پاکستانی ثقافت اور نئی نسل

چند روز پیشتر میں اپنے دفتر میں بیٹھا معمول کے کام کر رہا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی، میں نے فون اٹھایا، دوسری طرف سے ایک نوجوان لڑکی بات کر رہی تھی، لیکن ایک آدھ فقرے کے بعد وہ رونے لگی اور اس کے لیے بات چیت وضاحت سے جاری رکھنا ممکن نہ رہا۔ اس نے مجھے کہا کہ حقانی صاحب! میں سخت ذہنی کرب و اضطراب کی حالت میں ہوں۔ میرے ذہن میں اسلام کے بارے میں بے شمار سوالات ہیں جن کی مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی اور نہ مجھے کہیں سے ان کا جواب مل رہا ہے۔ کیا آپ اس معاملے میں میری کچھ مدد کریں گے؟ 

لڑکی کی گفتگو سے صاف اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ کسی انگلش میڈیم اسکول کی پڑھی ہوئی ہے کیونکہ وہ آدھی بات اردو میں کرتی تھی اور آدھی انگریزی میں۔ میں نے اس سے کہا، بیٹی جب تک مجھے تمہارے سوالات کی نوعیت ٹھیک ٹھیک معلوم نہ ہو اور مجھے یہ بھی معلوم نہ ہو کہ تمہارا تعلیمی اور سماجی پس منظر کیا ہے، میں تمہیں اس کرب سے نکالنے میں کوئی خاص مدد نہیں دے سکتا۔

لڑکی نے بتایا کہ میں نے حال ہی میں بی۔کام کیا ہے اور اب میں ایم بی اے کرنے کا ارادہ رکھتی ہوں، مجھے کوئی مالی یا گھریلو مسئلہ درپیش نہیں لیکن میں اپنے ذہنی اشکالات کی وجہ سے سخت پریشان ہوں۔ 

میں نے پوچھا کہ تم نے آج تک اسلام کے بارے میں کیا کچھ پڑھا ہے اور کس حوالے سے تمہارا تعلیماتِ اسلامی کو سمجھنے کی خواہش ہے یا مشکل پیش آرہی ہے؟ 

اس نے جواب دیا کہ میں اسلام کے بارے میں صرف اسی قدر جانتی ہوں جو میں نے تھوڑا بہت اسکول کی نصابی کتب میں پڑھا ہو گا یا کبھی کبھار میں نے ٹی وی پر کسی اسلامی پروگرام سے کچھ سمجھا ہو گا، یا میرے والدین نے اپنے محدود علم اور مطالعے کے حوالے سے کبھی سرسری طور پر کچھ بتایا ہو گا۔ اس گفتگو کے دوران وہ بچی مسلسل روتی رہی بلکہ ہچکیاں لیتی رہی۔ اس نے مجھ سے کہا کہ آپ مجھے کوئی کتاب بتا دیں جس سے مجھے اپنے سوالات کا جواب مل جائے، یا کوئی ایسا ادارہ بتا دیں جس میں میں داخلہ لے لوں اور وہاں میرے سوالات کا مجھے جواب مل سکے۔ 

میں نے اس بچی سے کہا کہ جب تک میں تمہارے سوالات کی ٹھیک ٹھیک نوعیت سے آگاہ نہ ہوں، میں تمہیں کوئی ایک کتاب تجویز نہیں کر سکتا، کیونکہ ہو سکتا ہے تمہارے سوالات معاشرتی حوالے سے ہوں، فقہی اور مسلکی اور محدود معنوں میں مذہبی موضوعات پر ہوں، اسلام کی سیاسی یا اقتصادی تعلیمات سے متعلق ہوں، یا حیات بعد الممات اور مابعد الطبیعات سے ان کا تعلق ہو، یا انسان کی تخلیق، اس کی زندگی کے انجام، تخلیقِ کائنات، ذاتِ باری تعالیٰ کی ماہیت اور صفات، اسلام کی اخلاقی تعلیمات، اور اسلامی معاشرے میں عورت کے مقام اور کردار، حجاب کی حدود اور ضرورت اور افادیت کے مسئلے پر ہوں۔ میں نے ان تمام موضوعات اور مسائل پر نوجوانوں کے اذہان میں پیدا ہونے والے سوالات وقتاً‌ فوقتاً‌ سنے ہیں، اور جب تک مجھے واضح طور پر معلوم نہ ہو کہ تمہارے سوالات اور اشکالات کا پس منظر کیا ہے، ان کی نوعیت کیا ہے، میں نہ تو تمہیں کوئی کتاب تجویز کر سکتا ہوں اور نہ کسی ایسے ادارے کا پتہ دے سکتا ہوں جہاں پہنچ کر تمہارے سوالات کا جواب مل سکے۔ 

