اسلام میں نکاح و طلاق کا تصور

نکاح میاں بیوی کے درمیان ایک دائمی اور اجتماعی معاہدہ ہے جسے مرتے دم تک نبھانے کا ارادہ کیا جاتا ہے۔ جب تک نکاح کا معاہدہ طے نہیں پاتا، اس معاہدہ کے فریقین یعنی مرد اور عورت کے اخلاق کی چھان بین کی جاتی ہے کہ وہ ایک دوسرے کو کس حد تک قابل قبول ہیں۔ پھر جب نکاح طے پا جاتا ہے تو زوجین پر معاہدۂ نکاح کی قانونی پابندی عائد ہو جاتی ہے جسے پورا کرنے کے وہ پابند ہوتے ہیں۔ 

شریعت نے مرد اور عورت دونوں کو اپنے اپنے دائرہ کار میں کچھ حقوق دیے ہیں اور کچھ فرائض سونپے ہیں۔ اگر فریقین ان کی پابندی کرتے ہیں تو ان کی ازدواجی زندگی نہایت پرسکون گزرتی ہے۔ تاہم بعض اوقات اس قسم کے حالات پیدا ہو جاتے ہیں جن میں اس معاہدہ سے منسلک فریقین کا نباہ ممکن نہیں رہتا، تو ایسی صورت میں شریعت نے ان میں تفریق کا قانون بھی نافذ کر دیا ہے تاکہ وہ ساری عمر کٹھن زندگی گزارنے کی بجائے اپنے لیے کوئی دوسرا بہتر ذریعہ تلاش کر سکیں۔

دوسرے مذاہب سے تقابل

اس مسئلہ میں اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے معاشروں میں طرح طرح کی قباحتیں پیدا ہو رہیں ہیں۔ مثلاً‌:

  • بائبل کی کتاب استثنا میں موجود ہے کہ اگر خاوند اپنی بیوی پر کسی وجہ سے ناراض ہو جائے تو فوراً‌ طلاق نامہ عورت کے ہاتھ میں دے کر گھر سے نکال دے، اس سلسلہ میں صفائی وغیرہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ادھر مطلقہ کو حق حاصل ہے کہ طلاق کے فوراً‌ بعد دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے۔ 
  • یہ تو یہودی مذہب ہے، اب عیسائیوں کو لیجئے، ان میں طلاق کا تصور ہی نہیں ہے۔ جب ایک دفعہ نکاح ہو گیا تو ساری عمر کے لیے میاں بیوی ایک دوسرے کے پابند ہو گئے۔ اب ان کو موت ہی علیحدہ کر سکتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جس کسی جوڑے کا میلان طبع ایک سا نہ ہو اور ان میں ناچاقی پیدا ہوئی تو ساری عمر عذاب میں بسر کرنا پڑی۔ 
  • البتہ عیسائیوں کا دوسرا فرقہ جو صدیوں بعد کی پیداوار ہے، اس نے عدالت کے ذریعے طلاق کو قانونی شکل دے دی ہے۔ اس کا طریق کار یہ ہے کہ عدالت مجاز فریقین کو طلب کرے گی اور اس بات کی تحقیق کرے گی کہ فریقین میں سے کس نے دوسرے پر ظلم کیا ہے، یا کسی ایک نے زنا کا ارتکاب کیا ہے۔ اگر کوئی ایسا جرم ثابت ہو جائے تو عدالت ان کے درمیان تفریق کر دے گی اور اس طرح طلاق واقع ہو جائے گی۔ 
  • اسی طرح ہندومت میں بھی طلاق کا کوئی تصور نہیں، مرتے دم تک میاں بیوی میں علیحدگی نہیں ہو سکتی۔ 
  • رومیوں اور یونانیوں میں بھی طلاق نامی کوئی چیز نہیں پائی جاتی تھی جس کی وجہ سے ان مذاہب میں معاشرتی برائیاں جنم لیتی ہیں۔

