تہذیبِ جدید یا دورِ جاہلیت کی واپسی

حافظ محمد اقبال رنگونی

’’فرانس میں ۱۹۸۰ء کی دہائی کے دوران جنم لینے والے بچوں کی ایک چوتھائی تعداد شادی کے بغیر پیدا ہوئی۔ قومی شماریاتی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق ۱۹۸۸ء میں غیر شادی شدہ والدین کے ہاں دو لاکھ تیس ہزار بچے پیدا ہوئے جو کہ کل  پیدائش کا چھبیس فیصد ہے۔ ۱۹۸۰ء میں یہ تعداد ۹۱ ہزار تھی۔‘‘ (روزنامہ جنگ ۔ ۱۱ فروری ۱۹۹۰)۔

برطانیہ کی اخلاقی حالت دیکھیئے:

’’برطانیہ میں اب ہر چار میں سے ایک بچہ غیربیاہتا والدین کے ہاں پیدا ہوتا ہے۔ مرکزی دفتر شماریات نے برطانوی معاشرے کے بارے میں سالانہ سروے میں بتایا کہ غیربیاہتا جوڑوں کے ہاں پیدائش کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور اگر یہ اضافہ اسی شرح سے جاری رہا تو چند سال کے عرصہ میں برطانیہ میں پیدا ہونے والے تمام بچوں کے والدین غیر شادی شدہ ہوں گے۔‘‘ (روزنامہ جنگ ۔ ۱۵ فروری ۱۹۹۰ء)

برطانیہ میں بے غیرتی و بے شرمی کے مناظر اتنے عام ہیں کہ شرم و حیا کا نام لینا گویا ایک جرم ہو گیا ہے۔ عفت و عصمت کا تحفظ برطانوی معاشرہ میں ایک عجیب اور نرالا ہے اور جو کوئی اپنی عفت و عصمت کا تحفظ کرتا ہے اسے نادر خیال کیا جاتا ہے۔ ۹ مارچ کی رات برطانوی چینل ۱۲۷ میں ایک پروگرام دکھایا گیا جس کا موضوع ’’کیا مرد و عورت کا کنوارا ہونا ضروری ہے؟‘‘ تھا۔ اس پروگرام کے ایڈیٹر نے ملک کے اکثر نوجوانوں سے انٹرویو لیے۔ ہر ایک نے یہی بتایا کہ وہ شادی سے پہلے اپنے کنوارے پن سے محروم ہو چکے تھے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس بداخلاقی و بدکرداری کو بڑے فخریہ انداز میں سنا رہے تھے۔ ان تمام لوگوں کا کہنا تھا کہ شادی سے قبل کسی لڑکے اور لڑکی کے لیے کنوارہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ البتہ پروگرام میں صرف ایک لڑکی ایسی دکھائی گئی جو ۳۱ سال کی ہونے کے باوجود ابھی تک کنواری تھی اور ہر سال اپنے ڈاکٹر سے کنوارے پن کا سرٹیفکیٹ لیتی رہی ہے۔

علاوہ ازیں مانچسٹر ایوننگ نیوز ۲ فروری کی اشاعت میں خبر دیتا ہے کہ محکمہ صحت کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق اس وقت غیر شادی شدہ عورتیں زیادہ بچے پیدا کر رہی ہیں۔ ۱۹۸۸ء میں مانچسٹر کے ہسپتالوں میں جو بچے پیدا ہوئےہیں ان میں ۵۰ فیصد کنواری ماں سے پیدا ہوئے۔ مانچسٹر کے عیسائی پادری مسٹر سٹانلی بوتھ کلبورن نے اس پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ برطانیہ میں فیملی لائف کو بہتر بنانا ہو گا اور اس کے لیے شادی انتہائی ضروری ہے۔ چرچ آف انگلینڈ کے رہنماؤں نے لوگوں کو تعلیم و تبلیغ دینی شروع کی ہے کہ شادی کیجئے اور اس کے  لیے ۴۰ پادری ان موضوعات پر تبلیغ کرنے نکلے ہیں۔

