاں عورت آزاد ہے لیکن اس کی حالت قابلِ رحم ہے، یہاں عام عورت کی کوئی عزت نہیں، کوئی مقام نہیں۔ اگر وہ مشرق کی ’’مظلوم عورت‘‘ کی ’’جیل کی زندگی‘‘ کی ایک جھلک دیکھ لے تو آزادی اور مساوات سے فوراً توبہ کر لے۔ یہاں ہزاروں عورتیں ساری عمر گھر اور اولاد کو ترستے ہوئے زندگی بسر کر دیتی ہیں اور انہیں اپنی مظلومی اور کسمرسی کا پورا احساس ہوتا ہے۔‘‘
یہ ہے انگلستان اور یورپ کے اکثر ملکوں کے معاشرہ کا حال، اس اقتباس کو بار بار پڑھیے، خصوصیت کے ساتھ آخری پیراگراف پر پوری توجہ کے ساتھ غور فرمائیے اور اس میں اس دعوے کی مضبوط دلیلیں دیکھیے جو ہم نے شروع میں کیا ہے۔
یہ تو انگلینڈ کا حال تھا، اب آپ ایک نظر امریکہ کے حالات پر بھی ڈال لیجئے، وہاں کے جنسی حالات کا سب سے زیادہ مستند جائزہ اس کتاب سے لیا جا سکتا ہے جو وہاں کے مشہور ماہر جنسیات ڈاکٹر سی کنزے (C.Kinsay) نے پندرہ سال کی طویل تحقیق اور ریسرچ کے بعد امریکی لوگوں کے جنسی طرزِ عمل پر لکھی ہے۔ اس کا ایک جملہ ہمیں خصوصیت سے دعوتِ فکر و نظر دیتا ہے:
’’اگر عورتوں کو جنسی آوارگی کی بناء پر سزا دی جائے تو وہاں کے رائج الوقت قانون کی رو سے اَسی فیصد عورتوں کو اس وقت جیلوں میں بند ہونا چاہیے۔‘‘
ذرا غور فرمائیے کہ اَسی فیصد عورتیں صرف ان جرائم کا ارتکاب کرتی ہیں جو قانون کی رو سے ناجائز ہیں، اور آپ کو یہ اندازہ تو ہو گا ہی کہ بے شمار جنسی جرائم ایسے ہیں جو فطرت کے خلاف امریکہ کے قانون کی نگاہ میں جرائم نہیں۔ ڈاکٹر سی کنزے نے اپنی اس رپورٹ کے ذریعہ امریکی تہذیب کو بیچ چوراہے کے ننگا کر دیا ہے۔
اور اگر آپ کو اس کی مزید تفصیل سننی ہو تو ڈاکٹر گڈوچ سی شوفلر کی وہ تقریر جگر تھام کر پڑھیے جو انہوں نے امریکی میڈیکل ایسوسی ایشن کے اراکین کے سامنے کی تھی، وہ فرماتے ہیں:
’’امریکہ میں کنواری ماؤں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ ۱۹۳۸ء میں اٹھاسی ہزار ناجائز بچے پیدا ہوئے تھے مگر ۱۹۵۰ء میں ایک لاکھ ۴۲ ہزار ہوئے۔ ان ماؤں کی عمریں بیس سال سے کم تھیں بلکہ ۴۴ فیصد مائیں ۱۵ سے ۲۰ سال تک تھیں۔ ۱۹۵۰ء میں تقریباً ۳۲ ہزار مائیں ۱۷ سال کی یا اس سے کچھ کم عمر کی تھیں۔ اب ایسی ماؤں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اسکول اور کالج کی طالبات اور عمدہ ملازمت والی کنواری مائیں زیادہ ہیں۔ غریب اور مفلس لڑکیوں کی تعداد جو مائیں بن رہی ہیں نسبتاً کم ہے۔ نو عمروں میں جنسی احساسات حد سے زیادہ تجاوز کرتے جا رہے ہیں۔ موجودہ صحافت، تفریحات، سینما، ریڈیو، ٹیلیویژن اور تھیٹر اس کے کافی حد تک ذمہ دار ہیں۔‘‘ (روزنامہ جنگ کراچی، ستمبر ۱۹۵۴ء)
یہ اعداد و شمار ببانگِ دہل اعلان کر رہے ہیں کہ یورپ اور امریکہ میں عفت و عصمت کا ادنیٰ سے ادنیٰ تصور بھی آزادی کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھا یا جا چکا ہے، قوم کی قوم آبرو باختہ ہو کر رہ گئی ہے، اور جنسی جرائم کا ایک نہ رکنے والا سیلاب ہے جو قانونی محکموں کی چابک دستی کے باوجود اٹھتا ہی چلا آتا ہے۔
بعض حضرات کو تعجب ہے کہ مغرب کے داناؤں کو یہ باتیں منظور ہیں، مگر منظور نہیں تو تعددِ ازواج، جو ان مشکلات کا واحد حل ہے۔ مگر جو گزارشات ہم نے اوپر کے صفحات میں پیش کی ہیں ان کی روشنی میں یہ بات کوئی تعجب خیز نہیں۔ مغربی مرد تعددِ ازواج کی اجازت کیوں دے؟ جب کہ اس کی خواہش من وعن پوری ہو رہی ہے جس کی بنا پر اس نے ’’آزادئ نسواں‘‘ کا نعرہ لگایا تھا۔ مغرب میں ہر قدم پر اس کے لیے جنسی تسکین کا سامان موجود ہے۔ دوسری طرف جو دوہری محنت اسے عورت کے گھر میں رہنے کی وجہ سے کرنی پڑتی تھی اب وہ بھی نہیں کرنی پڑتی۔ اس کی نظر میں تو سانپ بھی مر رہا ہے اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹ رہی، پھر اسے یہ فکر کیوں ہو کہ عورت کو اس ’’آزادی‘‘ کی بدولت کتنا زبردست خمیازه بھگتنا پڑ رہا ہے اور کتنے ظلم و ستم وہ غریب اس یک زوجی کی قیمت ادا کرنے کے لیے سہ رہی ہے۔