اسلام میں نظریۂ طلاق

اسلام نے افراط و تفریط سے ہٹ کر اعتدال کی راہ اختیار کی ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نکاح اس لیے نہیں کیا جاتا کہ زوجین میں تفریق ڈال دی جائے۔ اس معاہدہ (Agreement) کو نباہنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے باوجود اگر میاں بیوی کے لیے اکٹھے زندگی گزارنا ممکن نہ ہو، تو پھر اسلام نے طلاق کے ذریعے ان کی علیحدگی کا انتظام بھی کر دیا ہے، اگرچہ طلاق پسندیدہ چیز نہیں ہے۔ 

حضور علیہ السلام کا ارشاد ہے ابغض المباحات الى اللہ الطلاق یعنی مباح اشیا میں سے سب ناپسندیدہ چیز اللہ کے نزدیک طلاق ہے۔ تاہم ضرورت کے تحت اس کی اجازت ہے۔ 

طلاق کی صورت میں اسلام نے ایک اور ضروری قانون عدت کا دیا ہے جو دوسرے مذاہب میں نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ طلاق کے بعد عورت ایک خاص مدت تک دوسرا نکاح نہیں کر سکتی۔ اس کا مقصد تحفظ نسب ہے تاکہ پیدا ہونے والی اولاد کا نسب مشکوک نہ ہو جائے۔ طلاق کے بعد اگر عورت فوراً‌ دوسرا نکاح کر لے تو بچے کے نسب پر شبہ ہو سکتا ہے کہ پہلے خاوند کا ہے یا دوسرے کا، اور اس طرح کئی پیچیدگیاں پیدا ہونے کا احتمال ہے۔ اسلام نے عورت کے دو نکاحوں کے درمیان مختلف صورتوں میں مختلف مدتیں مقرر کر دی ہیں تاکہ اس بات کی وضاحت ہو جائے کہ آئندہ پیدا ہونے والا بچہ کس باپ کا ہے۔ نیز نکاح کے احترام کا تقاضا بھی ہے کہ دوسرے نکاح سے پہلے کچھ وقفہ ہونا چاہیے۔

عدت

عدت اس کم از کم مدت کا نام ہے جو طلاق کی تاریخ یا شوہر کی فوتیدگی کی تاریخ سے لے کر نکاح ثانی تک کے لیے مقرر ہے۔ اس عرصہ میں عورت دوسرا نکاح نہیں کر سکتی۔ عدت مختلف صورتوں کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہے۔ مثلاً‌:

فوتیدگی کی صورت میں عدت تاریخ وفات سے چار ماہ دس دن ہے۔ اتنے عرصہ میں پتہ چل جاتا ہے کہ عورت حاملہ تو نہیں ہے۔ اگر حاملہ نہیں ہے تو چار ماہ دس دن کی عدت گزار کر عورت نکاح کر سکتی ہے۔ 

اور اگر حاملہ ہے تو اس کی عدت وضع حمل ہے۔ جس دن بچہ جنے گی، اس کے بعد نکاح کر سکتی ہے۔ بیوگی سے لے کر وضع حمل تک کی مدت کا کوئی تعین نہیں ہے۔ یہ عرصہ خواہ ایک دن کا ہو یا پورے نو ماہ کا۔ حاملہ کی عدت وضع حمل ہے۔ لہٰذا بچہ جب بھی پیدا ہو، عورت نکاح کر سکتی ہے۔ حجۃ الوادع کے سفر میں ایک صحابی اونٹنی سے گر کر فوت ہو گئے۔ ان کی بیوی حاملہ تھی۔ ٹھیک بائیس دن بعد اس کے ہاں بچہ پیدا ہو گیا تو حضور علیہ السلام نے فرمایا، اس کی عدت ختم ہو گئی ہے، یہ جب چاہے نکاح ثانی کر سکتی ہے۔ 

اگر عورت عاقل، بالغ اور آزاد ہے، اور اسے حیض آتے ہیں، کسی وجہ سے طلاق ہو گئی ہے تو اس کی عدت تین حیض ہو گی۔ یہ تین حیض خواہ دو ماہ میں آجائیں یا ۱۹ ماہ میں، اسے بہرحال تین حیض تک انتظار کرنا ہو گا۔ عام طور پر حیض ماہ بماہ آتے ہیں۔ اس لیے ایسی عورت کے حیض کم و بیش تین ماہ میں پورے ہو جاتے ہیں، جس کے بعد اسے نکاح کی اجازت ہوتی ہے۔ 