اس بچی نے کہا، تو پھر آپ کے پاس میری مدد کرنے کی کیا صورت ہے؟ 

میں نے کہا، بظاہر اس کے سوا کوئی صورت مجھے نظر نہیں آتی کہ یا تو تم مجھے تفصیل سے اپنی فکری مشکل لکھ کر بھیجو، یا بذاتِ خود میرے پاس آکر مجھ سے گفتگو کرو، صرف اس کے بعد ہی میں تمہیں کوئی صحیح مشورہ اور برمحل اور موزوں رائے دے سکتا ہوں۔ 

یہ گفتگو قریب قریب میرے ذہن سے نکل چکی تھی کہ گزشتہ جمعے کے روز (۱۵ مارچ) مجھے ٹیلی ویژن کے ایک پروگرام میں شرکت کے لیے اسلام آباد جانا پڑا۔ ٹیلی ویژن ان دنوں خواتین کے لیے ایک ہفتہ وار پروگرام ’’حوا کے نام‘‘ سے نشر کرتا ہے اور میں نے اس سیریز کا ایک آدھ پروگرام اس وقت دیکھا تھا جب اس کی کمپیئرنگ لاہور کی ایک خاتون صحافی کرتی تھیں جن کے صحافی میاں سے میری دوستی اور نیاز مندی ہے۔ اس پروگرام میں شرکت کے لیے پروگرام کی پروڈیوسر خاتون نے، جہاں ممتاز ٹی وی اداکارہ عظمیٰ گیلانی، شاعرہ اور ادیبہ محترمہ کشور ناہید، اور ایک ممتاز خاتون ڈانسر کو مدعو کیا ہوا تھا وہاں اس نے میرے علاوہ وفاقی وزیر ڈاکٹر شیر افگن، ممتاز قانون دان اور اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن سید افضل حیدر، اور ممتاز دانشور پروفیسر خواجہ مسعود کو بھی بلایا ہوا تھا۔ اس کے علاوہ تین طالبات ایسی بھی مدعو تھیں جن میں سے ایک تو ایک یونیورسٹی میں ادیان کے تقابلی مطالعے کی استاد تھیں، وہ اس قدر مکمل حجاب میں تھیں کہ ان کی صرف آنکھیں ہی قدرے کھلی ہوئی تھیں، انہوں نے ہاتھوں میں دستانے بھی پہن رکھے تھے، چونکہ اس وقت غیر معمولی سردی کا موسم نہیں ہے، اس لیے میرا خیال اور گمان ہے کہ اس بچی نے ہاتھوں کو بھی اپنے حجاب کے حصے کے طور پر ہی ڈھانپ رکھا تھا۔ دو دوسری طالبات ایسی تھیں جنہوں نے صرف سر کا حجاب پہن رکھا تھا۔ گفتگو کا موضوع ’’پاکستانی کلچر اور اس میں عورت کا مقام‘‘ تھا۔ 

یہ پروگرام اسی روز رات کو ٹیلی ویژن پر ٹیلی کاسٹ ہو گیا، مجھے اس کے بارے میں یہاں کوئی بات نہیں کرنی۔ میں نے اس کا حوالہ یہاں صرف اس لیے دیا ہے کہ جو نوجوان لڑکی مکمل حجاب میں تھی اور جس نے نہایت سلجھی ہوئی گفتگو کی اور جس کے لب و لہجے اور اندازِ گفتگو سے صاف اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ اچھی خاصی تعلیم یافتہ اور صاحبِ علم بچی ہے۔ اس نے دورانِ گفتگو عربی کی کسی عبارت کا حوالہ دیا جس سے یہ بھی اندازہ ہوا کہ اس کا عربی کا تلفظ بھی بہت معیاری تھا۔ لیکن مجھے یہ سن کر حیرت ہوئی کہ اس ’’استاد طالبہ‘‘ نے بھی کہا کہ ہمیں اپنی تعلیم کے دوران کبھی یہ نہیں بتایا گیا اور پڑھایا گیا کہ اسلامی یا پاکستانی کلچر کیا چیز ہے؟ اس کی حدود کیا ہیں اور دنیا کے دوسرے معاشروں سے ہمارا کلچر کسی حوالے سے مختلف یا ممیّز یا مماثل ہے۔ اس نے کہا کہ ہم نے تو کبھی آج تک اس سوال پر غور کیا ہے نہ کبھی ہمارے کسی استاد نے اس موضوع پر بات کی۔ 

پروگرام میں ایک نوجوان لڑکا بھی شامل تھا جو یونیورسٹی میں پڑھ رہا ہے، اس نے بھی ایک سے زیادہ دفعہ یہ بات کی کہ ہمیں قطعاً‌ معلوم نہیں کہ پاکستانی کلچر اور اس کی منفرد خصوصیات کیا ہیں اور اس معاملے میں اسلام کا نقطۂ نظر کیا ہے۔ 

