خاندانی نظام

عائلی زندگی معاشرے کا وہ بنیادی پتھر ہے جس پر تہذیب و تمدن کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ اگر معاشرے میں خاندانی نظام کا ڈھانچہ توڑ پھوڑ اور افراتفری کا شکار ہو، تو خواہ زمینیں سونا اگل رہی ہوں، یا مشینوں سے لعل و جواہر برآمد ہو رہے ہوں، زندگی سکون سے محروم جاتی ہے۔ آج یورپ اور امریکہ کی وہ دنیا جو سیاسی اور معاشی اعتبار سے پسماندہ اور ترقی پذیر ملکوں کے لیے قابل رشک سمجھی جاتی ہے، خاندانی نظام کی توڑ پھوڑ کی وجہ سے اسی سنگین مسئلے سے دوچار ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ دولت کی ریل پیل اور تیز رفتار مادی ترقی کے باوجود لوگ ایک انجانے اضطراب کا شکار ہیں۔ اپنی اندرونی بے چینی سے گھبرا کر کوئی یوگا کے دامن میں پناہ لے رہا ہے، کوئی منشیات اور خواب آور دواؤں میں سکون ڈھونڈ رہا ہے، اور بالآخر جب ان میں سے کوئی چیز اس بے چینی کا علاج نہیں کر پاتی تو آخری چارہ کار کے طور پر لوگ خود کشی کر رہے ہیں، اور خود کشی کرنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔

ابھی کچھ عرصہ پہلے میں سوئزر لینڈ میں تھا۔ میرے میزبانوں نے آمد و رفت کے لیے جس گاڑی کا انتظام کیا تھا، اس کا ڈرائیور ایک اطالوی نسل کا تعلیم یافتہ آدمی تھا اور انگریزی روانی سے بول لیتا تھا۔ وہ چند روز میرے ساتھ رہا۔ اس کی عمر تقریباً چالیس سال کو پہنچ رہی تھی لیکن ابھی تک اس نے شادی نہیں کی تھی۔ میرے وجہ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ ہمارے معاشرے میں شادی اکثر اس لیے بے مقصد ہو جاتی ہے کہ شادی کے بعد شوہر اور بیوی کے درمیان زندگی کی پائیدار رفاقت کا تصور بہت کمیاب ہے۔ اس کے بجائے شادی ایک رسمی تعلق کا نام رہ گیا ہے جس کا مقصد بڑی حد تک ایک دوسرے سے مالی فوائد حاصل کرنا ہوتا ہے۔ بہت سی خواتین شادی کے بعد جلد ہی طلاق حاصل کر لیتی ہیں اور یہاں کے قوانین کے مطابق شوہر کی جائیداد کا بڑا حصہ ہتھیا کر اسے دیوالیہ کر جاتی ہیں۔ اور یہ پہچاننا مشکل ہوتا ہے کہ کون سی عورت صرف شوہر کی جائیداد پر قبضہ کرنے کے لیے شادی کر رہی ہے اور کون وفاداری کے ساتھ زندگی گزرانے کے لیے۔ 

اس نے حسرت بھرے انداز میں یہ بات کہہ کر ساتھ ہی یہ تبصرہ بھی کیا کہ آپ کے ایشیائی ممالک میں شادی واقعی بامقصد ہوتی ہے۔ اس سے ایک جما ہوا خاندان وجود میں آتا ہے جس کے افراد آپس میں دکھ سکھ کے ساتھی ہوتے ہیں۔ ہم ایسے خاندانی ڈھانچے سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا تمہارے والدین یا بہن بھائی تمہیں اچھی بیوی کی تلاش میں مدد نہیں دیتے؟ اس نے یہ سوال بڑے تعجب کے ساتھ سنا اور کہنے لگا کہ میرے والدین تو رخصت ہو چکے، بہن بھائی ہیں، لیکن ان کا میری شادی سے کیا تعلق؟ ہر شخص اپنے مسائل کو خود ہی حل کرتا ہے، میری تو ان سے ملاقات کو بھی سال گزر جاتے ہیں۔ 

یہ ایک ڈرائیور کے تاثرات تھے۔ (واضح رہے کہ یورپ کے سفید فام ڈرائیور بھی اکثر پڑھے لکھے اور بعض اوقات خاصے تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔ جس ڈرائیور کا میں نے ذکر کیا اس کا نام آرلینڈو تھا، وہ گریجویٹ تھا اور تاریخ، جغرافیہ اور بہت سے سماجی معاملات پر اس کا مطالعہ خاصا تھا) ہو سکتا ہے کہ اس نے اپنے ذاتی حالات کی وجہ سے کچھ مبالغے سے بھی کام لیا ہو، لیکن مغرب میں خاندانی ڈھانچے کی ٹوٹ پھوٹ ایک ایسی حقیقت ہے جس پر زیادہ دلائل قائم کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ بات پوری دنیا میں مشہور و معروف ہے۔ مغرب کے اہل فکر اس پر ماتم کر رہے ہیں اور جوں جوں اس کا علاج کرنا چاہتے ہیں، اتنی ہی تیز رفتاری سے خاندان کا ڈھانچہ مزید تباہی کی طرف جا رہا ہے۔ 