یورپی تہذیب کے اثرات نے جب ایشیائی اور اسلامی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لیا اور یورپ کی اندھادھند تقلید ہونے لگی تو اس کا کتنا عبرتناک انجام سامنے آیا، اسے ایک رپورٹ میں دیکھیئے:

’’ایدھی ٹرسٹ کے بانی عبد الستار ایدھی کی اہلیہ نے اطلاع دی کہ پاکستان کے مختلف ایدھی سنٹروں کے ذریعے گذشتہ ماہ ۲۴۱ نوزائیدہ بچوں کی لاشیں ملی ہیں جنہیں دفنا دیا گیا۔ جبکہ گذشتہ ماہ کے دوران کراچی اور دیگر علاقوں سے ملنے والے ۳۲ زندہ نوزائیدہ بچوں اور بچیوں کو لاوارث سنٹر میں پہنچایا گیا۔ بیگم ایدھی نے کہا کہ اس تعداد سے پاکستان کے عوام کو اندازہ کرنا چاہیئے کہ اس طرح نہ جانے کتنے معصوم بچے اپنے ناکردہ گناہوں کی وجہ سے موت کی بھینٹ چڑھا دیے جاتے ہیں۔ بیگم ایدھی نے کہا کہ ایسے افراد جو اپنے ایک گناہ کو چھپانے کے لیے ان معصوموں کو قتل کر دیتے ہیں ان سے بار بار اپیل کی گئی ہے کہ خدارا وہ اپنے گناہ اور جرم کو چھپانے کے لیے قتل جیسے سنگین جرم کے مرتکب نہ ہوں بلکہ ان بچوں کو ہمارے سنٹروں میں دیں۔ انہوں نے کہا کہ اب تک ایسے چار ہزار بچے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے بے اولاد پاکستانی جوڑوں کے حوالے کیے جا چکے ہیں۔‘‘ (روزنامہ جنگ ۔ ۹ فروری ۱۹۹۰ء)

ایدھی ٹرسٹ کے ایک مختصر اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت ملک میں ہزاروں کی تعداد میں نوزائیدہ بچوں کو یا تو موت کی نیند سلا دیا جاتا ہے یا پھر کسی گلی کے کنارے بے یار و مددگار چھوڑ دیے جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ اسلامی قوانین سے انحراف اور یورپی تقلید کے نتائج ہیں جس نے نہ صرف زنا جیسے خبیث جرم پر آمادہ کیا بلکہ معصوم نوزائیدہ بچوں کو قتل کرانے سے بھی دریغ نہ کیا۔ یورپ کی دنیا میں ایسے لوگوں کی کافی تعداد موجود ہے جو بغیر شادی کے بچے پیدا کر رہی ہے مگر انہوں نے اپنے بچوں کو قتل نہیں کیا۔ وہ تو کنواری ماں کے لقب سے ملقب ہو کر بے شمار منافع بھی حاصل کرتی ہیں لیکن اپنے ملک میں یورپ کی تقلید پر فخر کرنے والیوں کو کنواری ماں بننا پسند نہیں، بچوں کو اپنی گود میں رکھنا منظور نہیں۔ تقلید کرنی ہے تو پھر پوری تقلید کیجیئے تاکہ پتہ چلے کہ آپ تہذیبِ یورپ کے عاشق ہیں۔ ہم تو ایسی تہذیب کے بارے میں یہ ہی کہہ سکتے ہیں کہ ؎

اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے

دورِ جاہلیت کی واپسی

ایرانی نژاد برطانوی رپورٹر بضیوفت کو اسرائیل کے لیے جاسوسی کے جرم میں عراق نے موت کی سزا دے دی اور جاسوسی کرانے میں مدد کرنے والی برطانوی نرس کو ۱۵ سال کی قید کی سزا سنائی گئی۔ اس اعلان کے بعد برطانیہ اور یورپی پارلیمنٹ نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے سخت احتجاج کیا اور عراق کے اس اقدام کی سخت مذمت کی گئی۔