جس مذاکرے میں بارہ چودہ افراد شریک ہوں، جن کی عمریں اور مطالعہ اور نظریات قطعاً‌ مختلف ہوں، اور جنہوں نے ایک مختصر اور محدود وقت میں ایک انتہائی تہہ در تہہ مسئلے پر بات کرنی ہو، وہاں گفتگو میں کچھ نہ کچھ الجھاؤ اور خلط مبحث پیدا ہو جانا ناقابلِ فہم نہیں۔ لیکن مجھے اس مذاکرے میں شرکت کر کے دو باتوں پر حیرت ہوئی:

  1. اولاً‌، اچھے خاصے پڑھے لکھے مرد اور خواتین کلچر کے موضوع پر کنفیوژن کا شکار تھے۔ 
  2. ثانیاً‌، ایک نہایت اچھی پڑھی لکھی لڑکی نوجوان لڑکی جو تقابلِ ادیان کی استاد بھی ہے اس نے برملا اعتراف کیا کہ اپنے تعلیمی کیریئر کے دوران کبھی اس حوالے سے رہنمائی نہیں ملی کہ پاکستانی یا اسلامی کلچر کیا ہے اور اس کی حدود کیا ہیں۔ 

جس معاشرے میں یہ حالت ہو، اس کے نوجوان طلباء اور طالبات اگر فکری اور نظریاتی حیرانی اور سرگردانی اور کنفیوژن کی گرفت میں ہوں، تو اس پر کسی کو حیرت نہ ہونی چاہیے۔ ان دنوں پاکستان پر بھارتی کلچر کی یلغار کی بات ہو رہی ہے۔ ادھر جدید ذرائع ابلاغ کی وجہ سے دنیا بھر کے ٹی وی چینل ہر گھر کے اندر پروگرام دکھا رہے ہیں اور وہ اپنے اپنے کلچر اور نظریات کے مظہر ہیں۔ ایسی فضا میں اگر ہم اپنی نوجوان نسل کو فکری لحاظ سے خودرو پودوں کی طرح بڑھنے کے لیے چھوڑ دیں تو نتیجہ پھر انارکی کے سوا کچھ نہیں نکل سکتا اور یہ نہ بھولیے ’’خانۂ خالی را دیو می گیرد‘‘۔

اس بات پر اعتراض کیا جا رہا ہے، اور بجا طور پر یہ کہا جا رہا ہے کہ ورلڈکپ کے موقع پر جو کلچر پروگرام ترتیب دیے گئے وہ یا ان کا کچھ حصہ ہماری فکری اور تہذیبی روایات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اور صدر لغاری کو بھی یہ کہنا پڑا ہے کہ پاکستان میں ناچ گانا کچھ زیادہ ہی ہو گیا ہے۔ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کر سکتے کہ ان کلچر پروگراموں میں نوجوانوں نے بڑی تعداد میں حصہ لیا ہے، خوب بھنگڑے اور دھمالیں ڈالی ہیں، اور ان پروگراموں میں اپنی گہری دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ 

اس صورت حال کے رونما ہونے کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارا بنیادی نظامِ تعلیم و تربیت شعورِ سمت سے خالی ہے، اور ہمارے ہاں قومی سطح پر نہ ایسا نصابِ تعلیم رائج ہے، نہ ایسا تعلیمی ماحول موجود ہے کہ ہماری نئی نسل منفرد پاکستانی اور اسلامی تصورات کا شعور بھی حاصل کر سکے اور ان سے وابستگی بھی رکھتی ہو۔ دوسرے بہت سے حوالوں سے بھی ہمارا قومی نظامِ تعلیم و تربیت تباہ کن حالت میں ہے۔ تعلیمی سہولتوں کا فقدان ہے، سائنس اور ٹیکنالوجی کی تربیت بہت محدود ہے، اور ہم ان خامیوں اور کمزوریوں کا کچھ ادراک بھی رکھتے ہیں اور ان کا تذکرہ بھی ہوتا رہتا ہے۔ 

اصلاحِ احوال کی ضرورت کا احساس بھی پایا جاتا ہے لیکن جہاں تک ہمارے قومی نظامِ تعلیم و تربیت (یہ ایک نہایت وسیع اور جامع اصطلاح ہے، اس کی وسعتوں اور گہرائیوں پر غور کیجئے) کا تعلق ہے، ہم نے اسے بالکل Mess بنا رکھا ہے۔ کوئی واضح فکری بنیادی ہیں نہ واضح اہداف اور نہ ان پر عمومی قومی اتفاقِ رائے۔ کئی قسم کے نصاب، کئی قسم کے تعلیمی فلسفے رائج ہیں، اور ایک قوم کے اندر فکری حوالے سے کئی قومیں ابھر رہی ہیں، جن کے باہمی تضادات اور اختلافِ تصورات اس قدر واضح ہیں کہ اگر کوئی شخص دیدۂ بینا رکھتا ہے تو انہیں سمجھنے سے غافل نہیں رہ سکتا۔ 