سابق سوویت یونین کے آخری صدر میخائل گوربا چوف اب دنیا کے سیاسی منظر سے تقریباً‌ غائب ہو چکے ہیں لیکن ان کی کتاب (Perestroika) جو انہوں نے اپنے اقتدار کے زمانے میں لکھی تھی، نہ صرف سوویت یونین بلکہ پورے مغرب کے سماجی اور معاشی نظام پر ایک جرأت مندانہ تبصرے کی حیثیت رکھتی ہے اور اس کے بعض حصوں میں آج بھی غور و فکر کا بڑا سامان ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے ’’خواتین اور خاندان‘‘ کے عنوان سے خاندانی نظام کی شکست و ریخت پر بھی بحث کی ہے۔ انہوں نے شروع میں لکھا ہے کہ تحریک آزادئ نسواں کا یہ پہلو تو بے شک قابل تعریف ہے کہ اس کے ذریعے عورتوں کو مردوں کے برابر حقوق ملے۔ عورتیں زندگی کے ہر شعبے میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کے قابل ہوئیں اور اس کے نتیجے میں ہماری معاشی پیداوار میں اضافہ ہوا، لیکن آگے چل کر وہ لکھتے ہیں:

’’لیکن اس اپنی مشکل اور جرأت مندانہ تاریخ کے پچھلے سالوں میں ہم خواتین کے ان حقوق اور ضروریات کی طرف توجہ دینے میں ناکام رہے جو ایک ماں اور گھرستن کی حیثیت میں نیز بچوں کی تعلیم و تربیت کے سلسلے میں ان کے ناگزیر کردار سے پیدا ہوتے ہیں۔ خواتین چونکہ سائنسی تحقیق میں مشغول ہو گئیں، نیز زیر تعمیر عمارتوں کی دیکھ بھال میں، پیداواری کاموں اور خدمات میں اور دوسری تخلیقی سرگرمیوں میں مصروف رہیں، اس لیے ان کو اتنا وقت نہیں مل سکا کہ وہ خانہ داری کے روز مرہ کے کام انجام دے سکیں، بچوں کی پرورش کر سکیں اور ایک اچھی خاندانی فضا پیدا کر سکیں۔ اب ہمیں اس حقیقت کا انکشاف ہوا ہے کہ ہمارے بہت سے مسائل جو بچوں اور نوجوانوں کے ذریعے، ہماری اخلاقیات، ثقافت اور پیداواری عمل سے تعلق رکھتے ہیں، اس وجہ سے بھی کھڑے ہوئے ہیں کہ خاندانی رشتوں کی گرفت کمزور پڑ گئی ہے اور خاندانی فرائض کے بارے میں ایک غیر ذمہ دارانہ رویہ پروان چڑھا ہے۔ ہم نے عورتوں کو ہر معاملے میں مردوں کے برابر قرار دینے کی جو مخلصانہ اور سیاسی اعتبار سے درست خواہش کی تھی، یہ صورتحال اس کا تضاد آفرین نتیجہ ہے۔ اب اپنی تعمیر نو کے دوران ہم نے اس خامی پر قابو پانے کا عمل شروع کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم پریس میں، عوامی تنظیمات میں، کام کے مقامات میں، اور خود گھروں میں ایسے گرما گرم مباحث منعقد کر رہے ہیں جن میں اس سوال پر بحث کی جاری ہے کہ عورت کو اس کے خالص نسوانی مشن کی طرف واپس لانے کے لیے ہمیں کیا اقدامات کرنے چاہئیں۔‘‘ (Perestroika, P 117, Ed 1987) 

یہ ایک ایسے سیاسی لیڈر کا تبصرہ ہے جس کے معاشرے میں خاندان سے متعلق یا مرد و عورت کے حقوق و فرائض کے بارے میں کسی قسم کی مذہبی اقدار کا کوئی تصور یا تو موجود نہیں ہے یا اگر ہے تو اس کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔ لہٰذا خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ پر اس کا اظہار افسوس کسی اعلیٰ آسمانی ہدایت کے زیر اثر نہیں بلکہ اس کے صرف ان نقصانات کی بنا پر ہے جو ٹھیٹھ مادی زندگی میں اسے آنکھوں سے محسوس ہوئے۔ 

ایک مسلمان کی حیثیت سے ہم صرف ظاہری اور مادی یا دنیوی نفع و نقصان کے نہیں، بلکہ ان آسمانی ہدایات کے بھی پابند ہیں جو قرآن و سنت کے واسطے سے ہمارے لیے واجب الفعل ہیں۔ لہٰذا خاندانی نظام کی ابتری صرف ہمارا سماجی اور معاشرتی نقصان ہی نہیں ہے بلکہ ہمارے عقیدے، ہمارے نظریۂ حیات اور ہمارے دین کے لحاظ سے ایک بہت بڑا فساد ہے جو ایک مسلم معاشرے میں کسی بھی طرح قابل برداشت نہیں۔ 