جہاں تک بضیوفت کے اسرائیلی جاسوس ہونے کا تعلق ہے، خود اس کے اعتراف کے بعد کسی اور شہادت کی ضرورت نہیں رہتی تاہم برطانیہ کے بعض ممبران پارلیمنٹ بھی اس کا اعتراف کرتے ہیں اور اسے ایک مجرم قرار دیتے ہیں حتٰی کہ برطانوی دارالعوام میں اس امر پر بھی بحث کی جا رہی ہے کہ بضیوفت خود ایک عادی مجرم ہے اور اس نے ایک برطانوی بینک کو بم کے ذریعے لوٹنے کی بھی کوشش کی تھی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ برطانوی وزیراعظم اور دیگر وزراء سزائے موت کے خلاف اپنا احتجاجی بیان دے رہے ہیں۔ ہر ایک کی زبان پر یہ ہی جملہ جاری ہے کہ یہ مہذب دور ہے Civilized World اور ایسی دنیا میں اس قسم کی کارروائی پر سزائے موت کا حکم دے کر فورًا عمل کرنا عراق کا بدترین فعل ہے اور عراق ابھی تک دورِ جاہلیت میں ہے۔ برطانوی وزیراعظم کہتی ہیں کہ ’’عراقی حکومت کا یہ اقدام بربریت ہے جو دنیا کے تمام مہذب لوگوں کے خلاف ہے۔‘‘

اس واقعہ کے فورًا بعد برطانوی پریس اور ٹیلیویژن نے عراق کے خلاف ایک محاذ کھول دیا اور آپ جانتے ہیں کہ برطانوی پریس اور ٹیلیویژن اس معاملے میں کتنا ماہر ہے۔ چنانچہ عراقی صدر کے ظلم و ستم کی داستانیں باتصویر سامنے آنے لگیں اور یہ ثابت کر دکھا دیا گیا کہ عراق ایک ظالم ملک ہے اور اس کے اعلیٰ افراد وہاں کے باشندوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔

ہم اس وقت اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتے کہ بضیوفت کو جو سزائے موت سنائی گئی ہے وہ کس زمرے میں آتی ہے؟ جاسوسی کرنے کے جرم میں دنیا کے ممالک نے کیا سزا رکھی تھی اور آج کیا ہے؟ عراقی قانون میں اس کا کیا حکم ہے؟ امریکہ کیا کہتا ہے؟ روس نے کیا کیا ہے؟ اسرائیل کیا کرتا ہے؟ اور خود برطانیہ کی نظر میں کیا اہمیت ہے؟ قانون دان حضرات بخوبی اس سے واقف ہیں۔ ہم صرف برطانوی وزیراعظم اور دیگر وزراء کے اس دعوٰی پر کہ ’’آج کا دور ایک مہذب دور ہے‘‘ پر ایک سرسری نظر دوڑانا چاہتے ہیں تاکہ ہم دیکھ سکیں کہ واقعتاً دورِ حاضر مہذب دور ہے یا دورِ جاہلیت کا ایک عکس ہے جو صرف نام بدل کر یورپ کی دنیا میں داخل ہوا ہے۔

برطانوی مفکروں کے نزدیک تہذیب اور مہذب کا کیا معنٰی و مفہوم ہے؟ یہ ابھی تک واضح نہیں ہو سکا۔ اب آپ ہی دیکھیں کہ مندرجہ ذیل امور کو تہذیب اور مہذب دنیا کا نام دیا جا سکتا ہے؟

  1. یورپ میں ایک ایک دن میں ہزاروں غیر شادی شدہ والدین کے ہاں اولاد ہونا مہذب دنیا ہے؟
  2. یورپ میں لواطت پرستی کی نہ صرف اجازت بلکہ ترغیب، مالی تعاون، حوصلہ افزائی اور بڑے بڑے سنٹر کھولے جاتے ہیں۔
  3. یورپ میں ایک ۸ سالہ بچی سے لے کر ایک ۸۰ سالہ بوڑھی تک کی عصمت کا محفوظ نہ ہونا بھی تہذیب یافتہ دنیا کا کارنامہ ہے۔
  4. یورپ میں ۵ سالہ بچی سے لے کر ۹۵ سالہ بوڑھی پر مجرمانہ حملہ کر کے خون میں نہلا دینا بھی مہذب دور کا ایک ادنٰی کرشمہ ہے۔
  5. یورپ میں زنا، بے حیائی، بے شرمی اور اخلاقی زبوں حالی بھی مہذب دنیا کا تحفہ ہے۔
  6. یورپ میں شراب اور منشیات کا کثیر استعمال اور اس سے روحانی و جسمانی جرائم بھی تہذیبِ جدید کا پیدا کردہ ہے۔
  7. ماؤں کے پیٹ میں بچوں کو  موت کی آغوش میں پہنچا دینا اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دینا اور اس کے لیے نت نئے طریقے ایجاد کرنا آج کی دنیا کا کمال ہے۔
  8. چوری، دن دہاڑے ڈکیتی، راہ چلتی بوڑھی عورت کو چاقو دکھا کر رقم لوٹ لینا، اسے زخمی کر دینا بھی دورِ حاضر کا ایک فیشن ہے۔
  9. با حیا اور عصمت و عصمت کا تحفظ کرنے والوں کو طرح طرح سے بے  شرمی پر ابھارنا اور اس کے عنوان کی ترغیب دینا بھی تہذیب ہے۔