پاکستان میں نافذ عائلی قوانین میں ایسی عورت کی عدت نوے دن مقرر کی گئی ہے جو کہ درست نہیں ہے۔ حیض والی عورت جو ابھی بالغ نہیں ہوئی، یا جو کبڑی میں پہنچ چکی ہے اور اس کے حیض بند ہو چکے ہیں، ایسی عورتوں کی عدت تین ماہ یا نوے دن درست ہے۔ اس کی تفصیلات سورۃ احزاب میں موجود ہیں۔ 

ایک اور صورت بھی ہو سکتی ہے کہ نکاح ہو گیا مگر میاں بیوی کی خلوت صحیحہ نہیں ہوئی، انہیں مباشرت کا موقع نہیں ملا، ایسی صورت میں اگر طلاق واقع ہو جائے تو فرمايا فما لكم عليھن من عدة تعتدونھا ایسی عورتوں کے لیے کوئی عدت نہیں، وہ جب چاہیں دوسرا نکاح کر سکتی ہیں۔ اس معاملہ میں بھی عائلی قوانین درست نہیں کیونکہ وہاں سب کے لیے نوے دن کی عدت مقرر ہے حالانکہ یہاں کوئی عدت نہیں ہے۔ 

ایسا ہی عدت کا ایک مسئلہ ہمارے نوٹس میں آیا تھا۔ کہوٹہ کے رہنے والے ایک شخص نے بتایا کہ کسی عورت کو طلاق ہو گئی۔ اس کو حیض دیر سے آتا ہے اور نوے دن میں اس کے تین حیض مکمل نہیں ہوئے۔ مگر یونین کونسل والوں نے نوے دن کے بعد اس کا نکاح کرا دیا۔ حالانکہ یہ نکاح ہوا ہی نہیں ہے کیونکہ عدت کے دوران نکاح ہو نہیں سکتا۔ تو اس قسم کی خرابیاں ہیں جو عائلی قوانین میں خامی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ اس قسم کے نکاح قرآن و سنت کے خلاف ہیں، اور اس کے ذمہ دار وہ لوگ ہیں جو ایسا حکم دیتے ہیں۔

دین اور معاشرہ

(جنوری ۱۹۹۷ء)

جنوری ۱۹۹۷ء

جلد ۸ ۔ شمارہ ۱

شادی، سوشل کنٹریکٹ یا سنت نبویؐ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

نکاح و طلاق کی شرعی حیثیت
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

اسلام میں نکاح و طلاق کا تصور
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

اسلامی قانون اور مغربی قوانین ایک تقابلی جائزہ
مولانا مفتی فضیل الرحمٰن ہلال عثمانی

خاندانی نظام
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

خاندانی نظام کا تحفظ
عمران خان

اسلام میں عورتوں کے حقوق
حضرت مولانا مفتی محمود

آزادئ نسواں کا پس منظر اور نتائج
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

پاکستانی ثقافت اور نئی نسل
ارشاد احمد حقانی

جنسی انقلاب اور اقوام متحدہ
جاوید اقبال خواجہ

خواتین کی عالمی کانفرنسوں کے اصل مقاصد
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اسلام اور عورت کا اختیار
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

نکاح میں سرپرست کے اختیار کے متعلق لاہور ہائی کورٹ کے نام ایک خط
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

خاندان کے اکٹھے مل کر کھانے کی ضرورت
پروفیسر غلام رسول عدیم

حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ
قاری حماد الزہراوی

شہزادہ چارلس کی دوسری شادی اور چرچ آف انگلینڈ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مغربی معاشرہ کی چند جھلکیاں
میڈیا

علماء کرام پورے اعتماد اور دلجمعی کے ساتھ مغربی ثقافت کا مقابلہ کریں
ادارہ

خاندانی نظام کی بحالی مغرب کا سب سے بڑا مسئلہ ہے
روزنامہ جنگ

تعارف و تبصرہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ہم اپنی سوچ پر سائنس کی اجارہ داری کے خطرناک نتائج سے آگاہ ہو رہے ہیں
شہزادہ چارلس

اسلام ہی انسانی مسائل کا بہترین حل ہے
شہزادہ چارلس

مطبوعات

شماریات

Flag Counter