جب سے ہمارے درمیان مغربی افکار کا ایک سیلاب امڈا ہے بالخصوص جب سے ٹی دی، ویڈیو اور انگریزی فلموں کی بہتات نے ہمارے معاشرے پر ثقافتی یلغار شروع کی ہے، اس وقت سے ہم شعوری یا غیر شعوری طور پر انہی معاشرتی تصورات کی طرف بڑھ رہے ہیں جن کی داغ بیل مغرب نے ڈالی تھی۔ الحمد اللہ ابھی ہمارا خاندانی نظام درہم برہم نہیں ہوا لیکن جس رفتار سے مغربی ثقافت ہمارے درمیان پھیل رہی ہے، انگریزی فلموں کے سیلاب نے مغربی طرز زندگی کو جس طرح گھر گھر اور گاؤں گاؤں پھیلا دیا ہے، جس طرح بے سوچے سمجھے خواتین کو گھروں سے نکالنے اور انہیں ایک عاملِ معیشت (Factor of Production) بنانے پر زور دیا جا رہا ہے، اور گھر اور خاندان کے بارے میں اسلامی تعلیمات جس تیزی کے ساتھ دوری اختیار کی جا رہی ہے، وہ مستقبل میں ہمارے خاندانی نظام کے لیے ایک زبردست خطرہ ہے۔ جس کی روک تھام آج ہی سے ضروری ہے اور اس روک تھام کا طریقہ اسلام کی ان معقول تعلیمات کی ٹھیک ٹھیک پیروی کے سوا کچھ نہیں جو نہ مشرقی ہیں نہ مغربی، جن کا ماخذ و منبع وحی الہٰی ہے اور وہ ایک ایسی ذات کی وضع کردہ تعلیمات ہیں جو انسان کے حال و مستقبل کی تمام ضروریات سے بھی پوری طرح باخبر ہے اور انسانی نفس کی ان چوریوں کو بھی خوب جانتی ہے جو زہر ہلاہل پر قند و شکر کی تہیں چڑھانے میں مہارت تامہ رکھتی ہے۔ 

لہٰذا ہمارا کام وقت کے ہر چلے ہوئے نعرے کے پیچھے چل پڑنا نہیں ہے بلکہ اسے قرآن و سنت کی کسوٹی پر پرکھ کر یہ فیصلہ کرنا ہے کہ یہ ہمارے مزاج و مذاق کے مطابق ہے یا نہیں؟ جب تک ہم میں یہ جرأت اور یہ بصیرت پیدا نہ ہوگی، ہم باہر کی ثقافتی یلغار کے لیے ایک تر نوالہ بنے رہیں گے، اور ہماری اجتماعی زندگی کی ایک ایک چول رفتہ رفتہ ہلتی چلی جائے گی۔

(روزنامہ جنگ کراچی، ۸ مئی ۱۹۹۶ء)

دین اور معاشرہ

(جنوری ۱۹۹۷ء)

جنوری ۱۹۹۷ء

جلد ۸ ۔ شمارہ ۱

شادی، سوشل کنٹریکٹ یا سنت نبویؐ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

نکاح و طلاق کی شرعی حیثیت
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

اسلام میں نکاح و طلاق کا تصور
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

اسلامی قانون اور مغربی قوانین ایک تقابلی جائزہ
مولانا مفتی فضیل الرحمٰن ہلال عثمانی

خاندانی نظام
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

خاندانی نظام کا تحفظ
عمران خان

اسلام میں عورتوں کے حقوق
حضرت مولانا مفتی محمود

آزادئ نسواں کا پس منظر اور نتائج
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

پاکستانی ثقافت اور نئی نسل
ارشاد احمد حقانی

جنسی انقلاب اور اقوام متحدہ
جاوید اقبال خواجہ

خواتین کی عالمی کانفرنسوں کے اصل مقاصد
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اسلام اور عورت کا اختیار
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

نکاح میں سرپرست کے اختیار کے متعلق لاہور ہائی کورٹ کے نام ایک خط
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

خاندان کے اکٹھے مل کر کھانے کی ضرورت
پروفیسر غلام رسول عدیم

حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ
قاری حماد الزہراوی

شہزادہ چارلس کی دوسری شادی اور چرچ آف انگلینڈ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مغربی معاشرہ کی چند جھلکیاں
میڈیا

علماء کرام پورے اعتماد اور دلجمعی کے ساتھ مغربی ثقافت کا مقابلہ کریں
ادارہ

خاندانی نظام کی بحالی مغرب کا سب سے بڑا مسئلہ ہے
روزنامہ جنگ

تعارف و تبصرہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ہم اپنی سوچ پر سائنس کی اجارہ داری کے خطرناک نتائج سے آگاہ ہو رہے ہیں
شہزادہ چارلس

اسلام ہی انسانی مسائل کا بہترین حل ہے
شہزادہ چارلس

مطبوعات

شماریات

Flag Counter