مولانا (الطاف حسین) حالیؒ نے دورِ جاہلیت کا جو نقشہ اپنی مسدس میں کھینچا ہے اگر دیکھا جائے تو آج کے دور پر بالکل صادق ہے۔ مولانا فرماتے ہیں ؎

بہائم کی اور ان کی حالت ہے یکساں
کہ جس حال میں ہیں اسی میں ہیں شاداں
نہ ذلت سے نفرت نہ عزت کا ارماں
نہ دوزخ سے ترساں نہ جنت کے خواہاں
لیا عقل و دیں سے نہ کچھ کام انہوں نے
کیا دینِ برحق کو بدنام انہوں نے

فرمائیے! دورِ جاہلیت اور مہذب دنیا میں کیا فرق رہا؟ نام کے بدلنے سے حقیقت تو نہیں بدلتی۔ درحقیقت یہ مہذب دور نہیں بلکہ دورِ جاہلیت ایک نیا عنوان لے کر سامنے آیا ہے۔

حالات و مشاہدات

(مئی ۱۹۹۰ء)

مئی ۱۹۹۰ء

جلد ۲ ۔ شمارہ ۵

مسلم سربراہ کانفرنس ۔ وقت کا اہم تقاضہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مسلم اجتماعیت کے ناگزیر تقاضے
مولانا ابوالکلام آزاد

قرآنِ کریم میں تکرار و قصص کے اسباب و وجوہ
مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ

بعثتِ نبویؐ کے وقت ہندو معاشرہ کی ایک جھلک
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

امامِ عزیمت امام احمد بن حنبلؒ اور دار و رَسَن کا معرکہ
مولانا ابوالکلام آزاد

مولانا آزادؒ کا سنِ پیدائش ۔ ایک حیرت انگیز انکشاف
دیوبند ٹائمز

کیا فرعون مسلمان ہو گیا تھا؟
شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ

دُشمنانِ مصطفٰی ﷺ کے ناپاک منصوبے
پروفیسر غلام رسول عدیم

آزاد جموں و کشمیر ۔ پاکستان میں نفاذِ اسلام کے قافلے کا ہراول دستہ
ادارہ

ایسٹر ۔ قدیم بت پرستی کا ایک جدید نشان
محمد اسلم رانا

مسیحی مشنریوں کی سرگرمیاں اور مسلم علماء اور دینی اداروں کی ذمہ داری
محمد عمار خان ناصر

تہذیبِ جدید یا دورِ جاہلیت کی واپسی
حافظ محمد اقبال رنگونی

پاکستان میں نفاذ اسلام کی جدوجہد اور علماء کرام کی ذمہ داریاں
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

دینی شعائر کے ساتھ استہزاء و تمسخر کا مذموم رجحان
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کا اجلاس
ادارہ

شریعت کا نظام اس ملک میں اک بار آنے دو
سرور میواتی

آپ نے پوچھا
ادارہ

تعارف و تبصرہ
ادارہ

ذیابیطس کے اسباب اور علاج
حکیم محمد عمران مغل

والدین اور اولاد کے باہمی حقوق
حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ

سود کے خلاف قرآنِ کریم کا اعلانِ جنگ
حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ

تلاش

Flag Counter