ابلاغ کی دنیا میں جو عظیم انقلابات رونما ہو رہے ہیں اور جن کی وسعت اور ہمہ گیری میں بھی اضافہ ہونے والا ہے، ان کے اثراتِ بد سے بچنے اور صرف اچھے اثرات کو قبول کرنے کے لیے ہمارے ہاں قومی سطح پر کوئی منصوبہ بندی موجود نہیں۔ کہنے کو ہم اسلام کے پیروکار ہیں اور پاکستان میں ایک اسلامی معاشرہ وجود میں لانا ہمارا دستوری ہدف ہے، لیکن اگر عدلِ اجتماعی کے حوالے سے ہم اس میدان میں کچھ نہیں کر سکے تو فکری اور نظریاتی اور تعلیمی اور ثقافتی دائروں میں بھی ہماری حالت انتہائی ناقابلِ رشک ہے۔ 

اللہ اس قوم کی حالت پر رحم کرے جو اپنے آپ کو متضاد فکری اور نظریاتی حملوں کا صید زبوں بنا دے، اور جسے اپنے فکری اور نظریاتی تشخص کو محفوظ رکھنے کی ضرورت کا احساس ہی نہ ہو ؎

وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

کیا کوئی شخص ایمانداری سے یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ اسلام، اسلام کا اتنا زبانی تذکرہ کرنے کے باوجود ہم نے کوئی ایسا قومی نظامِ تعلیم و تربیت پروان چڑھایا ہے جو قوم کو اور بالخصوص اس کی نئی نوجوان نسل کو فکری لحاظ سے کوئی شعورِ سمت دے سکے۔ میرے خیال میں اس سوال کا جواب ایک واضح نفی میں ہے اور یہ ہماری عظیم ترین اور سنگین ترین قومی ناکامیوں میں سے ایک ہے۔ اس پس منظر میں اس بات پر اظہارِ افسوس اور اظہارِ تعجب کیسا کہ بھارت کی ثقافتی یلغار کے ہم پر غالب آجانے کی باتیں اندرونِ ملک کی بھی ہو رہی ہیں اور سرحد پار سے بھی ہمیں ان کے طعنے دیے جا رہے ہیں۔  فاعتبروا یا اولی الابصار۔ 

(روزنامہ جنگ لاہور، ۱۷ مارچ ۱۹۹۶ء)

پاکستان ۔ قومی و ملی مسائل

(جنوری ۱۹۹۷ء)

جنوری ۱۹۹۷ء

جلد ۸ ۔ شمارہ ۱

شادی، سوشل کنٹریکٹ یا سنت نبویؐ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

نکاح و طلاق کی شرعی حیثیت
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

اسلام میں نکاح و طلاق کا تصور
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

اسلامی قانون اور مغربی قوانین ایک تقابلی جائزہ
مولانا مفتی فضیل الرحمٰن ہلال عثمانی

خاندانی نظام
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

خاندانی نظام کا تحفظ
عمران خان

اسلام میں عورتوں کے حقوق
حضرت مولانا مفتی محمود

آزادئ نسواں کا پس منظر اور نتائج
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

پاکستانی ثقافت اور نئی نسل
ارشاد احمد حقانی

جنسی انقلاب اور اقوام متحدہ
جاوید اقبال خواجہ

خواتین کی عالمی کانفرنسوں کے اصل مقاصد
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اسلام اور عورت کا اختیار
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

نکاح میں سرپرست کے اختیار کے متعلق لاہور ہائی کورٹ کے نام ایک خط
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

خاندان کے اکٹھے مل کر کھانے کی ضرورت
پروفیسر غلام رسول عدیم

حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ
قاری حماد الزہراوی

شہزادہ چارلس کی دوسری شادی اور چرچ آف انگلینڈ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مغربی معاشرہ کی چند جھلکیاں
میڈیا

علماء کرام پورے اعتماد اور دلجمعی کے ساتھ مغربی ثقافت کا مقابلہ کریں
ادارہ

خاندانی نظام کی بحالی مغرب کا سب سے بڑا مسئلہ ہے
روزنامہ جنگ

تعارف و تبصرہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ہم اپنی سوچ پر سائنس کی اجارہ داری کے خطرناک نتائج سے آگاہ ہو رہے ہیں
شہزادہ چارلس

اسلام ہی انسانی مسائل کا بہترین حل ہے
شہزادہ چارلس

مطبوعات

شماریات

Flag Counter